عالمی فساد کا حل اسلام کے نظریہ حکمرانی میں مضمر
قوت کے ساتھ ناانصافی دنیا کے لیے ہلاکت خیز
ڈاکٹر ساجد عباسی ، حیدرآباد
اسلام طاقت کو عدل و انصاف اور خداترسی کے ساتھ جمع کرتا ہے
روس اور یوکرین کے درمیان ایک نا مساوی جنگ چھڑ چکی ہے۔درحقیقتدنیا میں جب کبھی قوت کے ساتھ نا انصافی جمع ہوئی توبربریت کے دردناک مناظرہی دیکھے گئے۔ امریکا نے خود اپنی سرزمینِ میں وہاں کے 5 کروڑ اصلی باشندوں Red Indians کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ دوسری جنگِ عظیم میں جاپان پر نیوکلیر حملہ کرکے دو شہروں کو خاکستر کردیا جس میں۳ لاکھ لوگ مارے گئے۔ اسکے بعد ویتنام میں جملہ ۲کروڑ لوگ مارے گئے۔ افغانستان اور عراق میں نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ (War on terror)میں ۲۰ لاکھ افراد کو ہلاک کیا گیا۔ سویت یونین جب سوپر پاور تھا تو اس نے اپنی مسلم ریاستوں کے لاکھوں مسلمانوں کو مذہب سے وابستگی کی بنیاد پر قتل کیا اور ان تمام ریاستوں پر مذہبی تعلیم کو ممنوع کردیا اور عبادات پرپابندی لگا کر مساجد کو غیر آباد کردیا گیا ۔ بیسویں صدی سویت یونین کے ان تمام مظالم سے بھری پڑی ہے۔
اسلام کی سیاست کا فلسفہ یہ ہے کہ وہ قوت کو عدل و انصاف اور خداترسی کے ساتھ جمع کرتا ہے۔ایک طرف وہ اسلامی ریاست کو سب سے زیادہ طاقتور دیکھنا چاہتا ہے جیسے قرآن میں فرمایا گیا :
اور تم لوگ ، جہاں تک تمہارا بس چلے، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے اُن کے مقابلہ کے لیے مہیّا رکھو تاکہ اس کے ذریعہ سے اللہ کے دشمنوں کو اور ان دوسرے اعداء کو خوف زدہ کر دو جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے۔(سورۃ الانفال ۶۰)۔
اسلام چاہتا ہے کہ اسلامی ممالک اپنے آپ کو اتنا طاقتور بنائیں کہ جنگ کی نوبت ہی نہ آئے۔ گرم جنگ کی جگہ سرد جنگ ہی سے امن کی فضا بنی رہے۔ ماضی قریب سے یہ حقیقت عیاں ہوئی ہے کہ سوپر پاورز آپس میں براہِ راست جنگ نہیں کرتیں ۔بلکہ اپنی جنگیں دوسرے ممالک میں لڑکر کمزور ملکوں کو تختۂ مشق بناتی ہیں اور وہاں کے عوام کا بے دریغ خون بہاتی ہیں۔یہی سرد جنگ دفاع کے میدان میں سائنس و ٹکنالوجی کی تیز رفتار ترقی کا سبب بنتی ہے۔ہر سوپر پاور چاہتا ہے کہ وہ دوسرے کے مقابلے میں چند قدم آگے رہےاورہر فریق نت نئے ہتھیار ایجاد کرکے دوسرے کے لیے deterrent بنے ۔اسی حکمت ِ عملی کو اللہ تعالی ٰ نے قرآن میں ۱۴۰۰ سال قبل پیش کیا کہ مسلم ریاست اپنے حریفوں کے مقابلے میں جنگی سروسامان تیار کرے کہ دشمن طاقتیں خوف محسوس کریں۔عسکری قوت کی مسابقت میں نئے نئے ہتھیار بنانے کی فکر میں سائنسی دریافتیں اور ایجادات ہوتی رہیں جو ایجادات آج دفاعی میدانوں میں استعمال ہوتی ہیں اس کا استعمال عام ضروریات کی چیزوں میں چند سالوں بعد ہوتا ہے جب یہ ایجادات عمومی حیثیت اختیا ر کرلیتی ہیں اور جنگی رازکے طورپر باقی نہیں رہتیں۔جنگی میدان میں دشمن سے زیادہ طاقت فراہم کرنے کی ربّانی ہدایت پر کفر کے علمبردار عمل کرکے سوپر پاور بن چکے ہیں ۔اور مسلمان اس میدان کو صدیوں قبل چھوڑ چکے ہیں۔حالانکہ سائنس کی ابتداء مسلمانوں نے کی تھی۔ جس وقت مسلمانوں میں سائنس کی تحقیقات وایجادات عروج پر تھیں اس وقت یورپ تاریکیوں میں ڈوبا ہوا تھا ۔
سائنس کے میدان میں جب مسلمان پیچھے رہ گئے تو یہ تنزلی عسکری میدان میں کمزوری بن کر ظاہر ہوئی ۔یہی وہ دور تھا جب خلافتِ عثمانیہ جغرافیائی طور پر کئی ممالک کا احاطہ کیے ہوئی تھی(آج کاترکی،یونان،بلغاریہ،بلقان،مصر،ہنگری ،مقدونیہ، رومانیہ، اردن، فلسطین، لبنان،شام،حجاز،عراق،الجیریا،لیبیا،تونس )۔لیکن جنگی ہتھیاروں کے میدان میں برتری نہ ہونے کی وجہ سے بالآخر اپنی عالیشان، وسیع و عریض خلافت کو سنبھال نہ سکی اور بالآخر سقوطِ خلافت کا سانحہ پیش آیا۔برطانوی اور روس کے جنگی ہتھیاروں کے ساتھ فوجی یلغار کا خلافتِ عثمانیہ مقابلہ نہیں کرسکی۔اس سقوط میں عرب قوم پرستی نے بھی مجرمانہ رول ادا کیا۔ اس دردناک سقوط کے نتیجہ میں کئی چھوٹی چھوٹی ریاستیں وجود میں آئیں مگر ساتھ میں مغربی ممالک کی غلامی کا طوق بھی ان کی حکومتوں کا مقدر بن گیا۔سقوطِ خلافتِ عثمانیہ اسلامی تاریخ کا ایک ایسا سیا ہ باب ہے جسکا آغاز ۱۹۰۸ سے ہوا اور اختتام ۱۹۲۲ کو ہوا جسکے نتیجے میں ۶۰لاکھ لوگ مارے گئے۔اسکے بعد ان ممالک میں جو خلافت کا حصہ تھیں ان کی مسلم اقلیتوں پر دردناک مظالم ڈھائے گئےاور آج بھی ان کا سلسلہ جاری ہے۔ان میں تازہ مثال چین کےژنجیانگ صوبہ کے ایغور مسلمانوں پرناقابل بیان ظلم کی داستان ہےجس کی تفصیلات کبھی دنیا کے سامنے نہیں آئیں ۔ان مسلمانوں کی مذہبی شناخت کومٹادیا گیا اور ان کی مسجدوں کو مکمل طور پر ڈھادیا گا۔آج بھی ان کے ذہنوں سے مذہبی عقائد کو کھرچنے کے لیے ان کو بدترین قیدخانوں(Re-education Centers)میں رکھ کر تعذیب کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔جب بھی ریاست کے حکم راں عدل و انصاف کےتصورات سے ناآشنا ہوتےہیں تو چنگیزبن جاتے ہیں۔
اسی حقیقت کو علامہ اقبال نے اس طرح بیان کیا:
جلال ِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سےتو رہ جاتی ہے چنگیزی
اسلامی سیاست کا ایک اصول یہ ہے کہ اسلامی ریاست اپنے آپ میں اتنی مضبوط ہوکہ وہ بیرونی حملوں کا مقابلہ کرسکے۔اس کو سورہ انفال کی آیت ۶۰ میں بیان کیا گیا ہے۔یہ سورت غزوۂ بدر کے بعد نازل ہوئی جب مدینے کی اسلامی ریاست کو پہلی جنگ کا سامنا کرنا پڑا۔
اسلامی ریاست کا دوسرا اصول یہ ہےکہ وہ عدل و انصاف کے ذریعے ملک کے اندرونی اور خارجی معاملات طے کرے۔ قرآن میں اس اصول کو پیش کیا گیا ہے:
مسلمانو ! اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہلِ امانت کے سپرد کرو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو، 88اللہ تم کو نہایت عمدہ نصیحت کرتا ہے اور یقیناً اللہ سب کچھ سُنتا اور دیکھتا ہے۔سورۃ النساء ۵۸
دشمنوں کے ساتھ معاملات میں بھی قرآن حکم دیتا ہے کہ عدل کے تقاضوں کو ملحوظ رکھا جائے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دُشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ انصاف سے پھرجاوٴ۔ عدل کرو، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ اللہ سے ڈرکر کام کرتے رہو، جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اُس سے پُوری طرح باخبر ہے۔(سورۃ المائدہ۔ ۸)
آج کی عالمی طاقتیں جدید ہتھیاروں سےلیس ہیں لیکن وہ بنیادی انسانی اخلاقیات سے عاری ہیں۔اپنی قوم کے مفادات کے لیے وہ درندہ صفت ذہنیت سے ملکوں پر چڑھ دوڑتی ہیں اور ان کو تباہی سے دوچار کرتی ہیں۔
عدل و انصاف ہو مگر ریاست بیرونی حملوں کی متحمل نہ ہو سکے تو اس کی بقا خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ اور ریاست طاقتور ہو لیکن ظالم و جابر حکمرانوں کے ہاتھ میں ہو تو انسانیت درندگی کا شکا ر ہوجاتی ہے۔یہ دنیا اس لیےآج خطرناک موڑ پر آکھڑی ہے کہ چند ممالک کے پاس خطر ناک ہتھیار ہیں اور وہیں وہ عدل و انصاف سے عاری ہیں ۔نام نہاد جمہوری ممالک نے بھی انسانیت پر شرمناک مظالم ڈھائے ہیں جیسے امریکا و یورپ جہاں قوم پرستی نے ان کو یہ سبق پڑھایا ہے کہ اپنی قوم کی ترقی کے لیے دوسری قوموں کو لوٹا جاسکتا ہے اور ان کا قتلِ عام بھی کیا جاسکتا ہے۔جبکہ اسلام میں جنگ ناگزیر حالت میں کی جاتی ہے اور اس لیے کی جاتی ہےکہ ظلم و ستم کا خاتمہ ہو اور عدل و انصاف کو بحال رکھا جاسکے۔اسلامی ریاست کا فریضہ ہے کہ وہ اپنے اندر عسکری طاقت فراہم کرے اورعدل و احسان جیسے انسانی اقدار کے ساتھ انسانوں کے تزکیہ و ارتقاء کے امکانات کو آزادانہ طور پر بروئے کار لائے۔ اسلام قوت کو عدل وانصاف کے ساتھ جوڑکر معاشرہ کو انسانی فلاح و بہبود اور ترقی کے لیے استعمال کرکے اعلیٰ مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ بناتا ہے۔ خود اسلامی مملکتیں جب بےرحم بادشاہوں کے ذریعے جبر واکراہ کے ذریعے چلائی گئیں توعوام کو اظہارِ خیال سے محروم کردیا گیا۔ اموی اور عباسی ادوارِ ملوکیت میں حق گوئی کی پاداش میں حق پرستوں کو ناحق قتل کیا گیا۔ اس کے برخلاف اگر انصاف پسند خلافت اگر قائم ہوجائے لیکن اس کو پائدار رکھنے کے لیے جو قوت درکار ہو وہ اگر مفقود ہو یا اس میں کمی رہ جائے تو وہ باقی نہیں رہ سکتی۔
اسلام کے زرین اصول آج صرف قرآن کے صفحات کے اندر پائے جاتے ہیں۔اگر ان اصولوں پر اسلامی ریاست چلائی جا تی تو اسلامی ممالک بھی سوپر پاور بن سکتے تھےاور دنیا کو ایک ایسی ماڈل ریاست کے طور پر پیش کیا جاسکتا تھا جس کی بنیاد عدل وانصاف ہو۔
اسلام کی قوت کا اہم ترین پہلو اس کی فکری و نظریاتی طاقت ہے جس سےتمام باطل نظریات پر مدلل تنقید کی جاسکتی ہے۔ یہ ایسی قوت ہے جو صرف اسلام کے پاس ہے اور جو ذہنوں اور قلوب کو متاثر کرتی ہے۔ اسلامی افکار کی حقانیت ، فرد کا کردار، اسلامی معاشرہ کی فیوض و برکات اور اسلامی نظام ہائے حیات کا مطالعہ ہمیشہ سلیم الفطرت انسانوں کو اسلام کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ اس لیے مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہےکہ وہ اسلام کی حقانیت کو دنیا کے سامنے پیش کریں ۔جو لوگ اس وقت دنیا میں طاقتور ریاستوں کے حاکم بنے ہوئے ہیں وہ اللہ کی ہدایات سے ناواقف ہیں اور ان اصولوں سے غافل ہیں جو اس دنیا میں امن کی ضامن ہیں۔ہم دنیا کے سامنے ان اسلامی اصولوں کو پیش کریں جن میں سارے انسانوں کے لیے امن کی ضمانت ہے۔
اور جو اسلامی ممالک ہیں وہ اس بات کی کوشش کریں کہ وہ دنیا میں جدید سائنس و ٹکنالوجی میں ترقی کریں اور ترقی یافتہ ممالک سے مسابقت کریں اور اللہ کے حکم کے مطابق جدید ہتھیاروں سے لیس ہوں تاکہ کسی ملک کو ہمت نہ ہوسکےکہ وہ ان پر حملہ کرے۔آج جب باطل کے علمبردار سوپر پاوربن سکتے ہیں تو ایک اسلامی ریاست کیوں نہیں بن سکتی ۔اسلام کی اصل طاقت اس کی سچائی کی طاقت ہےاور اس طاقت کے ساتھ عسکری طاقت بھی اسی کے شایانِ شان ساتھ ہوتو آج اسلام عالمی طاقت بن کر سارے عالم کی عملی رہنمائی کرسکتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو امکانات سے مالامال کیا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کو بروئےکار لایا جائے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے وہ محسنوں کی کاوشوں کورائیگاں نہیں کرتا۔
جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے، اور یقیناً اللہ نیکو کاروں ہی کے ساتھ ہے۔(سورۃ عنکبوت۶۹)
***
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 20 تا 26 مارچ 2022