طبی تعلیم کے شعبہ میں اصلاحات کی ضرورت

شعبہ صحت سے کھلواڑ خطرناک !

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

تعلیمی سہولتوں کی فراہمی کے بغیر ’وشوگرو‘ بننا ممکن نہیں
یوکرین سے واپس لوٹنے والے میڈیکل طلبہ کی تعلیم نامکمل رہ جانے کا اندیشہ
ہمیں کورونا کی پہلی اور دوسری لہر سے اندازہ ہوا کہ ہمارے ملک میں طبی بحران کے اثرات بہت ہی زیادہ ہیں اس لیے یہاں صحت اور علاج و معالجہ کے بنیادی ڈھانچہ کی درستگی پر غور وفکر کی شدید ضرورت ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق ایک ہزار آبادی کی کے لیے کم از کم ایک ڈاکٹر ہونا چاہیے مگر ہمارے یہاں یہ تناسب محض 0.74 فیصد ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں میڈیکل تعلیم کا حصول بہت ہی دشوار ہے۔ اس لیے آبادی کے تناسب میں اچھے ڈاکٹروں کا فقدان ہے۔ میڈیکل ایجوکیشن کے لیے نشستیں بھی ضرورت سے بہت کم ہیں۔ تقریباً 16لاکھ بچے 2021ء میں نیٹ میں شامل ہوئے جس میں سے محض 84120طلبا ہی ملک کے 562میڈیکل کالجوں میں اپنی جگہ بناپائے۔ بقیہ دوسرے طلبہ نان میڈیکل کورسیز میں داخلہ لینے پر مجبور ہوئے۔ 84000سیٹوں میں آدھی سیٹیں ایسی ہیں جن پر سرکاری کالجوں میں ایڈمیشن ہوتا ہے جہاں نسبتاً فیس انتہائی کم ہوتی ہے۔ مگر دیگر سیٹوں پر فیس بہت ہی زیادہ ہے۔ سبھی طلبا اس کی ادائیگی سے قاصر ہوتے ہیں کیونکہ ملک کے پرائیویٹ کالجوں میں 50لاکھ تا 1.20کروڑ روپے فیس ساڑھے چار سالوں میں ادا کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے ملک میں ڈاکٹروں کی ضروری تعداد کے حصول کے لیے ہماری کوششیں بھی غیر تشفی بخش ہیں۔ بھلے ہی 157نئے میڈیکل کالجز کھولے گئے ہیں جو ہماری بڑی آبادی کے تناسب میں کافی کم ہیں۔ اگر ہم ملک میں مسلسل نئے میڈیکل کالجز قائم کریں گے تب ہی ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مقرر کردہ ہدف کو حاصل کرسکیں گے ورنہ میڈیکل تعلیم پر دباو بنا رہے گا۔ اس لیے ہمارے طلبا سستے اور آسان میڈیسن کی تعلیم کے حصول کے لیے بیرون ملک سفر کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ مگرحالیہ روس اور یوکرین جنگ کی وجہ ہمارے اکثر میڈیکل طلبا کا مستقبل خطرے میں دکھائی دے رہا ہے۔ اب حکومت قومی صحت مشن کے تحت ملک کے ہر ضلع میں میڈیکل کالج کے قیام کی باتیں کررہی ہے جسے حقیقت بننے میں کافی وقت لگا ۔ اس کے علاوہ حکومت نے ہدایت جاری کی ہے کہ نجی میڈیکل کالجز 50فیصد سیٹوں کی فیس سرکاری میڈیکل تعلیمی اداروں سے زیادہ نہیں رکھ سکتی۔ اس سے میڈیکل سیٹوں کی تعداد بڑھے گی اور طلبا کم فیس کی ادائیگی کے ساتھ ملک میں رہ کر ہی ڈاکٹر بن پائیں گے۔ حالیہ واقعات کو دیکھتے ہوئے وزیراعظم نے ریاستی حکومتوں سے کہا ہے کہ میڈیکل کالجوں کے قیام کے لیے بنیادی ڈھانچہ کی تیاری کے ساتھ زمین کی فراہمی کے لیے آسانیاں پیدا کریں۔ ہمارا شعبہ صحت انتہائی ناگفتہ بہ حالت میں ہے ۔ ہمارے ملک میں زیادہ تر ہسپتال شہری علاقوں میں ہوتے ہیں جس سے دیہی مریضوں کو وہاں تک پہنچنے میں بڑی دقتیں اور پریشانیاں ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں علاج ومعالجہ میں زیادہ پیسہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ بعض لوگ اپنی ساری زندگی کی بچت کے ساتھ جائیداد بھی فروخت کردیتے ہیں۔ اس طرح نچلے اوسط درجہ کے لوگ خط افلاس تک پہنچ جاتے ہیں۔ اس لیے حکومت نے چند سالوں میں شعبہ صحت کے اخراجات کو دوگنا کرکے جی ڈی پی کا 1.31فیصد سے بڑھا کر 2.5فیصد تک کرنے کا ہدف رکھا ہے۔ اس سے شعبہ صحت میں بہتری کے علاوہ ڈاکٹروں، نرسوں اور دیگر طبی عملوں کی کمی کی تلافی ممکن ہوسکے گی۔ بعض ریاستوں میں شعبہ صحت کی بہتری اور ترقی تشفی بخش ہے۔ اس سمت میں مزید تحریک کی ضرورت ہے۔ بھارتی طلبا کے بیرونی ممالک روس، چین، فلپائن، بنگلہ دیش، یوکرین، کرغستان، قزاقستان میں میڈیسن کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے بڑی تعداد میں جانے سے ہماری قومی دولت بھی چلی جاتی ہے۔ ان ملکوں میں پڑھنے والے طلبہ پر سالانہ 70ہزار کروڑ روپیہ خرچ ہوجاتا ہے۔ ہمارا نظام صحت بیمار ہے۔ اس لیے ملک کو طاقتور صحت مند، صاف ستھرا اور خود کفیل بنانے کے لیے مستقبل کے ڈاکٹر پیدا کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ اگرچہ بعض ممالک ایسے بھی ہیں جہاں کا تعلیمی معیار بہتر نہیں ہے۔ بعض طلبا کسی دوسرے ملک ہی میں مستقلاً قیام پذیر ہوجاتے ہیں اور بعض بھارت آکر بھی کامیاب معالج نہیں بن پاتے۔ اس لیے ضرورت ہے کہ میڈیکل کی بہتر تعلیم کے ساتھ ہر طرح کی تعلیمی سہولتیں ملک ہی میں دستیاب ہوں تاکہ ماہرین کی منتقلی (برین ڈرین) کو روکا جا سکے گا۔ روس اور یوکرین کے درمیان جنگ غیر معینہ مدت تک جاری رہ سکتی ہے اس نئی صورتحال نے بھی میڈیکل طلبا کی پڑھائی نامکمل رہ جانے خطرہ پیدا کردیا ہے۔
اگر میڈیکل ایجوکیشن میں حسب ضرورت اصلاح نہیں ہوتی ہے تو ڈاکٹروں، طبی عملہ اور صحت سہولتوں کے تعلق سے تشویش ہمیشہ دامن گیر رہے گی۔ شعبہ صحت سے کھلواڑ ہمیشہ خطرناک ہوتا ہے کیونکہ نئے کالجوں کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ وہاں بہتر بنیادی ڈھانچہ میسر ہو۔ وہ کالج اس مقام کے جنرل ہاسپٹل کے ساتھ منسلک ہو۔ کالج میں مختلف طرح کے کلاس رومس، تجربہ گاہ کمیونٹی انگیجمنٹ کے ساتھ قابل اساتذہ ہوں۔ ویسے قابل اور تجربہ کار اساتذہ کی آسانی سے دستیابی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ نجی میڈیکل کالجوں میں تجربہ کار اساتذہ کی ہمیشہ کمی رہتی ہے۔ وہیں ان کا فیس اسٹرکچر بھی کافی ڈراونا ہوتا ہے۔ اس مسئلہ سے نمٹنے کے لیے ضلعی سطح پر نئے میڈیکل کالجز ان ہی اضلاع میں کھولے جائیں گے جہاں آس پاس میں میڈیکل کالج نہیں ہے۔ اس کے علاوہ نرسنگ اسٹاف اور پیرا میڈیکل عملہ کی ٹریننگ کا اہتمام انہیں ضلعی کالجز میں کیا جائے جس سے تربیت یافتہ طبی عملے بھی میسر ہوں گے۔ ضلعی میڈیکل کالجز کے علاوہ اگرہم سالانہ دس نئے میڈیکل کالجز کھولیں تو موجودہ حالات سے نمٹنا آسان ہوگا۔ فیس کا اسٹرکچر سیٹوں کی دستیابی پر منحصر ہوتا ہے۔ اگر آپ کے پاس زیادہ میڈیکل سیٹیں ہوں گی تو فیس فطرتاً کم ہوجائے گی جسے طلب اور سپلائی کے فارمولے سے سمجھا جاسکتا ہے اگر سیٹوں کی تعداد بڑھادی جائیں تو مزید کچھ طلبا کو مواقع ملیں گے جس سے میڈیکل کی تعلیم نسبتاً سستی ہوجائے گی اور بیرون ملک جانے والے طلبا کی تعداد بھی اسی مناسبت سے کم ہوجائے گی۔ بیرون ملک سے ایم بی بی ایس کی ڈگری لے کر آنے والے طلبا کو میڈیکل کونسل آف انڈیا سے تسلیم شدہ ادارہ سے اہلیت کا امتحان پاس کرنا ہوتا ہے۔ ان طلبا کا اسکریننگ ٹیسٹ نیشنل بورڈ آف اکزامنیشن (این بی ای) لیتی ہے جس میں کامیابی کا تناسب 20فیصد سے کم ہی ہے کیونکہ ان ممالک میں ٹریننگ کا معیار انتہائی ناقص ہے اور وہاں کے میڈیکل کالجز کا سیلیبس بھی کافی کم ہے۔ واضح رہے کہ 2019ءمیں 35ہزار طلبا بیرون ملک سے ڈگری لے کر آئے جس میں سے صرف دس ہزار ہی کامیاب ہوپائے۔ گزشتہ چند سالوں میں شعبہ صحت میں کچھ بہتری ضروری آئی لیکن ابھی مزید بہتری لانے کی ضرورت ہے۔
***

 

***

 ہمارے ملک میں ڈاکٹروں کی ضروری تعداد کے حصول کے لیے ہماری کوششیں بھی غیر تشفی بخش ہیں۔ بھلے ہی 157نئے میڈیکل کالجز کھولے گئے ہیں جو ہماری بڑی آبادی کے تناسب میں کافی کم ہیں۔ اگر ہم ملک میں مسلسل نئے میڈیکل کالجز قائم کریں گے تب ہی ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مقرر کردہ ہدف کو حاصل کرسکیں گے ورنہ میڈیکل تعلیم پر دباو بنا رہے گا۔ اس لیے ہمارے طلبا سستے اور آسان میڈیسن کی تعلیم کے حصول کے لیے بیرون ملک سفر کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ مگرحالیہ روس اور یوکرین جنگ کی وجہ ہمارے اکثر میڈیکل طلبا کا مستقبل خطرے میں دکھائی دے رہا ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  20 تا 26 مارچ  2022