صحابیاتؓ کی زندگی سے کچھ عملی نمونے

ہر طرح کا مزاج رکھنے والی خواتین کے لیے قابل تقلید کردار موجود

خان مبشرہ فردوس

عورت کے نصف معاشرہ ہونے میں کسی کو ذرا سا بھی شبہ نہیں ہے بلکہ بعض نے تو عورت کو مکمل معاشرہ تسلیم کیا ہے اس دلیل کے ساتھ کہ آدھا معاشرہ عورت ہے اور جو دوسرا نصف معاشرہ ہے وہ بھی عورت ہی کی آغوشِ تربیت میں پروان چڑھتا ہے ۔عورت صالح ہو تو پورا معاشرہ صالح ہوگا، عورت باشعور ہو اور اس کا دل خدا خوفی سے معمور ہوتو معاشرہ کو بھی آپ ایسا ہی پائیں گے۔
عورت کے لیے صالحیت کی راہ پر بہترین نمونہ عمل صحابیات کی زندگی سے بڑھ کر کیا ہوسکتا ہے؟ ہمارے نسوانی معاشرے کے لیے صحابیات ایک بے مثال اور الٰہی رول ماڈل ہیں۔ ان کی زندگی سے آگہی اور آشنائی امت مسلمہ کی خواتین میں خود اعتمادی اور اعلیٰ کردار کی بنیاد ثابت ہوگی ۔ایک تعمیری سوچ کی حامل، بلند اخلاق معاشرے کی تعمیر میں صحابیات کی تاریخ ہی نمایاں رول ادا کر سکتی ہے۔
مسلم خواتین کی نشاۃ ثانیہ اور بیداری انہی کی تاریخ سے وابستہ ہے۔ عہد رسالت میں ہمیں مختلف سرگرمیوں میں مردوں کے ساتھ خواتین کی شرکت برملا نظر آتی ہے۔ اس عہد کی خواتین نے اپنے اعمال اور اپنی آراء کے ذریعہ بسا اوقات اسلام کی اور رسول اللہ کی حفاظت کی اور تحریک اسلامی کو قوت بخشی، نیز اس کے غلبے اور توسیع میں حصہ لیا۔ تاریخِ صحابیات کے حوالے سے ہمیں تقریبا تین سو خواتین کی کارکردگی کی مثالیں مختلف میدانوں میں ملتی ہیں ۔کچھ صحابیات جہاد وقتال کے دیگر شعبوں میں نظر آتی ہیں تو کچھ صحابیات معاملات زندگی میں بہترین کارکردگی کے نمونے پیش کرتی ہیں۔ معاشرتی واقتصادی سرگرمیوں میں بھی صحابیات کی شمولیت ہمارے لیے نمونہ عمل ہے۔
امت مسلمہ کی خواتین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کو علم کے میدان میں نمونہ جانتی ہیں وہیں سیرت عائشہ کے باب میں علامہ شبلی رقم طراز ہیں
’’صدیقہ کبریٰ کے سوا دنیا کی کونسی خاتون ہے جس نے مذہب واخلاق اور تقدس کے ساتھ مذہبی، علمی، سیاسی، معاشرتی، غرض گوناگوں فرائض انجام دیے ہوں اور جس نے اپنی زندگی کے کارناموں سے، خدا پرستی کے نمونوں سے اخلاق کی عملی مثالوں سے روحانیت کی پاک تعلیموں سے اور دین وشریعت اور قانون کی تعلیم وتشریح سے دنیا کروڑوں عورتوں کے لیے ایک کامل زندگی اور گراں بہا عملی نمونہ چھوڑا ہو اور جس نے اس عظیم الشان تعدادِ نسوانی کو اپنے مذہبی، اجتماعی اور عملی احسانات سے گراں بار کیا ہو‘‘
دور نبویؐ میں صحابیات کا رول، عین فطری صلاحیت کے مطابق نظر آتا ہے۔ حضرت ام عمارہ ؓاپنے فطری میلان کے سبب جنگ کی ماہر تھیں اور وہ پورے اعتماد کے ساتھ جنگِ احد میں نظر آتی ہیں۔ یمامہ میں ایک خونریز لڑائی جو جنگ یمامہ کے نام سے مشہور ہے، ام عمارہؓ بھی شریک تھیں اور جب تک ان کا ہاتھ زخمی نہ ہوا، دشمنوں سے لڑتی رہیں، اس دن ام عمارہؓ کو بارہ زخم لگے تھے۔
حضرت عمر فاروق اعظمؓ کے زمانہ میں اسلام کو جزیرہ نمائے عرب سے باہر قدم رکھنے کے لیے مشرق کی ان دو پر زور طاقتوں سے مقابلہ کرنا پڑا جو دنیا میں روم اور ایران کے مہیب ناموں سے مشہور ہیں۔ رومیوں کا وہ سب سے خون ریز معرکہ جس پر ان کی قسمت کا آخری فیصلہ ہوا جنگ یرموک ہے۔ اور ایرانیوں کی وہ آخری سب سے پر زور کوشش جس سے زیادہ زور وقوت صرف کرنا تخت کیانی کے امکان میں نہ تھا جنگ قادسیہ ہے، یہ دونوں معرکے تاریخ اسلام کے بہترین کارنامے ہیں جنہوں نے پھیلنے کے لیے اسلام کا راستہ صاف کردیا۔ اس معرکہ میں مسلمانوں کی تعداد تیس ہزار تھی بے کئی ہزار شہداء کی تجہیز وتدفین کا کام بشمول قبریں کھودنے کے خواتین صحابیات نے کیا تھا ۔
انہیں اس عمل کو چابک دستی اور مہارت سے کرتے ہوئے سورہ التوبہ کی یہ آیت سامنے آتی ہے ۔
وَالۡمُؤۡمِنُوۡنَ وَالۡمُؤۡمِنٰتُ بَعۡضُهُمۡ اَوۡلِيَآءُ بَعۡضٍ‌ۘ يَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَيَنۡهَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡكَرِ وَيُقِيۡمُوۡنَ الصَّلٰوةَ وَيُؤۡتُوۡنَ الزَّكٰوةَ وَيُطِيۡعُوۡنَ اللٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ‌ؕ اُولٰۤئِكَ سَيَرۡحَمُهُمُ اللهُؕ اِنَّ اللٰهَ عَزِيۡزٌ حَكِيۡمٌ ۞
مومن مرد اور مومن عورتیں، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں، بھلائی کا حکم دیتے اور بُرائی سے روکتے ہیں، تماز قائم کرتے ہیں، زکوٰة دیتے ہیں اور اس کے رسُول کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی رحمت نازل ہو کر رہے گی، یقیناً اللہ سب پر غالب اور حکیم و دانا ہے۔
قادسیہ کی جنگ میں خواتین نے پرجوش تقریریں کرتے ہوئے اپنے بیٹوں کو جنگ پر بھجوایا تھا ۔قبیلہ نخع کی ایک خاتون صحابیہ نے اپنے بیٹے کو پرجوش تقریر کے ساتھ رخصت کیا اور وہ غازی بن کر لوٹا تھا۔ خواتین میدان عمل میں نہ ہوں تو وہ دین اسلام کی سربلندی کے لیے پرجوش بناکر اپنے گھر افر کو تیار کرتی ہیں۔
’’ابن جرید طبری ایک موقع پر لکھتا ہے کہ مسلمانوں نے اپنے مقتولین کو ایک جگہ کرکے صف کے پیچھے ڈال دیا اور جو لوگ مقتولین کی تجہیز وتکفین کے لیے متعین تھے۔ وہ زخمیوں کو عورتوں کے سپرد کرتے اور جو شہداء ہوتے انہیں دفن کردیتے۔ اغواث اور ارماث کی لڑائیوں میں جو قادسیہ کے سلسلے میں لڑی گئی تھیں عورتیں اور بچے قبر کھودتے تھے۔‘‘
ابو داود فتح خیبر میں قادسیہ ہی کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے ایک صحابیہ کہتی ہیں کہ ’’جب لڑائی ختم ہوئی تو ہم اپنے کپڑے کَس کَس کر رزم گاہ کی طرف چلے ہمارے ہاتھوں میں لاٹھیاں تھیں میدان میں جہاں کوئی مجروح سپاہی نظر آتا ہم اسے اٹھا لیتے‘‘
جنگ قادسیہ میں عرب کی مشہور شاعرہ حضرت خنساء نے نہ صرف یہ کہ اپنے بیٹوں کو میدان جہاد میں بھیجا بلکہ وہ مجاہدین کا حوصلہ بڑھانے والے اشعار بھی موزوں کرتی تھیں اور جوش اور ولولہ پیدا کرتی تھیں ۔
صحابیات کی زندگی میں ہر طرح کا مزاج رکھنے والی خواتین ہمیں مل سکتی ہیں جنہوں نے اپنے کام کو صالحیت کے ساتھ انجام دیا اور اسلامی نظام کی بنیاد رکھنے میں مد گار ثابت ہوئیں ۔
ہم جس مزاج کے عادی ہوتے جارہے ہیں ۔
’ چلو تم ادھر کو ،ہوا ہو جدھر کی ‘ یہ کفیت انسان کو اپنی ذات کو سمجھنے اور اپنی خوبیدہ صلاحیت کو جلا بخشنے میں مانع ہے۔ ان الجھنوں کے ساتھ ہم دیگر نظریات سے متاثر ہو کر نسلوں کو احساس کہتری کا شکار بنادیتے ہیں۔یاد رہے! اپنی فطری صلاحیت، جو اللہ نے ہمیں ودیعت کی ہے، اس کے مخالف عمل سے ہم زندگی کا اطمینان کھو دیتے ہیں اور اپنی طبیعت پر جبر کرتے ہیں ۔ ہمیں دوسری تہذیب کی نقالی یا کسی دوسری خاتون کی طرح عمل کے بجائے اپنے مزاج کے مطابق اپنی زندگی کو سنوارنے کی کوشش کریں یہ بات ہمیشہ پیشِ نظر رہے کہ ہمارے ہر کام کا مقصد صرف اور صرف للّٰہیت ہو ۔
گھریلو زندگی کا مزاج رکھنے والی خواتین حضرت خدیجہؓ کو نمونہ بنائیں پیارے نبیؐ کے ساتھ حضرت خدیجہؓ کے بے لوث رویے پر نظر ثانی کریں، اپنے خاندان کے افراد سے بے پناہ محبت، اطاعت شعاری، استغنا، بے نیازی، فرمانبرداری اور ثابت قدمی کی نظیر نہیں ملتی ۔پیارے نبیؐ کے ساتھ ہر حالت میں حوصلہ دیتی رہیں شعب ابی طالب کے دوران حوصلہ مندی صبر قناعت کا ایسا ثبوت دیا کہ پیارے نبیؐ نے ان کی وفات کے سال کو ’’عام الحزن ‘‘غم کے سال سے تعبیرکیا ۔
اسی طرح حضرت فاطمہؓ کی شخصیت کا غالب مزاج ’گرہستی‘ کا ہے۔ آپ انہیں سیرت میں اسی کام کو پورے اعتماد کے ساتھ اور انتہائی کامیابی کے ساتھ کرتے ہوئے پائیں گی۔ مسافرین کے لیے غذا کی ضروریات حضرت فاطمہؓ کے گھر سے ہمہ وقت پوری ہوتی تھیں۔ گویا راہِ خدا میں اپنا کردار ادا کرنے کے پورے مواقع ایک خاتون کے پاس موجود ہیں۔
آج آپ تعلیم یافتہ خواتین کو بھی افسوس کے ساتھ یہ کہتے ہوئے سنیں گے کہ ہم کچھ بن نہیں سکے، زندگی تو گھر کے کاموں ہی ختم ہو گئی۔ اتنی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود وہ گھر میں ہی رہیں، گویا کہ وہ ناکام ہو گئیں ۔جبکہ گھر سے ہی وہ بہترین مثالی نسل ملک کو دے سکتی ہیں۔کوئی حضرات حسنینؓ کی سیرتیں پڑھے گا تو دیکھے گا کہ اپنی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ کے تئیں ان کی شرافت، دیانت، متانت، سنجیدگی، وقار اور لگن کے جوہر ان کی شخصیتوں میں بھی واضح نظر آتے ہیں۔
ہر خاتون اپنی صلاحیت کے مطابق پورے اعتماد کے ساتھ اپنا کردار بقدر استطاعت ادا کرے۔ یہ اس کی اولین ذمہ داری جو اس کے رب نے اس پر ڈالی ہے وہ اولاد کی تربیت اور گھر کے ماحول کو خوش گوار رکھنے کی ہے اور بچوں کی اعلیٰ تعلیم کے ساتھ دینی تربیت اسلام کی حقانیت کو سمجھانے اور دین کے لیے اپنا سب کچھ اللہ کی راہ میں لگا دینے کا جذبہ پیدا کرنے کی ہے۔
انفاق اور صنعت وتجارت کرنے کی صلاحیت ہو تو آپ بطور نمونہ حضرت زینبؓ کو چمڑوں کی دباغت کرتا ہوا پائیں گی۔ سخاوت وفیاضی اور انفاق فی سبیل اللہ حضرت زینب بنت جحشؓ کا طرہ امتیاز تھا۔ وہ یتیموں، بیواؤں، فقراء ومساکین کی پناہ گاہ تھیں۔ انفاق کا یہ عالم تھا کہ جب حضرت زینبؓ کی وفات ہوئی تو حضرت فاطمہؓ نے کہا ہائے زینب! تم تو چلی گئیں اور اپنے پیچھے یتیموں، بیواؤں، فقراء ومساکین کو چھوڑ گئیں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ اسلام نے عورتوں کو مقید کیا ہے جبکہ میدان عمل میں ہم انہیں جہاد میں برابر مردوں کے ساتھ ان کی عورتوں کو شریک دیکھتے ہیں۔ بخاری میں ہے کہ غزوۂ احد میں ام المومنین حضرت عائشہ اپنے ہاتھ سے مشک بھر بھر کر زخمی سپاہیوں کو پانی پلاتی تھیں، ان کے ساتھ ام سلیم ؓ اور ام سلیطؓ دو اور صحابیات بھی اس خدمت میں شریک تھیں۔
ام سلیمؓ اور انصار کی عورتیں ان ہی خدمات کے لیے اکثر غزوات میں شریک رہی ہیں۔ ربیع بن معوذؓ اور دوسری عورتوں نے شہداء اور مجروحین کو احد کے میدان سے اٹھا کر مدینہ لانے کی خدمت انجام دی تھی۔ ام رفیدہؓ کا ایک خیمہ تھا جس میں وہ زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں۔
ام زیاد اشجعیہ اور دوسری پانچ عورتوں نے غزوہ خیبر میں چرخہ کات کر مسلمانوں کو مدد دی تھی، وہ میدان سے تیر اٹھا کر لاتی تھیں اور سپاہیوں کو ستو پلاتی تھیں۔ حضرت ام عطیہؓ نے سات غزوات میں صحابہؓ کے لیے کھانا پکایا تھا۔
مذکورہ بالا واقعات سے مذہبی ولولہ، قومی ہمدردی، غیرت اور بہادری کے علاوہ ان کی خدمات کی بھی تفصیلات تاریخ میں درج ہیں۔
ہمیں صحابیات کی زندگی اس آیت کے مصداق نظر آتی ہے
لِلرِّجالِ نَصيبٌ مِمَّا اكتَسَبوا ۖ وَلِلنِّساءِنَصيبٌ مِمَّا اكتَسَبنَ ۚ وَاسأَلُوا اللهَ مِن فَضلِهِ ۗ إِنَّ اللهَ كانَ بِكُلِّ شَيءٍعَليمًا (النساء:32)
جو کچھ مَردوں نے کمایا ہے اُس کے مطابق ان کا حصّہ ہے اور جو کچھ عورتوں نے کمایا ہے اس کے مطابق اُن کا حصّہ ہے۔ اللہ سے اس کے فضل کی دُعا مانگتے رہو، یقیناً اللہ ہر چیز کا عِلم رکھتا ہے۔
قران کی یہ آیات قرن وسطی کی خواتین کو ہمیشہ دین اسلام کی سربلندی ہو یا میدان علم و عمل ہم انہیں چاق وچوبند ہاتے ہیں۔
سورۃ الممتحنة آیت 10 میں اللہ تعالی صحابیات کی ہجرت میں شمولیت کا ذکر ان الفاظ میں کرتاہے۔
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا جَآءَكُمُ الۡمُؤۡمِنٰتُ مُهٰجِرٰتٍ فَامۡتَحِنُوۡهُنَّ‌ ؕاَللّٰهُ اَعۡلَمُ بِاِيۡمَانِهِنَّ‌ ۚ ۞
ترجمہ:
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، جب عورتیں ہجرت کرکے تمہارے پاس آئیں تو (ان کے مومن ہونے کی) جانچ پڑتال کرلو اور ان کے ایمان کی حقیقت اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ اللہ علیم وحکیم ہے۔
اس سے واضح ہے کہ دینِ اسلام کے لیے ان کی ہجرت کی بھی اللہ نے ویسے کی جانچ کی جیسا کہ مردوں کی اور اس سے ہجرت میں صحابیات کی شرکت کا بھی پتہ چلتا ہے۔
اللہ کے نبی پر بیعت بھی صحابیات کی اسی طرح تھی جیسا کہ مردوں کی بیعت کے شرائط تھے ۔
حضرت ام مبشر انصاریہ کا ذکر تاریخ میں ملتا ہے جو غلہ بانی کرتی تھیں پیارے نبیؓ ان کے باغ میں تشریف لے گئے پوچھا یہ کھجور کے درخت کس نے لگائے کہنے لگیں مسلمانوں نے۔ آپ نے فرمایا مسلمان کے اگائے ہوئے درخت کے پھل کوئی جانور یا مسافر کھالے اس کے لیے یہ صدقہ ہے ‘‘
ہفتہ صحابیات کے دوران سیرت کے مطالعہ سے جماعت اسلامی ہند چاہتی ہے کہ مسلم عورت کو اپنی صلاحیتوں پر اعتماد ہو، حق کہنے والی ہو، اللہ اور رسول کے سلسلے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈرتی ہو، حیا اسے رذائل سے باز رکھتی ہو، اعتماد اور جرأت اسے بلند اہداف دکھاتے ہوں۔ مسلم خاتون اللہ کے راستے میں رضائے خداوندی کی امید رکھتے ہوئے ثابت قدم رہے ۔برے حالات آئیں تو صبرِ جمیل اختیار کرے، پریشانیوں کا مقابلہ خندہ پیشانی سے کرے، خوش، دلی کے ساتھ اسباب اختیار کرنے والی ہو، دل کی گہرائیوں سے اللہ کے ارشاد کو پڑھتی ہو ۔اس کے اعزہ اس سے صبر واستقامت کی روشنی اختیار کریں یہاں تک کہ لوگ جان جائیں کہ امت مسلمہ کی عورتیں مردوں جیسی ثابت قدم، بہادروں جیسی پختہ، اپنے خاندان اور کے لیے وفا شعار، حرکت وعمل کے لیے سنجیدہ پروقار، نسل کی تعمیر کی بہتر معمار اور خدا کے سامنے انتہائی خاکسار اور خوف کھانے والی ہیں ۔
جماعت اسلامی چاہتی ہے کہ امت مسلمہ کی خواتین ایسی ہوں کہ ان کے سامنے موت، قبر، حشر، کتاب، میزان، پل صراط کا تذکرہ ہوتو خوف خدا سے لرز اٹھیں آنکھوں سے آنسو چھلکیں ۔
شہادت، قبر کے منور ہونے، حوض کوثر، قیامت کے دن کے سائے اور جنت کے ذکر پر باغ باغ ہوں۔
میدان عمل کے چلینجیز، انقلاب تحریک اور اقدام وپیش قدمی میں پرجوش ہوں جن کے عزائم چٹانوں سے زیادہ مضبوط ہوں جو صحابیات کی طرح بہادر ہوں ۔
اے کاش تجھے عہد نبھانا آے
زندگی حامل قرآن بنانا آے
دیدہ و دل کو مسلمان بنانا آے
اپنی اولاد کو انسان بنانا آے
اپنے ایمان کے پھولوں سے سجادے گھر بار
پھر دکھا فاطمہ زہرہ کا مثالی کردار
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  12 تا 18 دسمبر 2021