خان سعدیہ ندرت (پوسد،مہاراشٹر)
قرآن مجید کا مطالعہ کر رہی تھی دورانِ مطالعہ سورۃ البقرۃ کی آیت 214 گزری : ’’پھرکیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی جنت کا داخلہ تمہیں مل جائے گا‘ حالانکہ ابھی تم پر وہ سب کچھ نہیں گزرا ہے جو تم سے پہلے ایمان والوں پر گزر چکا ہے؟ ان پر سختیاں گزریں‘ مصیبتیں آئیں‘ ہلا مارے گئے ‘ حتیٰ کہ وقت کا رسول اور اس کے ساتھی اہل ایمان چیخ اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟‘‘
اور گویا آیت ذہن میں اٹک سی گی اور پھر میرے تحت شعور سے ندا آئی کہ قرآن حکیم کی متعدد آیات کے ذریعے آزمائش و امتحان سے گزرنے کی سنت ثابتہ سے اہل ایمان کو بہت پہلے ہی آگاہ کیا جاچکا ہے۔
نوح (علیہ السلام) اور ان پر ایمان لانے والے صدیوں تک ستائے گئے ‘ ابراہیم (علیہ السلام) جانگسل مراحل سے گزرے۔ موسیٰ (علیہ السلام) پر کیا کیا مصیبتیں نہ گزریں۔ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کا سر کاٹ کر بادشاہِ وقت نے اپنی محبوبہ کے سامنے پیش کیا ‘ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سازشوں میں مبتلا کیے گئے حتیٰ کہ یہود نے اپنے طور پر انہیں صلیب پر لٹکا دیا۔۔۔۔۔۔کتنے انبیاء علیہ السلام ایسے گذرے ہیں جنھیں زندہ دیواروں میں چن دیا گیا،اندھے کنوؤں میں لٹکا دیا گیا، بھوک اور پیاس کی اذیت میں مبتلا کیے گئے،پہاڑوں کی غاروں میں چھپ کر جان بچانی پڑی۔
حضور ﷺ صحن کعبہ میں موجود ہیں۔ حضرت خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سلام کہہ کر بیٹھے تو ضبط کا یارا نہ رہا۔ بےساختہ آنسو جاری ہوگئے۔ شدید تکلیف میں آنحضرت ﷺ سے شکایت کرتے ہوئے کہا کہ یا رسول اللہ ! مصیبتوں کی انتہا ہوگئی، اب تو برداشت جواب دیتی جا رہی ہے،آپ ان بدبختوں کے لیے بددعا کیوں نہیں فرماتے کہ اللہ ان پر اپنا عذاب نازل فرمائے۔ یہ بات سن کر آنحضرت ﷺ کا چہرہ مبارک غصے سے تمتمانے لگا،آپ ﷺ نے فرمایا ” خباب! تم سے پہلے ایسے لوگ گذر چکے ہیں جنھیں اسلام لانے کی پاداش میں تم سے زیادہ اذیتیں پہنچائی گئیں۔ لوہے کی کنگھیوں سے ان کی ہڈیوں سے ان کا گوشت نوچ ڈالا گیا لیکن انہوںنے شکایت نہ کی۔ خباب تم جلدی کر رہے ہو۔ وہ وقت دور نہیں جب اللہ تعالیٰ صورت حال تبدیل فرمادیں گے،اسلام کو عمومی غلبہ ملے گا۔ آج جب تمہیں ایک وقت کھانے کو ملتا ہے تو دو وقت فاقہ کرتے ہو۔ وہ وقت قریب آرہا ہے جب کہ مسلمان زکوٰۃ کا مال جھولیوں میں ڈال کر زکوٰۃ لینے والوں کو تلاش کریں گے۔ لیکن انہیں زکوٰۃ لینے والا کوئی نہیں ملے گا۔ ایک مسافر تنہا اونٹ پر ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک سفر کرے گا لیکن راستے میں کوئی اسے میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت نہ کرے گا۔ لوگ سونا اچھالتے ہوئے نکل جائیں گے لیکن کوئی ان سے چھیننے کی حماقت نہیں کرے گا۔ اللہ کی حاکمیت پورے جزیرہ عرب پر غالب آجائے گی۔ اور یہ پھل ہوگا تمہاری ان محنتوں اور قربانیوں کا جن سے آج تم گزر رہے ہو۔ استقامت سے اس راستے پر چلتے رہو اور اللہ سے شکایت کرنے میں جلدی نہ کرو۔
یہ تاریخ کے وہ ابواب ہیں جن سے دنیا واقف ہے۔حق کے راستے میں قربانیوں کی یہ داستان اس قدر طویل ہے کہ اس کے علاوہ اس داستان کے کتنے گوشے ایسے ہیں جو وقت کی گرد میں دَب گئے۔ لیکن ان سے پھوٹنے والی روشنی ہمیشہ دنیا کو منور کرتی رہے گی۔ اس پوری تاریخ کو سمیٹ کر مسلمانوں سے کہا جا رہا ہے کہ تم جس عظیم کام کے لیے اٹھے ہو تمہارے سامنے یہ پوری تاریخ رہنی چاہیے تاکہ جب تم ان مراحل میں مبتلا کیے جاؤ تو تمہارے عزائم میں کمزوری نہ آنے پائے۔اس راستے میں آنے والی مشکلات تو اس راستے کی سنتیں ہیں جس طرح زمین کا سینہ اگر نہ چیرا جائے تو زمین سے روئیدگی نہیں پھوٹتی اور درخت کی ٹہنیاں نہ کاٹی جائیں تو نئے شگوفے نہیں نکلتے۔ اسی طرح حق کی گواہی کے لیے جب تک خون نہ بہے،قربانیاں نہ دی جائیں اس وقت تک حق برگ و بار نہیں لاتا اور اللہ کی تائید و نصرت نازل نہیں ہوتی۔
یہ باتیں تو قرونِ اولیٰ کی ہیں لیکن موجودہ تناظر میں ملک کے حالات کو اگر دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے ملک میں مسلمانوں کے خلاف ایک ایسی جنگ چھیڑ دی گئی ہے جس کے شعلے بجھنے کا نام نہیں لے رہے ہیں اس جنگ کے شعلوں کو کبھی اعلانیہ بھڑکایا جاتا ہے اور کبھی خفیہ طور سے۔ یہ ایک ایسی جنگ ہے جس پر ساری فاشسٹ طاقتیں متفق اور متحد ہیں۔ مسلمانوں سے نفرت کی بنا پر انہوں نے اپنے آپ کو مستحکم کیا اور اس ملک کے مزاج کو بدلنے میں وہ بڑی حد تک کامیاب بھی ہوئے۔
کسی نہ کسی پہلو سے مسلمان نشانے پر ہیں ایسے قوانین کا نفاذ کیا جارہا ہیں جس کے ذریعے تمام دستوریِ حقوق کا خاتمہ ہوجائے جیسے سی اے اے، این آر سی کے ذریعہ ملک سے مسلمانوں کو نکالنے کی کوشش ، طلاق ثلاثہ کا مسئلہ اٹھا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ مسلم عورت پر اسلام ظلم کرتا ہے، مساجد کے معاملات کو اٹھا کر مسلمانوں کو مساجد سے روکنے کی کوشش وغیرہ………اتنے ہی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ تبدیلی مذہب کے نام پر گھر واپسی کا نعرہ لگا کر ہمارے اپنے دین سے دور کرنے کی کوشش اور یکساں سؤل کوڈ کے نفاذ کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ موب لینچنگ کے ذریعہ بے گناہ نوجوانوں کا قتل کیا جانا صرف اس بات پر کہ وہ مسلمان ہیں ، صرف انتخابی فائدوں کے لیے داعیانِ اسلام کی گرفتاریاں ، 80 فیصد بنام 20 فیصد کی فرقہ وارانہ سیاست اور اب کیمپسس میں حجاب پر پابندی۔۔۔۔۔۔۔اور ان تمام معاملات کے ذریعے سے معاشرے میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کا کام کر رہے ہیں۔ لیکن ہمارے وطنی بہن اور بھائیوں کی کثیر تعداد ایسی ہے جو غیر جانبدار ہے۔ یہ سب چیزیں دستور کی دفعات کو روند دیتی ہے جس ملک میں دستور کی بنیادوں کو ہلانے کی کوشش کی جاتی ہیں وہ نئے زمانے کی آمد کی نشانی ہوتی ہے۔
آج کے حالات ہمارے لئے نئے نہیں ہیں ہر دور میں مسلمان ایسے ہی حالات سےگزرتے ہوئے یہاں تک پہنچے ہیں۔ ان حالات سے پریشان ہونے کے بجائے ان کا سامنا کرنے کی ضرورت ہے۔ آغاز سفر میں حاملین حق کو مشکلات پیش آتی ہیں ، لیکن جب وہ ثابت قدمی دکھائیں تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان کے دشمن بھی ان کی طرف جھکتے ہیں اور نظریہ حق کے مخالفین بھی ہتھیار ڈالتے ہیں اور اس کی دعوت کی نصرت کرنے لگتے ہیں لیکن اگر یہ نتیجہ نہ بھی نکلے ، تب بھی اس سے زیادہ عظیم نتائج نکلتے ہیں۔یہ دنیا اسباب کی دنیا ہے اور اس اسباب کی دنیا میں اللہ تعالیٰ کا جو قانون کار فرما ہے ’’بغیر اسباب کے اﷲ کی مدد نہیں آیا کرتی‘‘
لہذا موجودہ وسائل و اسباب کا احتیاط کے ساتھ بہترین استعمال ہو تو اللہ تعالیٰ حامی اور مدد گار ہو گا اور جس کا حامی اور مددگار ﷲ ہو اسے بھلا کون ہرا سکتا ہے۔ چونکہ ناموافق حالات ہی قوموں کو عروج اور روشن مستقبل کے زینے دکھاتے ہیں۔ان حالات میں امت یہی سوچ رہی ہے کہ کیا کرنا چاہیے، حالات کتنے ہی ناموافق کیوں نہ ہوں گالی کا جواب گالی سے تو نہیں دیا جاسکتا کیونکہ دین ہمیں حکم دیتا ہے احسن طریقہ کا اور یہ احسن طریقہ کیا ہے۔۔۔۔۔؟ موجودہ حالات میں صبر،استقامت، بہتر طریقے سے دعوت دین، کردار کی بلندی اور مایوسی سے اجتناب کیونکہ مایوسی کفر ہے اور صبر انبیاء علیہم السلام کی وراثت ہے۔
مسلمان حالات سے گھبراتا نہیں بلکہ حالات کو بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے ،ہمارے حصے کا کام بس یہ ہے صبر اور استقامت کے ساتھ آنے والے انقلاب کو مثبت بنانے کے لیے بڑھ چڑھ کر اپنا کردار ادا کریں۔ ﷲ کی مشیت کیا ہے، نہیں معلوم لیکن حالات دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ سپیدہ سحر بس اب نمودار ہونے کو ہے۔۔۔۔۔۔۔ان شاءﷲ۔
*پیوستہ رہ،شجر سے امیدِ بہار رکھ*
اللہ کی سنت ہے کہ جب ایمان سے بھرے ہوئے دل ہلامارنے والے مصائب کو برداشت کرلیتے ہیں تو پھر اللہ کی بات پوری ہوجاتی ہے اور اس کی مدد آپہنچتی ہے أَلا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ” ہاں اللہ کی مدد قریب ہے۔ “
تو کسی اور سے نے ہارے گا
تجھ کو تیرا غرور مارے گا
ایک ذرا اور انتظار کرو
صبر جیتے گا ظلم ہارے گا
***
***
آج کے حالات ہمارے لئے نئے نہیں ہیں ہر دور میں مسلمان ایسے ہی حالات سےگزرتے ہوئے یہاں تک پہنچے ہیں۔ ان حالات سے پریشان ہونے کے بجائے ان کا سامنا کرنے کی ضرورت ہے۔ آغاز سفر میں حاملین حق کو مشکلات پیش آتی ہیں ، لیکن جب وہ ثابت قدمی دکھائیں تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان کے دشمن بھی ان کی طرف جھکتے ہیں اور نظریہ حق کے مخالفین بھی ہتھیار ڈالتے ہیں اور اس کی دعوت کی نصرت کرنے لگتے ہیں لیکن اگر یہ نتیجہ نہ بھی نکلے ، تب بھی اس سے زیادہ عظیم نتائج نکلتے ہیں۔یہ دنیا اسباب کی دنیا ہے اور اس اسباب کی دنیا میں اللہ تعالیٰ کا جو قانون کار فرما ہے ’’بغیر اسباب کے اﷲ کی مدد نہیں آیا کرتی‘‘
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 27 فروری تا 05مارچ 2022