نعیم جاوید،سعودی عرب
شک ایک راز ِ حیات بن کرہماری زندگی میں دبے پاوں داخل ہوتا ہے اور کہیں سے ایک اچٹتی ہوئی خبر ہمارے ہاتھوں میں تھما کر چمپت ہوجاتا ہے۔ پہلے پہل ہمارے ہاتھ ایک بات کا شوشہ لگتا ہے جو ہمیں شہ دے جاتا ہے۔ پہلے ہی حملہ میں یہ حیرت کا تحفہ تھما دیتا ہے۔اور یہی حیرت ، علمی انکشاف کاخوش گوار بہروپ لیے ہم سے دانش چھین لیتی ہے۔یہ عجائب پر اعتبار بڑھا کر حقائق کی آنکھوں پر پٹی باندھ دیتی ہے۔ ہم تشویش میں گھرجاتے ہیں۔ یہی تشویش ’آنے والے کل ‘ کے دکھوں کو کم نہیں کرتی بلکہ’ آج ‘کی طاقت گھٹا دیتی ہے۔یہ اپنی شرط یعنی بے ثبوت ایمان لانے پر اصرار کرتا ہے۔ یہ شک جو دلیل کو دہلاکر توہّم کی طاقت پر جیتاہے۔ اس کے سبب ہم لوگ کہیں دور ہونے والی سرگرمی پر چراغ پا ہوجاتے ہیں۔ اور خود اپنے خیموں میں بھڑکنے والے چراغوں سے بے خبر رہتے ہیں۔یہاں سے زندگی بے ارادہ خدشوں کی مہمان نوازی میں خرچ ہونے لگتی ہے۔برا خیال نا پسندیدہ ،بن بلایا مہمان کی طرح ہوتا ہے۔ اسے ریشمی لحاف اورگاو تکیہ دے کر اپنے ساتھ بیڈ روم میں نہ سلاو۔ یہ تنہائیاں بربادکرتا ہے۔ پھر ہمارے ارادے خود ہمارے بہانوں کی بھول بھلیوں میں بھٹکتے رہتے ہیں۔ہماری مصروفیت بدل جاتی ہے۔ ہر دم ٹوہ میں رہنا۔ کسی دھڑکے کو دل کی دھڑکن بنائے رکھنا۔ کسی جولاہے کی طرح الجھے ہوئے دھاگوں کے تانے بانے جوڑتے رہنا۔ کسی نیم حکیم کی طرح ادھورے مربّے اپنی بھیجہ کی کٹوری میں کوٹتے رہنا۔یہاں پر شک ؛اپنی ہی عقل کا چراغ بجھا دیتا ہے۔ جیسے آدم خور اپنی ہی نسل کو مار کھاتے ہیں جس کے سبب ان کی نسل آگے نہیں بڑھتی ۔ ٹھیک اسی طرح اپنی ذات کے ہر بہتر امکان کو ہم مار کھاتے ہیں۔ کوئی بہتر تمنا اس کے ساتھ زندہ نہیں رہتی کیوں کہ ترقی تہذیب تمنا کا ہے۔ باقی تو وحشت ہی وحشت ہے۔
شک گونگا قاتل ہے جو ہماری متاع ِجاں اُچک لیتا ہے۔ سامنے پڑے سونے کے زیور کو نہیں اس سونے کا اعتبار اٹھا دیتاہے۔ یقین کی سیدھی نظر کو بھینگی بنا دیتا ہے۔ رشتوں کی قدر گھٹا دیتا ہے۔ اس کے سبب ہر طرح کا تعلق ٹوٹ جاتا ہے۔دنیا چاہنے والوں کا بھی اور خداپانے والوں کا بھی۔ یہ امید کی راہیں بندکرتا ہے۔ ہر قدم پر اسے خطرات کا جوکھم لگتا ہے۔ پھولوں کی ڈالی پر کھلے گلاب نظر نہیں آتے بلکہ اسے پھولوں کے اطراف خاروں کا گھیراو کھٹکتا اور اندر کانٹوں کا گمان ہوتا ہے۔خوف کے تیزابی بادل اپنے اطراف یقین کی دنیا کو تاراج کردیتے ہیں۔ ذہن کی رہ داریوں ،روشوں میں ہر جگہ اسے شک کے سانپ نظرآتے ہیں۔ نئے اوہام جنم لیتے ہیں۔ جس کے سبب پیدا ہونے والی ذہنی تھکاوٹ بزدل بنا دیتی ہے۔ اپنے گھڑے ہوئے خیال کو سمیٹ کر اگر کوئی اپنی ذات کے کمرے میں بند رہے گا تو کائنات کے آنگن کے منظروں سے محروم رہ جائے گا۔
شک تنہا جرثومہ نہیں ہوتا بلکہ اس کا ایک قبیلہ ہوتا ہے۔یہ بڑی آسانی سے ہمارے قریہ جاں میں وبا بن کر پھوٹ سکتا ہے۔یہاںنہ آپ کی ڈگری کام آتی ہے نہ عہدہ۔ ایک روشن صبح کا تڑکا بھی دھندلکوں میں گھرا لگتا ہے۔شک سے ہمارے ارادوں میں تھکن پہلے ہوتی ہے ، بدن میں بعد میں۔ہمارے مقاصد میں الجھاو ہوتا ہے صلاحیتوں میں نہیں۔یہ اندیشے بڑھاتا ہے۔ ہلکے سے تردود کو بھی تباہ کن دشمن کی سفاک چوکی بنا کردکھاتا ہے۔شک کے بنیاد ی خیالات کی متحرک فوج ہمارے پرسکون ارادوں میں ہلچل مچادیتی ہے۔
شک کی دھیمی آنچ میں مضبوط گھرانوں کی قلعہ جل بھج جاتے ہیں۔ رشتوں کا تقدس باقی نہیں رہتا۔ وہ شک چاہے گرہستی میں آئے یا منڈی بازار میں۔ اس لیے اپنی رائے قائم کرنے سے پہلے ٹھوک بجاکر دیکھ لیں کہ اپنی آنکھ کا تنکا کہیں شہتیر نہ بن گیا ہو۔ ہماری آنکھوں کے آگے کسی خیال کارنگ عینک بن کر چھانہ گیا ہو۔
میرے پاس ہر الجھن کا ایک فارمولا ہے۔اس سے بچنے کا آسان حل یہ ہے کہ ہمیں سوچنا چاہیئے کہ نبی ٔ رحمتﷺ نے کس طرح سے ان مسائل کو حل کیا ۔
WWMD – what would Mohammad do
۱۔ حواس گم ہوتی گھڑیوں میں اپنے کملائے ہوئے یقین کی دنیا کی خبرلیں جہاں آپ نے بڑی مہمات کی دنیا جیتی تھی۔ ہر اس کامیابی کو یاد کریں جو آپ کے حوصلوں کا حوالہ رہی ہیں۔
۲۔ شک کے اسباب کی جھڑتی لیں ۔ اُس خیال کا بدن ٹٹولیں ۔کہیں وسوسوں کی ریت ، شک کے گارے ، غیریقینی کا خیال ؛ روپ رنگ لے کر فریب نظر محل تو نہیں بنا رہا ہے۔ یہ بے وجود منظر دانش کو حماقت پر جھونک دے گا۔ اس کی خبر لیں۔
۳۔ ہر طرح کی پستی میں شک کے سانپ رہتے ہیں۔ ذہنی پستی سے بلندی کی طرف قدم بڑھائیں۔ جہاں ایثار، قربانی دینے کا جذبہ اور محبت کی دنیا آباد ہے۔ وہیں سے شفا آسا تدبیریں لے کر اس شک کا زہر زائل کریں۔
۴۔غم شکن وسائل، حربے و ہتیار جو کہیں رکھ کر ہم بھول گئے ہیں اس پر قابو پائیں ۔ کیوں کہ کبھی کبھی کسی انجانے خدشے سے پیدا غم ہمیں ایک نئے شک میں الجھا دیتا ہے ۔
۵۔ اقدار کارنگ و نور اپنے ذہن میں واپس لائیں وہی قدریں جو ہماری value determine کرتی ہیں ۔وہی قدریں جس کی بنیاد پر ہم نے خدا کے نور سے دنیا دیکھنے کا ڈھنگ سیکھا۔ ان قدروں میں کھوٹ نہیں ہوتا۔ یہ شک ہی ہوتا ہے جو کھلی کائنات دیکھ کر بھی خدا بھلادیتا ہے۔ وہ کہتے ہیں نا کہ گونگا گڑکھائے پر سواد بتا نہ پائے۔
۶۔ شک کی ترنگ پہلے پہل خوش آہنگ ، نغمہ ریز اور دل کش لگتی ہے۔ بعد میں یہ آواز ذہن میں سرگوشی سے ہوتے ہوئے خوف ناک چنگاڑ بن جاتی ہے۔ یہ پورے وجود پر اپنا ننگا ناچ شروع کردیتا ہے۔ اس وحشت کو رذکر ِرب، عبادات کی پرنور سرگرمی اور رب رنگ زندگی گزارنے کی تھوڑی سی کوشش سے سارے مسائل حل ہوجاتے ہیں۔
۷۔ شک جیسے کہ تنہا حملہ آور نہیں ہوتا بلکہ اپنے ساتھ برائیوں کی ایک پول لاتاہے ۔ جس سے نجاست پر مزید نجاست کے ردے اٹ جاتے ہیں۔ اس کا ایک اشارہ ہم قرآن سے لیتے ہیں۔ جس میں تو ایک پوری کائنات آئی ہے۔ہم اس کے مفہوم سے ایک نکتہ اپنے لیے لیتے ہیں۔
فاما الذین امنوا فزادتھم ایمانا ناوھم یستبشرون واما الذین فی قلوبھم مرض فزادتھم رجسا الی رجسھم (سورۃ التوبہ 124-125)۔ ’’البتہ جن لوگوں کے دلوں کو روگ لگا ہوا تھا ان کی سابقہ نجاست پر ایک اور نجاست کا اضافہ کردیا‘‘۔
یہ بات تجربات کی کسوٹی پر کھری اترجاچکی ہے کہ اکثر گھرانے شک کے شعلوں میں جل بجھ گئے۔ کئی تعلیم مہمات کے تازہ ذہن اوراپنی تمناوں میں شک کے کانٹے ڈال کر طالب علموں نے اپنا راستہ کھوٹا کیا ۔ ڈاکٹر بننا چاہتے تھے ۔ کوئی اور بن گئے ۔ بلکہ مریض بن کر جیتے ہیں۔ یہ صورت حال ؛کاروبار کے ساتھیوں میں بار ہا دیکھی گئی۔ بڑے بڑے کارخانو ں پر شک کے سبب قفل چڑھا، منڈیاں لرز گئیں۔یہ ایک فرد تک نہیں بلکہ ملکوں ، براعظموں تک اپنے گندے نقوش چھوڑ جاتاہے۔ یہ فاصلے بڑھانے ، سرحدیں بانٹنے اور انسانوں میں تقسیم کی مہم پر روز اول سے مامور ہے۔ اس سے پناہ ہی انسانی فلاح ہے۔
(مضمون نگار ،شخصیت سازی کا ادارہ ’ہدف‘ کے ڈائریکٹر ہیں )
[email protected]
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ یکم اگست تا 7 اگست 2021