’’شودر کو عقل نہیں ہوتی۔۔!‘‘

ایک سادھوی کی کج فہمی

محمد عزیزالدین خالد، حیدرآباد۔

 

’’شودر کو عقل نہیں ہوتی۔۔۔‘‘یہ انکشاف پرگیا ٹھاکر نے شودر کے سر میں جھانک کر دیکھنے کے بعد کِیا ہے یا
W H O کی رپورٹ دیکھ کر کِیا ہے یا بابا صاحب امبیڈکر کے بنائے ہوئے دستور کو دیکھ کر کِیا ہے ، یہ تو وہی جانیں۔ ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ شودر کسے کہتے ہیں؟
شودر ہندو دھرم کی چار ذاتوں میں سب سے نچلی ذات کا نام ہے جس کا کام گندگی صاف کرنا، مُردہ جانوروں کی کھالیں اتارنا اور جوتے چپل سینا وغیرہ ہے۔ برہمن اپنے آپ کو سب سے اوپر رکھتا ہے جس کا کام مذہبی امور دیکھنا اور حکومتی انتظامات سنبھالنا ہوتا ہے۔ درمیان میں دو اور ذاتیں چھتری اور ویش نام کی ہوتی ہیں جو کھیتی باڑی، کاروبار اور حفاظتی امور کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔ شودر کو ان میں سے کسی کے ساتھ کھانے پینے، یہاں تک کہ ساتھ اٹھنے بیٹھنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی کیوں کہ ان کے خیال میں یہ لوگ پیدائشی طور پر ناپاک ہیں اور مرنے تک ناپاک ہی رہیں گے۔
پرگیا ٹھاکر کا جواب تو شودر بھائیوں کو ہی دینا پڑے گا کیوں کہ وہ انہی سے مخاطب ہیں۔ لیکن ان کا اپنی نوع کے افراد کے متعلق اس نہایت رکیک قسم کے ریمارک کو پڑھ کر ہمیں بہت دکھ پہنچا ہے اور یقیناً دوسروں کو بھی پہنچا ہوگا۔
ہم مسلمان، انسان ہونے کی حیثیت سے تمام انسانوں کو برابر سمجھتے ہیں۔ پرگیا کو اپنی بہن سمجھتے ہیں اور ان کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں جن کے متعلق پرگیا نے یہ ریمارک کیا ہے۔ کیوں کہ ہمارا دین اسلام ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ کوئی انسان پیدائشی طور پر اونچا ہوتا ہے نہ کوئی نیچا، کوئی اعلیٰ ہوتا ہے نہ کوئی ادنیٰ، کوئی عزت والا ہوتا ہے نہ کوئی ذلیل و حقیر۔ وہ انسان کو تمام مخلوقات میں افضل و اشرف قرار دیتا ہے۔ اس کے نزدیک انسانوں کے درمیان تفریق کرنا غلط ہے بلکہ ہر شخص احترام کے قابل ہے قطع نظر اس سے کہ وہ گورا ہو یا کالا، شہری ہو یا دیہاتی، پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ۔
دنیا کے سارے انسان حضرت آدمؑ کی اولاد ہیں جو کہ خدا کے پیغمبر تھے۔ اس نسبت سے سارے انسان پیغمبر کی اولاد ہیں اور انسان ہونے کے ناطے سب برابر ہیں بھائی بھائی ہیں۔ اسلام کے نزدیک ان میں فرق ان کے نیک و بد ہونے کے اعتبار سے ہے، نہ کہ رنگ نسل علاقہ زبان غذا یا لباس کے اعتبار سے؟
شودر، چھتری، برہمن یا عیسائی اور یہودی وغیرہ یہ وہ نام ہیں جو لوگوں نے خود گھڑ لیے ہیں یا گھڑ کر دوسروں پر چسپاں کیے ہیں تاکہ اس کے ذریعے سے وہ دوسروں پر اپنی برتری جتائیں اور موقع ملتے ہی ان پر چڑھ دوڑیں، ان پر غلبہ حاصل کریں اور ان کے حقوق پر ڈاکے ماریں یہاں تک کہ ان کو ملک سے بے دخل کر دیں یا انہیں پوری طرح غلام بنا کر رکھ دیں۔
چنانچہ اس کا عملی نمونہ بی جے پی اپنے دور حکومت میں پیش کر رہی ہے۔ وہ انسانیت کے لیے نہیں بلکہ برہمنیت کے لیے کام کر رہی ہے جو کہ انسانیت کی عین ضد ہے۔ جب کوئی گروہ اپنے سوا دوسروں کو انسان ہی نہیں سمجھتا تو وہ انسان دوست یا انسانیت نواز کیسے کہلائے گا؟ اگر یہ لوگ انسان دوست ہوئے تو ہٹلر، مسولینی، اسٹالن اور پول پوٹ جیسے لوگ انسانیت کے دشمن کیوں کر ہوئے؟
مسلمان نام عربوں، مغلوں، ترکوں یا رومیوں نے نہیں رکھا ہے بلکہ یہ نام خدا نے خود رکھا ہے ’ھُوَ سَمّٰکُمُ المُسلِمِين‘مسلم کے معنی خدا کے فرماں بردار کے ہیں۔ لیکن بد قسمتی سے اس کے معنیٰ و مطلب سے مسلمانوں کی بہت بڑی آبادی اسی طرح سے نا واقف ہے جس طرح ہندوؤں کی پوری آبادی۔ یہاں مسلمانوں نے اپنا تعارف نہ زبانِ حال سے کرایا ہے نہ زبانِ قال سے جس کی وجہ سے آج ان کا تشخص ہی خطرے میں پڑ گیا ہے۔ بہرحال،،
اس تحریر کے ذریعے میں پرگیا ٹھاکر سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ تمام انسانوں کی عزت کرنا سیکھیں۔ وہ جن کو شودر قرار دے رہی ہیں وہ شودر نہیں ہیں بلکہ اسی طرح عزت و وقار کے مستحق انسان ہیں جس عزت و وقار کی وہ خود متمنی ہیں۔ اپنے لیڈروں کی اور ان کے نظریات کی اندھی پیروی کرنا چھوڑ دیں اور آنکھیں کھلی رکھ کر آگے کا سفر جاری رکھیں۔ آنکھیں سَر کی نہیں بلکہ دل کی۔ اس لیے کہ حقیقت میں اندھا وہ نہیں ہے جس کی آنکھوں میں بینائی نہ ہو بلکہ اندھا وہ ہے جس کے دل کی آنکھیں بند ہوں۔
روشنی تمہاری آنکھوں کے سامنے ہے۔ بس آنکھیں کھولو اور دیکھو۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 27 دسمبر تا 2 جنوری 2020-21