شخص و عکس یوسف صاحب: سچا محب اردو، غریبوں کا مسیحا و بے مثل اداکار

ہندوستانی سینما میں اقلیتوں کی شناخت بنانے والی عہد ساز شخصیت

عبدالواحد

 

"میرا یہ پیغام اپنے قارئین تک پہنچا دیجیے کہ جب تک اردو زندہ ہے، ہندوستانی مسلمانوں کی غیرت بھی زندہ ہے۔ ان کی ثقافت بھی زندہ ہے اور ان کا تاریخی کردار بھی زندہ ہے۔
یہ الفاظ دلیپ کمار کے ہیں۔ بات اس وقت کی ہے جب حکومت پاکستان نے ان کو اپنا اعلیٰ ترین شہری اعزاز نشان امتیاز جسے عرف عام میں نشان پاکستان بھی کہا جاتا ہے، سے سرفراز کیا تھا جس پر تنازعہ اٹھ کھڑا ہو اتھا اور ممبئی میں شیو سینا کی طرف سے مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ دلیپ کمار یہ اعزاز واپس کر دیں اور بھارت کے تئیں حب الوطنی کا ثبوت دیں۔ دلیپ کمار اسی سلسلے میں دہلی میں وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی سے ملنے آئے تھے۔ دہلی کے جس ہوٹل میں ٹھیرے ہوئے تھے وہاں دیگر زبانوں کے علاوہ اردو کے صحافی بھی موجود تھے جو اس معاملہ پر ان سے انٹرویو کے خواہش مند تھے۔ اچانک وہ اپنے کمرے سے باہر نکلے اور لابی میں صحافیوں کی نظر پڑی اور وہ لوگ انکی طرف لپکے۔ اسی دوران جلد بازی میں کسی کے ہاتھ سے کیمرہ چھوٹا تو کسی کی ڈائری گر گئی۔ دلیپ کمار کی نظر لابی میں کھڑے ایک صحافی پر پڑی جو قدرے لڑکھڑاتے ہوئے انکی طرف بڑھ رہے تھے۔ دلیپ کمار نے انہیں دیکھا اور یہ معلوم ہونے پر کہ یہ کسی اردو اخبار کے صحافی ہیں برجستہ کہا۔۔۔۔ اچھا تو آپ اردو سے ہیں۔ اردو ڈگمگاتی نہیں ہے۔
یہ دلیپ کمار کا انداز تکلم تھا۔
انٹرویو کے دوران نشانِ امتیاز کا ذکر کرتے ہوئے دلیپ کمار نے کہا کہ اس پر ہنگامہ مچانے والے نامعقول اور بے وقوف لوگ ہیں۔ ایک مفروضہ دشمن نے ہندوستان کو امتیازی درجہ دے دیا اور یہ احمق اس پر چیں بہ چیں ہیں۔ انٹرویو ختم ہونے کے بعد دلیپ کمار نے اردو صحافی سے کہا، ’’میرا یہ پیغام اپنے قارئین تک پہنچا دیجیے کہ جب تک اردو زندہ ہے، ہندوستانی مسلمانوں کی غیرت بھی زندہ ہے۔ ان کی ثقافت بھی زندہ ہے اور ان کا تاریخی کردار بھی زندہ ہے۔‘‘
دلیپ کمار کی شخصیت اگر صرف فلمی دنیا کی ہی شخصیت ہوتی تو اسے نظر انداز کیا جا سکتا تھا لیکن یہ ایسی شخصیت تھی جس نے تاعمر نہ صرف تقسیم ہند کی تپش جھیلی بلکہ تقسیم ہند سے لے کر اپنی موت تک فرقہ پرستی کی آنچ پر خود کو کندن بنا لیا۔ دلیپ کمار صرف فلمی دنیا نہیں بھارت کے مسلمانوں کی حیثیت کا بھی عکاس تھا جس سے جب بھی کسی فرقہ پرست کا دل چاہتا وطن پرستی کا ثبوت دریافت کرنے لگتا تھا۔ دلیپ کمار ایک دور کا نام تھا جس نے تقسیم سے پہلے کا ہندوستان ، پھر ملک کی تقسیم اور اسکے بعد کے منظرنامہ کا بخوبی مشاہدہ کیا تھا۔
محیط جس کے افق پر ہیں حادثے لاکھوں
اک ایسے دور کی تاریخ لکھ رہا ہوں میں
دلیپ کمار کی بیباکی کا ایک اور واقعہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد 1993 میں بمبئی میں ہوئے فسادات سے متعلق ہے۔ ممبئی میں بدترین فساد پھوٹ پڑا تو دلیپ کمار نے اپنے گھر کا دروازہ فساد زدگان کے لیے کھول دیا۔ انہوں نے محمد علی روڈ اور بھنڈی بازار کے مسلم متاثرین کے لیے بڑے پیمانے پر ریلیف کا کام بھی کیا۔ اسی دوران دوردرشن کے کسی صحافی نے ان کا انٹرویو کیا اور ان سے پوچھا کہ دلیپ صاحب ممبئی جل رہا ہے آپ کو کیسا لگتا ہے؟ تو انہوں نے کہا تھا کہ ممبئی کہاں جل رہا ہے؟ صرف مسلمانوں کے گھر جل رہے ہیں۔
اسی طرح کا ایک اور واقعہ سال 1986 کے آس پاس کا ہے جب کسی اردو اخبار کی گولڈن جوبلی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جسمیں رفیق زکریا بھی موجود تھے، اس موقع پر دلیپ کمار نے جو تقریر کی تھی اس میں انہوں نے ایک جملہ یہ بھی کہا تھا جو بھولتا نہیں کہ ’’لوگ قومی دھارا قومی دھارا کی دہائی دیتے ہیں۔ مجھے بتائیے کہ وہ قومی دھارا بہتا کہاں ہے۔‘‘
دلیپ کمار کہتے تھے کہ لوگ دلیپ کمار کو دیکھتے ہیں، یوسف خان کو کوئی نہیں دیکھتا کہ وہ ممبئی کی جھگی جھونپڑی بستیوں میں کیا کام کر رہا ہے۔ وہ کس طرح بلا لحظ مذہب وملت لوگوں کی مدد کر رہا ہے۔ عمران خان نے جب کنیسر سے فوت ہوئی ماں کے لیے کینسر اسپتال قائم کرنے کی جستجو کی تو اس میں دلیپ کمار نے بھی بڑھ چڑھ کر مدد کی۔ آبائی وطن پشاور میں متعدد رفاہی کاموں یہاں تک کہ بلڈ بینک کے قیام میں بھی دلیپ کمار نے دل کھول کر مدد کی۔ جسکے لیے پشاور کے لوگ آج بھی دلیپ کمار کے ممنون ہیں۔
ملک میں متعدد رفاہی کاموں میں نابینا افراد کے لیے انکا ٹرین کا مخصوص سفر آج بھی ذہنوں میں تازہ ہے جب وہ سال میں ایک مرتبہ ایک خصوصی ٹرین سے ممبئی سے پونا سفر کرتے تھے اور اس دوران مسافروں سے وصول کی گئی ٹکٹ کی رقم نابینا افراد کے لیے کتابوں کے حصول پر صرف کی جاتی تھی۔ کئی برس تک انہوں نے یہ سلسلہ قائم رکھا تھا۔ آج ممبئی میں نابینا افراد کے لیے قائم لائبریری دنیا کی بڑی لائبریریوں میں شمار ہوتی ہے۔
اسکی تحریک انہیں ایک نابینا مسافر سے ملی تھا۔ ایک بار اس نے دلیپ کمار کی آواز پہچان کر کہا تھا ’’ہم دیکھ نہیں سکتے، لیکن ہم سوچ سکتے ہیں، محسوس کر سکتے ہیں، ہنس سکتے ہیں رو سکتے ہیں۔ اس جملے نے دلیپ کمار پر ایسا اثر کیا کہ وہ کئی برسوں تک اس مخصوص ٹرین سے سفر کرتے رہے تاکہ نابینا افراد کے لیے بہتر لائبریری قائم کرنے میں مدد مل سکے۔
یوں تو ہندوستانی سنیما میں متعدد مسلم شخصیات گزری ہیں لیکن جو عزت اور وقار دلیپ کمار کو حاصل ہوا وہ کسی کو نصیب نہیں ہوا۔ بلکہ یہ کہیں کہ دلیپ کمار کی بیباکی کے پیچھے یہی عہد ساز شخصیت کا رعب اور دبدبہ کار فرما تھا جسکی تاب لانے کی ہمت کسی فرقہ پرست میں نہیں تھی۔
اگر وہ صرف فلمی دنیا تک ہی محدود رہتے تو کوئی کچھ نہ کہتا لیکن پشاور میں پیدا ہوا یہ پٹھان سرحد کے دونوں طرف سیاسی اور سماجی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا اور دونوں جگہ یکساں طور پر مقبول تھا یہاں تک کہ جواہر لعل نہرو کہا کرتے تھے کہ دلیپ کمار بیرونی دنیا کے لیے ہندوستان کے سفیر ہیں۔
جہاں تک نام کی تبدیلی کا سوال ہے تو اس کا سیکولر امیج سے اتنا لینا دینا نہیں ہے جتنا مارکیٹ سے۔ 1930 اور 1940 کی دہائی کی معروف فلمساز اور اداکارہ دیویکا رانی نے جب انہیں فلموں میں بریک دیا تو انکے پیش نظر مارکیٹ تھا۔ اس وقت تک اشوک کمار کافی مقبول ہو چکے تھے اس لیے کمار نام کا چلن فلمی دنیا میں بڑھنے لگا تھا۔ دیویکا رانی کو لگا کہ ایک اور کمار شائقین کو اپنی طرف راغب کرے گا اس لیے انہوں نے فلموں کے لیے انکا نام دلیپ کمار منتخب کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ ملک کی تقسیم اور اسکے بعد ہونے والے فسادات نے ہندو۔ مسلم کشیدگی میں اضافہ کیا اور اسکا فیض دلیپ کمار نام کو بھی ملا۔ لیکن اگر نام کی تبدیلی کی بات کی جائے تو خود کئی ہندو اداکار ایسے ہیں جنہوں نے اپنا نام تبدیل کیا ان میں راج کمار، دھرمیندر، سنجیو کمار اور سنی دیول وغیرہ شامل ہیں۔ انکے اصل نام کچھ اور ہیں اور فلمی نام کچھ اور۔ فلمی نام مارکیٹ کو دھیان میں رکھ کر منتخب کیے جاتے ہیں۔ البتہ بہت سے لوگ اپنا نام تبدیل نہیں کرتے ۔ یہ پہلے بھی تھا اور اب بھی ہے۔ اپنی سوانح حیات دلیپ کمار: دی سبسٹینس اینڈ دی شیڈو جسے انکی اہلیہ سائرہ بانو کی سہیلی ادے تارا نائر نے مرتب کیا ہے، دلیپ کمار نے تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔
غیر منقسم ہندوستان کے پشاور میں 1922 میں پیدا ہوئے یوسف خان سات جولائی 2021 کو اس دارفانی سے کوچ کر گئے۔ کورونا وبا کے پیش نظر انکی نماز جنازہ گھر کے احاطے میں ادا کی گئی جسکے بعد جوہو قبرستان میں سپرد لحد کر دیا گیا۔ انکے انتقال سے فلمی دنیا میں بھلے ہی اداکاری کے ایک ادارے کا باب بند ہو گیا ہو لیکن ملک نے سیکولر اقدار بالخصوص مسلم اقلیت کے استحصال پر ببیاکی سے رائے زنی کرنے والی قدآور شخصیت کھو دی ہے۔ فلمی دنیا آج بھی مسلم نام کے افراد سے بھری پڑی ہے لیکن، ملک وملت کے لیے وہ بے باکی نظر نہیں آتی جو دلیپ کمار کا خاصہ تھی۔ بالخصوص اردو زبان وادب پر جو گرفت تھی وہ دلیپ کمار کو دیگر اداکاروں سے منفرد کرتی تھی۔ اللہ تعالٰی انکی مغفرت فرمائے اور جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے آمین۔
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ یکم اگست تا 7 اگست 2021