شب قدر

عتيق احمد شفيق اصلاحي، بريلي

ماہ رمضان ميں ايک رات ہے جو بڑي قيمتي وانمول ہے اس کو شب قدر کہتے ہيں۔ اس رات کي قرآن وحديث ميں بڑي اہميت بيان کي گئي ہے اور اس کو ہزار راتوں سے بہتر بتايا گيا ہے۔ 

قدر کے معني :۔ قضا وقدر، اندازہ کرنا، کسي چيز کو طے کرنا، فيصلہ کرنا۔ اس رات اللہ سبحانہ تعالي ہر چيز وہر کام کا وقت متعين کرتا ہے۔

ايک معني يہ ہيں کہ اللہ تعالي انسانوں کي تقدير لکھتا ہے۔ انسانوں کي زندگي وموت، کاميابي وناکامي، خوش بختي وبدبختي، عزت وذلت، خوش حالي وبد حالي، فراخي وتنگي کے بارے ميں فيصلہ کرتا ہے۔ يُفۡرَقُ كُلُّ أَمۡرٍ حَكِيم (سورۃالدخان : 5)  

قدر کا ايک مفہوم يہ بھي ہے کہ اللہ تعالي نے بندوں کي جو تقدير لوح محفوظ ميں لکھ رکھي ہے اس کے فيصلہ کے نفاذ کا حکم ديا جاتا ہے۔تَنَزَّلُ ٱلۡمَلَـٰۤىِٕكَةُ وَٱلرُّوحُ فِيهَا بِإِذۡنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمۡر

قدر کے ايک معني اہميت، عظمت، مرتبہ کے ہيں يعني يہ رات بہت ہي عظمت واحترام، بزرگي ومرتبے والي ہے۔ اللہ تعالي نے اس ميں بے شمار خير وبرکتيں رکھي ہيں جس کا اندازہ لگانا  انسان کے بس ميں نہيں ہے۔ اس رات اللہ تعالي بے شمار بندوں کي بخشش فرماتا ہے، ان کے عيوب پر پردہ ڈالتا ہے، ان کي مغفرت فرماتا ہے۔ اس لحاظ سے يہ رات انسانوں کے ليے بڑي عظمت کي رات ہے۔قدر کي يہ رات عظمت والي اس ليے بھي قرار دي گئي ہے کہ اس ميں اللہ تعالي نے ايک عظيم الشان تحفہ انسانيت کو عطا کيا گيا ہے۔ قرآن مجيد کے نزول کي شروعات شب قدر سے ہي ہوئي۔ قرآن ايک ايسي عظمت والي کتاب ہے جو انسانوں کو عظمت وبلندي اور کاميابي وسرفراز ي عطا کرتي ہے اگر وہ اس کي قدر کريں۔ انسانيت ہزار سال سے کلام الہي سے نا واقف تھي۔ اللہ تعالي نے انسانيت پر رحم فرمايا اور اپنا کلام نازل فرمايا۔ اس ليے يہ ايک رات ہزار راتوں سے بہتر ہے۔ اللہ کے نزديک يہ رات عظمت والي ہے اس ليے اس رات کا انتخاب قرآن مجيد کے نزول کے ليے کيا گيا ہے۔

شب قدر کي اہميت:۔ إِنَّاۤ أَنزَلۡنَـٰهُ فِي لَيۡلَةِ ٱلۡقَدۡرِوَمَاۤ أَدۡرَىٰكَ مَا لَيۡلَةُ ٱلۡقَدۡرِ لَيۡلَةُ ٱلۡقَدۡرِ خَيۡر مِّنۡ أَلۡفِ شَهۡر تَنَزَّلُ ٱلۡمَلَـٰۤىِٕكَةُ وَٱلرُّوحُ فِيهَا بِإِذۡنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمۡر سَلَـٰمٌ هِيَ حَتَّىٰ مَطۡلَعِ ٱلۡفَجۡرِ۔ ہم نے اس (قرآن )  کو شب قدر ميں نازل کيا اور تم کيا جانو کہ شب قدر کيا ہے؟ شب قدر ہزار مہينوں سے زيادہ بہتر فرشتے اور روح اس ميں اپنے رب کے اذن سے ہر حکم لے کر اترتے ہيں۔ وہ رات سراسر سلامتي ہے طلوع فجر تک۔  إِنَّاۤ أَنزَلۡنَـٰهُ فِي لَيۡلَة مُّبَـٰرَكَةٍۚ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَ فِيهَا يُفۡرَقُ كُلُّ أَمۡرٍ حَكِيم  أَمۡرا مِّنۡ عِندِنَاۤۚ إِنَّا كُنَّا مُرۡسِلِينَ (دخان: ۳تا۵) ہم نے اسے ايک بڑي خير وبرکت والي رات ميں نازل کيا ہے کيونکہ ہم لوگوں کو متنبہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ يہ وہ رات تھي جس ميں ہر معاملے کا حکيمانہ فيصلہ ہمارے حکم سے صادر کيا جاتا ہے۔

نبي ﷺ نے بھي شب قدر کي اہميت وفضيلت کو بڑي وضاحت کے ساتھ بيان فرمايا ہے تاکہ امت اس رات کے خير سے محروم نہ رہے اس کو تلاش کرے اس کي تلاش وجستجو ميں جد وجہد کرے۔ جو شخص اس رات ميں اپنا احتساب وجائزہ ليتے ہوئے اللہ کي مغفرت وخوشنودي کي طلب ميں اللہ کے حضور کھڑا ہوتا ہے تو اللہ اس کے سارے گنا ہ معاف کر ديتا ہے۔ بندہ اپني زندگي کا جائزہ ليتے ہوئے اپنے قصور کي معافي کا طلب گار وخواستگار ہوتا ہے۔ بندہ سے بشريت کي وجہ جو کوتاہياں، نافرمانياں ہوئي ہيں اس پر نادم ہوتا ہے۔ ايمان کا تقاضا يہي ہے کہ ايک بندہ اپنے رب سے چمٹ جائے، اس سے لو لگائے اور کبھي سستي وکوتاہي سرزد ہو جائے تو اپنے رب کے حضور توبہ کرے گڑگڑائے تو اللہ بندے کو اپنے عفو وکرم ميں لے ليتا ہے۔ خاص کر ليلۃ قدر کي رات اس کے ليے خصوصي انعام ہے کہ باري تعالي بندوں کي طرف متوجہ ہوتا ہے اور بندوں کے ليے اپني رحمت کے خزانے کھول ديتا ہے۔  نبي اکرم  ﷺ نے فرمايا جس شخص نے ليلۃ القدر ميں قيام کيا ايمان اور احتساب کے ساتھ تو معاف کرديے جائيں گے اس کے وہ سب گناہ جو اس نے پہلے کيے ہوں گے۔حضرت ابو ہرير ؓ سے روايت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمايا اس ميں (رمضان ميں) اللہ کي طر ف سے ايک ايسي رات ہے جو ہزار مہينوں سے زيادہ بہتر ہے جو اس رات کي بھلائي سے محروم رہا وہ بس محروم ہي رہ گيا۔ حضرت انس بن مالک  ؓ سے روايت ہے کہ رمضان کا مہينہ آيا تو نبي ﷺ نے فرمايا يہ مہينہ تمہارے اوپر آيا اور اس ميں ايک رات ہے جو ہزار مہينوں سے زيادہ بہتر ہے جو اس سے محروم رہ گيا وہ تمام بھلائي سے محروم رہ گيا اور اس کي بھلائي سے جو محروم ہے وہي بے نصيب ہے۔ 

  ليلۃ القدر کب آتي ہے:۔ ليلۃ القدر رمضان کے آخري عشرے ميں کوئي رات ہے۔ زيادہ تر احاديث سے معلوم ہوتا ہے کہ آخري عشرے کي راتوں ميں سے کوئي طاق رات ہے۔ نبي ﷺ نے اس کو آخري عشرے اور اس کي بھي طاق راتوں ميں تلاش کرنے کا حکم ديا ہے۔ حضرت عائشہ رضي اللہ عنھا بيان کرتي ہيں کہ رسول ﷺ نے فرمايا : ليلۃ القدر کو رمضان کي آخري دس راتوں کي طاق تاريخوں ميں تلاش کرو۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روايت ہے کہ نبي ﷺ نے ارشاد فرمايا ليلۃ القدر کو تلاش کرو رمضان کي آخري دس تاريخوں ميں يعني اکيس يا انتيس کو، تيئس يا ستائيس کو يا پچيس کو۔ 

نبي ﷺ کا معمول:۔ رمضان آتے ہي نبي ﷺ کا عبادات ميں انہماک بڑھ جاتا خاص کر آخري عشرے ميں مزيد شغف ہو جاتا تھا ايک دفعہ تو ليلۃ القدر کي تلاش ميں پورے رمضان کا اعتکاف فرمايا۔حضرت عبداللہ بن عمرؓ بيان کرتے ہيں کہ رسول ﷺ سے ليلۃ القدر کے بارے ميں پوچھا گيا تو آپ  ﷺ نے فرمايا کہ وہ ہر رمضان ميں ہوتي ہے۔  طاق راتيں بھي رمضان ميں ہوتي ہيں ۔ نبي اکرم ﷺ ويسے تو ہميشہ عبادات ورياضت ميں مشغول رہتے تھے آپ  ﷺ کا راتوں کا بيشتر حصہ عبادت ميں گزرتا تھا يہاں تک کہ طويل قيام سے آپ کے پيروں پر ورم آجاتا تھا۔ ليکن جب رمضان کا آخري عشرہ آتا تو نبي ﷺ بہت ہي زيادہ عبادات ميں مصروف ہو جاتے تھے اور گھر والوں کو بھي اس کي ترغيب ديتے تھے۔ حضرت عائشہ رضي اللہ عنھا فرماتي ہيں رسول اللہ ﷺ  رمضان کے آخري دس دنوں ميں (اللہ کي عبادت کرنے ميں) جس قدر سخت محنت کرتے تھے اتني اور کسي زمانے ميں نہيں کرتے تھے۔ دوسري روايت ميں فرماتي ہيں : جب رمضان کي آخري دس تاريخيں آتيں تو رسول ﷺ کمر بستہ ہو جاتے تھے رات رات بھر جاگتے تھے اور اپنے گھر والوں کو بھي جگاتے تھے۔

شب قدر کي علامتيں :۔نبي اکرم  ﷺ نے شب قدر کي کچھ علامتيں بتائي ہيں۔ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ فرماتے ہيں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمايا : مجھے شب قدر دکھائي گئي پھر بھلا دي گئي يہ (رمضان کي) آخري دس راتوں ميں ہے، يہ ايک خوش گوار اور روشن رات ہے نہ گرم ہے اور نہ سرد۔ 

زربن حبيش فرماتے ہيں کہ ميں نے حضرت ابي بن کعب سے عرض کيا کہ آپ کے بھائي حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہيں کہ جو آدمي پورے سال قيام کرے گا تو وہ شب قدر کو پالے گا۔ حضرت ابي بن کعب ؓ نے فرمايا کہ اللہ ان پر رحم فرمائے وہ يہ چاہتے ہيں کہ لوگ (ايک رات پر) بھروسہ کر کے بيٹھ نہ جائيں ورنہ يقيناً وہ اچھي طرح جانتے ہيں کہ شب قدر رمضان ميں ہے اور وہ بھي رمضان کے آخري عشرے ميں ہے اور وہ رات ستائيسويں رات ہے۔ ميں نے عرض کيا: اے ابو منذر! آپ يہ بات کس وجہ سے فرما رہے ہيں ؟ انہوں نے فرمايا : اس دليل اور نشاني کي بنا پر جس کي خبر رسول اللہ ﷺ نے ہميں دي تھي کہ يہ وہ رات ہے جس کے بعد دن جو سورج طلوع ہوتا ہے اس کي شعائيں نہيں ہوتي ہيں۔

٭رسول اللہ ﷺ نے فرمايا تم ميں سے کون اسے (شب قدر) کو ياد رکھتا ہے اس ميں جب چاند نکلتا ہے تو ايسے ہوتا ہے جيسے بڑے تھال کا کنارہ۔  

واضح تعين نہ کرنے کي حکمت :۔ شب قدر کون سي رات ہے اس سلسلے ميں بہت سي روايتيں ہيں ليکن ليلۃ القدر کے ليے کسي رات کا واضح طور پر تعين نہيں کيا ہے۔ رات کے تعين نہ کرنے ميں گہري حکمت پوشيدہ ہے وہ يہ ہے کہ لوگ اس کو پانے کے ليے کے زيادہ سے زيادہ جستجو کريں۔ جس سے ہو سکے تو وہ پورے رمضان ميں اس رات کي تلاش کے ليے جستجو کرے اگر اتنا نہ ہو سکے تو پھر رمضان کے آخري عشرے کي تمام دس راتوں ميں اس کو پانے کي کوشش کرے اور اتنا بھي نہ ہو پائے تو کم ازکم آخري عشرے کي ہر طاق رات ميں شب قدر کو تلاش کرے اس کے ليے پوري رات جاگ کر عبادت وذکر اللہ کي تحميد وتہليل وتسبيح ميں گزارے۔ قرآن حکيم کي تلاوت ميں مصروف رہے۔ اللہ کي خوشنودي ورضاء کو حاصل کرنے کي زيادہ سے زيادہ جد وجہد کرے۔ نبي ﷺ نے فرمايا جب ليلۃ القدر آتي ہے تو جبرئيل ملائکہ کے جھرمٹ ميں زمين پر اترتے ہيں اور اس بندے کے ليے دعائے مغفرت کرتے ہيں جو کھڑا يا بيٹھا اللہ کي ياد اور عبادت ميں مشغول ہوتا ہے۔ليلۃ القدر کي دعا:۔ نبي اکرم  ﷺ  نے ہر موقع پر امت کي رہنمائي فرمائي ہے ہر موقع کے آداب اور دعائيں سکھائي ہيں تاکہ بندے اپنے رب سے گہرا تعلق پيدا کر سکيں۔ يہ رات مغفرت کي ہوتي ہے۔ دعا کي قبوليت کي رات ہوتي ہے۔ اس موقع پر بھي اللہ کے رسول اللہ ﷺ نے ايک خاص دعا بتائي ہے جس کا شب قدر ميں اہتمام کيا جانا چاہيے۔ حضرت عائشہ رضي اللہ عنھا فرماتي ہيں کہ ميں نے رسول  ﷺ سے عرض کيا: يا رسول اللہ ﷺ اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ کون سي رات شب قدر ہے تو ميں اس ميں کيا کہوں ؟آپ ﷺ نے فر مايا تم کہو! اللھم انک عفو تحب العفو فاعف عني۔ اے اللہ يقينا تو بڑا معاف کرنے والاہے اور معاف کرنے کو پسند کر تا ہے اس ليے مجھے بھي معاف فر مادے۔

٭ ليلتہ القدر کو تلاش کرنے کا عزم مصمم کيا جائے۔

٭ ليلتہ القدر کي راتوں کے ليے قرآن فہمي، عبادات اور اذکار کي منصوبہ بندي کي جائے ۔

٭جاگنے سے زيادہ مقصد پر نگاہ رکھنے اور حاصل کرنے کي کوشش کي جائے۔

٭اہل خانہ کو بھي اس رات سے مستفيد ہونے کے ليے رغبت دلائي جائے۔

٭ليلتہ القدر کي دعا کا خصوصي اہتمام کيا جائے۔

٭اجتماعي کے بجائے انفرادي عبادت پر توجہ دي جائے.