سی اے اے مخالف مظاہرین کو غدار یا ملک دشمن نہیں کہا جا سکتا: بمبئی ہائی کورٹ
بمبئی، فروری 15: بمبئی ہائی کورٹ نے جمعرات کو مہاراشٹر کے بیڈ ضلع میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کے تناظر میں کہا کہ کسی قانون کے خلاف پر امن طریقے سے احتجاج کرنے والے شہریوں کو غدار یا "ملک دشمن” نہیں کہا جاسکتا۔
21 جنوری کو ایک حکم میں پولیس نے ضلع بیڈ کے مجلگاؤں میں مظاہرین کے ایک گروپ کو غیر معینہ احتجاج پر بیٹھنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا تھا۔ ایک مجسٹریٹ نے انھیں احتجاج بھی نہیں کرنے دیا۔ مظاہرین نے پولیس اور مجسٹریٹ کے حکم کو چیلنج کرتے ہوئے ہائی کورٹ کا رخ کیا تھا۔
ہائی کورٹ کے اورنگ آباد بینچ نے مشاہدہ کیا کہ درخواست گزار افتخار شیخ اور ان کے ساتھی صرف پرامن احتجاج کرنا چاہتے ہیں لہذا عدالت نے انھیں اس کے ساتھ آگے بڑھنے کی اجازت دے دی۔
جسٹس ٹی وی نالاوڈے اور ایم جی سیولیکر کی ڈویژن بنچ نے کہا "یہ عدالت اس بات کا اظہار کرنا چاہتی ہے کہ ایسے افراد کو صرف اس لیے غدار، ملک دشمن نہیں کہا جاسکتا کیونکہ وہ ایک قانون کی مخالفت کرنا چاہتے ہیں۔ یہ صرف ایک احتجاج ہے اور یہ صرف CAA کی وجہ سے حکومت کے خلاف ہوگا۔”
عدالت نے کہا کہ احتجاج کو صرف اس لیے دبایا نہیں جاسکتا ہے کہ لوگ حکومت کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ججوں نے بیوروکریسی کو بھی یہ بات ذہن میں رکھنے کے لیے کہا کہ شہری اپنے حقوق کے دفاع کے پابند ہیں اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان پر ایک خاص قانون ان پر حملہ ہے۔ عدالت نے کہا کہ اس معاملے میں مظاہرین نے ایک بیعت دی تھی کہ احتجاج میں کسی بھی ملک یا مذہب یا قوم کے خلاف کوئی نعرہ نہیں استعمال کیا جائے گا۔
بنچ نے پولیس اور مجسٹریٹ کے جاری کردہ احکامات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے انھیں غیر قانونی قرار دیا۔ عدالت نے اپنے حکم میں کہا ’’ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ہم ایک جمہوری ملک ہیں اور ہمارے آئین نے ہمیں اکثریت کی حکمرانی نہیں بلکہ قانون کی حکمرانی دی ہے۔ جب اس طرح کا قانون [CAA] بنایا جاتا ہے تو کچھ لوگ کسی خاص مذہب کے ہوسکتے ہیں جیسے مسلمان یہ محسوس کرسکتے ہیں کہ یہ ان کے مفاد کے خلاف ہے اور اس طرح کے قانون کی مخالفت کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
عدالت کا کہنا ہے کہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ ایسے لوگوں سے رجوع کرے، ان سے بات کرے اور انھیں راضی کرے۔ حکم نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’ہندوستان کو ان واحتجاجات کی وجہ سے آزادی ملی جو غیر متشدد تھے اور عدم تشدد کے اس راستے پر آج تک اس ملک کے لوگ چل رہے ہیں۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ اس ملک کے بیشتر افراد اب بھی عدم تشدد پر یقین رکھتے ہیں۔‘‘
عدالت نے مزید کہا ’’برطانوی دور میں ہمارے آبا و اجداد نے آزادی اور انسانی حقوق کی جنگ لڑی تھی اور تحریکوں کے پس پردہ فلسفے کی وجہ سے ہم نے اپنا آئین تشکیل دیا تھا۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ بدقسمتی ہے لیکن عوام کو اب اپنی ہی حکومت کے خلاف احتجاج کرنے کی ضرورت ہے لیکن صرف اس بنیاد پر اس احتجاج کو دبایا نہیں جاسکتا ہے۔‘‘