سیکولر غیر سیکولر اور انتخابی ہار جیت کی نفسیات میں کیوں مبتلا ہوں؟

مستقبل کے لائحہ عمل میں فکر و ذہن کو تبدیل کرنے پر زور دیا جائے

نہال صغیر، ممبئی

سیاسی سوجھ بوجھ اور تاریخ سے سبق لے کر حالات کا تجزیہ کرنے کی ضرورت
بی جے پی کے ذریعہ پانچ میں سے چار ریاستی اسمبلیوں پر اپنا پرچم بلند کرلینے کے بعد سے دیگر حلقوں میں ہر قسم کی بحثیں ہو رہی ہیں لیکن مسلمانوں کے درمیان صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔ مختلف رد عملوں کو دیکھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بھارت میں سیکولرزم کے نام نہاد حامیوں کے دم ہی سے مسلمانوں کا وجود باقی ہے اور بی جے پی کے اقتدار میں آتے ہی ان کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے گا۔ سوشل میڈیا پر جاری مباحث، انتخابی نتائج پر دکھائی دینے والے ردعمل اور سطحی تبصروں سے ایسا ہی محسوس ہوتا ہے۔ یہ عام ردعمل ہوتا تو بات سمجھ میں آتی لیکن دانشوروں میں سر فہرست افراد بھی سرسری اور اوپری انتخابی نتائج کو دیکھ کر عامیانہ قسم کے مشورے دینے اور تبصرے کرنے لگیں تو دل بے چین ہوتا ہے۔ افسوس ناک رویہ اور ایک زوال یافتہ قوم کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ مصائب میں حواس کھو دیتی ہے۔ عام نوجوانوں میں یوں تو شعور کی کمی نظر آتی ہے مگر مفقود نہیں ہے۔ انہیں کسی رہبر کی ضرورت ہے جس کی تلاش کی باتیں تو ہوتی ہیں مگر تاحال وہ بازیافت کے دور سے نہیں گزری۔ مسلمانوں کا تو کام ہی ذہنوں کی تبدیلی کا ہے۔ ہم نے صدیوں سے یہ کام چھوڑ رکھا ہے اسی لئے تو ہماری حالت دلتوں سے بدتر ہو گئی ہے۔ اصل میں ہمارا کام اللہ کے بتائے راستے پر چل کر عوام الناس کی فلاح وبہبود کا کام کرنا ہے، خواہ حالات کیسے ہی نا موافق کیوں نہ ہو۔ اللہ کی مدد اسی وقت آئے گی جب ہم اللہ کے راستے پر چلیں گے اور اللہ کی مدد کے بغیر مومن کچھ نہیں کر سکتا۔ ہاں ابلیس کی ذریت کا بھلا ہو سکتا ہے۔
موجودہ حکومت کے عروج یعنی ۲۰۱۴ کے انتخابی نتائج سے قبل میں نے ملک میں پس ماندہ ملازمین کی بڑی تنظیم بامسیف کے صدر وامن میشرام کا انٹر ویو لیا تھا۔ جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ وہ جہاں بھی گئے مسلم لیڈروں (خصوصی طور سے علما) نے ووٹوں کے رجحان کے بارے میں کہا ’’صاحب اس بار جانے دیں اگلی بار سوچیں گے نہیں تو بی جے پی آجائے گی۔‘‘ اس حکمت عملی کے باوجود جس فرقہ پرست پارٹی کو روکنےکے لیے مسلمانوں کو استعمال کیا گیا وہ اقتدار میں آ کر رہی اور مسلمان بے بس ہو کر رہ گیا۔ ۲۰۱۴ سے قبل کہا جا رہا تھا کہ مسلمان فی الحال ووٹ دینا بند کردیں، دلیل یہ بتائی تھی کہ فی الحال مسلمان ایک دباؤ کے تحت ووٹنگ کررہے ہیں اور خوف یا دباؤ میں انسان درست فیصلہ نہیں کرسکتا۔ مسلمان ووٹ دینا بند کردیں اس پر عمل کرنے کا مشورہ تو ہم نہیں دیں گے مگر یہ تو حقیقت ہے کہ دباؤ یا خوف انسان کو کوئی مثبت فیصلہ کی جانب رہنمائی نہیں کرسکتا۔ پس ماندہ قائدین برملا اس کا اظہار کیا کرتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمان ایک جری اور بہادر قوم ہے مگر مسلمانوں کی قیادت کے دعوےدار بزدل اور ڈرپوک ہیں۔ ’اس بار جانے دیں‘ والی بات کو میں قریب تین / چار دہائیوں سے سن رہا ہوں۔ بزدلوں کے لیے کسی حال میں حالات نہیں بدلتے اور ہمت والوں کے لیے حالات کبھی نا موافق نہیں ہوتے۔ وہ ہر حال میں اپنا راستہ نکال لیتے ہیں۔
تین ریاستوں سمیت اتر پردیش میں بی جے پی کی فتح سے ایسا ہاہاکار مچایا جارہا ہے جیسے اب مسلمانوں کی خیر نہیں۔ یہ رویہ کسی ایسی قوم کا تو ہو ہی نہیں سکتا جس نے دنیا کی ایک ہزار سال سے زیادہ امامت کی ہو اور پوری دنیا میں جس کا طوطی بولتا تھا۔ عالم اسلام نے بڑے سے بڑے دباؤ اور طوفانوں کا مقابلہ کیا ہے اور اس سے وہ نکل کر پھر پورے عالم پر چھا گئے ہیں۔ مسلمان اس وقت بھی جب منگولوں کے نرغہ میں تھے انہوں نے ہوش و حواس کو برقرار رکھا اور منگولوں کو شکست دے کر اپنا کردار بحال کیا۔ کہا جاسکتا ہے کہ وہ دنیا کا دیگر معاملہ تھا اور آج یہ معاملہ بھارتی مسلمانوں کو درپیش ہے۔ اس کے جواب میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ آج معاملہ ویسا سنگین نہیں ہے۔ بس یہ ہے کہ آج ہمارے درمیان لال بجھکڑوں کی تعداد زیادہ ہے، جتنے منھ اتنی باتیں۔
ایک بار ایک ملی جریدہ نے قوم کے مجموعی حالات پر ایک جملہ لکھا تھا کہ "قوم میدان جنگ میں نہیں مذاکرات کی میز پر شکست سے دور چار ہوئی ہے۔” حالانکہ اب اسے بھی غلط ثابت کیا جاچکا ہے۔ یہاں بھی اسی تناظر میں ایک قابلِ قبول لائحہ عمل ترتیب دینا ہوگا۔
اول تو ہمیں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہیے کہ بی جے پی جیت گئی اور سیکولر پارٹی ہار گئی، کیوں کہ ہمارے پاس سیکولر اور فرقہ پرست ہونے کی کوئی واضح تعریف نہیں ہے۔ آج جو سیکولر پارٹی میں رہ کر بہت بڑا سیکولر بنا پھرتا ہے وہ کل کو فرقہ پرست پارٹی میں جاکر بہت بڑا فرقہ پرست بن جاتا ہے۔ وہی بات فرقہ پرستوں کے ساتھ رہنے والے کی ہے کہ اگر وہ نام نہاد سیکولر پارٹی میں جاتا ہے تو وہاں سیکولر بن جاتا ہے، ہمیں ان حصاروں سے نکلنا ہوگا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ میڈیا کے غلط پروپگنڈہ نے ہمارے دماغ کو کچھ اس قدر متاثر کیا ہوا ہے کہ ہم وہی سوچتے ہیں جس پر ہمیں سوچنے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔ جیسے بعض لوگ انتخابی نتائج کا عددی تجزیہ کیے بغیر سیکولر پارٹیوں کی ہار کا ٹھیکرا بیریسٹر اویسی کی قیادت والی مجلس اتحاد المسلمین کے سر پھوڑ دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کہیں اویسی کی پارٹی کو دوہزار ووٹ ملے اور بی جے پی کا امیدوار اتنے ہی ووٹوں سے جیت گیا ہے تو اس کی ذمہ دار اویسی کی پارٹی ہے، یہاں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ بہوجن سماج پارٹی کے امیدوار نے پچاس ہزار یا اس سے زیادہ ووٹ حاصل کیے۔ جب تک مسلمانوں کی یہ ذہنیت رہے گی اس وقت تک ملک کے سیاسی ماحول میں مسلمان حاشیہ پر ہی رہے گا۔ کیوں کہ غلام ذہنیت سے کبھی کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی اور یہ ذہنیت صرف عوام تک محدود رہے تب بھی کچھ تبدیلی کی امید کی جاسکتی ہے مگر جب یہ سرایت کر کے خواص میں داخل ہوجائے جو اسی عامیانہ ذہنیت سے سوچنے لگیں پھر تو ایسی قوم کا اللہ ہی مالک ہے اور اس بار کے انتخابی نتائج کے بعد یہی کچھ دیکھنے کو مل رہا ہے۔
ایک وائرل تبصرہ میں یہ پڑھنے کو ملا کہ فرقہ پرست قوتیں حکومت میں آنے کے بعد مسلمانوں کی زندگی کا دائرہ اتنا تنگ کر دیتے ہیں کہ انہیں کاروبار اور دیگر امور میں ستایا جانے لگتا ہے۔ یہ کچھ حد تک درست ہے لیکن سیکولر حکومتوں خصوصی طور سے کانگریس کے دور میں بھی مسلمانوں کی حالت اچھی نہیں تھی۔ شمال مشرق میں مسلمانوں کے سیاسی طور سے بے وقعت ہونے کی بات سے بھی اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔ آسام میں کانگریس کا دور مسلمانوں کے لیے انتہائی کرب ناک رہا ہے، مگر بی جے پی کا خوف ہمارے دماغوں پر اتنا چھایا ہوا ہے کہ صرف آٹھ سال میں کانگریس کی خون آشامی کو بھلا دیا گیا۔ مسلمانوں کو آزاد بھارت میں اپنے دشمن دوست نظر آنے لگے ہیں اور دوست دشمن۔ ہمیں سیکولر غیر سیکولر کی تقسیم اور انتخابات میں ہار جیت کی نفسیات سے باہر آنے کی ضرورت ہے۔
کانگریس دور حکومت میں ایک رپورٹ جاری کی گئی تھی جس کا نام تھا جسٹس راجندر سچر رپورٹ ہے۔ جس کے مطابق مسلمانوں کی سب سے اچھی حالت گجرات میں اور سب سے بری حالت مغربی بنگال میں رہی ہے۔ کیا یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ گجرات میں نریندر مودی سے پہلے کس ’سیکولر‘ پارٹی کی حکومت تھی اور بنگال میں سب سے بڑے سیکولر کہلانے والے کمیونسٹ محاذ کی حکومت تھی‌؟ وہ بھی ایک دو سال نہیں ۳۵ سال کے قریب طویل حکمرانی کے باوجود بھی وہاں کا مسلمان سب سے غریب اور پسماندہ ہی رہا۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت کا موازنہ اس سے کیا جانا چاہیے کہ امریکہ میں سزائے موت کے مجرم کو ٹرنکولائزر دیا جاتا ہے جس سے وہ موت کے احساس اور خوف سے نجات پاجاتا ہے۔ یہاں کانگریس مسلمانوں کے ساتھ یہی کرتی ہے وہ انہیں تباہ تو کرتی ہے لیکن بچوں کی طرح ٹافی دے کر بہلا دیا کرتی ہے۔ ایک مثال اور۔ بہار میں ترقی کا دور ہی غیر کانگریسی حکومت میں شروع ہوا۔ یوپی کے بارے میں مجھے ٹھیک سے نہیں معلوم لیکن کم و بیش وہاں کی بھی یہی حالت ہوگی۔ کانگریس کی حکومت میں بہار مافیا کا گڑھ رہا جن میں اکثریت کانگریس سے وابستہ تھی۔ یہ سب باتیں برسبیل تذکرہ آگئیں ورنہ موجودہ انتخابی نتائج پر مزید اور لکھا جانا چاہیے جس میں غلامانہ ذہنیت کا دخل نہ ہو۔ سوال یہ ہے کہ ان حالات میں کیا کیا جانا چاہیے؟ اس سنجیدہ سوال پر اہل دانش اور سیاست کے رموز و نکات اور ملک کی عمرانیات، جغرافیائی، لسانی اور مذہبی حالت سے واقف افراد مل بیٹھ کر سوچیں۔ ورنہ جیسا کہ آزادی کی جنگ اور تقسیم ہند پر الیاس اعظمی نے جو لکھا ہے کہ مدارس کے سادہ لوح علما ان لوگوں سے واقف ہی نہیں تھے جو اس جد و جہد میں ان کے ساتھ تھے جس کانتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔ جو قوم سیاست کی سمجھ نہ رکھنے والے سادہ لوح افراد کی سیاسی دخل اندازی کا انجام ۱۹۴۷ میں بھگت چکی ہے، اب اس میں اتنی قوت نہیں کہ مزید کسی سادہ لوحی کی وجہ سے ایک نئے طوفان میں گھر جائے۔
(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں اور مختلف اخبارات میں ان کے کالم و مضامین شائع ہوتے ہیں)

 

***

 تین ریاستوں سمیت اتر پردیش میں بی جے پی کی فتح سے ایسا ہاہاکار مچایا جارہا ہے جیسے اب مسلمانوں کی خیر نہیں۔ یہ رویہ کسی ایسی قوم کا تو ہو ہی نہیں سکتا جس نے دنیا کی ایک ہزار سال سے زیادہ امامت کی ہو اور پوری دنیا میں جس کا طوطی بولتا تھا۔ عالم اسلام نے بڑے سے بڑے دباؤ اور طوفانوں کا مقابلہ کیا ہے اور اس سے وہ نکل کر پھر پورے عالم پر چھا گئے ہیں۔ مسلمان اس وقت بھی جب منگولوں کے نرغہ میں تھے انہوں نے ہوش و حواس کو برقرار رکھا اور منگولوں کو شکست دے کر اپنا کردار بحال کیا۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  20 تا 26 مارچ  2022