سیشن کورٹ کا فیصلہ:ظالم کےخلاف عدلیہ سے وَفا کی اُمید
ظفرعاقل،تلنگانہ
تسلیم کیا جانا چاہیے کہ عدلیہ کی جانب سے حکومتی اقدامات پر جو نگاہ رکھی جاتی ہے اور ضرورتاً قدغن بھی لگائی جاتی ہے اس سے اصلاً عوام کا بھلا ہوتا ہے اور حکومت کے کام کاج کا سدھار ہوتا ہے۔ عدلیہ کی تاریخ میں ایک سنہرے باب کا ابھی حال ہی میں اضافہ ہوا ہے جب ورا ورا راو اور دِشا روی کی ضمانت عرضی کو منظوری ملی اور انہیں جیل کی کال کوٹھڑی سے نیلے آسمان کی چھت تلے سکھ کی سانس لینے کا موقع دیا گیا اور ان کی آزادی فکر کو تسلیم کیا گیا۔ عدلیہ نے شہریوں کو دستور ہند کی جانب سے حاصل حریت فکر کو ختم کرنے والی گھناؤنی حکومتی حرکتوں پر لگامیں کسی ہیں اور اس کو پولیس اور سرکار پر قانون کا زور دار طمانچہ تسلیم کیا جا رہا ہے۔ ان فیصلوں کو عدلیہ کی تاریخ کا سنگ میل بھی کہا جا رہا ہے۔ ایک طرف عمر رسیدہ اور مضمحل قویٰ رکھنے والے حیدراباد کے ورا ورا راؤ اور دوسری جانب جوش بھری جوانی کی حدوں میں نو وارد بنگلورو کی دِشا روی پر حکومت نے ملک سے بغاوت کا جو فرد جرم عائد کیا تھا اس سے یہ پیغامِ عام دیا گیا تھا کہ حکومت کے ہاتھ کسی کے بھی گریباں تک پہنچ سکتے ہیں اور اس میں عمر کی کوئی قید نہیں ہے۔
پابندی کی زنجیروں سے جکڑنے کی حکومت کی کوششوں پر عدلیہ نے شہریوں کو حریت فکر کے حق کو محکم کیا ہے اور حکومت کو تنبیہ بھی ہے کہ ملک کی عوام پر جب چاہے اور جس پر چاہے اپنی مرضی مسلط نہیں کر سکتی اور نہ انہیں پابند سلاسل کیا جا سکتا اور ملک سے بغاوت جیسے سنگین جرم کا شکار نہیں بنایا جا سکتا۔ ایک طرف بمبئی ہائیکورٹ نے راؤ کو آزاد کیا تو دوسری طرف دہلی سیشن جج دھرمیندر رانا نے تاریخ ساز فیصلہ سناتے ہوئے دِشا کی ضمانت کی عرضی کو قبول کیا اور اسے پروانہ آزادی عطا کیا ہے۔
قانون کے میدان میں ان فیصلوں کے دُور رس اثرات اور نکات پر بحث و مباحثہ جاری ہے اور ان کو حکومت پر عدلیہ و قانون کا ایک طرح کا سبق مانا جا رہا ہے۔ Liberty & Freedom کے حقوق شہریوں کو عطا کیے گئے ہیں چناچہ اختلاف رائے رکھنے کی پاداش میں حکومت کی جانب سے من چاہے اقدامات نہیں کیے جاسکتے، وہیں ملک سے بغاوت اور سازش کے نام پر شہریوں کے حقوق چھین کر انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈھکیل دینا غیر قانونی عمل ہے۔ آزادی فکر، حریت فکر اور باہمی تبادلہ خیال اور اختلافِ رائے کو ملک میں فرد کی آزادی کا حق سمجھا جاتا ہے۔اسی طرح حکومت وقت کے خلاف احتجاج کرنے کے حق کو اور حکومت کی پالیسیوں پر پُر امن ردّ عمل کے حق کو بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ ملک کی آزادی ان ہی سارے مراحل کا حصہ تھی اور سب نے مل کر اس ملک کو بیرونی آقاؤں کی قید سے چھٹکارا دلایا تھا۔ چنانچہ فرد کے ان تمام حقوق کو ختم کرنے کی کوشش اصل میں ایک نا مطلوب و نا مسعود سعی ہے اور بالفرض اس میں کوئی صاحبِ اقتدار کامیاب ہو جاتا ہے تب یہ جمہوری ملک آمرانہ لب و لہجہ اختیار کر لے گا اور ہندستان کے باشندے شہری سے کسی ڈکٹیٹر یا مہاراجہ کی رعایا بن جائیں گے۔ اسی لیے ایسی تمام نامعقول حکومتی حرکتوں پر لگام لگانے اور پابند دستور بنانے کی ضرورت جتنی آج محسوس کی جا رہی ہے اُتنی تشنگی پہلے کبھی نہیں ہوئی ہے۔ دِشا رَوی کیس میں ضمانت عرضی کی منظوری پر سینیر ایڈووکیٹ مہیش جیٹھ ملانی نے کہا ہے کہ ناکافی اور سرسری ثبوتوں پر دِشا رَوی کی گرفتاری ضرورت سے زیادہ قانونی زور آوری کا نتیجہ ہے اور اس طرح ملک سے بغاوت کے نام پر حکومت کی جانب سے کارروائی کرنا اصل میں "قومی اقدار” اور "قانونِ بغاوت” ہر دو کو بد نام کر دیتا ہے۔ قانون کو دراصل طاقت (Muscles) اور رحم دلی (Compassion) کا مظہر ہونا چاہیے۔ سپریم کورٹ کے مشہور وکیل اور سماجی جہد کار پرشانت بھوشن نے اس پر اطمینان کا اظہار کیا ہے کہ اس گئے گزرے دور میں بھی ہماری عدلیہ میں ایسے بیدار مغز جج ابھی باقی ہیں جو آزادی فکر کے قانونی حق کو تسلیم کرتے ہیں اور صرف استثنائی صورتحال میں ضمانت کی عرضی کو رَدّ کرنا مناسب گردانتے ہیں۔ دِشارَوی کے کیس میں جج رانا کے فیصلہ کو سراہا جا رہا ہے اور جن نکات کو رانا نے اپنے تاریخ ساز فیصلہ میں شامل کیا ہے اس کے دُور رس اثرات مستقبل کی ایسی کسی غلط اور غیر قانونی کوششوں کی روک تھام کا باعث بنیں گے۔ جج دھرمیندر رانا کے Verdict میں ہے کہ ملک کے شہریوں کو حکومت کی پالیسیوں کے خلاف جانے پر جیل کی سلاخوں کے پیچھے نہیں ڈالا جا سکتا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ بات کسی کو قابل مواخذہ نہیں بناتی کہ اُس کے تعلقات یا میل ملاپ مشکوک شہرت رکھنے والے افراد سے ہیں۔ دیکھا یہ جائے گا کہ ان تعلقات کے پس پردہ مقاصد کیا ہیں۔ اگر مقاصد مذموم اور قابل گرفت ہیں تب مواخذہ مناسب ہوگا۔ کسی فرد میں علیحدہ پسندی کے جانچنے کا پیمانہ یہ نہیں ہو سکتا ہے کہ وہ کسی ایسے شخص سے جو کسی قانون کی مخالفت کرتا ہو کوئی پلاٹ فارم شیر کیا ہے۔ فیصلے میں یہ اہم نکتہ بھی اجاگر کیا گیا ہے کہ بغاوت کا مقدمہ صرف اس لیے نہیں چلایا جا سکتا کہ کسی سے گھمنڈی سرکار کے غرور کو چوٹ پہنچی ہے۔ اس طرح کی انتقامی کارروائی غیر قانونی ہے۔ قانونِ بغاوت کا اطلاق اس وقت ہو گا جب کسی ایسی فکر کے ساتھ تشدد بھی پایا جائے۔ صرف فکر کو بنیاد بنا کر Sedition کے ہتھیار سے ہلاک نہیں کیا جائے گا۔
جج رانا نے دستور کی دفعہ 19 کا تذکرہ کیا اور کہا کہ اختلاف رائے رکھنے کا حق ایک مقدس حق ہے۔ نیز بولنے اور اظہار رائے کی آزادی کے حدود ہندستان کی حدوں سے پار بھی قائم ہیں اس پر حد بندی غلط متصور ہو گی۔ کہا گیا ہے کہ کوئی Watsapp گروپ بنانا یا کسی ٹول کٹ کا ایڈیٹر ہونا کوئی جرم نہیں ہے کہ اس کا مواخذہ کیا جائے۔ جج رانا کے فیصلہ میں درج ہے کہ خیالات کے اختلاف۔۔ اور اس میں تضاد۔۔ یا عدم اتفاق کا پایا جانا یا پھر۔۔ کسی معاملے میں ایک کا دوسرے سے مختلف ہونا۔۔ یا منفرد ہونا ۔۔اسی طرح کسی نظریہ خیال ۔۔یا فکر کو۔۔ ناپسندیدہ تسلیم کرنا ۔۔یا مذمت کرنا ۔۔۔وغیرہ اصل میں یہ وہ جائز اوزار (Legitimate Tools) ہیں جن سے یہ ذہن نشین ہوتا ہے کہ حکومت کی پالیسیوں میں مقصدیت کس اعتبار کی ہے۔۔ اور آیا ہے بھی کہ نہیں ہے۔ دِشا رَوی کیس کے اس تاریخ ساز فیصلہ میں کھل کر سامنے آیا ہے کہ ایک بیدار مغز اور خود اعتماد شہری ایک مضبوط اور صحت مند جمہوریت کی ناقابل تردید نشانی ہوا کرتا ہے اور ایسے لوگ اُن شہریوں سے بہتر ہوتے ہیں جو دبے ہوئے، سہمے ہوئے اور کسی ردعمل کا اظہار کرنے کی بجائے خاموش پڑے رہنا پسند کرتے ہیں۔ اصل میں ملک کا شہری ملک کا چوکیدار ہوتا ہے اور وہ ہر وقت نگاہ رکھتا ہے کہ ملک اور حکومت صحیح رُخ پر جا رہے ہیں یا کسی اور راہ پر مڑ گئے ہیں۔ اور ایسی بیدار نگاہ رکھنے والے بہترین خود اعتماد شہریوں (Aware & Assertive Citizenry) کو جیل میں صرف اس لیے نہیں ڈالا جا سکتا کہ وہ حکومت کی پالیسیوں کے خلاف ہیں۔
دِشارَوی کے کیس میں ایسے کوئی ثبوت پیش نہیں کیے جا سکے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی تشدد میں ملوث رہی ہو اور صرف ثبوت کو اکھٹا کرنے کے لیے کسی کو جیل میں رکھنا صحیح نہیں ہے۔ دِشا رَوی نے 20 فبروری کو کورٹ میں کہا کہ کسانوں کے حق میں بولنا اگر گناہ ہے تو اسے جیل میں رہنا پسند ہے بجائے اس کے کہ کسانوں کے مطالبہ کو غلط باور کیا جائے اور انہیں دیش دروہی یا خالصتانی یا ماؤ وادی بنا دیا جائے۔جج نے کہا کہ پولیس کے ثبوت آدھے ادھورے ہیں۔چناچہ عدالت نے پولیس کے سارے دعوے خارج کر دیے۔ 26 جنوری بابت جتنے لوگ گرفتار ہوئے اُن میں کسی نے دِشا سے اپنے کسی تعلق کا تذکرہ نہیں کیا ہے۔
جہد کار شانتونو کے 26 جنوری کو دلی آنے میں بھی کوئی برائی نہیں ہے۔ 28 جنوری کے تشدد بھڑکانے کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا جا سکا ہے۔ اس طرح کی غلط، بودی اور بے بنیاد چیزوں کو ثبوت کے نام پر پولیس پیش کرتی ہے اور ملزم سالوں جیل کی چار دیواری اور عدالتوں کے چکر کاٹ کر اپنی عمر، نیک نامی اور اپنے خاندان کی بربادی کا باعث بن جاتا ہے اور جب قید سے باہر آتا ہے تب تمام خسارے اور نقصان کا کوئی ذمہ دار بھی عدالت کے سامنے نہیں لایا جاتا ہے۔ ورا ورا راؤ کو ین آئی اے نے کئی سال بنا کسی ٹھوس ثبوت کے قید کر کے بوڑھی ہڈیوں پر ظلم ڈھایا ہے۔ کوئی اس کا جواب دہ سامنے کیوں نہیں لایا جاتا؟ ننھے ننھے بچوں کی جان بچانے والے ڈاکٹر کفیل خان کے خلاف حکومت کی بد نیتی روزِ روشن کی طرح عیاں تھی اور اس کو عدالت کے حکم پر ہی قید سے نجات مل سکی۔ اس طرح کے تمام معاملات میں قانونی ریفارمس کی اشد ضرورت ہے۔ ہمارے ملک کی موجودہ یا سابقہ حکومت ہر کسی نے ان ظالمانہ قانون کا سہارا لے کر بربریت اور سفاکیت کی تمام حدیں توڑ دی ہیں۔ اس طرح کے قوانین نام بدل بدل کر ہر زمانے میں بنائے جاتے رہے ہیں اور ملک کے شہریوں کی شہ رگ کاٹنے کا رذیل کام انجام دیا جاتا رہا ہے۔سیشن کورٹ کے اس فیصلے میں جج دھرمیندر رانا نے رِگ وید کے اشلوک کو پیش کیا جس میں کہا گیا کہ اس ملک کی پانچ ہزار سالہ روایت رہی ہے کہ ملک میں چاروں اطراف سے آنے والے خیالات و نظریات کو ہم روکنے کا جرم نہیں کرسکتے اور یہ خیالات ایسے ہوتے ہیں جو کسی سے دبتے نہیں ہیں بلکہ ایسے خیالات نہ معلوم کو ظاہر کرنے والے ہوتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا سابقہ کانگریس حکومت کے بالمقابل موجودہ تبدیلی سے عوام خوش اور مطمئن ہیں؟ جو اندھے بھکت ہیں وہ جہاز کے ڈوبنے تک اپنی کھوپڑی میں موجود مغز کو یہی دلاسہ دیتے رہیں گے کہ سب کچھ مست مست ہے۔چاہے ملک میں ہر طرف اندھکار ہی کیوں نہ چھا جائے۔ مذکورہ سوال کے جواب کی تلاش وجستجو کا ایک راستہ تو یہ ہے کہ جن اُمور پر سابقہ حکومت کے خلاف سوال کھڑے کیے گئے اور حکومت چھینی گئی کیا ان امور کو بہتر کر دیا گیا ہے؟ کیا عوام سے کیے گئے وعدوں کی تکمیل کردی گئی ہے اور جو خرابیاں سابقہ حکومتوں میں موجود تھیں کیا ان کی اصلاح ہو گئی ہے اور ملک اب تعمیری رخ پر آگے بڑھ رہا ہے؟ وہ بہترین کام جو سابقہ حکومتیں انجام دینے میں ناکام رہی تھیں کیا ان کو موجودہ حکومت نے پائے تکمیل تک پہنچا دیا ہے اور اس کے بہترین نتائج سے عوام مستفید ہو رہے ہیں؟ اور اگر ایسا نہیں ہو سکا تب کیا عوامی تنقید کا خیر مقدم کیا جا کر بہترین کوششوں کا آغاز کیا گیا ہے۔ عوامی احتجاج وبے چینی اور اصلاحات کے مطالبوں پر حکومت کی جانب سے خیر مقدم اور ردّ عمل کی نوعیتیں مثبت رہی ہیں یا منفی؟ عوامی احتجاجی مظاہروں پر حکومت کرنے والوں کے احوال سابقہ حکمرانوں کی طرح ہیں یا اس سے سبق حاصل کیا گیا ہے؟ افسوس ہے کہ ان سوالات کا کوئی تعمیری پہلو اور غلطیوں کی اصلاح کا تعمیر ی جذبہ سامنے نہیں آسکا ہے۔ اس کے برعکس موجودہ حکومت کا اہنکار ہے جو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 7 مارچ تا 13 مارچ 2021