حضورؓ کی چچی جنہیں قدیم الاسلام ہونے کا شرف حاصل ہے
غزوہ بدر (رمضان المبارک ۲ ہجری) میں قریش کی ذلت آمیز ہزیمت کی خبر مکہ معظمہ پہنچی تو وہاں گھر گھر صف ماتم بچھ گئی۔ بدبخت ابولہب کی حالت تو دیکھی نہ جاتی تھی۔ فرط الم نے اس کو اتنا نڈھال کردیا کہ چلتے ہوئے قدم لڑکھڑاتے تھے ۔ اسی حالت میں وہ لڑائی کے حالات دریافت کرنے کے لیے گھسٹتا گھسٹاتا اپنے بھائی عباس بن عبدالمطلب کے گھر پہنچا، جو مشرکین کے ساتھ مسلمانوں سے لڑنے گئے اور لڑائی میں شکست کھانے کے بعد مسلمانوں کے قیدی بن چکے تھے۔ وہ حضرت عباسؓ کے گھر جاکر ان کے غلام ابو رافعؓ کے قریب بیٹھ گیا، جو تیر سازی میں مصروف تھے۔ اتنے میں کسی نے کہا ’’وہ ابو سفیان بن حارث (حضورؐ کے عم زاد بھائی اور ابو لہب کے بھتیجے جو ابھی مشرف بہ اسلام نہیں ہوئے تھے) بدر سے ابھی ابھی واپس آئے ہیں ان سے لڑائی کے حالات معلوم کرنے چاہئیں‘‘۔ ابو لہب نے انہیں آواز دی،’’بھتیجے ذرا یہاں میرے پاس تو آو‘‘۔ وہ آئے تو ابو لہب نے پوچھا ۔ برادر زادے! کہو وہاں کیا گزری؟ ابوسفیان کہنے لگے:
واللہ مسلمانوں کے سامنے ہماری بے بسی کا یہ عالم تھا جیسا مردہ غسال کے سامنے بے بس ہوتا ہے۔ انہوں نے جس کو چاہا تہہ تیغ کردیا اور جس کو چاہا اسیر بنالیا۔ ایک عجیب نظارہ ہم نے یہ دیکھا کہ ابلق گھوڑوں پر سوار سفید پوش آدمیوں نے مار مار کر ہمارا بھرتا بنادیا۔ معلوم نہیں یہ کون تھے‘‘
ابو رافعؓ نے فوراً کہا ’’وہ فرشتے تھے‘‘
یہ سن کر ابو لہب بھڑک اٹھا اور ابو رافعؓ کے منہ پر زور سے ایک طمانچہ رسید کردیا۔ ابو رافعؓ سنبھل کر اس سے گتھم گتھا ہوگئے لیکن کم زور تھے، ابولہب نے انہیں زمین پر دے مارا اور بے تحاشا پیٹنا شروع کردیا۔ قریب ہی ایک خاتون بیٹھی تھیں وہ اس منظر کی تاب نہ لاسکیں فوراً اٹھیں اور ایک موٹا سا لٹھ لے کر اس زور سے ابولہب کو مارا کہ اس کے سر سے خون کا فوراہ چھوٹ پڑا ۔ پھر کڑک کر بولیں:
’’بے حیا اس کا آقا یہاں موجود نہیں ہے اور تو اس کو کمزور سمجھ کر مارتا ہے‘‘
ابو لہب کو اس خاتون کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہ پڑی اورکان دبا کر وہاں سے چل دیا۔ یہ غیرت مند اور بہادر خاتون، جنہوں نے ابولہب جیسے دشمن اسلام اور دشمن خدا کو ایسی رسوائی اور ذلت سے دوچار کیا، حضرت عباسؓ کی اہلیہ (اور ابولہب کی بھاوج) حضرت لبابۃ الکبریؓ تھیں۔ بعض روایتوں میں ہے کہ یہ واقعہ چاہ زمزم کی چار دیواری کے اندر پیش آیا جس کے قریب ہی حضرت عباسؓ کا مکان تھا۔
حضرت لبابہ بنت حارثؓ جو بالعموم اپنی کنیت ’’ام الفضل‘‘ سے مشہور ہیں، نہایت جلیل القدر صحابیات میں شمار ہوتی ہیں۔ کبریٰ ان کا لقب ہے۔ اس لیے اہل سیر نے ان کا نام لبابۃ الکبریٰ بھی لکھا ہے۔ ان کا تعلق بنو ہلال سے تھا۔ سلسلہ نسب یہ ہے:
ام الفضل لبابۃ بنت حارث بن حزن بحیر بن الحرام بن روبیہ بن عبداللہ بن ہلال بن عامر بن صعصعہ۔ والدہ کا نام ہند (یا خولہ) بنت عوف تھا جو بنو کنانہ یا حمیر سے تھیں۔
حضرت ام الفضل لبابہ رضی اللہ عنہا کی شادی عم رسول حضرت عباسؓ بن عبدالمطلب سے ہوئی۔ اس نسبت سے وہ حضورؐ کی چچی تھیں۔ ان کی حقیقی بہن حضرت میمونہ (رضی اللہ عنہا) بنت حارث کو ام المومنین بننے کا شرف حاصل ہوا۔
حضرت ام الفضلؓ کی ایک اخیافی بہن حضرت اسما بنت عمیسؓ کی شادی حضرت جعفر (طیارؓ) بن ابی طالب (حضورؐ کے عم زاد بھائی) سے ہوئی۔ ایک تیسری بہن سلمیٰ کی شادی حضورؐ کے دوسرے چچا حضرت حمزہ بن عبدالمطلبؓ سے ہوئی۔ لوگ حضرت ام الفضل کی والدہ ہند بنت عوف پر رشک کرتے تھے کہ سمدھیانے کے لحاظ سے کوئی عورت ان کے ہم پلہ نہیں تھی۔
خواتین میں سب سے پہلے رسول کریم ﷺ پر ایمان لانے کا شرف حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کو حاصل ہوا۔ ان کے بعد معتبر روایات کی رو سے حضرت ام الفضل لبابہؓ کو اس نعمت عظمی کے حصول کا شرف حاصل ہوا اس لحاظ سے وہ السابقون الاولون میں نہایت ممتاز درجہ رکھتی ہیں۔ حضرت ام الفضل نے اپنے شوہر حضرت عباسؓ کے (اعلانیہ) قبول اسلام کے بعد مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ یہ ہجرت فتح مکہ سے کچھ عرصہ پہلے ہوئی۔
حضرت ام الفضل ؓ بڑی بہادر اور غیرت مند خاتون تھیں۔ چناں چہ ایک موقع پر انہوں نے ابو لہب کو لٹھ مار کر اس کا سر کھول دیا۔ (اس کی تفصیل اوپر آچکی ہے) انہیں رسول اکرمﷺ سے بے حد محبت اور عقیدت تھی اور حضورؐ کو بھی اپنی عمہ محترمہ سے بڑا تعلق خاطر تھا۔ آپ اکثر ان کے گھر تشریف لے جاتے تھے، اگردوپہر کا وقت ہوتا تو وہیں آرام فرماتے تھے۔
حضرت ام الفضل ؓ نہایت پرہیز گار اور عبادت گزار تھیں۔ بعض روایتوں میں ہے کہ وہ ہر دوشنبہ اور پنچ شنبہ کو بالا لتزام روزہ رکھتی تھیں۔ علامہ ابن عبدالبرؒ نے استیعاب میں لکھا ہے کہ حضورؐ فرمایا کرتے تھے کہ ام الفضلؓ ، میمونہؓ ، سلمیؓ اور اسماؓ چاروں مومنہ بہنیں ہیں۔
ایک مرتبہ حضرت ام الفضل (رضی اللہ عنہا) نے خواب میں دیکھا کہ رسول اکرمﷺ کے جسد اقدس کا کوئی حصہ ان کے گھر میں ہے۔ انہوں نے اپنے خواب حضورؐ کے سامنے بیان کیا تو آپؐ نے فرمایا ۔ ’’اس کی تعبیر یہ معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ میری لخت جگر فاطمہؓ کو فرزند عطا کرے گا اور تم اس کو اپنا دودھ پلاو گی‘‘۔
کچھ عرصے بعد حضرت فاطمہ الزہراؓ کے فرزند حضرت حسین (رضی اللہ عنہ) پیدا ہوئے۔ حضرت ام الفضل ؓ نے انہیں اپنا دودھ پلایا اور ان کی کفیل بن گئیں، اس لیے سارا خاندان نبوت حضرت ام الفضل ؓ کی بہت عزت و تکریم کرتا تھا۔ ایک دن حضرت ام الفضل ؓ ، حضرت حسینؓ کو اپنی گود میں لیے ہوئے حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ آپؐ نے اپنے پیارے نواسے کو ان کی گود سے لے لیا اور پیار کرنے لگے۔ ننھے حسینؓ نے حضورؐ کی گود میں پیشاب کردیا۔ حضرت ام الفضل ؓ نے انہیں فوراً حضورؐ کی گود سے لے لیا اور جھڑک کرکہا: ’’اے ننھے یہ تو نے کیا کیا۔ رسول اللہ کی گود میں پیشاب کردیا‘‘۔
رسول کریم ﷺ کو ام الفضل کا اتنا جھڑکنا بھی گوارا نہ ہوا اور آپ نے فرمایا :’’ام الفضل تو نے میرے بچے کو یوں ہی جھڑکا جس سے مجھے تکلیف ہوئی‘‘ اس کے بعد آپؐ نے پانی منگوا کر لباس مبارک کا پیشاب آلود حصہ دھلوادیا۔
حجۃ الوداع کے موقع پر حضرت ام الفضلؓ کو رحمت عالم ﷺ کی ہم رکابی میں حج کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ صحیح بخاری میں ہے کہ عرفہ کے دن بعض لوگوں نے خیال کیا کہ حضورؐ روزہ سے ہیں۔ جب حضرت ام الفضلؓ کو ان لوگوں کا یہ خیال معلوم ہوا تو انہوں نے ایک پیالہ دودھ کا حضورؐ کی خدمت میں بھیجا۔ آپؐ نے دودھ پی لیا۔ اس سے لوگوں کا شک دور ہوگیا۔
حضرت ام الفضل نے حضرف عثمان ذوالنورین کے عہد خلافت میں اپنے شوہر (حضرت عباسؓ) کے سامنے ہی وفات پائی ۔ نماز جنازہ حضرت عثمانؓ نے پڑھائی۔
حضرت ام الفضلؓ کے بطن سے حضرت عباس ؓ کی سات اولادیں ہوئیں۔ چھ بیٹے فضلؓ عبداللہ، عبیداللہ، معبدؓ ، قثمؓ، عبدالرحمن ؓ اور ایک بیٹی ام حبیببہ۔ ارباب سیر نے لکھا ہے کہ یہ ساری اولادیں نہایت قابل تھیں۔ بالخصوص حضرت عبداللہؓ اور حضرت عبیداللہؓ نے علم و فضل کے اعتبار سے اتنا بلند مرتبہ حاصل کیا کہ اساطین امت میں شمار ہوئے۔ علامہ ابن اثیر نے اسد الغابہ میں لکھا ہے کہ عبداللہ بن یزید الہلالی شاعر نے ایک دفعہ حضرت ام الفضل کی خوش بختی پر ان اشعار میں فخر کیا۔
و خاتم الرسل و خیرالرسل
حضرت ام الفضلؓ سے تیس احادیث مروی ہیں۔ ان کے روایوں میں حبرالامت حضرت عبداللہؓ اور دوسرے فرزندان عباسؓ اور حضرت انس بن مالکؓ جیسے جلیل القدر اصحاب شامل ہیں۔رضی اللہ عنہا
(طالب الہاشمی کی کتاب تذکار صحابیاتؓ سے ماخوذ)
***
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 20 تا 26 مارچ 2022