قدیم الاسلام ہونے اور شہادت کا اعزاز
رحمت عالم ﷺ نے بعثت کے بعد دعوت حق کا آغاز فرمایا تو وہی قریش مکہ جن کی زبانیں آپؐ کو ’’امین امین‘‘ کہتے نہیں تھکتی تھیں وہ نہ صرف آپؐ کے خون کے پیاسے بن گئے بلکہ جو شخص بھی دعوت حق پر لبیک کہتا اس پر بے تحاشا ظلم و ستم ڈھانا شروع کردیتے تھے۔ اس میں مرد یا عورت کی کوئی تخصیص نہ تھی۔ اسی زمانے میں سرور عالم ﷺ ایک دن بنو مخزوم کے محلے سے گزرے تو آپؐ نے دیکھا کہ کفار قریش نے ایک ضعیف العمر خاتون کو لوہے کی زرہ پہنا کر دھوپ میں زمین پر لٹا رکھا ہے اور پاس کھڑے ہوکر قہقہے لگارہے ہیں ساتھ ہی اس خاتون سے مخاطب ہوکر کہ رہے ہیں ’’محمدؐ کا دین قبول کرنے کا مزہ چکھ‘‘۔
مظلوم خاتون کی بے بسی دیکھ کر حضورؐ آبدیدہ ہوگئے اور ان سے مخاطب ہوکر فرمایا: ’’صبر کرو تمہارا ٹھکانا جنت میں ہے‘‘ ۔
راہ حق میں ظلم سہنے والی یہ خاتون جن کو سید المرسلین ﷺ نے صبر کی تلقین فرمائی اور جنت کی بشارت دی، حضرت سمیہ بنت خباطؓ تھیں۔
حضرت سمیہ بنت خباطؓ کا شمار نہایت بلند پایہ صحابیات میں ہوتا ہے انہوں نے راہ حق میں اپنے ضعف اور کبر سنی کے باوجود زہرہ گداز مظالم جھیلے یہاں تک کہ اپنی جان بھی اسی راہ میں قربان کردی اور اسلام کی سب سے پہلی شہید ہونے کا مہتمم بالشان شرف حاصل کیا۔
حضرت سمیہؓ کے آبا و اجداد میں صرف ان کے باپ ’’خباط‘‘ کا نام معلوم ہے ان کا وطن اور خاندان کون سا تھا اور وہ کب اور کیسے مکہ پہنچیں؟ کتب سیر ان سوالوں کا جواب نہیں دیتیں صرف اتنا پتہ چلتا ہے کہ وہ ایام جاہلیت میں مکہ کے ایک رئیس ابو حذیفہ بن المغیرہ مخزومی کی کنیز تھیں۔ یہ بعثت نبوی سے تقریباً پینتالیس سال پہلے کا ذکر ہے۔ اسی زمانے میں یمن سے ایک قحطانی النسل شخص یاسر بن عامر اپنے ایک مفقود الخبر بھائی کو تلاش کرتے ہوئے مکہ میں وارد ہوئے اور یہیں مستقل اقامت اختیار کرکے ابو حذیفہ بن المغیرہ کے حلیف بن گئے۔ اس نے حضرت سمیہ کی شادی یاسر بن عامر سے کردی ان کے صلب سے حضرت سمیہ ؓ کے دو بیٹے پیدا ہوئے۔ عبداللہؓ اور عمارؓ ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب رحمت عالمؓ بچپن اور جوانی کی منزلیں طے کررہے تھے۔ قیاس یہ ہے کہ حضورؐ کی حیات اقدس کا یہ سارا دور یاسرؓ ، سمیہ ، عبدللہؓ اور عمار کے سامنے گزرا اور انہوں نے حضورؐ کی عظیم ترین شخصیت اور اعلیٰ سیرت و کردار کا نہایت گہرا اثر قبول کیا کیوں کہ بعثت کے بعد حضور ؐ نے دعوت حق کا آغاز فرمایا تو اس سارے خاندان نے کسی تامل کے بغیر اس پر لبیک کہا۔ اس وقت ابو حذیفہ مخزومی کا انتقال ہوچکا تھا اور حضرت سمیہ ؓ اس کے ورثا کی غلامی میں تھیں۔ یہ اہل حق کے لیے بڑا پر آشوب زمانہ تھا۔ مکہ کا جو شخص اسلام قبول کرتا، مشرکین قریش کے غیظ و غضب اور لرزہ خیز جو رو تشدد کا نشانہ بن جاتا، مشرکین اس معاملے میں اپنے قریب ترین عزیزوں کا بھی لحاظ نہیں کرتے تھے۔ حضرت یاسرؓ اور ان کے لڑکے غریب الوطن تھے اور حضرت سمیہؓ کو بھی ابھی بنو مخزوم نے آزاد نہیں کیا تھا۔ ان بے چاروں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے میں مشرکین کو کوئی چیز مانع نہیں تھی۔ انہوں نے اس بے کس خاندان پر ایسے ایسے مظالم ڈھائے کہ انسانیت سر پیٹ کر رہ گئی۔ حضرت یاسرؓ اور حضرت سمیہؓ دونوں بہت ضعیف اور کبیر السن تھے مگر ان کی قوت ایمانی اور استقامت کا یہ عالم تھا کہ مشرکین ان کو طرح طرح کی دردناک تکلیفیں دیتے تھے اور شرک پر مجبور کرتے تھے لیکن ان کے قدم جادہ حق سے ایک لمحے کے لیے بھی نہ ڈگمگاتے تھے۔ یہی حال ان کے بیٹوں کا تھا۔ ان مظلوموں کو لوہے کی زرہیں پہنا کر مکہ کی جلتی تپتی ریت پر لٹانا، ان کی پشت کو آگ کے انگاروں سے داغنا اور پانی میں غوطے دینا کفار کا روز کا معمول بن گیا تھا۔ ایک مرتبہ سرور اعلمﷺ اس مقام سے گزرے جہاں ان مظلوموں کو عذاب دیا جارہاتھا۔ آپ کو اس پر سخت دکھ ہوا اور آپؐ نے فرمایا : ’’صبر کرو اے آل یاسرؓ تمہارے لیے جنت کا وعدہ ہے۔‘‘ ایک اور روایت میں ہے کہ حضورؐ نے ایک مرتبہ حضرت یاسرؓ، حضرت سمیہؓ اور ان کے بچوں کو مبتلائے مصیبت دیکھا تو آپؐ نے فرمایا : ’’صبر کرو، الہی آل یاسرؓ کی مغفرت فرمادے اور تو نے ان کی مغفرت کرہی دی‘‘۔ بوڑھے یاسرؓ یہ ظلم سہتے سہتے ایک دن جاں بحق ہوگئے لیکن مشرکین کو پھر بھی اس خاندان پر رحم نہ آیا اور انہوں نے حضرت سمیہؓ اور ان کے بچوں پر ظلم کا سلسلہ برابر جاری رکھا۔
ایک دن حضرت سمیہؓ دن بھر سختیاں سہنے کے بعد شام کو گھر آئیں تو ابوجہل نے ان کو گالیاں دینی شروع کردیں اور پھر اس کا غصہ اس قدر تیز ہوا کہ اپنا برچھا حضرت سمیہؓ کو کھینچ مارا۔ وہ اس وقت زمین پر گرگئیں اور اپنی جان، جان آفرین کے سپرد کردی۔ ایک روایت میں ہے کہ ابوجہل نے تیر مار کر حضرت سمیہؓ کے فرزند عبداللہؓ کو بھی شہید کردیا۔ اب صرف عمارؓ باقی رہ گئے تھے۔ ان کو اپنی والدہ کی مرگ بیکسی پر سخت صدمہ ہوا۔ روتے ہوئے سرور عالمؓ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور یہ واقعہ سناکر عرض کیا:
’’یا رسول اللہ اب تو ظلم کی انتہا ہوگئی۔‘‘
حضور نے ان کو صبر کی تلقین کی اورفرمایا :
’’اے اللہ آل یاسر کو دوزخ سے بچا۔‘‘
حضرت عمارؓ تو بیٹے تھے اس لیے ان کو والدہ کی مظلومانہ شہادت کبھی نہیں بھول سکتی تھی لیکن سرور کونینﷺ کو بھی ابوجہل کی شقاوت اور حضرت سمیہؓ کی مرگ بیکسی یاد رہی۔ چناں چہ غزوہ بدر (رمضان المبارک ۲ ہجری) میں ابوجہل جہنم واصل ہوا تو حضورؐ نے حضرت عمار بن یاسرؓ کو بلا کر فرمایا:
قد قتل اللہ قاتل امک
اللہ نے تمہاری ماں کے قاتل سے بدلہ لے لیا‘‘
حضرت سمیہؓ کی شہادت ہجرت نبوی سے کئی سال قبل واقع ہوئی اس لیے تمام اہل سیر نے انہیں اسلام کی شہید اول قرار دیا ہے۔
بناکر دند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن
خدا رحمت کند ای عاشقان پاک طینت را
رضی اللہ تعالیٰ عنہا
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 27 فروری تا 05مارچ 2022