سپریم کورٹ کا الہ آباد ہائی کورٹ کو 15 دن کے اندر ڈاکٹر کفیل خان کی رہائی کے بارے میں فیصلہ کرنے کا حکم
سپریم کورٹ نے منگل کے روز الہ آباد ہائی کورٹ کو ڈاکٹر کفیل خان کے سلسلے میں 15 دن کے اندر فیصلہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ ڈاکٹر کفیل خان کو شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاجات کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ نے کہا ’’کیس کی خوبیوں کی بنیاد پر تیزی سے سماعت کی جائے اور 15 دن کے اندر فیصلہ کیا جائے کہ آیا ڈاکٹر کفیل خان کو رہا کیا جاسکتا ہے یا نہیں۔‘‘
ڈاکٹر خان کو، جنھیں گورکھ پور کے بی آر ڈی میڈیکل کالج میں بچوں کے مرنے کے معاملے میں معزول کیا گیا تھا اور بعد میں ان کی خدمات بحال کردی گئی تھیں، اس سال 29 جنوری کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں مبینہ طور پراشتعال انگیز تقریر کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور ان پر شدید ترین قانونی دفعات عائد کردی گئی تھیں۔
گذشتہ ہفتے الہ آباد ہائی کورٹ نے مرکزی حکومت اور اتر پردیش سرکار سے اس معاملے میں اپنے جوابات داخل کرنے کے لیے کہا تھا۔ سماعت کے دوران جسٹس مونج مشرا اور دیپک ورما کی بنچ نے مذکورہ حکم دیا
عدالت نے اگلی سماعت کی تاریخ 19 اگست مقرر کی ہے۔
ڈاکٹر خان کے وکیلوں کا کہنا ہے کہ انھیں عدالت نے ضمانت دے دی تھی لیکن اس کے باوجود انھیں چار دن تک رہا نہیں کیا گیا اور اس کے بعد ان پر قومی سلامتی قانون کے تحت مقدمہ تھوپ کر جیل میں بند کردیا گیا۔ درخواست میں ڈاکٹر خان کو ضمانت کے باوجود رہا نہ کیے جانے کو چیلنج کیا گیا ہے۔
اس سے قبل کانگریس لیڈر پرینکا گاندھی اور ادھیر رنجن چودھری نے ڈاکٹر کفیل خان کو انصاف دیے جانے کا مطالبہ کیا تھا۔ پرینکا گاندھی نے یوپی کے وزیر اعلی کو خط لکھ کر کہا تھا کہ ڈاکٹر خان 450 دن سے زیادہ عرصے سے جیل میں ہیں اور وزیر اعلی کو اس امر کی نزاکت سمجھتے ہوئے انھیں انصاف دلانا چاہیے۔ انھوں کہا تھا: مجھے امید ہے کہ آپ حساسیت کا مظاہرہ کریں گے اور ڈاکٹر کفیل خان کو انصاف دلانے میں ہر ممکن کوشش کریں گے۔
ادھیر رنجن چودھری نے وزیر اعظم مودی کو خط لکھا تھا جس میں ڈاکٹر خان کی رہائی کی اپیل کی تھی۔ انھوں نے لکھا تھا کہ ڈاکٹر خان کے ساتھ سنگین ناانصافی برتی جارہی ہے۔