فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ نے 10 فروری کے جامعہ تشدد میں پولیس اہل کاروں کے ذریعے طلبا پر جنسی زیادتی کی تصدیق کی

 

نیشنل فیڈریشن آف انڈین ویمن (این ایف آئی ڈبلیو) کی ایک فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 10 فروری کو جامعہ ملیہ اسلامیہ پر حملہ کرکے پولیس اہل کاروں نے کم از کم 45 طلبا کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔ پولیس نے طلبا اور علاقے کے باشندوں پر بہیمانہ حملہ کیا، جب کہ وہ تمام لوگ شہریت ترمیمی قانون، این آر سی اور این آر پی کے خلاف پرامن احتجاج کررہے تھے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تقریبا 15 خواتین اور 30 مردوں کے پوشیدہ اعضا پر حملہ کیا گیا۔
این ایف آئی ڈبلیو کے مطابق، "جامعہ میں حملے کے دوران خواتین سے مرد پولیس اہل کاروں نے چھیڑ چھاڑ کی، انھوں نے ان کے کپڑے پھاڑنے کی کوشش کی، سینوں پر مکے مارے یا اپنے جوتوں سے انھیں کچلا، یہاں تک کہ ان کے پوشیدہ اعضا میں لاٹھیوں سے حملہ کیا۔ کم از کم 15 خواتین پر ان کے پوشیدہ اعضا میں حملہ کیا گیا تھا،  جس کے باعث انھیں اندرونی زخم آئے۔”
درد اور تکلیف کے باعث انھیں حملے کے بعد ہفتوں تک آرام نہیں آیا۔ 16 سال کی عمر کی لڑکیوں سے لے کر 60 سال کی عمر کی خواتین تک پر جنسی تشدد کیا گیا۔ ایک خاتون جن کا پہلے سیزرین ڈلیوری کے لئے آپریشن کیا گیا تھا، وہ پولیس سے التجا کرتی رہیں کہ انھیں نہ مارا جائے، لیکن پولیس اہل کار نہیں رکا ییہاں تک کہ کسی نے اسے پیچھے کھینچ لیا۔
مردوں پر جنسی حملہ بھی اتنا ہی شدید تھا۔ ان کی کمر اور پشت پر حملے کے نتیجے میں انھیہں شدید چوٹیں آئیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انھیں طلبا کی میڈیکو لیگل کیس (ایم ایل سی) کی رسائی نہیں مل سکی، لہذا انہوں نے پولیس حملے کے متاثرہ طلبا کی جانب سے دی گئی معلومات پر انحصار کیا ہے۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ "یونیورسٹی کے طلبا اور اساتذہ کی گواہیوں سے نہ صرف پولیس کی بربریت سامنے آئی ہے بلکہ مذکورہ حملے میں سادہ لباس اور پولیس کی جعلی وردیوں میں ملبوس حملہ آور بھی اجاگر ہوئے ہیں۔ رپورٹ میں جامعہ کے طلبا اور اساتذہ نے پرامن مظاہرین پر کیمیائی گیس کے استعمال نیز خواتین پر تارگٹ کرکے جنسی تشدد کا نشانہ بنائے جانے کا الزام عائد کیا ہے۔“