برہان احمد صدیقی
نیند پوری نہیں ہوئی تھی، بستر چھوڑنے کا من نہیں تھا، خوف نے سونے نہیں دیا تھا، بَپا رات شراب پی کر آیا تھا، مائی سے لڑائی کی تھی، میں ڈری سہمی کونے میں چھپی تھی، جھونپڑی کے دِیا میں بپا کی لال آنکھیں بڑی خوفناک لگ رہی تھیں، میں اسی خوف میں جانے کب سوگئی۔ مائی اٹھا رہی تھی، منی جلدی کر، بس اسٹینڈ ۱۰ بجے تک خالی ہو جاتا ہے پھر بھیک نہیں ملے گی۔ آنکھ ملتی، منہ پسارتی میں مائی کے پیچھے پیچھے چل پڑی، بھوک سے برا حال تھا، کاکا کی ہوٹل پر ناشتہ کرنے والوں کی بھیڑ تھی، ان کا بھتیجا بابو مجھے ناشتہ کراتا تھا لیکن وہ گراہک کی خدمت میں لگا ہوا تھا۔ مائی بس اسٹینڈ کے گیٹ کے پاس تپڑ بچھا کر بیٹھ گئی، میری سہلن بھی بھیک مانگ رہی تھیں، مائی مجھے بھیک مانگنے نہیں دیتی تھی، بس اپنے پاس بٹھاتی، جب دھوپ پڑتی، اپنے آنچل میں چھپا لیتی۔
جب بھی اسکول کے بچوں کی بس گزرتی میں اٹھ کر انہیں ٹاٹا بائی بائی ضرور کرتی۔ میری ایک سہلن تھی، بس کی کھڑکی سے مجھے ضرور ٹاٹا کرتی، میں اس کا نام نہیں جانتی تھی، وہ اکثر ایک جیسے شرٹ میں دِکھتی تھی، لیکن اسکے کپڑے صاف ہوتے، بالوں میں کنگھی اور چٹیا بھی نظر آتی۔ کپڑا میرا بھی ایک جیسا ہی ہوتا کیونکہ میرے پاس ایک ہی فراک تھا۔ مائی مجھے صرف اتوار کو تیل لگا کر چٹیا ڈالتی تھی، اس دن ہم بس اسٹینڈ نہیں آتے تھے۔
مائی کیا تو بچپن میں اسکول جاتی تھی؟ کیسا ہوتا ہے اسکول؟ ان کے جھَولے میں کیا ہوتا ہے؟ مائی نے بہت اداس ہو کر میری طرف دیکھا، ہاں منی! ابا لے جاتے تھے، سائیکل پر بٹھا کر، پڑھائی ہوتی اسکول میں، کھیلنے کا بھی ٹائم ملتا ہے، میں پڑھنے میں اچھی تھی لیکن ابا کی موت کے بعد سب بدل گیا منی! وہ نہیں رہے، ان کی موت کے ساتھ میرا سب کچھ ختم ہو گیا۔ رشتہ داروں نے بوجھ سمجھا، جلد ہی بیاہ کرادیا، پھر تیرے بَپا کے پاس چلی آئی۔ اس نے بھی جوتے کی نوک پر ہی رکھا۔ غریب کی زندگی ایسی ہوتی منی۔ مائی کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے، وہ رونے لگی، مائی مت رو۔ اپنے لئے نہیں روتی منی، تیری فکر لگی رہتی ہے تیرا سوچ سوچ کر روتی ہوں۔ مائی آنسو پوچھتی رہی اور بولتی رہی، میں زیادہ سمجھ نہیں پائی۔
رات جھونپڑی میں بَپا پھر غصے میں مار پیٹ کر رہا تھا، میں کونے میں دبک گئی، میں سوچ رہی تھی نانا مائی کو سائیکل سے اسکول لے جاتے تھے، کتنے اچھے باپ تھے وہ ! میرے بپا ایسے کیوں نہیں،’’ سوچتی ہوں : دوبارہ پیدا ہو جاوں‘‘ ایسے گھر میں جہاں سے میں اسکول جا سکوں! لیکن مائی یہی ہو، میری بیچاری مائی! معصوم منی!
—
ماں! میری دنیا میرا جہاں پیدا ہوئی ابا جان انتقال کر چکے تھے، ماں بہت محبت سے مجھے پال رہی تھی، ہم اکیلے رہتے تھے کرائے کا چھوٹا سا گھر تھا، سنا تھا: میرے رشتے دار بھی ہیں لیکن میں نے انہیں کبھی دیکھا نہیں تھا، ابا کے انتقال کے بعد ماں کو رشتے داروں نے چھوڑ دیا تھا اسے بھی کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانا پسند نہیں تھا، کہتی تھی بیٹی! عزت بڑی نعمت ہے، کسی کے سامنے ہاتھ پھیلا کر اسے نیلام نہیں کرتے۔
وہ پاس کی کالونی میں کام کرتی لوگوں کے گھر جھاڑو پوچھا لگاتی، برتن دھوتی، گھر کا کرایہ دیتی اور مجھے پابندی سے اسکول بھیجتی۔ میرے امتحان نزدیک تھے فیس بھرنی تھی، ٹیچر روزانہ کلاس میں سب کے سامنے کھڑے کر کے مجھ سے فیس ادا کرنے کو کہتی اور میں سر جھکائے ان کی ڈانٹ سن لیتی۔ میرے کلاس کی لڑکیاں منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنستیں اور میرا مذاق اڑاتیں، پچھلے چار دنوں سے روزانہ یہ ڈرامہ ہو رہا تھا ۔
گزشتہ رات میں ماں پر خوب چیخی چلائی۔ ماں اگر فیس نہیں بھر پا رہی ہو تو مجھے اسکول کیوں بھیجتی ہو؟ میں اسکول نہیں جاؤں گی۔ میرے اس جملے پر وہ غصہ ہوگئی مجھے ایک تھپڑ لگا دیا، آج ماں نے پہلی بار مجھے مارا تھا، میں تکیے میں منہ دبا کر روتی رہی، میں سوچ رہی تھی، ہم اتنے غریب کیوں ہیں میرے ابا اللہ کے پاس اتنے جلدی کیوں چلے گئے؟ میری ماں فیس کیوں نہیں ادا کر رہی ہے؟ کھانے میں بھی روز باسی کھانا کھا کھا کر میں اکتا گئی ہوں، ’’سوچتی ہوں: میں دوبارہ پیدا ہو جاؤں‘‘ کسی دوسرے گھر میں، جہاں پیسوں کی کمی نہ ہو، انہی خیالوں میں گم میں سوگئی ۔
ماں مجھے سوتا چھوڑ کر، کام پر چلی گئی تھی، فیس نہیں تھی اس لیے اٹھایا بھی نہیں، بستر کے پاس آملیٹ اور ایک پرچی تھی، منی گھر ہی میں رہنا ، کہیں جانا مت میں آج تیری فیس لے کر آوں گی۔ ماں کے بغیر ناشتہ اچھا نہیں لگ رہا تھا، میں کالونی کی طرف نکل گئی، ماں جہاں کام کرتی، گیٹ کھلا ہوا تھا، سوٹ بوٹ میں گاڑی کے دروازے پر ایک آدمی تھا، ماں پاس کھڑی اس سے کہہ رہی تھی: صاحب! اس مہینے کی تنخوا ہ دے دو بہت مہربانی ہوگی۔ لے لینا کہہ کر وہ گاڑی کی طرف بڑھا، ماں نے لپک کر دروازہ پکڑ لیا، ہاتھ جوڑتے ہوئے اپنی تنخواہ مانگ رہی تھی، دو دن لیٹ نہیں ہوتے کہ سر پر کھڑی ہو جاتی ہوپیسے مانگنے۔ یہ لو کہہ کر: اس سوٹ بوٹ والے نے ماں کی طرف نوٹ پھینکے۔
میں دوڑ کر ماں سے لپٹ گئی۔ ماں اتنی محنت کے بعد بھی لوگ تجھے اتنا ذلیل کرتے، ماں مجھے معاف کردو، ماں نے اپنے آنچل میں مجھے چھپا لیا، میں غلط سوچ رہی تھی، مجھے دوبارہ پیدا نہیں ہونا ہے، میری ماں غریب ہے تو کیا ہوا؟ وہ مجھ سے بے پناہ محبت کرتی ہے، دولت کا سایہ ماں کی آنچل کے سائے میں بہت حقیر لگ رہا تھا۔ معصوم منی! دولت کے اندھوں کو نہیں جانتی تھی۔
مامی، اماں پر چیخ رہی تھی، گلاس ٹوٹ گیا تھا، ماموں پاس ہی بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے تھے لیکن مامی کو کچھ بول نہیں رہے تھے، اماں صبح سے دوڑ دوڑ کر کام کر رہی تھی، ماموں کا بیٹا، گھر کا چہیتا، دوڑتا ہوا کہیں سے آیا، اماں دھوئے برتن اٹھا رہی تھی، اس کا دھکا لگا، گلاس گر گیا۔
مجھے یاد ہے! پہلے ایسا نہیں تھا جب میں امی ابا کے ساتھ نانی کے گھر آتی تھی بھاری بھرکم موٹے تڑنگے ماموں کے کندھوں پر چڑھتی کبھی ان کے بازوں سے لٹکتی، کبھی کودتی، سب بڑا پیار لٹاتے تھے، اماں مامی کا بہت خیال رکھتی تھی اور مامی بھی اماں کا احترام کرتی تھی لیکن ابا کے ایکسیڈینٹ کے بعد دھیرے دھیرے سب بدل گیا۔ ابا چل بسے، دادھیال کے رشتے داروں کے تیور دن بدن بدلنے لگے، یوں تو اماں کو روز ہی کوئی نہ کوئی کسی نہ کسی بات پر ڈانٹتا تھا۔ ایک دن بہت شور ہنگامہ ہوا، اماں کو گھر چھوڑ کر جانے کو کہہ رہے تھے، ایسا میں بہت دنوں سے سن رہی تھی لیکن آج اماں مار پیٹ برداشت نہیں کر سکی اور مجھے لے کر نانی کے گھر آ گئی، یہاں بھی موسم کے ساتھ سب بد ل گئے تھے۔ اب ہم بوجھ سمجھے جانے لگے تھے۔ مجھے اپنے کزنس کے پرانے کپڑے پہنے کو ملتے اور اماں مامی کے پرانے کپڑے پہنتی، اکثر گھر کے کاموں میں لگی رہتی۔
میں بہت اداس تھی۔ میں سوچ رہی تھی ’’دوبارہ پیدا ہوجاؤں‘‘ ایسے گھر میں جہاں ہر انسان کے پاس محبت کرنے والا نرم دل ہو، تاکہ باپ کا سایہ سر سے اٹھ جائے تو گھر کے دوسرے ہاتھ سایہ فگن ہو جائی، ایک پر مصیبت آئے تو دوسرے سہارا بن جائی۔ ایک روئے تو دوسرے اسے ہنسائیں۔ میں سوچتی ہوں: دوبارہ پیدہ ہو جاؤں! معصوم منی!
ابا کیا کرتے تھے؟ اماں کیسی دِکھتی تھی، کسی نے کبھی بتایا نہیں، نہ میں نے کبھی پوچھا، چاچا جان روزانہ مجھے اور میرے ہم عمر کزن کو اسکوٹی پر بٹھا تے اسے اسکول چھوڑتے، مجھے اپنے ساتھ ہوٹل لے جاتے، وہیں دوڑ دوڑ کر گراہک کو چائے دینا، ٹیبل صاف کرنا، میرا دن گزر جاتا، مغرب کے بعد مسجد میں رُک گیا۔ مولوی صاحب بیان دے رہے تھے، پیارے نبی ﷺ کا ذکر چل رہا تھا۔ بہت پیارے تھے میرے نبی۔ سنا ہے! میری طرح یتیم تھے۔ بچوں سے بہت پیار کرتے تھے۔ یتیم کو آپ میں اپنے باپ کا عکس نظر آتا تھا۔ کمزور کی طاقت تھے، بے سہاروں کا سہا را تھے، دکھیارو کے مداوا تھے، میرے پیارے نبی۔
مولوی صاحب سنا رہے تھے: بچے پیارے نبی کی انگلی پکڑے جدھر چاہتے لے جاتے تھے، میں اٹھا ممبر کے قریب گیا، مولوی صاحب کی طرف اپنا ہاتھ بڑھادیا، وہ مجھے دیکھنے لگے، لوگوں کی نظریں بھی میری طرف تھیں، سب کی نظروں میں سوال تھا، میں خود نہیں جانتاتھا کہ میں کیوں کھڑا ہوا، میرا دل کچھ پوچھ رہا تھا، میں نے مولوی صاحب کو حیرت میں دیکھ کر بولا: پیارے نبی کی طرح بچوں کی انگلی کون تھامے گا؟ پیارے نبی کی طرح کیا کوئی اب بچوں کو سہارا نہیں دیتا؟ بیوا، بے سہارا، یتیم غریب کا کیا کوئی اپنا نہیں ہوتا؟ پیارے نبی کا ذکر، یوں تو میں روز یہاں سنتا ہوں لیکن پیارے نبی جیسا کوئی مجھے ملتا کیوں نہیں؟ ان کی سیرت کو کوئی اپناتا کیوں نہیں؟
مجلس میں خاموشی چھا گئی، میرے چچا جان کی آنکھیں نم تھیں، ستون سے ٹیک لگائے ایک لحیم شحیم شخص مجھے دیکھے جا رہا تھا گویا کہ کسی گہری سوچ نے اسے آ لیا ہو، ایک سوٹ بوٹ والے صاحب کچھ سوچ کر شرمندہ تھے، کونے میں بیٹھا لال موٹی آنکھوں والا شخص ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہا تھا، کوئی زمین کرید رہا تھا، کوئی منھ پر ہاتھ رکھا ہوا تھا، بہت سے چہرے بے شرمی سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ ان کا ضمیر بے حس ہو گیا تھا یا ندامت نے انہیں خاموش کر رکھا تھا؟ نہیں معلوم نہیں۔ میں صفوں کو پھلانگتا مسجد سے نکل آیا۔ سڑک پر زندگی تیز رفتار گزرہی تھی، کسی کو کسی کا ہوش نہیں تھا، ہر ایک خودی میں پریشان نظر آ رہا تھا۔ میرے قدم ہوٹل کی طرف بڑھ رہے تھے، دل کہہ رہا تھا: ’’کیوں نہ دو بارہ پیدا ہوجاؤں ‘‘ایسی جگہ جہاں زندہ دل، باضمیر، ہم درد لوگ رہتے ہوں۔
ابھی کچھ ہی قدم چلا تھا کہ اس موٹے شخص نے رُکنے کا اشارہ کیا۔ پاس آکر کھڑا ہوا، شکریہ منا، تو نے بھولا ہوا سبق یاد دلا دیا، تیرے ہر لفظ نے دل پر دستک دی، گھر چل کر اپنی غطی درست کرنی ہے۔ چچا جان نے کندھے پر ہاتھ رکھا، باپ کی شفقت کا احساس ہوا، مسکرا کر میں نے انہیں دیکھا، محبت سے میری پیشانی کو بوسہ دیا، کچھ کہنا چا رہے تھے پر کہہ نہ سکے، گرم آنسو کا ایک بوند میرے ہاتھ پر گرا، تیرا چچا زندہ ہے، تو یتیم نہیں میرے لال۔ ہاں! اس دنیا کی چکا چوندھ نے آنکھوں پر پردہ ڈال دیا تھا۔
دوسرے دن صبح منی کاکا کی ہوٹل کی طرف بار بار دیکھ رہی تھی۔ اس کا بھتیجا نہیں دکھ رہا تھا۔ بیمار تو نہیں، اسے کچھ ہو تو نہیں گیا؟ میرے اللہ! اس کی حفاظت کرنا۔ میری طرح وہ بھی زمانے کا مارا ہوا ہے۔ کا کا کی ہوٹل سے منی کے ابا ہاتھ میں پُڑی سبزی لیے باہر آرہے تھے، منی ڈر گئی، مائی کی گود میں دَبک گئی، اس کی مائی بھی حیرت زدہ تھی، لے منی ناشتہ کر لے، کل سے تم دونوں یہاں مت آنا۔ کاکا نے اپنے بھتیجے کو اسکول بھیج دیا، وہ ان کے بیٹے کے ساتھ پڑھائی کرے گا اور مجھے اپنے پاس کام پر رکھ لیا۔ میں اب محنت کروں گا۔ تم دونوں کا خیال رکھوں گا۔ منی! اپنے ابا سے لپٹ گئی، دونوں باپ بیٹی رو رہے تھے، محبت کے ان آنسوؤں میں سارے غم بہہ گئے، ابا کیا سچ میں بابو اسکول جا رہا ہے؟ ہاں! کیا تو بھی جائے گی؟
دل بدلتے ہیں، زندگی کی اگر کچھ رمق اس میں باقی ہو، بس انسان اپنے گریباں میں جھانک لے، اور اگر نہ بدلے تو ان پر نوحہ کرنا چاہیے، کیونکہ وہ دھڑک تو رہا ہوتا ہے لیکن اس میں زندگی نہیں ہوتی۔
***
دل بدلتے ہیں، زندگی کی اگر کچھ رمق اس میں باقی ہو، بس انسان اپنے گریباں میں جھانک لے، اور اگر نہ بدلے تو ان پر نوحہ کرنا چاہیے، کیونکہ وہ دھڑک تو رہا ہوتا ہے لیکن اس میں زندگی نہیں ہوتی۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 7 مارچ تا 13 مارچ 2021