سوشل میڈیا پر توہینِ رسالت کے خلاف محبان رسولؐ کی محاذ آرائی

فرانسیسی صدر بمقابلہ ترکی صدر، مسلم دنیا سراپا احتجاج کیا آزادی رائے کے بہانے میکروں کو اپنی سیاست چمکانے کا موقع ملا؟

معین دین

 

ناموس رسالت کی توہین کے خلاف مسلمان سراپا احتجاج ہیں۔ اس کا اندازہ سوشل میڈیا پر چل رہے فرانس کے خلاف ٹرینڈس سے ہوتا ہے۔ اِس وقت ترکی، ایران، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت، قطر، مراقش، فلسطینی علاقوں، الجزائر، تیونس سمیت مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک میں بائیکاٹ فرانس سمیت کئی ہیش ٹیگ بہت مقبول ہو رہے ہیں۔ مثال کے طور پر
BoycottFrenchProducts#
boycottfrance#
OurProphetOurPride#
OurProphetOurHonour#
MacronGoneMad#
FranceSupportingIslamophobia#
FrancePromotingTerrorism#
france_will_down#
ShameOnMacronExtremist#
ShameOnFrance#
قابل ذکر ہیں۔ لیکن مثبت ردعمل کی تو بات ہی کچھ اور ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا پر حضور اکرمﷺ کے نام پر مسلمانوں کا اتحاد دیکھنے کو مل رہا ہے۔ نبی کریمﷺ کی شان میں نعت پیش کیے جارہے ہیں۔ فلسطین کی ایک سڑک کے کنارے حضرت حسانؓ بن ثابت کے اشعار رسول اللہ کی محبت میں لگائے گئے۔ قارئین کے لیے پیش خدمت ہیں ۔
واحسن منک لم ترقط عینی
واجمل منک لم تلد النساء
خلقت مبرءاََ من کل عیب
کاَنک قد خلقت کما تشاء
ترجمہ: آپ سے زیادہ حسین میری آنکھ نے ہرگز نہیں دیکھا
اور آپ سے زیادہ جمیل کسی عورت نے جنا ہی نہیں
آپ ہر عیب سے پاک وصاف پیدا کیے گئے
گویا کہ آپ اس طرح پیدا کیے گئے جیسا کہ آپ نے چاہا۔
سوشل میڈیا پر فرانس کے صدر کے خلاف مہم کیوں؟
یہ بات اس وقت شروع ہوئی جب ایک چاقو بردار شخص نے ایک اسکول ٹیچر سیموئل پیٹی نامی ٹیچر پر پیرس کے نواحی علاقے کفلان سینٹے ہونورائن میں حملہ کرتے ہوئے اس کا سر قلم کر دیا۔ چاقو بردار کو قاتلانہ حملے کے بعد پولیس کی جانب سے گرفتار کرنے کی کوشش کے دوران گولی مار کر ہلاک کیا گیا۔ فرانسیسی صدر ایمینوئل میکرون نے جائے وقوع کا دورہ کیا اور اس قاتلانہ حملے کو ’’اسلامی دہشت گردانہ حملہ‘‘ قرار دیا۔ صدر فرانس کا کہنا تھا کہ استاد کو اس لیے قتل کیا گیا کیونکہ وہ اظہار رائے کی آزادی کے متعلق پڑھاتے تھے۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی فرانسیسی صدر نے نے کہا ”مسلم انتہا پسندی کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے جائیں گے۔‘‘ انہوں نے 21 اکتوبر کو شدت پسند اسلام پسندوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے عزم ظاہر کیا کہ وہ پیغمبر اسلام کے خاکوں کی اشاعت پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ ان خاکوں کا سلسلہ روکا نہیں جائے گا۔‘‘ یعنی ایمینوئل میکرون کے بقول اس معاملے میں پیچھے ہٹنے کی پالیسی اختیار نہیں کی جائے گی۔
بات اگر صرف اسکول کے ٹیچر کے قتل کی مذمت کی ہوتی تو درست تھی لیکن فرانس کے صدر نے پیغمبر اسلام کے خاکوں کی اشاعت پر روک نہ لگانے والی بات کہہ کر نفرت کی آگ میں گھی ڈالنے کا کام کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے اپنے فرانسیسی ہم منصب کے بیانات پر سخت رد عمل ظاہر کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ ’’میکرون کو دماغی معائنے کی ضرورت ہے۔‘‘ رجب طیب اردوغان نے مزید کہا کہ ’’یورپی لیڈروں کو چاہیے کے وہ فرانس کے صدر سے کہیں کہ وہ مسلمانوں کے خلاف محاذ آرائی بند کریں۔‘‘ اس کے جواب میں فرانس نے انقرہ سے اپنا سفیر بھی واپس بلا لیا۔
فرانسیسی صدر کا دوغلا پن
اہانت رسول والے خاکے کو فرانس کے صدر نے اظہار رائے کی آزادی سے تعبیر کیا ہے۔ اسی سال فرانسیسی میگزین شارلی ایبدو نے اس اعلان کے ساتھ کہ ’وہ کبھی ہار نہیں مانے گا‘ پیغمبر اسلام کے وہ متنازعہ خاکے دوبارہ شائع کردیے تھے جن کی وجہ سے 2015میں اس پر حملہ ہوا تھا۔ فرانسیسی صدر شارلی ایبدو کی حمایت کرتے ہوئے نظر آئے۔ واضح ہو کہ شارلی ایبدو پر سات جنوری 2015 کو حملہ کیا گیا تھا۔ اس حملے میں بارہ افراد ہلاک ہوگئے تھے، جن میں متنازعہ خاکے بنانے والا کارٹونسٹ بھی شامل تھا۔ وہیں دوسری طرف فرانس کے دارالحکومت پیرس میں آئفل ٹاور کے قریب دو مسلمان خواتین پر چاقوؤں سے حملہ ہوا اور ان کا اسکارف خراب کرنے کی کوشش کی گئی۔ متاثرہ خواتین حنانے اور کنزا نے بتایا کہ وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ پارک آئی ہوئی تھیں، جب یہ واقعہ پیش آیا۔ ان دونوں کی مسلم شناخت کی وجہ سے انہیں برا بھلا کہا گیا اور بری طرح زخمی بھی کیا گیا لیکن فرانس میں اسلاموفوبیا کی شکار دونوں خواتین کی حمایت میں صدر موصوف نظر نہیں آئے۔ فرانس کی پارلیمان میں قومی اسمبلی کے ارکان نے ہلاک ہونے والے استاد کی تعظیم میں کھڑے ہو کر خراج عقیدت پیش کیا اور اس حملے کو ایک ۔بہیمانہ دہشت گرد حملہ‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی۔ اگرچہ استاد کا قتل قابل مذمت تھا لیکن ان دونوں خواتین کا کیا قصور تھا جن کے لیے ایک لفظ بھی نہیں بولا گیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق فرانس میں 57لاکھ سے زیادہ مسلمان آباد ہیں جن میں سے 30 سے 35 لاکھ افراد الجزائری یا مراقشی نژاد شہری ہیں۔ چھ کروڑ سے زیادہ کی آبادی والے ملک میں اس اعتبار سے مسلمان ملک کی دوسری سب سے بڑی مذہبی اکثریت ہیں۔ لیکن حال ہی میں ایمینوئل میکروں انتظامیہ کی جانب سے ایک قانون کے لیے مسودہ تیار کیا گیا ہے جس کے تحت ملک میں مسلمانوں اور انجمنوں پر مزید دباؤ ڈالنے، مساجد کی مالی امداد کی سخت نگرانی اور بیرون ملک سے فرانس کو دینی کارکنان کی آمد کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنا شامل ہیں۔ لیکن اسلاموفوبیا کے خلاف کوئی قانون بنانے کا ارادہ نہیں ہے۔سوشل میڈیا پر اسی دو رخ کے حوالے سے فرانسیسی صدر کے خلاف آواز بلند کی جارہی ہے۔ سوال یہ کیا جا رہا ہے کہ آخر کسی کے مذہب کی توہین آزادی رائے کیسے ہو سکتی ہے؟
ٹویٹر پر محمد عبدالستار لکھتے ہیں کہ ’’آزادی رائے کے بہانے مذہبی رہنماؤں اور کسی مذہب کی توہین نہیں کی جا سکتی ہے۔ حضور اکرمﷺ کا ادب و احترام نہ صرف مسلمان بلکہ پوری دنیا کے غیر مسلمین بھی کرتے ہیں‘‘ محمد عبدالستار کی بات اس وجہ سے صد فیصد درست ہے کیونکہ
عشق ہو جائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں
صرف مسلم کا محمدؐ پہ اجارہ تو نہیں
یہ شعر بھی کسی مسلم نہیں بلکہ ایک غیر مسلم شاعر ’کنور مہندر سنگھ بیدی‘ نے کہا ہے۔ محمدﷺ کے بارے میں غیر مسلم مفکرین نے اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے۔ مہاتما گاندھی حضرت محمدﷺ کی سیرت و اسلام کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’مجھے پہلے سے زیادہ اس بات کا یقین ہو چلا ہے کہ اسلام نے تلوار کے زور پر اپنا مقام پیدا نہیں کیا بلکہ اس کا سبب پیغمبر کا اپنی ذات کو کاملاً فنا کرنا، حد درجہ سادگی، اپنے وعدوں کی انتہائی ذمہ داری سے پابندی، اپنے دوستوں سے انتہائی درجے کی عقیدت، دلیری، بے خوفی، اپنے مشن اور خدا پر پختہ ایمان ہے‘‘۔
کہا جاتا ہے کہ فرانس کے محقق ڈی لمرٹائن نے اپنی کتاب ’’تاریخِ ترکی‘‘ میں انسانی عظمت کے لیے جو معیار قائم کیا اس ضمن میں فاضل تاریخ دان لکھتاہے ’’انسانی عظمت کو ناپنے کے لیے تین شرائط اہم ہیں۔ مقصد کی بلندی، وسائل کی کمی اور حیرت انگیر نتائج۔ تو اس معیار پر جدید تاریخ کی کون سی شخصیت محمدؐ سے ہمسری کا دعویٰ کرسکتی ہے ‘‘
سوشل میڈیا پر بائیکاٹ فرانس کے ضمن میں کچھ خبریں فرضی بھی چلائی گئیں۔ یہ عام کیا گیا کہ اسلام مخالف بیان پر مانچسٹر یونائیٹڈ کی طرف سے کھیلنے والے مشہور فٹ بالر پال پوگبا نے فرانس کی نمائندگی سے انکار کر دیا ہے جب کہ یہ خبر غلط تھی۔ 2013 میں انٹرنیشنل ڈیبیو کرنے والے پال پوگبا کے حوالے سے بات کی جائے تو وہ 2018 میں روس میں ہونے والے ورلڈکپ جیتنے والی فرنچ ٹیم کا بھی حصہ رہے، مانچسٹر یونائیٹڈ نے پال پوگبا کو 2016 میں جووینٹس سے ریکارڈ 89.3 ملین یورو میں خریدا تھا۔
کسی مشہور شخصیت کی حمایت یا مخالفت سے کوئی فرق نہیں پڑتا رسول اکرمﷺ کی شان میں توہین کرنے والا ہر شخص قابل مذمت اور قابل سزا ہے لیکن اس حوالے سے علمائے کرام سے مشوروں اور ان کی تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ اہانت رسول کے خلاف زیادہ جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ کچھ چیزوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
اہانت رسولؐ کے واقعات:شریعت اور سنت نبوی کیا رہنمائی کرتی ہے؟
اخبار ’قندیل‘ میں مولانا یحییٰ نعمانی کی ایک تحریر نظر سے گزری جس میں بڑے ہی اچھے انداز میں سمجھایا گیا ہے۔
۱۔ اسلامی شریعت میں مجرم کو قانونی سزا دینے کا اختیار (Authority) باقاعدہ قائم حکومت کو ہے۔
۲۔ لیکن اسلامی ریاست کے قلم رو میں ہی رہنے والے عبد اللہ ابن ابی ابن سلول نے جب ایسی ہی حرکت کرتے ہوئے آپ کے حرم پاک کو نشانہ بنایا اور آپؐ نے اس کو قانونی سزا دینے کا ارادہ کیا تو اندازہ ہوا کہ اس سے مدینہ میں فتنہ پیدا ہو جائے گا اور حالات بگڑ جائیں گے، تو آپؐ نے اس کو چھوڑ دیا۔
۳۔ اسی شخص کی اسلامی ریاست کے خلاف ایک ایسی ہی خطرناک سازش اور فتنہ انگیز حرکت پر بعض صحابہ نے مشورہ دیا کہ اس کو قتل کی وہ سزا دی جائے جو ایسے جرائم کے لیے قانونی طور پر مقرر ہے۔ تو آپؐ نے فرمایا کہ نہیں، اس سے لوگوں کو ہم کو بدنام کرنے اور یہ کہنے کا موقعہ مل جائے گا کہ محمد اپنے ساتھیوں کو قتل کرا دیتے ہیں۔ (سنن ترمذی تفسیر سورہ منافقون)۔ یہاں بھی آپ نے حالات کی نزاکت کا خیال مقدم رکھا۔
۴۔ اور اگر اہانت اسلام یا توہین رسول کے واقعات کا مجرم اسلامی ریاست سے باہر کا ہوتا تھا یا ہوتا تو اندر کا تھا مگر کسی مجبوری کی وجہ سے اُس کو سزا دینا ممکن نہیں ہوتا تھا تو ایسی صورت میں آپؐ ا طرز عمل صرف اور صرف نظر انداز کر دینے اور صبر کرنے کا تھا۔
ہمیں جذباتیت سے کام لینے کے بجائے حضور اکرمﷺ کی تعلیمات کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔
مسلمان سراپا احتجاج
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے مسلم ممالک کو خط لکھ کر مسلم ممالک کے سربراہان کو ناموس رسالت کے لیے متحد ہونے کی دعوت دی ہے وہیں ہندوستان میں جماعت اسلامی ہند، جمعیت علماء ہند، دارالعلوم دیوبند، آل انڈیا سنی جمعیۃ العلماء سمیت کئی تنظیموں نے فرانس کے خلاف احتجاج درج کرایا۔ مولانا محمودمدنی نے فرانس کے صدر کی طرف سے ’گستاخانہ خاکوں‘ کی عمومی اشاعت اور اس ناپاک حرکت کے دفاع کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے غیر مناسب عمل قرار دیا ہے۔ امیر جماعت اسلامی ہند سید سعادت اللہ حسینی نے کہا کہ فرانسیسی صدر کے غیر دانشمندانہ بیان سے مسلمانوں کو جذباتی ٹھیس پہنچی ہے۔ انہوں نے کہ ’’اسلام بھی حدود آشنا اظہار رائے کی آزادی‘‘ کا قائل ہے لیکن موجودہ دور میں اس آزادی کا استعمال بڑے بھونڈے انداز میں کیا جا رہا ہے۔
سید سعادت اللہ حسینی نے کہا کہ ’’فرانسیسی صدر شدید اسلاموفوبیا کا شکار ہو چکے ہیں۔ اس کی ایک وجہ ان کی اپنے ملک میں مختلف محاذوں پر ناکامی بھی ہے۔ گزشتہ چند سالوں سے فرانس میں ’’دائیں بازو‘‘ کی سیاسی و غیر سیاسی جماعتوں کے رویوں میں بھی شدت دیکھنے میں آئی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فرانس کے صدر ان طاقتوں کے سامنے جھک چکے ہیں اور اسلام دشمنی پر اتر آئے ہیں‘‘۔
بھارت میں سوشل میڈیا پر فرانس
بھارت میں سوشل میڈیا کا حال کچھ ایسا ہے کہ جب بات اسلام اور مسلمانوں کی ہو تو ہمیشہ صارفین دو خیموں میں منقسم نظر آتے ہیں۔ جہاں ایک طرف مسلمان فرانس کی مخالفت میں محاذ آرائی پر ہیں تو وہیں اکثر غیر مسلمین فرانس کی حمایت میں آچکے ہیں۔ کئی گھنٹوں تک کئی ہیش ٹیگ پہلے اور دوسرے نمبر پر ٹرینڈ کرتے رہے:ایک ٹرینڈ ’’آئی ایم ود فرانس‘‘ یعنی میں فرانس کے ساتھ ہوں۔
IAmWithFrance#
IStandWithFrance#
welldoneFrance#
حالانکہ ہندی زبان کے ٹرینڈ ’’فرانس معافی مانگ‘‘ کے تحت کئی لاکھ ٹویٹس بھی نظر آئے۔ لیکن بھارت کے مسلمانوں کے لیے سب سے تکلیف دہ چیز یہ ہوئی کہ ہندوستان کی وزارت خارجہ نے آفیشل بیان جاری کرتے ہوئے فرانس کے صدر میکرون کی حمایت کا اعلان کردیا ہے اپنے بیان میں وزارت خارجہ برائے حکومت ہند نے کہا کہ ”ہم فرانس کے صدر میکرون کے خلاف ناقابل قبول لہجے میں ذاتی حملوں کی سختی سے مذمت کرتے ہیں یہ عالمی مذاکراتی معیار کے خلاف ورزی ہے، ہم دہشتگردانہ حملے میں مارے گئے فرانسیسی ٹیچر کے قتل کی مذمت کرتے ہیں جس نے پوری دنیا کو دھکا لگا ہے اور ہم مقتول ٹیچر اور اس کے اہل خانہ اور فرانس کے لوگوں کی خدمت میں تعزیت پیش کرتے ہیں ‘‘
’’ہالوکاسٹ‘‘ پر نقد جرم مگر اہانت رسول آزادی رائے:
جان کر حیرانی ہوگی کہ دنیا میں 13 ممالک، جن میں فرانس اور جرمنی شامل ہیں، میں قوانین ہیں جو مرگ انبوہ (Holocaust) پر نظر ثانی اور اس کے بارے میں تحقیق کو غیر قانونی قرار دیتے ہیں۔ اس پر تحقیقی بحث سے بھی بعض ممالک میں تین سے دس سال تک قید کی سزا اور جرمانے بھی ہو سکتے ہیں۔
انكارِ مرگ انبوه كو نفرت انگيز اظہار مانا جاتا ہے جس كے باعث اُن ممالک ميں ايسے اظہار کو قوانينِ آزادىِ اظہار کے تحت تحفظ حاصل نہيں۔ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت آسٹريا، بلجيم، جمہوريہ چک، فرانس، جرمنی، ليتھوانيا، پولينڈ، رومانيہ، سلواکيہ اور سوئٹزرلینڈ وغیرہ ميں ہولو کاسٹ کے انکار یا اسے مبالغہ آرائی قرار دیے جانے کو جرم سمجھا جاتا ہے اور سوال اٹھانے والے کو نقد جرمانہ يا قيد کی سزا بھگتنا پڑتی ہے 2006ء ميں برطانوی مؤرخ ڈيوڈ ارونگ اور فرانسيسی محقق راجر گارودی کو ہولو کاسٹ پر تنقید کی پاداش میں سزا بھگتنا پڑی تھی۔ لیکن اس وقت فرانس کے صدر اہانت رسول کو نہ صرف آزادی رائے قرار دیتے ہیں بلکہ حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں۔
’’ہالوکاسٹ‘‘ کیا ہے؟
ویکی پیڈیا کے مطابق مرگ انبوہ جسے انگریزی میں ہالوکاسٹ کہا جاتا ہے دراصل دوسری جنگ عظیم کے دوران ہٹلر کی نازی افواج کے ہاتھوں مبینہ قتلِ عام کا شکار ہونے والے یہودیوں سے منسوب ہے۔ اس کو یہودیوں کی نسل کشی بھی قرار دیا جاتا ہے۔
جس طرح سوشل میڈیا پر اہانت رسول کے خلاف مسلمان متحد نظر
آ رہے ہیں کاش اسی طرح زمینی سطح پر بھی ایک ہو جاتے کیونکہ
منفعت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبیؐ، دین بھی، ایمان بھی ایک
حرَمِ پاک بھی، اللہ بھی، قُرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پَنپنے کی یہی باتیں ہیں
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 8 تا 14 نومبر، 2020