عتیق احمد شفیق اصلاحی، بریلی
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدا یت و رہنمائی کے لیے انبیاء کو معبوث فرمایا اور اپنا پیغام انسانوں تک پہنچانے کی ذمہ داری سونپی تھی یَا أَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَیْْکَ مِن رَّبِّکَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَاللّہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللّہَ لاَ یَہْدِیْ الْقَوْمَ الْکَافِرِیْن (المائدہ:۶۷) اے رسول! جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچادو اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو اس کی پیغمبری کا حق ادا نہ کیا اللہ تم کو لوگوں کے شر سے بچانے والا ہے۔ یقین رکھو کہ وہ کافروں کو کامیابی کی راہ ہرگز نہ دکھائے گا۔ ہُوَ الَّذِیْ أَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْہُدَی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُون (صف:۹) وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کر دے خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔
انبیاء علیہم السلام نے اس ذمہ داری کو ادا کیا اور اس کی ادائیگی کے لیے وہ تمام وسائل اختیار کیے جو اس زمانے میں موجود تھے۔ پیغام رسانی کے لیے اللہ تعالی نے معجزے بھی عطا فرمائے۔ مثلا موسیؑ کو عصا کا معجزہ دیا کیونکہ وہ دور جادو کا دورتھا۔ محمد ﷺ کو علمی معجزہ قرآن کی شکل میں دیا گیا کیونکہ وہ دور شعر و شاعری اور ادب کا دور تھا اور چیلنج بھی کیا کہ اگر تم کو اس کے خدائی کلام ہونے میں شک ہے تو کوئی ایسی سورہ یا آیت تم سب مل کر پیش کرو۔
نبی ﷺ نے اپنی دعوت کے ابتدائی دور میں انفرادی ملاقاتیں، میلوں، مکہ میں باہر سے سے آنے والے مسافروں، تجارتی قافلوں، حجاج کرام سے ملاقاتیں کر کے پیغام حق پہنچاتے رہے۔ آپ نے اپنے خاندان کے افراد کو کھانے کی دعوت دے کر پیغام حق پیش کیا۔ اس دور کا سب سے اہم طریقہ تھا کہ کوہ صفا پر آدمی کھڑا ہو جاتا اپنے کپڑے پھاڑ کر قوم کو بلاتا اور جب قوم آ جاتی تو اس کو خطرے سے آگاہ کرتا تھا۔ نبی ﷺ نے اسی طریقہ کو اپنایا (مگر اپنے کپڑے نہیں پھاڑے) آپ ﷺ نے کوہ صفا پر چڑھ کر قوم کو آواز دی اور جب قوم آگئی تو اس کے سامنے دین حق پیش کیا۔ مزید بعد میں آپ نے معلمین و مبلغین کو مختلف خِطوں میں ارسال کیا۔ بادشاہوں کو خطوط ارسال کیے۔ غرض جو طریقہ بھی اس دور میں اپنی بات پہنچانے کا تھا آپ ﷺ نے اختیا ر کیا۔
آج ٹکنالوجی کا زمانہ ہے۔ اس کے ذریعہ بات سیکنڈوں میں بڑی تعداد اور بہت دور تک پہنچ جاتی ہے۔ زندگی کے ہر شعبہ پر میڈیا کے اثرات کو محسوس کیا جا سکتا ہے جمہوری ملکوں میں میڈیا کو جمہوریت کو چوتھا ستون مانا جا تا ہے۔ میڈیا صرف خبروں اور واقعات کو پہنچانے ہی کا ذریعہ نہیں ہے بلکہ اس کے ذریعہ رائے عامہ ہموار کی جاتی ہے۔ اس کو بڑے بڑے سر مایہ دار اور تجارتی کمپنیاں اپنی تجارت کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔ سیاسی پارٹیاں و حکمراں طبقہ اس کا بے جا استعما کر رہا ہے۔ میڈیا کا استعمال بے حیائی و بد اخلاقی اور ہم جنسی کی حمایت کو پھیلانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ کھیلوں، ناچ گانوں، گندی فلموں کے ذریعہ نئی نسل کو با مقصد زندگی سے غافل کرنے کی کو شش کی جا رہی ہے۔ مغربی تہذیب کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ مادہ پرستانہ زندگی پر ابھارا جا رہا ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلا جا رہا ہے۔ اسلامی کاز کے لیے کام کرنے والوں کی کردار کشی کی جا رہی ہے۔ اسلامی تعلیمات کا مذاق اڑایا جا رہا ہے فتنہ پروری کی جارہی ہے۔ ایسے میں اسلام پر ایمان رکھنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس میدان میں آگے آئیں اور میڈیا کو اسلام کے صاف شفاف پیغام کو پہنچانے کا ذریعہ بنائیں۔ نئی نسل کو درست رخ دینے کے لیے اس کا استعمال کیا جائے۔ سوشل میڈیا پر دعوتی کام کے لیے ضروری ہے کہ درج ذیل با توں کا خیال رکھا جائے۔
[۱] اسلام کے بارے میں درست،صحیح اور گہری معلومات حاصل کی جائے اور ان کی حکمتوں سے واقف ہوا جائے تاکہ پورے اعتماد سے اپنی بات پیش کی جا سکے۔ انبیاء جو دعوت پیش کرتے تھے وہ پوری بصیرت اور یقین کے ساتھ پیش کرتے تھے۔ حضرت نوحؑ نے فر مایا أُبَلِّغُکُمْ رِسَالاَتِ رَبِّیْ وَأَنصَحُ لَکُمْ وَأَعْلَمُ مِنَ اللّہِ مَا لاَ تَعْلَمُون (اعراف:۶۲) تمہیں اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں، تمہارا خیر خواہ ہوں اور مجھے اللہ کی طرف سے وہ کچھ معلوم ہے جو تمہیں نہیں معلوم ہے۔ ہودؑ اور شعیبؑ نے بھی اپنی قوم سے یہی بات کہی تھی۔أُبَلِّغُکُمْ رِسَالاتِ رَبِّیْ وَأَنَاْ لَکُمْ نَاصِحٌ أَمِیْن (اعراف:۶۸) تم کو اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں اور تمہارا ایسا خیرخواہ ہوں جس پر بھروسا کیا جا سکتا ہے۔ فَتَوَلَّی عَنْہُمْ وَقَالَ یَا قَوْمِ لَقَدْ أَبْلَغْتُکُمْ رِسَالاَتِ رَبِّیْ وَنَصَحْتُ لَکُمْ فَکَیْْفَ آسَی عَلَی قَوْمٍ کَافِرِیْن (اعراف:۹۳) اے برادران قوم! میں نے اپنے رب کے پیغامات تمہیں پہنچا دیے اور تمہاری خیر خواہی کا حق ادا کر دیا۔ اب میں اس قوم پر کیسے افسوس کروں جو قبول حق سے انکار کرتی ہے۔
نبی اکرم ﷺ کے ذریعہ کہلوایا گیا قُلْ ہَـذِہِ سَبِیْلِیْ أَدْعُو إِلَی اللّہِ عَلَی بَصِیْرَۃٍ أَنَاْ وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ وَسُبْحَانَ اللّہِ وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِکِیْن (یوسف:۱۰۸) تم ان سے صاف کہہ دو کہ میرا راستہ تو یہ ہے میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور میرے ساتھی بھی اور اللہ پاک ہے اور شرک کرنے والوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں۔
[۲] اسلام اور مسلمانوں کے مخالفین اور باطل پرست اسلام کے خلاف جو اشکالات پیدا کرتے ہیں اور جو سوالات اٹھاتے ہیں ان سے واقف و باخبر رہا جائے اور ان کا جواب جذبات سے معمور ہو کر نہیں بلکہ دلائل کے ساتھ اسلام کی حقانیت کو واضح کرنے اور باطل کا رد کیا جا ئے۔ قرآن نے حکم دیا خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاہِلِیْنَ (اعراف:۱۹۹) اے نبی! نرمی و درگزر کا طریقہ اختیار کرو، معروف کی تلقین کیے جاو اور جاہلوں سے نہ الجھو۔ ادْعُ إِلِی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُم بِالَّتِیْ ہِیَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّکَ ہُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِیْلِہِ وَہُوَ أَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِیْن (النحل:۱۲۵) اے نبی! اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقہ پر جو بہترین ہو۔
[۳] اسلام کو مکمل طور سے پیش کیا جائے اسلام زندگی کے ہر شعبہ میں رہنمائی کرتا ہے ان اقیموا الدین اور بلغ ما انزل الیک من ربک باطل کے اشکالات، سخت حالات سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ جب کفار و مشرکین حد سے بڑھ جائیں تو اللہ نے ایسے حالا ت میں اطمینان و سکون کی کیفیت اختیار کرنے کی تلقین کی ہے۔ وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُکَ إِلاَّ بِاللّٰہِ وَلاَ تَحْزَنْ عَلَیْْہِمْ وَلاَ تَکُ فِیْ ضَیْْقٍ مِّمَّا یَمْکُرُوْنَ ( نحل:۱۲۷) اے نبی! صبر سے کام کیے جاؤ اور تمہارا یہ صبر اللہ ہی کی توفیق سے ہے ان لوگوں کی حرکات پر رنج نہ کرو اور نہ ان کی چال بازیوں پر دل تنگ ہو۔
[۴] میڈیا میں بہت سی خبریں جھوٹی ہوتی ہیں اس لیے خبروں کی تحقیق ضرور کر لی جانی چاہیے تاکہ قدم اٹھانے اور اس کے شر سے محفوظ رہا جا سکے۔ قرآن حکیم نے اس کا حکم دیا ہے۔ یَاأَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا إِن جَاء کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَأٍ فَتَبَیَّنُوا أَن تُصِیْبُوا قَوْماً بِجَہَالَۃٍ فَتُصْبِحُوا عَلَی مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِیْنَ (حجرات: ۶) اے لوگو جو ایمان لائے ہو اگر فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو ناداستہ نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کیے پر پشیمان ہو۔
[۵] میڈیا کے لوگوں سے روابط بڑھائے جائیں۔
[۷] صحافیوں سے ملاقاتیں کر کے انہیں اسلام سے متعلق لٹریچر فراہم کیا جائے۔
[۸] انصاف پسند اور کھلے ذہن کے صحافیوں سے روابط بڑھائے جائیں اور ان کی اچھی اور انصاف پر مبنی تحریروں پر حوصلہ افزائی کی جائے۔
برادران وطن کا گروپ بنا کر دعوتی پوسٹیں ارسال کی جائیں۔
[۹] اپنا چینل بھی بنایا جا سکتا ہے۔
[۱۰] نئی نسل کو تربیت کے مراحل سے گزار کر اس میدان میں آگے بڑھایا جائے۔
کسی ایک فرد کی اصلاح بھی اس کی اور ہماری اخروی نجات کا سبب بن سکتی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے راہ راست کی طرف دعوت دی اسے ان سبھی لوگوں کے برابر اجر ملے گا جنہوں نے اس کی دعوت پر راہ راست اختیار کی ہوگی بغیر اس کے کہ ان کے اجروں میں کمی ہو۔ اللہ کی قسم! اگر اللہ تمہارے ذریعہ سے ایک فرد کو بھی ہدایت عطا فرما دے تو تمہارے لیے یہ سرخ اونٹ سے بہتر ہے۔
سوشل میڈیا پر جو پیغام بھی ارسال کیا جائے دعوتی اسلوب، خیر خواہی سے بھر پور، دلائل سے مدلل، عقلی و سائنٹفیک انداز میں پیش کیا جائے یہی چیز سامنے والے کے دل کو متاثر کر سکتی ہے دعوت کی توسیع میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔
آج دنیا حق کی متلاشی ہے ضرورت ہے کہ امت اپنے فرضِ منصبی کو ادا کرے اور دنیا کے دکھوں کا ساماں کرے۔
اسلام پر ایمان رکھنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس میدان میں آگے آئیں اور میڈیا کو اسلام کے صاف و شفاف پیغام کو پہنچانے کا ذریعہ بنائیں۔ نئی نسل کو صحیح رخ دینے کے لیے اس کا استعمال کیا جائے۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 28 مارچ تا 3 اپریل 2021