سلاخوں کے پیچھے اندوہناک عیدیں!
لاک ڈاون کے دوران عید، محروسین کے کرب کو سمجھنے کا موقع ناکردہ جرم کی پاداش میں 14 سال قید میں گزارنے والے محمد عامر سے بات چیت
افروز عالم ساحل
عید کے معنی ہیں خوشی۔۔۔ خوشی اپنوں سے ملنے کی، ان کے ساتھ کھانے پینے کی، مل بیٹھنے کی، ہنسنے بولنے کی۔ اور پھر خوشی پورا مہینے روزہ رکھنے کے بعد عید کی نماز پڑھنے کی۔ لیکن اس بار ہمارے ملک میں یہ عید لاک ڈاؤن میں گزرے گی اور شاید ہم اس بار عید کی نماز پڑھنے عیدگاہ یا مسجد بھی نہ جا پائیں گھر پر ہی عید کی نماز ادا کرنی پڑے اپنے لوگوں سے گلے بھی نہ مل پائیں۔
ایسی عید شاید آپ کی زندگی میں پہلی ہو لیکن اس ملک میں ہزاروں افراد ایسے ہیں جن کے لیے اس میں کوئی نئی بات نہیں ہے ان کے لیے عید ہمیشہ غم میں ہی گزرتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی زندگی عام طور پر مشکل ہی ہوتی ہے لیکن عید ان کے لیے حالات کو مزید مشکل کر دیتی ہے انہیں احساس ہوتا ہے کہ وہ اپنے کنبے سے کتنے دور ہیں اور وہ کتنے تنہا ہیں۔ہم بات کر رہے ہیں ان لوگوں کی جو ہندوستان کی مختلف جیلوں میں قید ہیں۔ ان میں زیر دریافت قیدی بھی ہیں اور مجرم بھی۔
دہلی کے محمد عامر خان کے لیے بھی یہ پہلا موقع نہیں ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی کی 14 عیدیں اسی طرح سے گزاری ہیں۔
14 سال جیل میں رہنے کے بعد عدالت سے بے گناہ ثابت ہو کر باعزت بری ہونے والے محمد عامر خان بتاتے ہیں کہ دنیا کے لیے بھلے ہی یہ پہلی عید ہو لیکن میں نے 14عیدیں ایسی ہی گزاری ہیں بغیر نئے کپڑے پہنے بغیر نماز پڑھے بغیر سیوئیاں کھائے ہی میری عید گزر جاتی تھی۔
عامر مزید کہتے ہیں کہ مجھے اس عید پر زندگی کی ان 14 عیدوں کی یاد شدت سے آئے گی لیکن میرے خوش ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ کم سے کم میں اپنے خاندان کے ساتھ ہوں اپنی بیوی بچوں کے ساتھ ہوں۔
جیل کے اندر اپنی عیدوں کو یاد کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ ’’یوں تو جیل کا ہر دن ایک جیسا ہی ہوتا ہے لیکن جب عید کا موقع آتا ہے تو جیل سے باہر کی دنیا میں خوشیاں ہی خوشیاں ہوتی ہیں جب کہ جیل کی دنیا میں غم مزید چھایا ہوا ہوتا ہے۔ سبھی قیدی اپنے پرانے دنوں کو یاد کر رہے ہوتے ہیں کچھ رو رہے ہوتے ہیں تو کچھ اپنے غم کو چھپانے کے لیے زبردستی مسکرانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ اس غم میں ہندو قیدی بھی ان کے ساتھ ہوتے ہیں زیادہ تر قیدی ان سے ہی گلے مل کر اپنے غم کو کم کرنے کی کوشش میں پورے دن لگے ہوتے ہیں۔‘‘
عامر بتاتے ہیں کہ میری 14عیدیں جیل کے اندر ہوئی ہیں جن میں سے 10عیدیں تہاڑ جیل میں گزری ہیں لیکن میرے سامنے کبھی نہیں ہوا کہ سارے قیدیوں نے ایک ساتھ عید کی نماز پڑھی ہو زیادہ تر قیدی اپنے ہی بیرکوں میں نماز ادا کرتے ہیں یا پھر قیدیوں میں سے ہی ایک قیدی امام بن جاتا ہے اور عید کی نماز پڑھاتا ہے۔ اب یہ شریعت کے لحاظ سے جائز ہے یا نہیں اس بارے میں کوئی نہیں سوچتا۔ پرانے دنوں کو مزید یاد کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ رمضان کا آخری عشرہ کافی تکلیف دہ ہوتا ہے کچھ انڈر ٹرائل قیدیوں کے خاندان والے ان کے لیے نئے کپڑے لا کر دیتے ہیں عید کی مبارک باد دے رہے ہوتے ہیں لیکن دل سے وہ بھی رو رہے ہوتے ہیں ان کے جانے کے بعد قیدی اور بھی زیادہ رو رہا ہوتا ہے۔
عامر مزید بتاتے ہیں کہ جو سزا یافتہ قیدی ہیں انہیں عید کے دن بھی جیل والا لباس ہی پہننا ہوتا ہے۔عامر کا کہنا ہے ’’عید کا دن چوں کہ چھٹی کا دن ہوتا ہے لہذا اس دن کوئی کسی سے ملاقات کرنے نہیں آتا ہے۔‘‘
جیل میں ملاقات کے سلسلے میں پوچھنے پر عامر بتاتے ہیں ’’تہاڑ جیل کے اندر جو ملاقات ہوتی ہے وہ ایک میٹر کے فاصلے سے ہوتی ہے درمیان میں جالی یا شیشہ لگا ہوتا ہے لیکن رکھشا بندھن کے دن سب کی ملاقاتیں آمنے سامنے ہوتی ہیں۔ بہنیں اپنے قیدی بھائیوں کو اپنے ہاتھوں سے راکھیاں باندھتی ہیں انہیں مٹھائیاں کھلاتی ہیں یعنی قیدی اور اس کے رشتے دار ایک دوسرے کو چھو سکتے ہیں۔’‘
عامر کی آپ بیتی بتاتی ہے کہ جیلوں میں قیدیوں کی صورت حال میں سدھار کی بہت ضرورت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جیل انتظامیہ کو اس سمت میں سوچنا چاہیے کہ کم از کم عید کے موقع پر مسلمان قیدیوں کو ان کے اہل خانہ سے رکھشا بندھن کی طرح ہی ملنے کی اجازت دی جائے کیوں کہ جیلوں میں بیش تر آبادی مسلم قیدیوں کی ہے۔ یہ کوئی ہماری بات نہیں ہے بلکہ سرکاری اعداد وشمار سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔
عامر بتاتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے کہ عید کے دن صرف جیل کے اندر غم کا ماحول ہوتا ہے بلکہ جیل سے باہر کی دنیا میں بھی قیدیوں کے گھر والے عید کی خوشیاں نہیں منا پاتے ہیں عید ان کے لیے بھی بہت مشکل ہوتی ہے۔عامر مزید بتاتے ہیں کہ ’’جیل کا قیدی بھی زکوٰة خیرات کا مستحق ہے ہماری قوم کے صاحبِ حیثیت لوگوں کو اس طرف بھی ایک بار سوچنا چاہیے۔‘‘
خاص طور پر اپنے مسلمان بھائیوں سے اپیل کرتے ہوئے عامر کہتے ہیں ’’کم از کم اس عید کے موقع پر قیدیوں کے خاندان والوں کو نہ بھلایا جائے بلکہ جتنا ہو سکے ان کی زیادہ سے زیادہ مدد کریں تاکہ ان کے زخموں پر مرہم رکھا جا سکے۔‘‘
عامر جیل کی یادوں میں پوری طرح سے ڈوب چکے تھے میں نے جیسے ہی ان سے لاک ڈاؤن کے سلسلے میں سوال پوچھا وہ خیالوں کی دنیا سے باہر آئے اور کہنے لگے کہ ملک کے تمام مسلمانوں کو اس بار عید بالکل سادگی سے منانی چاہیے اور خاموشی سے دیکھنا چاہیے کہ آس پڑوس میں کوئی ضرورت مند تو نہیں ہے اگر ہے تو ان کی ہر ممکن مدد کرنی چاہیے۔ اس لاک ڈاؤن میں اس ملک کا مزدور بے حد پریشان ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ سب سے زیادہ پریشانی انہیں کو ہو رہی ہے ان کی مدد کے لیے ہم سب کو آگے آنا چاہیے۔
عامر مزید بتاتے ہیں کہ ہم جیل میں رہ کر بھی یہ کام کیا کرتے تھے کوئی نیا قیدی جیل میں آتا تو اس کے پاس پہننے کو کپڑے نہیں ہوتے تھے نہانے کے لیے صابن نہیں ہوتا تھا تب ہم قیدی مل کر اس کی مدد کرتے تھے۔ جب جیل کے اندر قیدیوں میں یہ جذبہ ہو سکتا ہے تو جو جیل سے باہر کی دنیا میں صاحبِ حیثیت لوگ ہیں ان کے اندر بھی یہی جذبہ ہونا چاہیے کسی ضرورت مند کی مدد کرنا بھی عبادت کا اہم جز ہے۔ اس بار جب پوری دنیا کورونا وائرس سے پریشان ہے عید پرانے کپڑوں میں بھی منائی جا سکتی ہے اس لیے میں اپیل کرتا ہوں کہ اس بار ہمیں عید پوری سادگی سے منانی چاہیے۔ عید سے پہلے ہی ہم ضرورت مندوں کی مدد تو کر رہے ہیں لیکن عید کے بعد بھی ان کا خیال رکھنا ہمارا فرض ہے۔
یہاں اس بات کا ذکر بھی مناسب ہوگا کہ پرانی دلی کے مختلف علاقوں میں بے گھر لوگوں اور کام سے محروم پریشان حال مزدوروں کے لیے کمیونیٹی کچن چل رہا ہے۔ اس کام میں مقامی لوگوں کے ساتھ محمد عامر بھی پیش پیش ہیں۔
1998 میں اٹھارہ سالہ عامر ایک دن اپنی ماں کے لیے دوائی لینے کے لیے گھر سے نکلے تھے اور پھر انہیں واپس آنے میں پورے 14سال لگ گئے۔ عامر پر بم دھماکہ کرنے، دہشت گردی کی سازش رچنے اور ملک کے خلاف جنگ کرنے کے سنگین الزامات عائد کیے گئے تھے۔ ان کے خلاف 18سال کی عمر میں 19مقدمات درج کیے گئے تھے۔ اس کے ساتھ ہی ایک طویل قانونی جنگ جو 1998میں شروع ہوئی وہ 2012تک جاری رہی۔ جنوری 2012میں محمد عامر خان کو تمام الزامات سے بری کردیا گیا تھا۔
عامر نے انسانی حقوق کی وکیل اور مصنف نندیتا ہکسر کی مدد سے اپنی 14سال کی جد وجہد کو کتابی شکل دی۔
Framed As a Terrorist: My 14-Year Struggle to Prove My Innocence
نامی کتاب کو اسپیکنگ ٹائیگر پبلشر دہلی نے سال 2016میں شائع کیاہے۔ شاید ملک میں ان کا پہلا معاملہ تھا جس میں دلی پولیس معاوضہ دینے پر مجبور ہوئی ہے۔ قومی انسانی حقوق کمیشن نے ریاستی مشینری کے ذریعے غلط قانونی کارروائی کرنے پر انہیں دہلی پولیس سے 5لاکھ روپے معاوضہ دلوایا۔ عامر فی الحال معروف سماجی کارکن ہرش مندر کی تنظیم ’امن برادری‘ سے وابستہ ہیں۔
جیل میں دعوت اخبار تھا عامر کا دوست
محمد عامر خان ہفت روزہ دعوت کے ساتھ بات چیت میں بتاتے ہیں کہ جیل میرے لیے ایک یونیورسٹی تھی لیکن میں نے اس یونیورسٹی میں کبھی کسی کو دوست نہیں بنایا یہاں میری دوستی ہریالی اور کتابوں سے تھی پھول، پیڑ پودوں کو دیکھ کر تازگی کا احساس ہوتا تھا دوسرا مشغلہ کتابوں کا مطالعہ تھا۔
زیادہ تر وقت جیل کی لائبریری میں گزارتا تھا۔ وہاں آنے والے میگزین اور اخباروں کو پڑھتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی میرے والد نے میرے لیے قومی آواز جاری کروایا تھا لیکن یہ اخبار صرف مین اسٹریم کی خبریں شائع کرتا تھا ایک دن میں نے کہیں دعوت کا اشتہار دیکھا تو مجھے لگا کہ قومی وملی خبروں کے لیے مجھے اسے پڑھنا چاہیے۔ میں نے یہ بات اپنے والد کو بتائی تو انہوں نے سہ روزہ دعوت بھی جاری کروا دیا۔ اب ڈاک کے ذریعے جیل میں دعوت اخبار بھی آنے لگا میں اسے بڑے شوق سے پڑھتا تھا اس کا ایک حرف بھی میں نہیں چھوڑتا تھا۔ سچ پوچھیے تو جیل میں یہی میرا سب سے سچا دوست تھا۔
عامر نے جیل میں رہتے ہوئے گریجویشن کی پڑھائی کے لیے اگنو میں داخلہ لیا تھا اور پڑھائی شروع بھی کر دی تھی لیکن عامر کے مطابق بعد میں ان کے جیلر نے ان کی پڑھائی رکوا دی۔عامر نے جس کرب والم کے ساتھ جیل کے دنوں کے احوال اور خاص طور پر عیدین کے موقع پر دل کی جو حالت بیان کی ہے وہ واقعی سوچنے پر مجبور کرنے والی ہے۔یہ معاملہ اس لیے بھی سنگین ہے کیونکہ جیلوں میں اکثریت زیر دریافت قیدیوں کی ہوتی ہے اورنہیں معلوم ان میں کتنے عامر جیسے ہوتے ہیں جو جرم بے گناہی کی پاداش میں اپنے قیمتی ماہ وسال جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
یوں تو جیل کا ہر دن ایک جیسا ہی ہوتا ہے لیکن جب عید کا موقع آتا ہے تو جیل سے باہر کی دنیا میں خوشیاں ہی خوشیاں ہوتی ہیں جب کہ جیل کی دنیا میں غم مزید چھایا ہوا ہوتا ہے۔ سبھی قیدی اپنے پرانے دنوں کو یاد کر رہے ہوتے ہیں کچھ رو رہے ہوتے ہیں تو کچھ اپنے غم کو چھپانے کے لیے زبردستی مسکرانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں