سفر نامہ حج

1968ء میں مولانا عامر عثمانیؒ مدیرتجلی کے سفر کی ایک دلچسپ روداد

 

1970ء کی دہائی اور اس سے پہلے کے زمانے میں عازمین حج کوٹہ سسٹم کے تحت سفر کرتے تھے، اور اس کے لئے ایک علیحدہ حج پاسپورٹ ہوا کرتا تھا، اورقرعہ میں نام نکلنے کے باوجود لوگ ہفتوں ممبئی کے حاجی صابو صدیق مسافر خانے میں ڈیرہ ڈالے ٹکٹ کے انتظار میں پڑے رہتے تھے۔ ان مشکل دنوں میں جن شخصیات نے عازمین حج کے بے پناہ خدمت کی ان میں محی الدین منیری مرحوم کو یاد کرتے بڑے بڑوں کو ہم نے دیکھا ہے۔اس وقت ہمارے سامنے مولانا عامر عثمانیؒ مدیر تجلی دیوبند نے اپنے سفر حج کے سلسلے میں جو شذرہ جنوری، فروری ۱۹۶۸ء کے شمارے میں تحریر کیا تھا وہ ہمارے سامنے ہے، اس میں آپ نے خاص طور پر اپنے سفرحج کی تیاری میں جو مشکلات پیش آئی تھیں ان پر روشنی ڈالی ہے اور خادم الحجاج محی الدین منیری مرحوم کے جذبہ خدمت کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ مدیر تجلی کی یہ تحریر اس سلسلے کی ایک دستاویز ہے۔ ہمیں امید ہے کہ عامر عثمانی مرحوم کے یہ چند سطور ان لوگوں کے حق میں دست دعا بلند ہونے کا باعث بنیں گی جنہوں نے نام ونمود کی خواہش سے بلند ہو کر مہمانان رسول ﷺ کی خدمت کی۔ آیئے اب ہم مدیر تجلی کے جذبات واحساسات اس مبارک سفر کے بارے میں پڑھتے ہیں۔ (ترتیب وپیشکش، مولانا عبد المتین منیری)
آغازسخن
جب سفرِ حج کے لیے رختِ سفر باندھ رہے تھے تو ارادہ تھا کہ پورے سفر میں روزنامچہ لکھنے کا التزام کریں گے۔ روزنامچے ہی کو شاید ڈائری بھی کہتے ہیں۔ ڈائری لکھنا تو بعض لوگوں کے معمولاتِ زندگی میں شامل ہوا کرتا ہے مگر ہماری بے توفیقی دیکھیے کہ ارادے کے باوجود سفرِ حج تک کی ڈائری نہ لکھ سکے۔ بے توفیقی کے سوا اسے آخر اور کیا کہیں گے کہ قلم جیب میں اور کاغذ بیگ میں موجود، فرصت اور موقع مہیا، کوئی دشواری اور رکاوٹ بھی آس پاس نہیں، مگر انگلیوں کے قلم تک اور قلم سے کاغذ تک پہنچنے کی نوبت نہ آسکی، روزانہ کا التزام تو کُجا کسی ایک دن کی ڈائری بھی قلمبند نہ کرسکے۔ اب سفرِ حج پورا کر کے گھر لوٹے ہیں تو سوچ رہے ہیں کہ کیا کیا لکھیں اور کیسے لکھیں۔ اٹھارہ فروری کو دیوبند سے چلے تھے سات اپریل کو پھر دیوبند ہی میں نظر آ رہے ہیں۔ پچاس دنوں کی مفصل روداد یوں تو سیکڑوں صفحات پر پھیل سکتی ہے مگر بار بار خیال آتا ہے کہ آخر ضرورت ہی کیا ہے اس داستان سرائی کی، حج کا سفر کوئی انوکھا سفر تو نہیں، ہر سال لاکھوں ہی مسلمان اس سفر کی سعادت حاصل کرتے ہیں، پھر بہتیرے ان میں ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنی اپنی رودادِ سفر لکھ ڈالی ہے اور ہر روداد زیادہ سے زیادہ پانچ سات روپے خرچ کر کے بازار سے مل بھی جاتی ہے، پھر کیا خاص بات ہوئی اگر عامر عثمانی نے بھی ایک عدد سفرِ حج کر ہی ڈالا اور کیا حاصل ہوگا اگر اس سفر کے معروف ومعلوم مراحل کی کہانی بہت سے صفحات کالے کر کے سنا ہی دی گئی۔
خیر، اگر ہم اپنے حج میں کوئی خصوصیت، کوئی شانِ امتیازی، کوئی ندرت وانفرادیت محسوس کرتے تو سوچ بھی سکتے تھے کہ اسی خصوصیت وانفرادیت کو نمایاں کرنے کے لیے سفرنامہ تالیف کر دیں لیکن خصوصیت وانفرادیت تو در کنار یہاں تو یہ تک یقین کرنا مشکل ہو رہا ہے کہ ہم جو کچھ کر آئے ہیں وہ واقعتاً حج ہے یا اسے صرف حج کی نقل کہنا چاہیے۔ حج ایک عبادتِ شاقہ کا نام ہے، کسی نہ کسی مرحلے میں تھکن، دشواری، تعب اور سرگشتگی سے دو چار ہونا اس کے لوازمات ہی میں سمجھیے۔ لیکن ہم اس پورے سفر میں نہ کسی دشواری اور پریشانی سے ہمکنار ہوئے، نہ کوئی منزل تعب اور خستگی کی آئی، گھر سے نکلے تھے تو ہر طرح کا سامانِ آسائش ہمرکاب تھا، یاد رہے کہ ادارے کے ناظم ہمارے چھوٹے بھائی عمر فاروق سلمہ نے دفتر کے ایک کارکن کو بمبئی تک کے لیے ہمارا ہم سفر بنا دیا تھا کہ راستے بھر وہ ہمیں اپنی خدمات سے مستفید کرتے چلے جائیں، بڑے لوگ نوکر چاکر رکھتے ہیں، شیوخ ومرشدین کا بارِ خدمت اٹھانے کے لیے خادم کی کمی نہیں، لیکن ہم نہ تو بڑے لوگوں میں شامل تھے نہ شیوخ ومرشدین میں، پھر اسے تکلف بے جا نہیں کہیں تو اور کیا کہیں گے کہ نل سے پانی بھرنے اور ناشتہ دان سے کھانا نکالنے کے بھی ایک معاون ساتھ ہو، لیکن تقدیر الٰہی جو کچھ ہوتی ہے اس کے اسباب و وسائل تو خود بخود ہی ظہور پذیر ہوتے چلے جاتے ہیں۔
بمبئی اترے تو وہاں بھی آرام وراحت ہمارے لیے آغوش کھولے کھڑے تھے۔ کیو پریس کے منیجر جناب غلام قادر صاحب کی اسٹیشن تشریف آوری تو خیر متوقع تھی ہی لیکن بمبئی کے امیر حلقہ جناب شمس پیرزادہ اور مکتبہ اسلامی کے منیجر جناب شہاب بانکوٹی بھی اتنے سویرے بمبئی سنٹرل پہنچ جائیں گے، اس کا تصور تک نہ تھا، ان حضرات کو اپنے پروگرام کی کوئی اطلاع ہم نے نہیں دی تھی، انہیں اسٹیشن موجود پا کر ایک غیر متوقع مسرت اور اطمینان کا احساس کیسے نہ ہوتا، پھر اس حساس میں تحیر کا اضافہ بھی ہوگیا۔ جب جناب ڈاکٹر عبد الکریم نائک کی سبک رفتار کار نےہمیں ہمارے سامان سمیت اپنے اندر سمو لیا۔ تحیر کی وجہ ظاہر ہے کہ ڈاکٹر صاحب موصوف کی نہ صرف شخصیت بلکہ نام تک سے ہم واقف نہ تھے۔ یہ سب تو بعد میں معلوم ہوا کہ وہ کون ہیں اور کن اوصاف کے مالک ہیں۔ سفر نامہ لکھ رہے ہوتے تو ہم تفصیل سے ان کا تعارف کراتے لیکن بحالتِ موجودہ بس اتنا ہی کافی سمجھیے کہ وہ ایک اچھے ڈاکٹر ہیں، جن کی ڈسپنسری میں مریضوں کا ہجوم رہتا ہے، ان کی بڑی خوبی ہی ہے کہ ایک مصروف اور کامیاب ڈاکٹر ہونے کے باوجود ان کے قلب وذہن کا رشتہ قوم وملت کی فلاح اور علمی ومعاشرتی خدمات کے تصور اور جذبے سے مضبوطی کے ساتھ جڑا ہوا ہے، وہ بڑا درد مند دل اور بہت فیاض طبیعت رکھتے ہیں، ان کے ذہن میں شاید ہر وقت ہی یہ تڑپ کسی نہ کسی درجے میں موجود رہتی ہے کہ کونسا طریقہ ہو جس سے ملی مسائل کی گرہیں کھل سکیں اور مسلمانوں کی پس ماندگی اصلاح وترقی کے رخ پر چل سکے۔
انہوں نے سادگی اور بے تکلفی کے ساتھ پیشکش کی کہ میرے ہی گھر قیام کیا جائے، لیکن ہم چونکہ تجلی میں کیو پریس کا اعلان کرچکے تھے، اس لیے شکریہ کے ساتھ معذرت کر دی گئی اور پھر ان کی خوش خرام گاڑی نے چند ہی منٹ میں ہمیں کیو پریس پہنچا دیا۔جہاز جدہ کے لیے چوبیس فروری کو اڑنا تھا اور بمبئی ہم بیس فروری کو اترے، ان پانچ دنوں میں پاسپورٹ وغیرہ کے مراحل طے ہونے تھے، یہ پانچ دن کیسے گزرے، اس کے متعلق بس اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ پھولوں کی سیج پر گزرے، ضیافتیں، تحفے، علمی وادبی نشستیں، سیر وتفریح، ڈاکٹر نائک تو ایک روز رات کے ایک بجے تک اپنی گاڑی میں نہ جانے کہاں کہاں گھماتے پھرے، وہ از راہِ مہمان نوازی مختلف مقامات کے نام بتاتے جا رہے تھے، یہ الگ بات ہے کہ اب ہمیں ان میں سے ایک بھی نام یاد نہ ہو، یاد نہ رہنے کی وجہ حافظے کی خرابی نہیں، حافظہ بے چارہ کیا کرتا جب دل ودماغ دونوں کسی اور ہی دنیا میں گم تھے، حقیقت یہ ہے کہ ان پانچ دنوں میں حصہ ہم نے بظاہر سارے ہی مشاغل میں لیا لیکن قلب وذہن کی تمام تر توجہ ان آنے والی ساعتوں کی طرف مرکوز رہی، جب ہمارا جہاز اڑ کر سر زمیں حجاز پر اترے گا اور آنکھیں ان مقاماتِ محبوبہ کے نظارے سے شرف یاب ہوں گی، جن کے دھندلے تصوراتی خاکے نہ جانے کب سے ہماری روح کے نہاں خانے میں قوس وقزح کے حسین رنگوں کا تانا بانا پھیلائے ہوئے ہیں۔
یہ تصور کی دنیا بھی عجیب ہے، بمبئی کی سربفلک عمارتیں اور دل کش تفریح گاہیں سامنے تھیں مگر ایسا لگ رہا تھا جیسے ان سب پر دبیز کہرے کے غلاف چڑھے ہوئے ہوں، جیسے یہ بہت دور ۔۔۔۔۔ہزاروں میل دور واقع ہوں اور ہم بس عالمِ خواب میں ان کا نظارہ کر رہے ہوں، اگر طائرِ تخیل ہم سے پہلے دیارِ حبیب کی طرف نہ اڑ گیا ہوتا تو ظاہر ہے کہ عروس البلاد بمبئی کی تفریحات سے کس کافر کو دل بیزاری کی حد تک بے تعلقی محسوس کرسکتا تھا۔ دور نہ جائیے، ابھی واپسی میں جب چھ دن ہم بمبئی میں ٹھیرے ہیں تو کیفیت یکسر بدلی ہوئی تھی، اب ہر چیز اپنی عام شکل میں نظر آئی، وہی رعنائیاں، وہی جذب وکشش، وہی کافر ادائیاں جو عروسِ دنیا کا طرہ امتیاز ہیں، خشوع و وارفتگی، زہد وتقویٰ اور سوز وگداز کی ساری کیفیتیں شاید ہزاروں فٹ کی ان بلندیوں سے گر کر چکنا چور ہو چکی تھیں، جن کے دوش پر ہوائی جہاز ہمیں اڑا کر جدہ سے بمبئی لایا تھا، دبیز کہرے کے وہ غلاف جنہیں ابھی ایک ماہ قبل ہم نے بمبئی کی ہر عمارت اور ہر تفریح گاہ پر چڑھا ہوا دیکھا تھا اب کہیں نظر نہ آتے تھے۔
الحاج محی الدین منیری کا ذکر خیر
ہوسکتا ہے کہ اس میں ہماری اعصابی کمزوری کو بھی دخل ہو، حقیقت بہرحال یہی تھی کہ جسم بمبئی میں تھا اور دل ودماغ کہیں اور۔ پاسپورٹ اور دیگر متعلقہ امور کی آئینی تکمیل کے سلسلے میں مسافر خانہ صابو صدیق پہنچے تو وہاں حجاج کا اتنا ہجوم تھا کہ ہچکولے کھائے بغیر راہداری سے گزرنا مشکل تھا، شور، ہلچل، ہنگامہ، اب شاید ہمارے لیے بھی تعجب اور ابتلا کی منزل آ پہنچی تھی، مگر نہیں، ابھی چند منٹ بھی تو نہ گزرے ہوں گے کہ ایک ایسے بندہ خدا سے ملاقات ہوگئی جس کی مخلصانہ نوازشات نے ہمارا سارا غم دور کر دیا، یہ تھے مولانا محی الدین منیری، جوائنٹ سکریٹری مجلس خدام النبی، انہوں نے جس تپاک، سرگرمی اور محبت سے ہمارے سارے کام خود چل پھر کر کرا دیے، اس کی یاد زندگی بھر دل سے محو نہ ہوگی، محاورے میں یوں سمجھیے کہ ہم تو نوابی کرتے رہے اور ضابطے کے تمام مراحل مولانا موصوف کی خاص توجہ سے آناً فاناً طے ہوتے چلے گئے، ہزاروں ہزار حاجیوں کی بھیڑ میں کون ہے جسے متعلقہ مراحل طے کرنے میں تھوڑے بہت انتظار، تعب، صبر اور جسمانی وذہنی جھٹکوں سے سابقہ نہ پیش آتا ہو، فقط بحری جہاز والوں کو ہی کی بات نہیں، ہوائی جہاز والے حجاج کو بھی ہم نے بعض مراحل میں لائن میں کھڑا دیکھا ہے اور یہ بھی دیکھا ہے کہ باوجود موسم گرم نہ ہونے کے وہ رومال سے ماتھے اور گردن کا پسینہ پونچھ رہے ہیں، لیکن مولانا منیری کے حسنِ اخلاق نے ہمارے لیے وہ مسیحائی کی کہ کسی بھی مرحلے پر ہمیں ادنی درجے میں بھی نہ صبر وانتظار کی کلفت اٹھانی پڑی نہ لائن میں لگنا پڑا، نہ دوڑ دھوپ کی نوبت آئی۔ یوں سمجھیے کہ جیسے اور سب حاجی تو حاجی تھے اور ہم محض تماشائی، جو کسی آسودہ حال امیر کی طرح آرام کرسی پر نیم دراز فقط لطفِ تماشا اٹھا رہا ہو۔
مگر ٹھیریے، یہاں ایک ایسا واقعہ بھی پیش آیا، جس نے ہمارا کم سے کم پانچ تولے خون خشک کر ہی دیا ہو گا، یہ الگ بات ہے کہ جس رحیم وکریم آقا نے ہمارے لیے اس پورے سفر میں آسانیاں ہی آسانیاں اور راحتیں ہی راحتیں مقسوم فرما دی تھیں، اس کی حیرت ناک کار سازی نے عین اسی وقت ایک ایسا واقعہ بھی رونما کر دیا جس کی وجہ سے اس خشک شدہ خون کی فوری پیدائش میں دیر نہیں لگی، دونوں واقعات آپ کی ضیافتِ طبع کے لیے حاضر خدمت ہیں۔
قرنطینہ اور ٹیکوں وغیرہ کے مراحل طے ہوگئے تھے، ابتدائی ضوابط کا پیٹ بھر چکا تھا، اب مرحلہ تھا تو فقط یہ کہ پاسپورٹ اپنے ہاتھ میں آ جائے اور اطمینان حاصل ہو کہ اب ہم حج کے لیے روانہ ہوسکیں گے، مولانا منیری کی یقین دہانی کے مطابق یہ مرحلہ بھی اب منٹوں میں طے ہو جانا تھا، چنانچہ ان ہی کی معیت میں خراماں خراماں اوپر پہنچے، تیار شدہ پاسپورٹ جو حضرات تقسیم کر رہے تھے، ان سے مولانا منیری کی نہ صرف جان پہچان تھی بلکہ خاصی بے تکلفی بھی تھی، بلکہ جہاں تک یاد پڑتا ہے ایک صاحب ان کے قرابت دار بھی تھے، دفتر پہنچتے ہی مولانا نے ہمارا پاسپورٹ طلب اور متعلقہ کارکن نے ان کے الفاظ سنتے ہی پاسپورٹوں کے ڈھیر کی طرف توجہ دی۔
ہمیں مولانا نے اس دفتر کی ایک کرسی پر بٹھا دیا تھا، بیٹھنے کو ان کے حکم سے بیٹھ تو گئے لیکن اضطراب شوق کا یہ عالم تھا کہ کرسی جیسے چٹکیاں بھر رہی ہو، کارکن موصوف نے پاسپورٹوں کی ایک دو گڈیاں الٹیں پلٹیں اور ہم غیر ارادی طور پر اپنی کرسی سے کھڑے ہوگئے کہ اب ہمارا پاسپورٹ ڈھیر سے جدا ہوا اور اب ہم نے اسے بہ ہزار شوق سینے سے لگایا۔
باقاعدہ نام زدگی کے بعد پاسپورٹ کا مسئلہ حجاج کے لیے کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا، حج کمیٹی سے اجازت مل چکی ہو تو پاسپورٹ بھی بے چوں وچرا مل ہی جاتا ہے، مگر ہماری ذہنی حالت نارمل نہیں تھی، وفورِ شوق کہیے یا ضعفِ اعصاب، ہم بہرحال اندیشہ ہائے دور دراز کا شکار تھے، ہمارا اندرونی اضطراب رہ رہ کر ہمیں اس وسوسے کا خوفناک چہرہ دکھا رہا تھا کہ کیا عجب ہے جس سرکار والا تبار نے ہمیں پاکستان کا پاسپورٹ دینے سے انکار کر دیا ہے وہ ہمارے حج کو بھی کسی وطن دشمن سازش کی کڑی تصور کر کے حکم امتناعی کی دیوار کھڑی کر دے۔
کارکن موصوف نے پاسپورٹوں کے کئی ڈھیر الٹ پلٹ کر الماری میں رکھ دیے، پھر الماری کے دوسرے خانوں کی طرف توجہ دی، اس کا مطلب یہ تھا کہ متوقع ڈھیروں میں ہمارا پاسپورٹ نہیں مل سکا ہے، یہ محسوس کرتے ہی ہم پھر کرسی پر بیٹھ گئے، مولانا منیری رہ رہ کر ہماری طرف دیکھ لیتے تھے اور ہماری حالتِ زار کا اندازہ کر کے کچھ تسلیاں بھی دیتے جاتے تھے، ان تسلیوں ہی کے صدقے کئی بار ہم نے اس خوش گوار تصور کا لطف اٹھایا کہ ہمارا پاسپورٹ الماری سے پھدک کر ہمارے ہاتھ میں آگیا ہے اور ہم اسے مضبوطی کے ساتھ سینے سے لگائے دیارِ حبیب میں جا اترے ہیں، دیکھتے ہی دیکھتے تصور کی یہ دنیا پھیلتی چلی گئی، یہاں تک کہ بمبئی اور یہ دفتر جہاں ہم اس وقت بیٹھے تھے اس کی وسعتوں میں اس طرح گم ہوگئے جیسے ریت کے ڈھیر میں رائی، افق سے افق تک اگر کوئی چیز پھیلی ہوئی تھی تو وہ تھی خیالی دنیا کی وہ ہفت رنگی دھنک جس کے پیش منظر میں بیت اللہ کی چوکور عمارت اور مسجدِ نبوی کے پہلو میں نظر آنے والے سبز گنبد کا ہیولی ایسا نظر آ رہا تھا کہ جیسے خواب کی حالت میں کوئی فراق زدہ عاشق اپنے محبوب کی جھلکیاں دیکھ رہا ہو، جدے سے مکے اور مکے سے مدینے کا سفر آن کی آن میں طے ہو رہا تھا، پہاڑ اور وادیاں، صحرا اور نخلستان، اونٹوں کی قطاریں اور بکریوں کے گلے برقی سرعت سے تخیل کے اسکرین پر دوڑے جا رہے تھے اور خیالی دنیا کی قوسِ قزح ان پر اپنے سات رنگوں کی پرچھائیاں اس طرح ڈال رہی تھی جیسے کوئی ہفت رنگا گلوب مسلسل گھوم رہا ہو۔۔۔۔۔۔۔ جاری

یہ تصور کی دنیا بھی عجیب ہے، بمبئی کی سر بفلک عمارتیں اور دل کش تفریح گاہیں سامنے تھیں مگر ایسا لگ رہا تھا جیسے ان سب پر دبیز کہرے کے غلاف چڑھے ہوئے ہوں، جیسے یہ بہت دور ۔۔۔۔۔ہزاروں میل دور واقع ہوں اور ہم بس عالمِ خواب میں ان کا نظارہ کر رہے ہوں، اگر طائرِ تخیل ہم سے پہلے دیارِ حبیب کی طرف نہ اڑ گیا ہوتا تو ظاہر ہے کہ عروس البلاد بمبئی کی تفریحات سے کس کافر کو دل بیزاری کی حد تک بے تعلقی محسوس کرسکتا تھا، دور نہ جائیے، ابھی واپسی میں جب چھ دن ہم بمبئی میں ٹھیرے ہیں تو کیفیت یکسر بدلی ہوئی تھی، اب ہر چیز اپنی عام شکل میں نظر آئی، وہی رعنائیاں، وہی جذب و کشش، وہی کافر ادائیاں جو عروسِ دنیا کا طرہ? امتیاز ہیں، خشوع و وارفتگی، زہد و تقوی اور سوز و گداز کی ساری کیفیتیں شاید ہزاروں فٹ کی ان بلندیوں سے گر کر چکنا چور ہو چکی تھیں، جن کے دوش پر ہوائی جہاز ہمیں اڑا کر جدے سے بمبئی لایا تھا، دبیز کہرے کے وہ غلاف جنھیں ابھی ایک ماہ قبل ہم نے بمبئی کی ہر عمارت اور ہر تفریح گاہ پر چڑھا ہوا دیکھا تھا اب کہیں نظر نہ آتے تھے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 25 تا 31 جولائی 2021