سسرالی رشتے کیسے نبھائیں!

ڈاکٹر محی الدین غازی

 

شادی سے محبت کا ایک نیا چشمہ رواں ہوتا ہے، اس چشمے کو بہت زیادہ فیض والا ہونا چاہئے۔ یہ محبت صرف شوہر، بیوی اور بچوں تک سمٹ کر نہ رہ جائے، بلکہ اس محبت سے دو پورے پورے خاندانوں کو سیراب ہونے کا موقع ملے۔ ایک طرف شوہر اپنی سسرال والوں کے لئے رحمت ومودت کا سفیر بن کر آئے، اور ان کی خوشیوں میں شریک ہوکر ان کے دکھوں کو تقسیم کرلے، تو دوسری طرف بیوی اپنی سسرال کو سنوارنے، نکھارنے اور وہاں محبت کی خوشبو عام کرنے والی نسیم رحمت بن کرجائے۔
محبت پہلے آپ کریں
جب تعلقات کا آغاز یہ سوچ کر کیا جاتا ہے کہ ’’سامنے والے خوبی سے پیش آئیں گے، تبھی ہم بھی خوبی سے پیش آئیں گے‘‘ تو خوبی سے پیش آنے کے راستے کبھی کھلتے ہی نہیں، دونوں طرف سے زندگی بھر انتظار ہی ہوتا رہتا ہے۔ لیکن اگر تعلقات کا آغاز اس عزم کے ساتھ کیا جائے کہ مجھے آگے بڑھ کر دل جیتنے ہیں، محبت کی خوشبو بکھیرنی ہے، اور خود آگے بڑھ کر ایک خوش گوار اور حیات بخش فضا بنانی ہے، تو بہت جلد اس اچھی نیت اور مبارک پیش رفت کے فرحت افزا نتیجے سامنے آنے لگتے ہیں اور کسی ایک شخص کا بے غرض اقدام سب کی سوچ اور رویو کو بدلنے لگتا ہے۔ سسرال جیسے نئے خاندانوں سے خوش گوار رشتے قائم کرنے کے لئے ’’آگے بڑھ کر محبت کا اظہار کرنا‘‘ بہت مفید اور موثر ہوتا ہے۔
سسرال دامادوں کے لئے در بہشت
سسرال سے دامادوں کا رشتہ عام طور سے مہمان والا ہوتا ہے۔ مہمان کی خاطر تواضع ہماری روشن تہذیبی روایت رہی ہے، اس لئے دامادوں کو اپنی سسرال میں کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ زیادہ تر مسائل تپاک وخیر مقدم اور خاطر تواضع میں کمی زیادتی سے متعلق ہوتے ہیں۔ کچھ داماد مہمان سے آگے بڑھ کر سسرال کے ذمہ دار افراد میں شامل ہونا پسند کرتے ہیں وہ سسرال کی بہت سی ضرورتوں کی تکمیل میں اور بہت سے مسائل کے حل میں اچھا رول ادا کرتے ہیں، یہ عام دامادوں سے مختلف مثالی داماد ہوتے ہیں۔
سب کے ساتھ سب کی طرح رہنے کا اصول
سسرال کے رشتوں کو غیر ضروری طور سے حساس بنادیا گیا ہے۔ ماحول میں رائج تصورات کی وجہ سے دامادوں کے ذہن میں یہ تصور بیٹھا ہوتا ہے کہ ان کو امتیازی سلوک اور مراعات ملیں اور جب ایسا نہ ہو تو وہ ناراض ہوجاتے ہیں۔ ایسی سوچ مناسب نہیں ہے، ’’سب کے ساتھ سب کی طرح‘‘رہنے کا اصول راحت بخش ہوتا ہے۔خصوصی اہتمام اور امتیازی مقام چاہنے سے تکلیف اور زحمت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اچھے داماد وہ ہوتے ہیں جو اپنی سسرال میں گھل مل جاتے ہیں، وہ باعث زحمت نہیں بنتے، بلکہ وہاں کی ذمہ داریوں میں شریک ہوجاتے ہیں۔ رواج کے تحت جو احترام ملتا ہے وہ مصنوعی ہوتا ہے، اور اچھے اخلاق اور عمدہ سلوک سے جو احترام ملتا ہے وہی حقیقی ہوتا ہے۔
داماد کی یہ شبیہ کہ اس کی وجہ سے سسرال کا بجٹ قابو سے باہر ہوجاتا ہے، باعزت شبیہ نہیں ہے۔ بقول شاعر
داماد کو نکال کے جب بھی ہوا ہے پیش
سالوں نے پاس کر دیا سسرال کا بجٹ
داماد سسرال کا تعاون کرنے والا ہو، نہ کہ اس کا بجٹ مشکل بنانے والا۔
سسرال میں ایک نازک رشتہ ہم زلفوں کا سمجھا جاتا ہے، بہنوں کے شوہروں کے درمیان ایک رقابت سی ہوتی ہے، وہ ذرا ذرا سی بات کو نوٹس میں رکھتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ان کے درمیان مختلف پہلوؤں سے فرق ہوتا ہے، کوئی زیادہ مال دار، کوئی زیادہ ملنسار، کوئی زیادہ تعلیم یافتہ، اور کوئی زیادہ اونچے منصب والا ہوتا ہے۔ اس کا اثر ان کے ساتھ ہونے والے برتاؤ پر پڑتا ہے اور جب برتاؤ میں تفریق نمایاں ہونے لگتی ہے تو دلوں میں میل اور تعلقات میں بال پڑنے لگتا ہے۔ داماد ہی نہیں خود لڑکی کو اپنے والدین سے شکایت رہنے لگتی ہے۔
سسرال والوں کو اس کا خیال رکھنا چاہئے کہ وہ سب کے ساتھ اچھا رویہ اختیار کریں، اور ہم زلفوں کے درمیان فرق مراتب کا کھلا اظہار نہ کریں، جہاں تک ہوسکے یکساں تپاک اور تعلق کا معاملہ کریں۔ ان میں سے کسی کی طرف سے خصوصی تعاون ہوا ہو، تو شکر گزاری اور احسان شناسی کے لئے ایسے طریقے اختیار کریں کہ تعاون کرنے والے کو خوشی ہو مگر باقی لوگوں کے لئےکسی تکلیف کا سبب نہ ہو۔
دوسری طرف دامادوں کو چاہئے کہ وہ منفی قسم کی ذکاوت حس کا شکار نہ رہیں، اور ذرا ذرا سی بات کو نوٹس میں نہ لائیں، بلکہ راحت واطمینان کی زندگی کے لئے بہترین نسخہ تو یہ ہے کہ آپ اپنی طرف سے بھلائی کرتے رہیں، اور خود آپ کے ساتھ کیا ہورہا ہے، اسے یکسر نظر انداز کرتے رہیں، خاندانی زندگی میں یہ طریق ہمیشہ فائدے مند رہا ہے۔ ذکاوت حس کا مثبت استعمال یہ ہے کہ آپ لوگوں کے جذبات کی رعایت میں بہت زیادہ محتاط رہیں، آپ کے بول ہی نہیں، آپ کے اشارے، آپ کا تبسم، یہاں تک کہ آپ کی خاموشی بھی کسی کا دل دکھانے والی نہ ہو۔ ذکاوت حس کا منفی استعمال یہ ہے کہ دوسروں کی ذرا ذرا سی بات پر برا مانیں، اور اپنا دل میلا کریں، اس طرح کی ذکاوت حس دوسروں کو پریشانی اور شرمندگی سے دوچار رکھتی ہے، اور خود کو ناراض اور کبیدہ خاطر رکھتی ہے۔ طویل اور مستحکم تعلق کے لئے مثبت ذکاوت حس بہت مفید اور منفی ذکاوت حس بہت مضر ہوتی ہے۔
ایک اچھا انسان، سب کے لئے اچھا ہوتا ہے، وہ بیک وقت اپنے گھرکے لئے اچھا بیٹا اور اپنی سسرال کے لئے اچھا داماد ہوتا ہے۔ اس کی ذات سے دونوں خاندانوں کو فیض پہونچتا ہے۔ یہ کم ظرفی کی بات ہوتی ہے کہ سسرال کی طرف ایسا جھکاؤ ہوجائے کہ گھر والوں کو بے توجہی کا احساس ہونے لگے، یا صرف گھر تک تعلق محدود رہے، سسرال کو اس کی ذات سے کوئی فیض نہ پہنچے۔
سسرال بہوؤں کے لئے بھی در بہشت
دامادوں کے لئے تو سسرال عام طور سے در بہشت سمجھی جاتی ہے، لیکن کیا بہووں کے لئے بھی وہ در بہشت ہوتی ہے؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ سسرال کو بہووں کے لئے بھی سکون وراحت اور فرحت وانسیت کے لحاظ سے در بہشت کی طرح ہونا چاہئے۔ جس طرح دامادوں کو احترام ملتا ہے، اور ان کے جذبات کی بڑی حد تک رعایت کی جاتی ہے، اسی طرح بہوؤں کو بھی احترام دیا جائے، اور ان کے دل کو ٹھیس پہونچانے والی باتوں سے بچا جائے۔
بہنوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بھائی ان کے شوہروں کا خیال رکھیں، اسی طرح ان کی یہ کوشش بھی ہونی چاہئے کہ وہ اپنے بھائیوں کی بیویوں کا خوب خیال رکھیں۔ جب سب لوگ سب کا خیال رکھتے ہیں تو خاندان کی فضا بہت خوش گوار ہوجاتی ہے۔
بہوؤں اور دامادوں میں ایک فرق
عزت واحترام کے معاملے میں تو بہووں اور دامادوں میں بالکل فرق نہیں ہونا چاہئے، سب کو یکساں عزت واحترام ملنا چاہئے۔ تاہم ایک فرق اس پہلو سے ہے کہ داماد کی حیثیت گھر کے مستقل فرد کی نہیں ہوتی ہے، بلکہ گھر کے مہمان کی ہوتی ہے۔ گھر کی ماحول سازی میں اس کا مستقل کردار نہیں ہوتا ہے۔ تاہم بہو تو گھر کی معمار بن کر آتی ہے، وہ اپنے ساتھ جہیز لائے یا نہ لائے، مگر ذمہ داریاں لے کر آتی ہے۔ اس کا سب سے بڑا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے نئے گھر میں ایک خوش گوار ماحول بنائے۔ بہو دراصل سسرال کی رونق بن کر آتی ہے۔ مشرقی طرز معاشرت میں بہو کا رول بہت کلیدی ہوتا ہے۔ وہ سونے اور راحت سے خالی گھر کو رونق محل اور راحت کدہ بنادینے والا کردار رکھتی ہے۔ بہوؤں کو اسی عزم کے ساتھ سسرال میں قدم رکھنا چاہئے۔ اس رونق محل اور راحت کدے سے سب سے زیادہ فائدہ ان کو اور ان کے بچوں کو حاصل ہوگا۔ مزید سسرال کے لوگ اس سے جتنا لطف اندوز ہوں گے، اس کی خوشی اپنے آپ میں ایک بڑا انعام ہے۔ اور پھر رضائے الٰہی کی نیت ہو تو آخرت کے لئے بہترین ذخیرہ بھی ہوجائے گا۔
سسرال کے پیش آنے والے مسائل کی بہت بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ بہو کو اس طرح اپنایا نہیں جاتا ہے، جس طرح گھر کی دوسری خواتین کو گھر کی اپنائیت حاصل ہوتی ہے۔ اس کو اجنبی ہونے کا احساس بہت عرصے تک ستاتا رہتا ہے۔ لڑکی کو سسرال بھیجتے وقت اسے نصیحت کرنی چاہئے کہ وہ سسرال کو اپنا گھر سمجھے، ساس سسر کو ماں باپ اور نندوں کو بہنوں کی طرح سمجھے۔ لڑکی کا استقبال کرتے ہوئے سسرال والوں کو چاہئے کہ تپاک اور گرم جوشی سے استقبال کریں۔ جتنی جلدی ہوسکے بے تکلف ہوجائیں۔ الفاظ کی بڑی تاثیر ہوتی ہے۔ لڑکی سسرال کو اپنا گھر کہے، وہ جب کہے کہ میرے گھر میں ایسا ہوتا ہے، تو سسرال سمجھا جائے۔ سسرال والے جب اس سے کہیں کہ تمہارے گھر کی یہ روایت ہے، تو لڑکی کا سسرال والا گھر مراد ہو۔ گھر کے امور میں بہو سے اس طرح مشورہ لیا جائے کہ اسے لگے کہ یہ اس کا اپنا گھر ہے۔ ایسا نہ ہو کہ گھر کے بہت سے معاملات میں ماں اور بیٹیاں مل کر چپکے چپکے مشورے کریں، اور بہو کو الگ تھلگ رکھیں۔
سسرال والے گھر میں بہو اور بیٹی کے درمیان تفریق جتنی زیادہ کی جائے گی، سسرال میں بہو کے لئے ایڈجسٹ ہونا اتنا ہی زیادہ مشکل ہوگا۔ سب سے غلط تصور یہ ہے کہ بیٹی کام کم اور آرام زیادہ کرے، جب کہ بہو کام زیادہ اور آرام کم کرے۔ یہ بہت ہی غلط اور جاہلانہ تصور ہے کہ لڑکی اپنے میکے میں آرام کرے اور اپنے سسرال میں کام کرے، اس کا مظاہرہ اس طرح ہوتا ہے کہ لڑکیاں میکے آکر مہینوں آرام کرتی ہیں اور اسی گھر کی بہو دن رات کام کرتی رہتی ہے۔ یہ قطعا غیر اسلامی اور غیر اخلاقی طریقہ ہے کہ کوئی صرف کام کرے اور کوئی صرف آرام کرے۔ صحیح اصول یہ ہے کہ جو جس وقت جہاں رہے وہاں کام بھی کرے اور آرام بھی کرے۔ ’’گھر کے کام سب کریں اور گھر میں آرام سب کریں‘‘ بہت شان دار اصول ہے، یہ اصول جس گھر میں رائج ہوجائے وہاں کا ماحول نہایت خوش گوار اور محبت آفریں ہوجاتا ہے۔
سسرال سے بہو کا دل اس وقت بھی اچاٹ ہوجاتا ہے، جب اسے شوہر کے ساتھ گزارنے کے لئے مناسب وقت اور ماحول نہ ملے۔ گھر کے حالات تقاضا کریں تو شوہر اپنی بیوی کو لے کر اپنے والدین اور بھائی بہنوں کے ساتھ رہ سکتا ہے، اس میں کوئی شرعی یا اخلاقی قباحت نہیں۔ قباحت اس میں ہے کہ جب مشترک گھر میں بیوی کو اپنے شوہر کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت، اور خصوصی تفریحات کا موقع نہ دیا جائے۔ جس طرح مشترک گھر سے الگ رہنے والے شوہر اور بیوی بہت سا اچھا وقت ساتھ گزارتے ہیں، تفریح کرنے پارک اور ریسٹورنٹ کے لئے ساتھ نکلتے ہیں، اسی طرح کے مواقع اس بیوی کو بھی ملنے چاہئیں جو اپنی سسرال میں رہتی ہے، اس پر نہ کسی کو اعتراض ہونا چاہئے اور نہ رکاوٹ بننا چاہئے۔
سسرال سے بہو اس وقت متنفر ہوجاتی ہے، جب اس کے گھر اور خاندان سے متعلق اسے طعنے سننے کو ملیں۔ یہ اچھی طرح سمجھنا چاہئے کہ میکہ ایک بہو کے لئے نہایت حساس موضوع ہوتا ہے، کسی بھی موقع پر کسی بھی حوالے سے اس کے میکے کو تنقید یا مذاق کا نشانہ نہیں بنانا چاہئے۔ ممکن ہے اس کے میکے میں بہت بڑی بڑی خرابیاں پائی جاتی ہوں، لیکن ان خرابیوں کے تذکرے سے سوائے نقصان کے کچھ نہیں ہوگا۔ سمجھ داری کی بات یہ ہے کہ لڑکی کے میکے والوں کی کسی نہ کسی بہانے سے تعریف کی جائے، اس سے لڑکی کو بہت خوشی ہوتی ہے۔
بہو کے اندر اگر خدمت کا جذبہ ہو، تو وہ تھوڑی سی محنت سے پورے گھر کا دل جیت سکتی ہے۔ خدمت کے جذبے کے ساتھ اگر زبان کی شیرینی بھی شامل ہوجائے تو وہ سسرال کی ملکہ بن سکتی ہے۔ لوگوں کی تلخ باتوں کو نظر انداز کرتے رہنا وہ ڈھال ہے، جو ایک انسان کو بے شمار غموں سے محفوظ رکھتی ہے۔
آخری بات یہ ہے کہ ہوسکتا ہے کہ بہو کی ساس یا کوئی نند بہت زیادہ بدمزاج ہو، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ساس کی بہو بہت زیادہ بدمزاج ہو، ان کے ساتھ تمام طرح کی بھلائیوں اور نیکیوں کے باوجود اگر بدلے میں صرف بدمزاجی اور بدزبانی کا سامنا ہو، اور اصلاح حال کی کوئی صورت نظر نہ آتی ہو، تو اس کا ایک اچھا حل یہ ہے کہ آپ سمجھ لیں کہ یہ اللہ کی طرف سے امتحان کا پرچہ ہے، جس کے سوالات قدرے مشکل ہیں، اور اسے صبر واحسان کے ساتھ حل کرلینے پر آخرت میں نمبرات زیادہ ملیں گے۔ یہ وہ حل ہے جو صرف ان لوگوں کو حاصل ہوتا ہے جو آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ حقیقت میں خوش نصیب وہی ہوتے ہیں۔
شوہر اور بیوی کو اپنی اپنی سسرال سے خوش گوار تعلقات اس لئے بھی رکھنے چاہئیں، تاکہ ان کے بچوں کو خوش گوار دادیہال اور نانیہال ملے۔ یہ ان کا حق ہے۔
ایک مقام پر اللہ تعالی نے اپنی قدرت ونعمت کا ایک خاص پہلو یہ بیان کیا ہے کہ وہ انسان کو پیدا ہوتے ہی دادیہالی اور نانیہالی رشتوں سے جوڑ دیتا ہے:
’’اور وہی ہے جس نے پانی سے بشر کو پیدا کیا، اور اسے نسبی اور سسرالی رشتوں کا ذریعہ بنایا (یعنی دادیہالی اور نانیہالی رشتوں کا)، تمہارا رب قدرت والا ہے۔‘‘(الفرقان:۴۵،ترجمہ: امانت اللہ اصلاحیؒ)
گویا ایک بچے کا پیدائشی حق ہے کہ اسے نانیہالی اور دادیہالی رشتوں کی نعمت حاصل رہے۔ یہ نعمت اسی وقت حاصل ہوگی جب کہ بچے کی ماں کا اپنے شوہر کے خاندان سے اور بچے کے باپ کا اپنی بیوی کے خاندان سے اسی طرح سازگار تعلق ہو جس طرح دونوں کا خود اپنے اپنے خاندان سے سازگار تعلق ہوتا ہے۔
بچے کے دل میں شروع سے ہی نانیہال اور دادیہال دونوں سے محبت پیدا کی جائے، اپنائیت کے جذبات کو بڑھایا جائے، اور دونوں طرف کے بزرگوں کی خدمت اور ان کے احترام کے شوق کو پروان چڑھایا جائے۔ اگر ماں بچے کو دادیہال سے، یا باپ بچے کو نانیہال سے بدگمان اور متنفر کرنے کا سبب بنتے ہیں، تو یہ بچے کے ساتھ خیر خواہی نہیں بلکہ سخت قسم کی بدخواہی ہوگی۔
شوہر اور بیوی کے اپنی اپنی سسرال سے تعلقات بہت مثبت، ذمے دارانہ اور محبت آمیز ہوں، یہ شریعت کے مزاج کا تقاضا ہے۔
تمام رشتے محبت کے رشتے
رشتوں کو تقسیم کردینا، کچھ رشتوں کو محبت کے رشتے قرار دینا اور کچھ رشتوں کو بیزاری اور نفرت کے رشتے قرار دینا، بہت غلط تصور ہے اور بہت سی معاشرتی خرابیوں اور منافرتوں کا سبب ہے۔ قرآن مجید نے تمام رشتوں کی پاس داری کا حکم دیا ہے اور بار بار حکم دیا ہے لیکن سماج میں رشتوں کی تقسیم کردی گئی ہے۔ ماحول خود لڑکی کے ذہن میں بٹھادیتا ہے کہ سسرالی رشتے نفرت کے قابل ہوتے ہیں۔ وہ اپنی سسرالی زندگی کی ابتدا ہی بہت احتیاط اور تحفظ کے ساتھ کرتی ہے اور ذرا ذرا سی بات کو اسی تناظر میں دیکھتی ہے۔
فاصلے کے ساتھ رشتہ شروع ہوتا ہے، اور یہ فاصلہ بڑھتا ہی جاتا ہے۔ اگر ذہن اس تقسیم سے آزاد ہوجائے، اور شادی کے ذریعے قائم ہونے والے نئے سسرالی رشتوں کو اپنائیت اور محبت کی نظر سے دیکھا جائے کہ یہ اللہ کی طرف سے میرے نئے رشتے دار ہیں، یہ اللہ کی نعمت بھی ہیں اور اللہ کی طرف سے آزمائش بھی، ان رشتوں کو بناکر رکھنا اللہ کو مطلوب ہے، تو بے شک لڑکی اپنی نئی زندگی کی ایک خوب صورت شروعات کرسکے گی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ جاہلیت زدہ ماحول نے انسان کو زندگی کی بہت سی خوب صورت کیفیات سے محروم کردیا ہے۔
بڑوں کا کردار اہم ہوتا ہے
ہونا یہ چاہئے کہ جب لڑکی اپنے گھر سے رخصت ہو تو اس کے بڑے اسے نصیحت کریں کہ وہ سسرال جاکر اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے انجام دے۔ دوسری طرف اس کے سسرال کے بڑے یہ طے کریں اور اپنے یہاں اس کا ماحول بنائیں کہ آنے والی بہو کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں اور کشادگیاں فراہم کریں گے تاکہ اسے نئے گھر میں کسی تنگی اور کسی دقت کا احساس نہ ہو۔ گویا میکے کی طرف سے ذمہ داریوں کی تلقین کی جائے اور سسرال کی طرف سے سہولتوں کی فکر ہو۔ اس طرح دونوں گھر کے بڑے ایک خوشگوار آغاز میں مددگار ثابت ہوں گے۔
جب اس کے برعکس رویہ ہوتا ہے اور گھر والے صرف حقوق کی تعلیم دیتے ہیں، اور سسرال والے صرف ذمہ داریاں یاد دلاتے ہیں، تو بات بنتی نہیں بگڑ جاتی ہے۔
اسلامی تربیت کی یہ بڑی خوبی ہے کہ وہ انسان کو رشتوں کے وسیع تر دائرے سے جوڑتی ہیں۔ اللہ کے نزدیک رشتوں کے دائرے کی وسعت اللہ کی خاص نعمت ہے، اور اپنے آپ کو کسی تنگ دائرے میں محدود کرلینا اس نعمت کی ناقدری اور ناشکری ہے۔ یہی نہیں، بلکہ اپنے بچوں کی پرورش کرتے ہوئے انہیں رشتوں کے کسی تنگ دائرے میں محدود کردینا بچوں کو قدرت کی طرف سے دی گئی بڑی نعمتوں سے محروم کردینا ہے۔
ll

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 14 فروری تا 20 فروری 2021