سانحۂ سیال کوٹ: غور و فکر کے چند پہلو
بہیمیت اور درندگی کے واقعہ نے انسانیت کوشرمسار کیا
ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
گزشتہ ہفتہ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں بہیمیت اور درندگی کا جو سانحہ پیش آیا ہے اس نے انسانیت کو شرمسار کر دیا ہے۔ اس سے اسلام اور مسلمانوں کی شبیہ بُری طرح متأثر ہوئی ہے اور پاکستان کی بھی پوری دنیا میں بدنامی ہوئی ہے۔ ذرائع ابلاغ سے جو معلومات حاصل ہوئی ہیں ان کے مطابق ایک پرائیویٹ کمپنی کے ملازمین نے کمپنی کے جنرل منیجر کو، جو سری لنکا کا شہری تھا، بُری طرح مارا پیٹا، اَدھ مرا کرنے کے بعد اسے کھینچتے ہوئے کمپنی سے باہر روڈ پر لے گئے اور اس کی نعش کو آگ کے حوالے کر دیا۔ وہاں موجود لوگوں نے نہ صرف اس کو بچانے اور اس سانحہ کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی بلکہ وہ پورے اطمینان اور سکون کے ساتھ تماشا دیکھتے اور جلتی ہوئی نعش کی ویڈیو گرافی کرتے رہے۔ یہ خبر بھی آئی ہے کہ اس درندگی کو جواز فراہم کرنے کے لیے توہینِ مذہب کا الزام لگایا گیا اور اس پر تشدد کرتے ہوئے ناموسِ رسالت کے حق میں نعرے لگائے۔ اس سانحہ پر کئی پہلوؤں سے غور کرنے کی ضرورت ہے:
۱۔ کسی سماج کے منظم، پاکیزہ اور پُر امن رہنے کے لیے اسلام میں جو اخلاقی تعلیمات دی گئی ہیں، افسوس کہ مسلم سماج ان سے عاری ہو رہا ہے۔ سستی، بد عہدی، بے ایمانی، کام چوری، عدم اطاعت، خود غرضی، عدم برداشت اور جذبہ انتقام اس کی پہچان بن رہے ہیں۔ مسلم عوام اپنی ذمہ داری کو کما حقہ پورا نہیں کرتے، کوئی انہیں ان کی کوتاہی پر ٹوکے تو بپھر جاتے ہیں اور اسے اپنی توہین سمجھتے ہوئے روک ٹوک کرنے والے سے انتقام لینے کی فکر میں لگ جاتے ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ کمپنی کا جنرل منیجر اپنے ماتحتوں سے کام لینے میں ذرا سخت تھا۔ یہ سختی کمپنی کے ملازمین کو گوارا نہ ہوسکی، چنانچہ انہوں نے انتہائی گھناؤنے طریقے سے اس کا انتقام لے لیا۔
۲۔ اس سانحہ میں ایک فرد کو بلا جواز قتل کرنے کے ساتھ جس درندگی اور حیوانیت کا مظاہرہ کیا گیا ہے وہ بہت زیادہ باعثِ تشویش ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سماج میں کس حد تک فساد سرایت کر گیا ہے اور افراد کے ذہن کس حد تک مسموم ہو گئے ہیں۔ کسی شخص کو قتل کرنا ایک سنگین جرم ہے۔ لیکن قتل کرنے سے پہلے اس پر جسمانی تشدد کرنا، مار مار کر اَدھ مرا کر دینا، اس کے جسم کو اِدھر اُدھر گھسیٹنا، اس کے بعد اسے آگ میں جلا دینا، ان کاموں سے اس جرم کی سنگینی کئی گنا بڑھ جاتی ہے اور اس کی شناعت میں لامحدود اضافہ ہو جاتا ہے۔
۳۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اگر کوئی شخص غلط کام کر رہا ہو تو سماج کے دوسرے لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ اس کا ہاتھ پکڑیں اور اسے اس غلط کام سے روکنے کی کوشش کریں۔ اصطلاحی طور پر اسے ’نہی عن المنکر‘ کہا گیا ہے۔ اسلام میں نہی عن المنکر پر بہت زور دیا گیا ہے اور اسے مسلمانوں کا فریضہ اور مقصدِ وجود قرار دیا گیا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے: ’’لوگ اگر کوئی غلط کام ہوتا ہوا دیکھیں اور اسے روکنے کی کوشش نہ کریں تو اندیشہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سب لوگوں پر عذاب بھیج دے۔‘‘ (ابو داؤد: ۴۳۳۸، ترمذی: ۲۱۶۸) سیالکوٹ سانحہ کی جو ویڈیوز سوشل میڈیا میں عام ہوئی ہیں ان میں دکھائی دیتا ہے کہ کچھ لوگوں نے اس جرم کو انجام دیا، لیکن وہاں موجود بھیڑ میں سے کسی نے بھی ان لوگوں کا ہاتھ پکڑنے اور اس جرم کے ارتکاب سے انہیں روکنے کی کوشش نہیں کی۔ یہی نہیں بلکہ اس سے آگے بڑھ کر وہ جلتی ہوئی نعش کی ویڈیو بناتے رہے اور اس کے پاس کھڑے ہو کر سیلفی لیتے رہے۔ اس سے بخوبی اندازا لگایا جا سکتا ہے کہ سماج کی اخلاقی حِس بالکل
مردہ ہو چکی ہے۔
۴۔ یہ واقعہ جس ملک میں پیش آیا ہے وہ اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا، وہاں رہنے والوں کی غالب اکثریت مسلمان ہے۔ جس انسان کے ساتھ اس بہیمیت کا مظاہرہ کیا گیا ہے وہ دوسرے ملک کا رہنے والا تھا۔ بہ الفاظ دیگر ایک مسلم ملک میں مسلمانوں کے درمیان وہ ’مہمان‘ کی حیثیت رکھتا تھا۔ مزید برآں وہ غیر مسلم تھا۔ اس کی حیثیت ’معاہد‘ (وہ غیر مسلم جو معاہدہ کے تحت مسلم ملک میں آیا ہو یا رہتا ہو) کی تھی۔ اسلامی تعلیمات تو ایسے شخص کے ساتھ خصوصی برتاؤ کی تلقین کرتی ہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے: ’’جس شخص نے کسی معاہد کو بلا جواز قتل کیا اس پر اللہ نے جنت حرام کر دی ہے۔ وہ جنت سے اتنا دور ہو گا کہ اس تک جنت کی خوشبو بھی نہ پہنچ سکے گی۔‘‘ (ابو داؤد: ۲۷۶۰، نسائی: ۴۷۴۷)
۵۔ کہا گیا ہے کہ مقتول نے مذہب کی توہین کی تھی جسے کمپنی کے مسلمان ملازمین برداشت نہ کر سکے۔ اس نے کیا توہین کی تھی؟ اس سلسلے میں اب تک کوئی تحقیقی بات سامنے نہیں آسکی ہے۔ کمپنی میں کام کرنے والے بعض لوگوں نے بتایا ہے کہ ملازمین نے دیواروں پر مذہبی اسٹیکر اور پوسٹرس لگا رکھے تھے۔ کمپنی میں ایک تجارتی وفد آنے والا تھا، جس کے استقبال کی تیاری میں صفائی ستھرائی کا کام ہو رہا تھا۔ جنرل منیجر نے ملازمین سے یہ اسٹیکرس اور پوسٹرس ہٹا لینے کو کہا۔ ملازمین نے ان سنی کر دی۔ اس پر جب منیجر نے سختی کی تو اسے اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اگر یہ بات درست ہے تو اس کی شدید ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ قوم کے علماء، مفکرین اور دانشور طے کریں کہ کن کن چیزوں کا اطلاق توہینِ مذہب پر ہوتا ہے اور کون سی چیزیں اس کے دائرے میں نہیں آتیں تاکہ کوئی شخص یہ ہمت نہ کر سکے کہ کسی معمولی بات پر کسی شخص پر توہین مذہب کا الزام لگا کر اسے قابلِ گردن زدنی قرار دے۔
۶۔ کسی انسان کو زندہ یا اسے قتل کرنے کے بعد آگ میں جلانا انتہائی گھناؤنا اور غیر انسانی عمل ہے۔ کسی متمدن سماج میں اسے گوارا نہیں کیا جا سکتا۔ اسلام تو اس کا سخت مخالف ہے۔ پھر کسی مسلمان سے کیسے اس کی توقع کی جا سکتی ہے۔ حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ اللہ کے رسول ﷺ نے ایک فوجی ٹکڑی بھیجی اور دشمنوں میں سے دو افراد کا نام لے کر فرمایا کہ اگر انہیں پکڑنا تو آگ میں جلا دینا، لیکن فوجی ٹکڑی کے روانہ ہونے سے پہلے اسے بلا کر ہدایت دی:’’ میں نے تمہیں حکم دیا تھا کہ فلاں فلاں کو آگ میں جلا دینا، لیکن اب میں تمہیں ایسا کرنے سے منع کرتا ہوں، اس لیے کہ آگ کے ذریعے سزا دینے کا حق صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ تم بس انہیں قتل کر دینا۔‘‘
(بخاری: ۲۹۵۴)
۷۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ قانون ہاتھ میں لینے کا اختیار کسی فرد کو نہیں ہے۔ یہ ریاست کا کام ہے۔ کوئی شخص مذہب کی توہین کرے، مذہبی مقدّسات کے بارے میں دریدہ دہنی کرے، ناموسِ رسالت کی اہانت کا ارتکاب کرے، یا کسی اور جرم کا مرتکب ہو لیکن کسی فرد کو اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ خود سے جرم کا تعین کرے اور اس کی سزا بھی نافذ کر دے۔ کہا جاتا ہے کہ ملک کی عدالتیں بہت سست روی کا مظاہرہ کرتی ہیں، ان کے ذریعے مجرموں کو قرارِ واقعی سزائیں نہیں مل پاتیں۔ اس بنا پر شہری قانون اپنے ہاتھ میں لینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہ بات درست ہو تب بھی اس سے کسی فرد کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کا حق نہیں مل جاتا۔ ضروری ہے کہ ایسے کسی مجرم کا معاملہ عدالت تک پہنچایا جائے، اس کے ذریعے پوری تحقیق وتفتیش ہو، پھر جرم ثابت ہونے کے بعد قانون نافذ کرنے والے ادارے ہی اس کی سزا نافذ کریں۔
( مضمون نگار جماعت اسلامی ہند کی شریعہ کونسل کے سکریٹری ہیں)
***
***
قانون ہاتھ میں لینے کا اختیار کسی فرد کو نہیں ہے۔ یہ ریاست کا کام ہے۔ کوئی شخص مذہب کی توہین کرے، مذہبی مقدّسات کے بارے میں دریدہ دہنی کرے، ناموسِ رسالت کی اہانت کا ارتکاب کرے، یا کسی اور جرم کا مرتکب ہو لیکن کسی فرد کو اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ خود سے جرم کا تعین کرے اور اس کی سزا بھی نافذ کر دے۔ کہا جاتا ہے کہ ملک کی عدالتیں بہت سست روی کا مظاہرہ کرتی ہیں، ان کے ذریعے مجرموں کو قرارِ واقعی سزائیں نہیں مل پاتیں۔ اس بنا پر شہری قانون اپنے ہاتھ میں لینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہ بات درست ہو تب بھی اس سے کسی فرد کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کا حق نہیں مل جاتا۔ ضروری ہے کہ ایسے کسی مجرم کا معاملہ عدالت تک پہنچایا جائے، اس کے ذریعے پوری تحقیق وتفتیش ہو، پھر جرم ثابت ہونے کے بعد قانون نافذ کرنے والے ادارے ہی اس کی سزا نافذ کریں۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 12 تا 18 دسمبر 2021