سادھوی کے بگڑے بول، مرکز کی کھل گئی پول

نام نہاد اعلیٰ ذات کے لوگ’نئے بھارت‘ میں بھی نچلی ذاتوں پر تسلط چاہتے ہیں

(دعوت نیوز ڈیسک)

 

بھارت کی سیاست اب آر پار کی جنگ جیسی ہوتی جا رہی ہے۔ سیکولرزم سے اعتماد دن بدن اٹھتا جا رہا ہے۔
ہندو راشٹر کی باتیں وقتاً فوقتاً سامنے آہی جاتی ہیں۔ اب اسے بد قسمتی ہی کہیے کہ بگڑے بول والے سیاسی لیڈر اپنے اپنے علاقوں میں خوب پسند کیے جا رہے ہیں تبھی تو وہ پارلیمنٹ میں پہنچائے جا رہے ہیں۔ ان میں بھوپال سے رکن پارلیمان سادھوی پرگیا ٹھاکر سرفہرست ہیں جو نہ صرف 2008 مالیگاؤں بم بلاسٹ کی ملزمہ ہیں بلکہ ان کا اور متنازعہ بیانات کا چولی دامن کا ساتھ بھی ہے۔ پرگیا ٹھاکر پھر ایک بار اپنے بے تکے بیانوں کی وجہ سے سرخیوں میں ہیں۔ مدھیہ پردیش کے سیہور میں ایک ’کشتریہ سمیلن‘ میں پرگیا ٹھاکر نے اپنی بھگوا سوچ کا مظاہرہ کرتے ہوئے خطاب میں کئی ایسی متنازعہ باتیں کیں جن کی وجہ سے ان کی چو طرفہ مذمت ہوئی۔ لیکن وہی ڈھاک کے تین پات، پرگیا ٹھاکر کو اس کا کوئی ملال بھی نہیں۔ چونکہ بی جے پی کا ایجنڈا ہندو راشٹر اور منوسمرتی کو رائج کرنا ہے لہٰذا اسی ضمن میں پرگیا ٹھاکر نے ہندو مذہبی صحیفے کا حوالہ دیتے ہوئے شودر سماج کو ’ناسمجھ‘ یعنی بے وقوف کہہ دیا۔ پرگیا ٹھاکر نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’جب ہم کسی شتری کو شتری کہتے ہیں تو اسے برا نہیں لگتا، کسی برہمن کو برہمن کہتے ہیں تو اسے برا نہیں لگتا ہے، کسی ویشیا کو ویشیا کہتے ہیں تو اسے برا نہیں لگتا ہے لیکن اگر ہم کسی شودر کو شودر کہتے ہیں تو وہ برا مان جاتا ہے۔ وجہ کیا ہے؟ کیونکہ وہ بات کو سمجھتے نہیں ہیں‘‘ ان کے اس بیان پر شودر سماج میں زبردست ناراضگی پائی جا رہی ہے۔
بہار کے سابق وزیر اعلیٰ اور این ڈی اے کی حلیف پارٹی ’ہم‘ (ہندوستانی عوام مورچہ) کے سربراہ جیتن رام مانجھی نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’’نڈا جی سے گزارش ہے بڑبولی پرگیا ٹھاکر کو سمجھائیں کہ وہ ایس سی، ایس ٹی سماج کو بے عزت نہ کریں۔ پرگیا ٹھاکر ہمیں نہ بتائیں کہ کون شودر ہے اور کون دہشت گرد‘‘
واضح رہے کہ نام نہاد اعلیٰ ذاتوں نے محض اپنے مفادات کے لیے انسانوں کو ذات پات میں تقسیم کیا اور اس کو مذہبی لبادہ اوڑھا کر خوب فروغ دیا ہے۔ بھارت میں موجود ذات پات پر مبنی نظام دنیا بھر میں سماجی سطح پر طبقاتی تقسیم کی سب سے پرانی اور کریہہ صورت ہے۔ تین ہزار سال سے زائد عرصے سے رائج اس نظام کے تحت ہندوؤں کو ان کے کرما (کام) اور دھرما (فرض) کی بنیاد پر مختلف سماجی گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ مختصراً ذات پات کا نظام ہندوؤں کو برہمن، شتری، ویشیا اور شودر کے نام سے چار کیٹیگریوں میں تقسیم کرتا ہے۔
ویسے تو بی جے پی مسلمانوں کی آبادی کی شرح نمو کا تذکرہ کرتے نہیں تھکتی لیکن خود ہندوؤں کو آبادی میں زبردست اضافے کی ترغیب دیتی نظر آتی ہے۔ پرگیا ٹھاکر نے اپنے خطاب میں کہا کہ آبادی کنٹرول کرنے کا قانون ان لوگوں کے لیے ہونا چاہیے جو ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں جن کو قوم کے ساتھ غداری کرنے کے لیے تربیت دی جاتی ہے۔ جو راشٹر دھرم کے لیے جیتے ہیں ان کے لیے قانون نہیں بننا چاہیے ان پر پابندی نہیں لگنی چاہیے۔
یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے کہ پرگیا ٹھاکر نے اس طرح کا مشورہ دیا ہے اس سے پہلے فروری 2018 میں اورنگ آباد سڈکو ناٹیہ گرہ میں ایک پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے پرگیا ٹھاکر نے ہندوؤں سے زیادہ بچے پیدا کرنے کی اپیل کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ اگر آپ ملک کے لیے زیادہ کچھ نہیں کر سکتے ہیں تو ملک کے مفاد میں زیادہ بچے ہی پیدا کر دیں۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ ملک کے لیے زیادہ بچے پیدا کرنا آپ کی ذمہ داری ہے اور ان کی پرورش کرنا ہماری۔غور طلب ہے کہ اس سے پہلے بھی آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت بھی ہندوؤں سے زیادہ بچے پیدا کرنے کی اپیل کر چکے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 19 اگست 2017 کو آگرہ میں منعقدہ ایک تقریب میں موہن بھاگوت نے کہا تھا کہ دوسرے مذہب والے جب اتنے بچے پیدا کر رہے ہیں تو کیا آپ کو کسی قانون نے روک رکھا ہے؟ انہوں نے کہا تھا کہ کوئی قانون ہندوؤں کو بچے پیدا کرنے پر پابندی نہیں لگاتا اور اس طرح کے فیصلے خاندانی صورت حال اور ملک کے مفاد کو دھیان میں رکھتے ہوئے لینا چاہیے۔ ہندو آبادی کو فروغ دینے کی بات اس سے پہلے وی ایچ پی بھی کر چکی ہے۔ اس نے ہندوؤں سے ایک سے زیادہ بچے پیدا کرنے کے لیے بھی کہا تھا۔ وی ایچ پی کا کہنا تھا کہ بچے پیدا کرنے کا فیصلہ صرف ایک شادی شدہ جوڑے کا نہیں ہو سکتا جب ملک کی بات آتی ہے تو یہ معاملہ سب کے لیے اہم ہو جاتا ہے۔ اسی سال پندرہ اگست یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی قوم سے خطاب میں کہا تھا کہ ملک میں آبادی دھماکہ (population explosion) ہو چکا ہے۔ آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے عوامی بیداری کی اشد ضرورت ہے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ آبادی پر قابو پانے کے لیے سپریم کورٹ میں تین الگ الگ عرضیاں داخل کی جا چکی ہیں جن میں کہا گیا کہ مرکزی حکومت دو بچوں کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے آبادی کنٹرول کرنے کے سخت طریقے کو یقینی بنائے، جو ایسا کرنے میں ناکام ہوتے ہیں انہیں سزا دینے کی ہدایت جاری کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ مفاد عامہ کی عرضیوں میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ آبادی میں اضافے سے جڑے اعداد و شمار اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ 2022 تک ہندوستان کی آبادی 150 کروڑ کے پار ہو جائے گی۔جبکہ گزشتہ دنوں سپریم کورٹ میں اسی فیملی پلاننگ سے متعلق ایک عرضی سے وابستہ معاملے میں مرکزی حکومت نے اپنا حلف نامہ داخل کیا۔ آبادی کنٹرول کے مسئلے پر مرکزی حکومت کا کہنا تھا کہ کسی کو زبردستی فیملی پلاننگ کے لیے مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ مرکزی حکومت نے اپنے حلف نامے میں کہا کہ بین الاقوامی سطح پر جس ملک نے بھی محدود تعداد میں بچے پیدا کرنے کا قانون بنایا ہے اس کا نقصان ہی ہوا ہے کیوں کہ ایسا کرنے پر مرد اور عورت کی آبادی میں توازن برقرر رکھنا مشکل ہوتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر آبادی کو کنٹرول کرنے کے منفی اثرات پڑے ہیں دنیا کے نصف ممالک میں نوجوانوں کی تعداد کم اور بوڑھوں کی تعداد بڑھ گئی ہے جبکہ 49 ممالک آبادی کی قلت کا شکار ہیں۔اسلام دین فطرت ہے وہ فطری قوانین میں چھیڑ چھاڑ کو پسند نہیں کرتا انسانوں کی پیدائش میں قدرتی طور پر جو توازن قائم کیا گیا ہے انسان اس کو بگاڑنے کی کوشش کرے گا تو اسے نقصان اٹھانا پڑے گا۔ چنانچہ آج دنیا میں یہی ہو رہا ہے، پھر بھی اسلام اور مسلمانوں کو ہی نشانہ بنایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ‘بڑھتی آبادی سے پوری دنیا فکر مند ہے۔ اس وقت دنیا کی آبادی 7 ارب سے زیادہ ہے اور تنہا ہندوستان کی آبادی تقریباً 1 ارب 35 کروڑ ہے۔ کسی عالم دین نے بجا طور پر کہا ہے کہ ”آبادی میں اضافہ اصل مسئلہ نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم، انصاف کی عدم فراہمی اور خوراک میں ملاوٹ ہے“
بہر حال پرگیا ٹھاکر کے متنازعہ بیانات کا سلسلہ رکا نہیں بلکہ انہوں نے مذکورہ پروگرام کے بعد میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ ”پاگل“ ہیں اور جلد ہی مغربی بنگال میں جلد ہی ’’ہندو ساشن‘‘ ہوگا۔ جب ہندو ساشن کی ہوگا تو زیادہ بچے پیدا کرنے کی اپیل بھی ہو گی۔ اب سوال یہ کہ جب ہندو ساشن ہی ہونا ہے تو ووٹ کی طاقت ہی ختم ہو جائے گی تو پھر کیوں تعداد بڑھانے پر زور دیا جا رہا ہے؟
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یا تو پرگیا ٹھاکر انگریزی کے محاورے” out of sight out of mind” پر عمل پیرا ہیں یعنی اگر سرخیوں میں نہیں رہیں گی تو عوام انہیں بھول جائے گی یا پھر وہ اپنی پارٹی کے ایجنڈے کی ترویج و اشاعت میں لگی ہیں تبھی تو 2019 لوک سبھا انتخابات کے دوران جب پرگیا ٹھاکر نے ناتھو رام گوڈسے کو محب وطن قرار دیا تو اپوزیشن نے بہت ہنگامہ برپا کر دیا تھا۔ بڑھتے ہوئے تنازعہ کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک بیان میں کہا کہ وہ پرگیا ٹھاکر کو کبھی دل سے معاف نہیں کریں گے۔ اس کے بعد پرگیا ٹھاکر کو متنازعہ بیان پر بی جے پی نے شوکاز نوٹس دیا تھا اور اس معاملے کو انضباطی کمیٹی کے سپرد کر دیا تھا لیکن کچھ ہی دنوں بعد پارلیمانی امور کی وزارت نے سادھوی کو پارلیمنٹ کی دفاعی کمیٹی کا رکن نامزد کر دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ ہنگامے کے بعد نام ہٹا دیا گیا۔
سادھوی پرگیا نے کبھی کہا تھا کہ ان کی بد دعا کا ہی اثر تھا کہ ہیمنت کرکرے دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بنے۔ واضح ہو کہ ہیمنت کرکرے ممبئی دہشت گردی مخالف دستے کے صدر تھے۔ انہیں 2008کے ممبئی حملوں میں سینے پر تین گولیاں داغ کر قتل کیا گیا۔ 26 جنوری 2009کو ان کی بہادری پر انہیں اشوک چکر سے نوازا گیا تھا۔ در اصل 2008 کے مالیگاؤں بم دھماکوں کی غیر جانبدارانہ تفتیش اور ان کے کلیدی مجرموں کو بے نقاب کرنے کا سہرا ہیمنت کرکرے کے سر جاتا ہے اور ملزمین میں سادھوی پرگیا سرفہرست ہیں۔ غور طلب ہے کہ سادھوی پرگیا پر مالیگاؤں بم بلاسٹ کا الزام ہے۔ ان کے علاوہ لفٹیننٹ کرنل پرساد پروہت اور 6 دوسرے ملزم ہیں۔ ناسک کے مالیگاؤں میں بھیکو چوک کے نزدیک 29 ستمبر 2008 کو ہوئے بم بلاسٹ میں 6 لوگوں کی موت ہوئی تھی اور 101سے زیادہ زخمی ہو گئے تھے۔ وہ فی الحال اس معاملے میں ضمانت پر ہیں۔
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 27 دسمبر تا 2 جنوری 2020-21