زبیدہ مختار

بچے کی تربیت میں ماں کا اہم کردار

الام قدوۃ متحرکۃ فی ارجا البیت

قوم کا مستقبل سنوارنے کے لیے خواتین باعمل رہنما کا رول ادا کریں
ماں کا کردار اہل خانہ کے لیے ایک زندہ اور متحرک اسوہ ہے‘‘
اسلام کے نزدیک بچوں کی تربیت میں انہیں اسلام کے بنیادی اصول اور صحیح اور جامع طریق زندگی کی تعلیمات سکھانے کے لیے سب سے آسان اور مفید طریقہ صحیح رہنمائی ہے جو ہمیشہ ان کے ارد گرد محیط رہے۔ بچے کے لیے ایک رہبر ضروری ہوتا ہے جس سے وہ زندگی گزارنے کے لیے طور طریقے سیکھتا ہے۔ دین و دنیا کو جانتا ہے اور صحیح اور غلط کی سوجھ بوجھ پیدا کرتا ہے لہذا اس بچے کے لیے پورے خاندان کو بالخصوص اس کی ماں کو چاہیے کہ وہ اپنے گھر میں ایک عملی نمونہ بن کر رہے۔ وہ تعلیمات اور آداب جو وہ اپنے بچے کو سکھانا چاہتی ہے ان پر خود عمل پیرا ہو، ان تعلیمات کو اپنی عادات میں ڈھال کر بچے کے سامنے پیش کرے تاکہ بچے کا ذہن بآسانی اس کی باتوں کو قبول کرے ورنہ دوسری صورت میں اگر ماں کے عادات و اطوار اس کی تعلیمات سے مختلف ہوں گے تو اس کی باتوں کا بچے پر خاطر خواہ اثر نہیں پڑے گا۔ جب کہ اللہ تعالیٰ نے بھی قول و فعل میں تضاد کو نا پسند فرمایا ہے جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہے ’’مومنو! تم ایسی باتیں کیوں کہا کرتے ہو جو کیا نہیں کرتے۔ خدا اس بات سے سخت بیزار ہے کہ ایسی بات کہو جو کرو نہیں۔ ‘‘سورۃ الصف) کیا تم لوگوں کو نیکی کرنے کو کہتے ہو اور اپنے تئیں فراموش کیے دیتے ہو حالانکہ تم اللہ کی کتاب بھی پڑھتے ہو ، کیا تم سمجھتے نہیں ؟‘‘ (البقرہ۲۴)
بچہ کا ذہن ایک راڈار کی طرح ہوتا ہے جو اپنے اطراف کی چیزوں کو کھینچتا ہے لہذا اگر ماں سچی، با اخلاق ، بہادر، نرم دل اور ایمان دار ہوگی تو اس کے بچے میں بھی یہ اوصاف حمیدہ شامل ہوں گے۔ اس کے برعکس اگر ماں جھوٹی، بے ایمان، ظالم اور بد اخلاق ہوگی تو اس کا بچہ بھی جھوٹ، خیانت اور بے ایمنی وغیرہ جیسے اوصاف کے ساتھ بڑا ہوگا کیوں کہ بچہ فطری طور پر خواہ کتنے ہی اچھے اوصاف کا مالک کیوں نہ ہو اگر بچپن میں اسے سیدھی راہ نہیں دکھائی گئی یا اسے صحیح اور صالح رہنمائی حاصل نہیں ہوئی تو بلاشک و شبہ اس کی شخصیت منفی راہ اختیار کرے گی، حضور ﷺ کا ارشاد ہے: تمام بچے یکساں فطرت کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں مگر ان کے والدین انہیں یہودی، نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں‘‘۔
یعنی بچے ایک صاف ستھری اور سیدھی سادی فطرت لے کر اس دنیا میں آتے ہیں لیکن ان کی تربیت اور رہنمائی میں جو عوامل روزانہ ان کے سامنے انہیں درپیش ہوتے ہیں وہ ان کی فطرت کو ان کے اخلاق حقیقی کی مرضی کے مطابق برقرار رہنے یا انہیں اس کے بتائے ہوئے اصولوں اور طریقوں سے جدا کرنے میں بہت اہم اور فعال کردار ادا کرتے ہیں۔ بچے کی صحیح نگہداشت و تربیت کے لیے ضروری ہے کہ ماں اللہ کی کتاب اور اس کے رسولؐ کے بتائے ہوئے طریقے جو کہ روح الامین جبرئیل علیہ السلام کے ذریعے اللہ کی طرف سے حضور ﷺ پر نازل ہوتے تھے انہیں اپنا کر بچوں کے لیے ایک صحیح اور اچھی رہبر اور پیشوا ثابت ہو۔ اس ضمن میں بہت سی واضح مثالیں موجود ہیں جسا کہ حدیث میں عبداللہ بن عامرؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میری ماں نے ایک دن مجھے ایک اور حدیث میں حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک دن ایک عورت دو بچوں کے ساتھ میرے پاس کچھ مانگنے آئی۔ میرے پاس صرف ایک کھجور تھا جسے میں نے اسے دے دیا۔ اس نے اس کھجور کو آدھا آدھا دونوں میں تقسیم کیا اور خود کچھ نہ کھایا اور چلی گئی جب حضورؐ تشریف لائے تو میں نے اس واقعہ کا ذکر کیا تو آپؐ نے فرمایا جو شخص ان بچوں میں سے کسی چیز کے ساتھ آزمایا جائے اور وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے تو وہ اس کے لیے جہنم سے بچاو کا ذریعہ بنیں گے۔ (رواہ مسلم) یہ حدیث اس بات کی واضح نشاندہی کرتی ہے کہ ماں کے اندر دوسرے اوصاف کے ساتھ ساتھ عدل و انصاف اور ایثار کا جذبہ بھی موجود ہونا چاہیے۔ لہذا ایک ماں کو چاہیے کہ وہ ان تمام راستوں پر بچوں کے ساتھ چلے جن پر ہمارے پیغمبر و رہنما محمدؐ بچوں کے ساتھ چلتے تھے۔ نیز یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی روز مرہ کی زندگی میں بھی خود کو ان اسالیب سے آراستہ و پیراستہ کرکے اپنے بچوں کوبھی اس کی تعلیم دے تاکہ اس کا بچہ ایک با اخلاق اور معزز انسان بنے اور صحیح اسلامی عقائد اور قرآنی اخلاق و آداب سے آشنا ہو۔
ایک ماں بحیثیت ایک رہبر پر لازم ہے کہ وہ اپنے والدین، رشتہ داروں اور خاندان کے دیگر افراد بلکہ سوسائٹی کے تمام لوگوں میں سچی اور با اخلاق ہو، اپنے بچے، شوہر اور اس کے مال و دولت کی امانت دار ہو ضعیفوں پر رحم کرے، مسکینوں پرمہربان ہو، فقیروں کی مدد کرے، خواہ انسان ہو یا حیوان ہر ایک کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور اس وقت وہ اپنے اعمال کے ذریعہ اپنے بچوں کے دل میں محبت عنایت، صداقت اور ایمانداری کا بیج بوتی ہے جس سے بچہ پر اخلاقی و اسلامی سانچے میں نمو پاتا ہے۔ لیکن اگر ماں جھوٹ بولتی ہو، دھوکہ دیتی ہو، خیانت کرتی ہو تو اپنے بچوں کو صدق و امانت کا درس کبھی نہیں دے سکتی۔ وہ مائیں جو تکبر کے نشے میں ڈوبی رہتی ہیں جن کی زندگی کا مقصد محض خواہشات کی اتباع ہوتا ہے، جو ہر وقت مذاق اور عیب جوئی میں مصروف رہتی ہیں جو اپنی باتوں میں غیر معیاری الفاظ اور گالی گلوج کا استعمال کرتی ہیں، جن کی زبان میں درشتی اور لہجے میں غیظ و تنفر ہوتا ہے ان کے بچے کبھی حسن اخلاق کی فضیلت سے واقف نہیں ہوسکتے، ان کی زبان میں شائستگی پیدا نہیں ہوسکتی، ایسی مائیں اپنے بچوں کو خواہ کتنے ہی بڑے بڑے کونونٹ اسکولوں میں پڑھائیں ، اونچی سوسائٹیوں میں رہیں لیکن اگر گھر کا ماحول مہذب نہیں ہوگا تو بچہ بھی نہ تو مہذب بیٹا بن سکتا ہے نہ ہی معزز انسان بن سکتا ہے۔
لہذا ایک بچے کی اسلامی پرورش میں ماں کی صحیح رہنمائی اشد ضروری ہوتی ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ وہ بچپن سے ہی بچوں کو اسلامی آداب سے روشناس کرائے مثلاً ہمیشہ گھر میں داخل ہوتو سلام کرے اور سلام کا جواب دے۔ کھانا شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ کرے اور کھانا ختم کرنے کے بعد خود بھی دعا پڑھے اور بچوں کو بھی پڑھائے ۔ اسی طرح چھینک کی دعا سوکر اٹھنے کی دعا، نیز جلد سونے اور سویرے اٹھنے کی عادت، پابندی سے نماز اور قرآن کی تلاوت، بڑوں کا ادب، چھوٹوں سے پیار غرض کہ روز مرہ کے معمول کے تمام آداب اور دعاوں پر خود بھی پابندی سے التزام کرے اور بچوں کو بھی ہمیشہ اس کی تلقین کرے یہاں تک کہ بچہ ان آداب اور دعاوں کا عادی ہوجائے۔
مختصراً یہ کہ بچہ کی جسمانی، اخلاقی اور روحانی پرورش کے لیے اس کی ماں کو چاہیے کہ وہ گھر میں ایک باعمل اور متحرک رہنما بن کر رہے اپنے بچے کو جن بنیادی اصولوں کی تعلیم دیتی ہے وہ خود ان کا ایک اعلیٰ نمونہ وہ ، جن اخلاق و آداب کا درس وہ اپنے بچوں کو دیتی ہو اس کی شخصیت میں بدرجہ اتم موجود ہوں، اسی وقت اس کا بچہ اس کی باتوں کو بآسانی قبول کرسکے گا ورنہ دوسری صورت میں اگر ماں کے قول و فعل میں تضاد ہوگا تو بچہ ذہنی انتشار کا شکار ہوجائے گا وہ فیصلہ نہیں کرسکے گا کہ اس کی ماں جو کہتی ہے وہ اپنائے یا جو وہ کرتی ہے وہ اپنائے نتیجتاً وہ صحیح اور غلط کی تمیز کھودے گا۔
***

 

***

 بچہ کی جسمانی، اخلاقی اور روحانی پرورش کے لیے اس کی ماں کو چاہیے کہ وہ گھر میں ایک باعمل اور متحرک رہنما بن کر رہے اپنے بچے کو جن بنیادی اصولوں کی تعلیم دیتی ہے وہ خود ان کا ایک اعلیٰ نمونہ وہ ، جن اخلاق و آداب کا درس وہ اپنے بچوں کو دیتی ہو اس کی شخصیت میں بدرجہ اتم موجود ہوں، اسی وقت اس کا بچہ اس کی باتوں کو بآسانی قبول کرسکے گا ورنہ دوسری صورت میں اگر ماں کے قول و فعل میں تضاد ہوگا تو بچہ ذہنی انتشار کا شکار ہوجائے گا وہ فیصلہ نہیں کرسکے گا کہ اس کی ماں جو کہتی ہے وہ اپنائے یا جو وہ کرتی ہے وہ اپنائے نتیجتاً وہ صحیح اور غلط کی تمیز کھودے گا۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  20 تا 26 مارچ  2022