روپے کی قدر تاریخ کی نچلی سطح پر
کووڈ۔۱۹ سے ابھرتی عالمی معیشت جنگ کی وجہ سے نئی مصیبت میں
زعیم الدین احمد ،حیدرآباد
روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ صرف ان دونوں ممالک کو ہی تباہ نہیں کر رہی ہے بلکہ دیگر ممالک کی معیشتوں پر بھی گہرے اثرات مرتب کر رہی ہے جن میں ہمارا ملک بھی شامل ہے۔ اس وقت ملک کی کرنسی تاریخ کی سب سے نچلی سطح پر پہنچتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ جیسے ہی روس نے یہ اعلان کیا کہ وہ یوکرین کے جوہری توانائی کے مراکز پر بمباری کرے گا ہمارے ملک میں روپے کی قدر میں مزید گراوٹ آئی ہے۔ اس وقت روپیہ ڈالر کے مقابلے میں 76.87 ہو گیا ہے جبکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس میں مزید گراوٹ ہوگی۔ اگر روس اور یوکرین کے درمیان جنگ اسی طرح جاری رہی تو حالات اور بھی خراب ہو سکتے ہیں، اور اگر جنگ رک جاتی ہے تو روپے کی قدر میں کچھ بہتری آسکتی ہے لیکن یہ بات یقینی طور پر نہیں کہی جا سکتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ روپے کی قدر اور بھی بھیانک صورت حال اختیار کرلیتی اگر ریزرو بینک اپنے پاس محفوظ ڈالرز کو بازار میں فروخت نہ کرتا۔ جب کبھی اس طرح کی صورت پیش آتی ہے تو ریزرو بینک اپنے پاس موجود بیرون زر مبادلہ کو فروخت کرتا ہے جو ڈالرز کی شکل ہوتے ہیں۔ جب ڈالرز بازار میں آتے ہیں تو اس کی دستیابی بھی بڑھ جاتی ہے، اس کے باوجود روپے کی گرتی ہوئی قدر کو روکا نہیں جا سکا۔ آخر اس طرح روپے کی قدر میں کمی کی وجہ کیا ہے؟ اس کی کئی ایک وجوہات ہیں۔
ایک وجہ خام تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہے جو اس وقت ایک سو دس ڈالرز فی بیرل تک پہنچ چکی ہے اور مزید اس میں اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ قیمتوں میں اضافہ ہونے کی وجہ روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ ہے کیوں کہ دنیا میں تیل کی پیداوار میں روس کی حصہ داری تقریباً 13 فیصد ہے۔ دنیا کو تیل اور گیس فراہم کرنے والے ممالک میں روس کی حصہ داری زیادہ ہے جبکہ جنگ کی وجہ سے اس پر یورپ اور امریکا نے پابندیاں عائد کردی ہیں، لیکن ان پابندیوں پر اس شدت کے ساتھ عمل درآمد نہیں کیا جا رہا ہے جس شدت کے ساتھ ایران اور شام کے معاملے میں کیا گیا تھا، اسی وجہ سے تیل کے بحران نے ابھی تک شدت اختیار نہیں کی ہے۔ قیمتوں میں اضافہ اس وجہ سے بھی ہو رہا ہے کہ دنیا میں تیل کے بڑے کاروباری موجودہ صورت حال کے پیش نظر روس سے زر مبادلہ کے مسائل کے خدشہ سے تیل نہیں خرید رہے ہیں گے۔ چوں کہ تیل سمندری راستے سے آتا ہے اس لیے حمل ونقل کے مسائل بھی پیدا ہوں گے لہذا انہوں نے بہتر یہی سمجھا کہ روس کے ساتھ کاروبار نہ کیا جائے۔ اسی وجہ سے خام تیل کی فراہمی میں رکاوٹ آئی ہے، اور فوری طور پر کوئی بھی تیل کی پیداوار کرنے والا ملک زیادہ مقدار میں تیل نہیں نکال رہا ہے۔ یہاں ایک اور مسئلہ بھی درپیش ہے وہ یہ کہ جب تک ایران سے تیل اور گیس کی فراہمی نہیں ہوتی اس وقت تک خام تیل کی قلت کو کم نہیں کیا جا سکتا۔ ایران پر تو پہلے سے پابندیاں عائد ہیں اور اب روس پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے۔ یہ بھی ایک اہم وجہ ہے جس کی وجہ سے ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہو رہا ہے، کیوں کہ تیل درآمد کرنے والے ممالک ہی دنیا میں زیادہ ہیں۔ خود ہمارا ملک 80 فیصد تیل درآمد کرتا ہے اور اسے ادائیگی ڈالر میں کرنی ہوتی ہے، اس لیے بھی ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
روپے کی قدر میں کمی کی دوسری وجہ قیمتی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ بھی ہے، مثال کے طور پر سونا، جس کی قیمت میں روز افزوں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ جب کبھی ملک میں معاشی عدم استحکام ہوتا ہے عوام بھی ایسی چیز کی طرف راغب ہوتے ہیں جس کی قدر زیادہ ہوتی ہے، ان کے سامنے سونا ایک متبادل کے طور پر نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روس نے بھی کچھ عرصے سے سونے کے ذخیرے میں اضافہ کرنا شروع کیا ہے کیوں کہ اسے معلوم ہے کہ اگر تمام تر انحصار ڈالر پر ہو گا تو اس کے ساتھ کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے اسی لیے اس نے سونا جمع کرنا زیادہ مناسب سمجھا۔ واضح ہو کہ زرمبادلہ کا ذریعہ صرف ڈالر ہی نہیں ہے بلکہ اور بھی کرنسیاں ہیں اور سونا بھی ہے۔ روس کے پاس 640 بلین ڈالرز زرمبادلہ کے ذخائر موجود ہیں اس میں سے صرف 16 فیصد ہی ڈالر کی شکل میں موجود ہیں باقی سونے کی شکل میں ہے۔ کچھ عرصے سے وہ صرف سونا ہی جمع کر رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ سونے کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ لوہے کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں جتنا بھی لوہا پیدا ہوتا ہے اس کا دس فیصد حصہ روس اور یوکرین میں ہوتا ہے۔
تیسری وجہ اسٹاک مارکیٹ کا عدم استحکام ہے۔ دنیا بھر میں جنگ کی وجہ سے اسٹاک مارکیٹ پر غیر یقینی کے بادل چھائے ہوئے ہیں، ہم نے ملک میں کئی بار مشاہدہ کیا کہ معمولی سی غیر یقینی صورتحال سے ہی اسٹاک مارکیٹ تہ وبالا ہو جاتی ہے اب تو دو ممالک کے درمیان جنگ چل رہی ہے جس میں ایک سوپر پاور ہے جس سے بہت سے ممالک کے مفادات وابستہ ہیں اور معاشی تعلقات ہیں۔ ایسی صورت میں لازمی ہے کہ اس پر مرتب ہونے والے اثرات کا دنیا پر اثر پڑے گا۔ ماہرین کی رائے میں یہ جنگ دنیامیں معاشی بحران پیدا کر رہی ہے۔ دنیا کی معیشت ابھی کوویڈ سے ابھری ہی نہیں تھی کہ جنگ نے اسے ایک نئی مصیبت میں دھکیل دیا ہے، یہ جنگ یقینی طور پر معاشی بحران پیدا کرے گی چنانچہ ابھی سے افراط زر کی صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔ خام تیل کی قیمتوں میں جیسے جیسے اضافہ ہوتا جائے گا اسی تیزی کے ساتھ افراط زر میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا۔ جب تک معاشی استحکام حاصل نہیں ہو گا تب تک دنیا کے کئی ممالک کنگال ہو جائیں گے یا کساد بازاری کا شکار ہو جائیں گے۔ یہ کیفیت دنیا کو ایک نئے بحران کی طرف لے جانے والی ہے اس کیفیت کو معاشیات کی اصطلاح میں "اسٹاک فلیش” کہا جاتا ہے یعنی معیشت کا رک جانا اور افراط زر کا ہو جانا۔
روپے کی قدر میں کمی واقع ہونے کی اور بھی کئی وجوہات ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جہاں کہیں معاشی غیر یقینی صورتحال پیدا ہو گی تو دولت مند طبقہ اپنی دولت کو ڈالر کی شکل تبدیل کر لیتا ہے کیوں کہ اسے معلوم ہے کہ امریکا ایک سوپر پاور ملک ہے جس کی وجہ سے اس کی کرنسی کو کبھی زوال نہیں ہو گا اس لیے وہ وہ ڈالر خریدنے میں ہی عافیت محسوس کرتا ہے۔ لہٰذا ڈالر کی طلب میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اور اس کی قدر بڑھتی جاتی ہے۔ جب سے امریکہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ شرح سود میں اضافہ کرے گا تو لوگوں نے یکایک ڈالر خریدنے شروع کر دیے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ڈالر کی قیمت بڑھنے لگی اور روپے کی قدر میں کمی واقع ہو گئی۔ ہماری عوام کو یہ احساس نہیں کہ اس عمل سے ملک کی معیشت کمزور ہو گی۔ انہیں تو زیادہ سے زیادہ دولت چاہیے، چاہے ملکی معیشت کا بیڑہ غرق کر کے ہی کیوں نہ ہو۔ یہی تکاثر کی مثال ہے۔
***
جب تک ایران سے تیل اور گیس کی فراہمی نہیں ہوتی اس وقت تک خام تیل کی قلت کو کم نہیں کیا جا سکتا۔ ایران پر تو پہلے سے پابندیاں عائد ہیں اور اب روس پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے۔ یہ بھی ایک اہم وجہ ہے جس کی وجہ سے ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہو رہا ہے
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 20 تا 26 مارچ 2022