سراج الدین ندوی
مولانا دلشاد حسین اصلاحیؔ کے واٹس ایپ پر یہ میسیج پڑھ کر دل کو بڑی چوٹ پہنچی کہ ہمارے رفیقِ دیرینہ اور مخلص وخیر خواہ محترم رونق علی صاحب اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے، ان کو جنت الفردوس میں بلند مقام عطا فرمائے، ان کی اولاد اور جملہ پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے اور ان کے صبر جمیل پر انہیں اجرِ جزیل عطا فرمائے۔ (آمین)
رونق علی صاحب واقعتاً مجلسوں اور نشستوں کی جان اور رونق ہوا کرتے تھے۔ وہ انفرادی ملاقاتیں ہوں یا اساتذہ کا ہفتہ واری پروگرام، جماعت کے اجتماعات ہوں یا اسٹاف کی میٹنگ، کوئی مشاورتی اجلاس ہو یا کسی موضوع پر مباحثہ، مرحوم اپنی سنجیدہ گفتگو، بے باک تبصروں، جان دار مشوروں اور مخلصانہ لب ولہجہ سے پوری مجلس میں ممتاز نظر آتے تھے۔
مرحوم کی سب سے بڑی خوبی ان کی حق گوئی و بے باکی تھی، وہ بلاخوف لومۃ لائم جس بات کو حق سمجھتے پوری قوت سے اسے پیش کرتے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ ہمہ وقتی افراد اپنے ذمہ داروں کے سامنے عموماً اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے جھجکتے ہیں۔ اختلافِ رائے کی تو ہمت نہیں کر پاتے مگر مرحوم کا معاملہ بالکل مختلف تھا وہ کسی مصلحت کوشی کو پاس نہیں پھٹکنے دیتے تھے۔ جب وہ ذمہ داروں کے سامنے ان سے اختلافِ رائے کرتے اور اپنی بات کو معقول اور مدلل انداز سے پیش کرتے تو رفقا ان کی حق گوئی پر اپنی نگاہوں سے انہیں خلو ص ووفاکے نذرانے پیش کرتے رہتے۔ بقول حفیظ میرٹھی:
ٹھٹھک گئی ہے ہوس مصلحت کے پاس آگر
وفا گزر بھی گئی تخت وتاج ٹھکر اکر
ہر رفیق کے لیے خلوص اور ہمدردی ان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ وہ ہر شخص کی پریشانی دیکھ کر پریشان ہو اٹھتے تھے اور اسے اپنی پریشانی سمجھ کر دور کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اس سلسلے میں اپنے اور پرائے کی کوئی تمیز ان کے یہاں نہیں تھی۔
وہ طلبہ کو بڑی محنت اور لگن سے پڑھاتے تھے۔ دورانِ تدریس طلبہ کے تئیں ان کا خلوص ان کی گفتگو اور لہجے سے ٹپکتا دکھائی دیتا تھا۔ وہ طلبہ کی تربیت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے۔ دورانِ تدریس طلبہ کے جذبات واحساسات کو صحیح رُخ دیتے اور انہیں ایک کامیاب اور پاکیزہ زندگی گزارنے کے اصول اور طور طریقے سکھاتے، یہی وجہ ہے کہ طلبہ بھی ان سے محبت کرتے، ان کی باتوں کو غور سے سنتے اور ان کو بڑی عزت دیتے۔مرحوم کا ایک بڑا وصف ’’راز داری‘‘ تھا۔ وہ لوگوں کے رازوں کو اپنے سینے میں محفوظ رکھتے۔ کسی بھی موقع پر کسی کا کوئی راز افشا نہ ہونے دیتے۔ کسی کے پیچھے اس کے بارے میں کوئی رائے زنی نہ کرتے۔ جس آدمی سے متعلق کوئی بات ہوتی اسی سے کرتے اور برملا کرتے۔
ان کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ ہر خطا کار کو معاف کر دینے کے قائل تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ غلطی ہر انسان سے ہو سکتی ہے، اسے اصلاح کا بھر پور موقع ملنا چاہیے۔ وہ طلبہ کو کوئی بڑی سزا دینے یا اس کا اخراج کر دینے کے سخت مخالف تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ کسی طالب علم کا اخراج کرنے کے معنیٰ اس کی اصلاح وتعلیم کے دروازے بند کردینا ہے اور کسی طالب علم کو سخت سزا دینا اس کے دل میں تنفر کے بیج بو دینے کے مترادف ہے۔جب درس گاہ سے ایک طالب علم کی گستاخی پر ناظم صاحب نے اس کا اخراج کر دیا تو رونق علی صاحب اس کا اخراج رکوانے کے لیے میدان میں آگئے اور اپنی حد تک وہ جتنی کوششیں کر سکتے تھے کیں، وہ عند اللہ ماجور ٹھہرے اور ان کا یہ عمل تمام اساتذہ کے لیے بہترین نمونہ قرار پایا۔ان کی ایک خوبی یہ تھی کہ وہ ہر شخص سے تعلق کو استوار اور خوش گوار رکھنا چاہتے تھے۔ جس سے ایک بار ان کا تعلق قائم ہو گیا اس میں وسعت واستحکام تو دیکھنے کو ملا مگر کسی سے تعلق میں ناخوشگوار ی یا کمی دیکھنے میں نہیں آئی۔وہ اپنے شاگردوں، کارکنوں اور دوستوں کی حوصلہ افزائی بہت کرتے تھے۔ پیٹھ پیچھے ان کے اوصاف اور خوبیوں کا تذکرہ کرتے اور ان کی خامیوں سے چشم پوشی اختیار کرتے۔ مجھ سے ہر ملاقات پر میرا حوصلہ بڑھاتےمیرے کاموں کو سراہتے اور کاندھے پر ہاتھ رکھ کر کہتے:
’’سراج صاحب! کام کیے جاؤ، اللہ آپ سے خوب کام لینا چاہتا ہے، اس نے آپ کو بڑی صلاحیتیں دی ہیں‘‘ میرے خاص شاگردوں کی بھی بہت تعریف وتحسین کرتے اور کہا کرتے:’’آپ نے کیا ہی خوب ان کی تربیت کی ہے‘‘۔
میرے بارے میں لوگوں سے کہا کرتے ’’یہ شخص جن ہے ورنہ انسان تو اتنے کام نہیں کرسکتا، ایک طرف بچوں کی تدریس وتربیت، اچھا ساتھی کا تسلسل سے نکالنا، مختلف موضوعات پر کتابیں لکھنا، ادارے قائم کرنا اور انہیں چلانا، دعوت واصلاحِ معاشرہ کے کام کرنا، بڑے بڑے پروگرام منعقد کرانا‘‘۔ ان کی اور ان جیسے رفقا کی حوصلہ افزائی ہی نے دراصل مجھے مسائل ومشکلات سے پنجہ آزمائی کرنے اور ناساز گار حالات میں بھی کام کرنے کا حوصلہ دیا۔مرحوم رونق علی صاحب ایک درمیانہ قد وقامت اور رنگ روپ کے ساتھ معتدل فکر ومزاج کے مالک تھے۔ نہ اتنے سخت مزاج کہ کوئی بات کرنے سے گھبرائے نہ اتنے مداہن اور سادہ لوح کہ غلط آدمی ان کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرسکے۔ جب کسی رفیق کا معاملہ ہوتا تو ریشم کی طرح نرم اور جب کوئی غلط اور ناجائز بات ہوتی تو فولاد کی طرح سخت نظر آتے بقول علامہ اقبال:
ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق وباطل ہو تو فولاد ہے مومن
رونق علی مرحوم یکم جولائی 1935 کو شہزاد نگر ضلع بدایوں میں پیدا ہوئے۔ 1958ء میں جماعت اسلامی کی مشہور تعلیم گاہ مرکزی درسگاہ میں ریاضی کے ٹیچر ہو کر رامپور منتقل ہوگئے اور پھر اسی کو اپنا وطن اصلی بنالیا۔ درسگاہ سے ریٹائر ہونے کے بعد انہوں نے باقی زندگی دین کی اشاعت واقامت میں گزاری۔ وہ 1954ء ہی میں جماعت اسلامی سے وابستہ ہو چکے تھے اور کئی اضلاع کے ناظم بھی رہے۔ انہوں نے بہت صاف ستھری اور پاکیزہ زندگی گزاری۔ چند سال سے ان کو سانس کے مسائل تھے۔ چند روز قبل ان کو رامپورکے صدر ہاسپٹل میں داخل کیاگیا تھا۔ ایک بار کچھ افاقہ بھی محسوس ہوا مگر موت کا وقت تو متعین ہے۔ وہ ایک لمحہ بھی آگے پیچھے نہیں ہوتی۔ انتقال سے کچھ پہلے حاضرین نے دیکھا کہ آپ کچھ پڑھ رہے ہیں۔ یہ اللہ کا فضل اس کے خاص بندوں ہی کو حاصل ہوتا ہے کہ ان کی زندگی کے آخری لمحات بھی ذکرِ الٰہی میں گزرتے ہیں۔
میرا ان سے چالیس سال پرانا تعلق ہے۔ سب سے پہلے وہ سیرت کے ایک جلسے میں میرے وطن سرکڑہ 1978 میں تشریف لائے۔ ان دنوں بچوں کے ادیب اور کہانی کار وصی اقبال صاحب ہمارے گاؤں میں بیج اسٹور کے منیجر ہوا کرتے تھے چونکہ وصی اقبال صاحب کا تعلق بھی رامپور ہی سے تھا۔ وہ بہت فعال اور متحرک انسان تھے۔ انہوں نے رامپور کے اہلِ علم اور تحریکی رفقاء سے میرا غائبانہ تعارف کرا رکھا تھا۔ مجھ سے ملاقات کے اشتیاق میں جناب رونق علی صاحب ان کے ہمراہ میرے گاؤں آئے۔ وہ میرے مہمان رہے اور ان سے خوب باتیں ہوئیں۔ تحریکی موضوعات پر بھی اور حالات حاضرہ پر بھی۔
اگلے سال مرکزی درسگاہ کے تعلیمی ہفتہ کے موقع پر جج کی حیثیت سے میرا رامپور جانا ہوا تو مرحوم رونق علی صاحب سے بھی کئی ملاقاتیں رہیں۔ وہ مجھے اپنے گھر بھی لے گئے۔ رات میں تعلیمی ہفتہ کے مختلف پروگراموں پر تبصرے ہوتے رہے۔ وصی اقبال صاحب بھی ہمارے ساتھ تھے۔ خاص طور پر اسٹیج کیے گئے ڈراموں پر رونق علی صاحب کا تبصرہ بہت جاندار تھا۔ چونکہ میں بھی ڈرامے لکھتا اور اسٹیج کراتا رہا ہوں۔ اس لیے مجھے ان کی صالح تنقید سے بہت فائدہ پہنچا۔
جب مرکزی درسگار اسلامی رامپور میں عالمیت کے درجات کا آغاز ہوا تو ناظم درسگاہ جناب محمد جاوید اقبال صاحب کی خواہش پر میں نے عربی علوم کی تدریس کے لیے مرکزی درسگاہ کو جوائن کر لیا۔ میں نے جاوید اقبال صاحب سے شرط رکھی تھی کہ میں اسی وقت رامپور آسکتا ہوں جب فیملی کی رہائش کا انتظام ہوگا۔ چنانچہ دو کمروں پر مشتمل ایک مکان مجھے فراہم کردیا گیا اور میں وسط جولائی 1984ء کو فیملی کے ساتھ رامپور منتقل ہوگیا۔
ابھی ہم سامان سیٹ کر ہی رہے تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی، کوئی شخص آواز دے رہا تھا: ’’سراج صاحب‘‘ میں نے دروازہ کھولا توسامنے رونق علی صاحب تھے اور ان کے ہاتھ میں ٹفن تھا جو غمازی کررہا تھا کہ وہ نئے آنے والوں کا کس قدر خیال رکھتے ہیں۔ میں یوں بھی کہہ سکتا ہوں کہ رامپور منتقلی کے بعدجو شخص (ناظم درسگاہ کے بعد) سب سے پہلے مجھ سے ملنے کے لیے میرے گھر آیا وہ رونق علی صاحب تھے۔ اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔( آمین) پھر ان سے تعلقات میں وسعت پیدا ہوتی چلی گئی اور پھر اس وسعت نے بے تکلفی کی صورت اختیار کرلی۔مختصر عرصہ کے بعد ہمارے گھریلو روابط بھی قائم ہو گئے اور ہم ایک دوسرے کے فیملی ممبر بن گئے۔ ذاتی اور گھریلو معاملات میں بھی ایک دوسرے سے مشورے کرتے۔ چھ سال بعد جب میں نے درسگاہ سے استعفیٰ دیا تو رونق علی صاحب نے میری جدائی پر بہت افسوس کیا مگر درسگاہ کے حالات کو دیکھتے ہوئے انہوں نے میرے فیصلے کی تائید کی اور جب صدر انتظامیہ نے مجھ سے استعفیٰ واپس لینے کے لیے کہا تو جن دوستوں نے استعفیٰ واپس نہ لینے کا مشورہ دیا ان میں رونق علی صاحب پیش پیش تھے اور ان کا یہ مخلصانہ مشورہ میرے لیے بہت زیادہ خیر وبرکت کا سبب بنا۔
یوں تو رونق علی صاحب کے سبھی بیٹوں سے میرے روابط رہے مگر ان کے دو صاحبزادے قاسم سید اور مسلم غازی صاحب سے بہت قریبی روابط رہے اور اب بھی ملاقاتوں اور موبائل پر تبادلہ خیالات کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ رونق علی صاحب کی صاحبزادی فاطمہ صالحاتی میری بیٹی گلناز صالحاتی کی سہیلی ہیں اور دونوں جامعۃ الصالحات میں ہم درس رہی ہیں۔
اللہ سے دعاگو ہوں کہ اللہ مرحوم کی فرو گزاشتوں سے درگزر فرمائے۔ ان کی قبر کو نور سے معمور فرمائے اور انہیں اپنے نیک بندوں میں شامل کر کے اپنا قرب نصیب فرمائے۔ (آمین)
***
ان کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ ہر خطا کار کو معاف کر دینے کے قائل تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ غلطی ہر انسان سے ہو سکتی ہے، اسے اصلاح کا بھر پور موقع ملنا چاہیے۔ وہ طلبہ کو کوئی بڑی سزا دینے یا اس کا اخراج کر دینے کے سخت مخالف تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ کسی طالب علم کا اخراج کرنے کے معنیٰ اس کی اصلاح وتعلیم کے دروازے بند کردینا ہے اور کسی طالب علم کو سخت سزا دینا اس کے دل میں تنفر کے بیج بو دینے کے مترادف ہے۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020