روشنی کی کرن

نبی کریمﷺکا ایک ارشاد جوہر حال میں جذبہ عمل کو زندہ رکھتا ہے

جاویدہ بیگم ورنگلی

 

حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد مبارک ہے ’’اگر قیامت (کا وقت) آ جائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا پودا ہو اور قیامت کے برپا ہو جانے سے پہلے اس پودے کو لگا سکتا ہو تو لگا دے کیوں کہ اس کے بدلے اجر ملے گا‘‘۔ یہ حدیث ہو سکتا ہے آپ نے پہلی بھی سنی ہو مگر آج کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا جن حالات سے گزر رہی ہے زندگی کے جوش ولولے سب ماند پڑ گئے ہیں۔ دل و دماغ مایوسی و نا امیدی کا شکار ہو گئے ہیں۔ ایک جمود کی کیفیت طاری ہے۔ قلم یہ سوچ کر کہ ان حالات میں کون پڑھے گا لکھنے پر آمادہ نہیں ہے۔
ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے جب یہ وقت گزرا جا رہا تھا یہ چھوٹی سی حدیث سوچ کے سفر میں مشعل بن گئی۔ زندگی میں ایک نئی روح پھونک دی۔ سستی و کاہلی، بیماری و کمزوری کا احساس ختم ہو گیا۔ جب اللہ کی رضا کے لیے قلم چلتا رہا تو پھر یہ چلنے والا قلم رک کیوں گیا؟ کیا اللہ سے رضا پانے کا خیال ختم ہو گیا؟ جب قلم اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے اور اس کی رضا کی طلب میں چل رہا تھا تو اس پر حالات کا اثر کیوں ہوا؟ اگر لوگوں سے داد و تحسین حاصل کرنے کے لیے یہ قلم چلتا رہا تو آج تک کا سارا لکھنا بے کار محض ہوکر رہ جائے گا۔ لیکن اگر اللہ کی رضا کے ساتھ اس کے بندوں تک پیغام حق پہنچانے کے لیے چلتا رہا تو اب اس کا رک جانا سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے۔ بس پودا لگانا ہمارے ذمہ ہے، پھل دنیا میں ملے یا آخرت میں اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اللہ تو کسی عمل کو خواہ وہ چھوٹے سے چھوٹا ہو، ضائع کرنے والا نہیں ہے۔ مایوسی کی وجہ سے عمل سے رک جانا بڑے ہی گھاٹے کا سودا ہے۔ یہ سوچ تو زندگی کے مقصد کو ہی ختم کرکے رکھ دینے والی ہے۔ انسان کو ذمہ داری ادا کرنے کے لیے کام کرنا ہے۔ اس کو کامیابی سے ہمکنار کرنا اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ انسان کی نظر اسباب پر نہیں بلکہ مسبب الاسباب پر ہونی چاہیے۔ انسان کا کام پودا لگانا ہے۔ پودا کیسا بڑھے گا جب کہ باد مخالف کے تھپیڑے اس کو اکھاڑ دینے پر تلے ہوئے ہیں، اس طرح کی سوچ انسان میں منفی جذبات کو پروان چڑھا کر اس کو عمل سے روک دینے والی ہے۔
اسلام عمل کا دین ہے عمر کے آخری لمحوں تک کام کیے جانا ہے۔ چاہے حالات کتنے ہی نا ساز گار کیوں نہ ہوں۔ اللہ کے رسولؐ کی زندگی ہمارے سامنے ہے۔ آپؐ مکہ کے ان نا ساز گار حالات میں جبکہ آپؐ کا حقیقی چچا ابولہب آپؐ کے پیچھے پیچھے یہ کہتا جاتا تھا کہ اس کی بات مت سنو، یہ پاگل ہے یہ مجنوں ہے۔ تب بھی آپؐ نے اس کے باتوں کی پروا کیے بغیر اپنا مشن جاری رکھا۔ شعب ابی طالب میں آپؐ اور آپؐ کے خاندان کو محصور کر دیا گیا تھا۔ اس بھکمری کی حالت میں بھی آپؐ ایوس ہو کر بیٹھے نہیں رہے۔ طائف میں آپؐ کی بے انتہا تذلیل کی گئی۔ آپؐ کو اس قدر مارا گیا کہ آپؐ زخموں سے چور ہو گئے مگر امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ آپؐ وطن عزیز مکہ سے بے سر و سامانی کی حالت میں ہجرت کر رہے ہیں مگر کسی قسم کی مایوسی کا شکار نہیں ہوئے۔ میدان بدر میں افرادی قوت سامانِ حرب وضرب کی کمی کے باوجود قریش کی فوج کا مقابلہ کیا۔ آپؐ کی اس بے سر وسامانی کی خبر پا کر قریش پوری تیاری کے ساتھ مدینہ پر حملہ کرنا چاہتے ہیں لیکن آپؐ کسی پریشانی کا اظہار کیے بغیر مدینہ کا دفاع کرنے کے لیے خندق کھود رہے۔ اور اس حال میں کہ آپؐ کے شکم مبارک پر دو دو پتھر بندھے ہوئے تھے۔ آپؐ کا اسوہ امید اور عمل کی دعوت دیتا ہے۔ ہمارے اسلاف کی زندگیاں گواہ ہیں کہ انہوں نے آپؐ کے اسوہ مبارکہ کی روشنی میں کس طرح عظیم الشان کارنامے انجام دیے۔
امام ابو یوسف جو امام ابو حنیفہ کے شاگرد رشید تھے بستر مرگ پر تھے ان کی عیادت کے لیے ابراہیم بن الجراح عیادت کی غرض سے ان کے پاس گئے۔ امام ابو یوسف پر نیم بے ہوشی طاری تھی کچھ طبعیت سنبھلی تو فرمانے لگے۔ ابراہیم اس مسئلہ پر آپ کیا فرماتے ہیں؟ ابرہیم کہنے لگے، حضرت! اس حال میں بھی مسائل کی بحث؟ امام یوسف ؒ نے کہا ’’کیا حرج ہے، ممکن ہو اس سے کسی کی نجات ہوجائے۔ رمی جمار کے بارے میں مسئلہ پوچھا تھا۔ پھر خود ہی رمی جمار کے بارے میں بتا دیا کہ کونسا عمل بہتر ہے۔ ابرہیم رخصت ہو کر گھر سے باہر نکل بھی نہ پائے تھے کہ یہ عملی انسان دنیا سے رخصت ہو گیا۔ مشہور اسلامی ریاضی داں البیرونی کے بارے میں ابوالحسن علی بن عیسیٰ بیان کرتے ہیں کہ میں ان کی وفات کے وقت حاضر خدمت ہوا۔ ان پر نزع کا عالم طاری تھا تکلیف کی شدت تھی طبیعت میں گھٹن تھی۔ اس حالت میں دریافت کیا کہ ’’تم نے ایک روز جدات فاسدہ (ثانیوں) کی میراث کا مسئلہ مجھے کس طرح بتایا تھا؟ علی بن عیسی نے وہ مسئلہ ان کے سامنے دہرا دیا اور البیرونی نے یاد کرلیا۔ علی بن عیسی ان کے گھر سے رخصت ہو کر اپنے گھر پہنچنے بھی پائے تھے کہ البیرونی اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولؐ کی زندگی کو تمام انسانوں کے سامنے نمونے کے طور پر پیش کیا ہم آپؐ کی سیرت اور احادیث کا مطالعہ کرتے ہیں اور سر دھنتے ہیں محبت اور عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں اللہ کے فرمان کی تعمیل بھی کر لی اور حضورؐ سے محبت کا حق بھی ادا کر دیا۔
لیکن زندگی کے نشیب و فراز میں یہ حدیث پیش نظر ہو تو انسان مایوسی کا شکار بن کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا نہیں رہ سکتا۔ آخری وقت تک کام کرتا رہتا ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 13 تا 19 دسمبر، 2020