روس۔ یوکرین جنگ میں بیرونی جنگجوؤںکا داخلہ!

عیسائی لڑیں تو ’رضاکار‘ اور مسلمان لڑیں تو دہشت گرد؟

خلیق احمد، نئی دلّی

مغرب کا بدترین دوغلا پن۔ پوپ فرانسس اور عالمی میڈیا کا تعصب آشکار
تقریباً بیس ہزار بین الاقوامی ’’رضاکار‘‘ یا دوسرے لفظوں میں ’’کرایے کے سپاہی‘‘ یوکرین کی فوج کو تقویت پہنچانے اور قابض روسی افواج کے خلاف لڑنے کے لیے یوکرین پہنچ چکے ہیں۔ ان کرایے کے فوجیوں میں سے زیادہ تر یورپی ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ انکشاف یوکرین کے وزیر خارجہ دیمیترو کلبیرا نے کیا ہے۔
تاہم، یہ واضح نہیں ہے کہ آیا ان کرایے کے سپاہیوں کو یورپی طاقتوں کے ایما پر خانگی فوجی ٹھیکہ داروں نے بھیجا ہے یا یوکرین کی جانب سے مستعار لیا گیا ہے۔
اگر کرایے کے ان فوجیوں کو استعمال کیا گیا تو یہ جنگ افغان جنگ کی طرح طویل ہو سکتی ہے جو جلد ختم نہیں ہو گی۔
اگرچہ امریکا اور یورپی طاقتوں نے روسی حملے کے خلاف یوکرین کو فنڈز، اسلحہ اور گولہ بارود فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے تاہم انہوں نے اپنی فوجیں وہاں نہیں بھیجی ہیں۔
مغربی طاقتیں اپنے ہم وطنوں کو رضاکارانہ طور پر یا پیسے کے عوض فوجی خدمات فراہم کرنے کی اجازت ہی کیوں دیں؟ مغربی طاقتوں نے یہ کہہ کر نیٹو کے فوجی بھیجنے سے انکار کر دیا ہے کہ یوکرین نیٹو کا رکن نہیں ہے۔
امریکا کے ساتھ ساتھ بیشتر یورپی ممالک کے بھی نجی فوجی کنٹراکٹرس ہیں جن کے ساتھ کام کرنے والے زیادہ تر ریٹائرڈ فوجی اہلکار ہوتے ہیں جو مہلک ہتھیاروں کے استعمال کا تجربہ رکھتے ہیں۔
رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ ان فوجی ٹھیکہ داروں سے یوکرین کے عوام اور ان کے اثاثوں کی حفاظت کے لیے خدمات حاصل کرنے کے لیے رابطہ کیا گیا ہے۔ ان سے رابطہ کرنے والوں میں این جی اوز اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ لیکن فوجی ٹھیکہ داروں کا کہنا ہے کہ وہ صرف سیکیورٹی خدمات فراہم کرتے ہیں اور ان کے لوگ فوجی لڑاکا کردار ادا نہیں کرتے۔ امریکا اور نیٹو ممالک نے عراق جنگ اور یوگوسلاویہ جیسے فوجی تنازعہ کے دوران دیگر ممالک میں نجی فوجی کنٹریکٹرز کی خدمات حاصل کی تھیں۔ پرائیویٹ ملٹری کنٹریکٹرز سے تعلق رکھنے والے اہلکار عراق اور دیگر ممالک میں عام شہریوں کے قتل عام میں ملوث رہے ہیں۔
یہ ’’رضاکار‘‘ یا کرایے کے فوجی جن اثاثوں کی حفاظت پر مامور ہیں اگر وہ روسی افواج کے حملے کی زد میں آجائیں تو کیا وہ نہیں لڑیں گے؟ لہٰذا جب حملہ کیا جائے گا تو سیکیورٹی گارڈز اور فوجی جنگجوؤں کے کردار کے درمیان کی لکیر دھندلی پڑ جائے گی۔ وہ بلاشبہ جوابی کارروائی کریں گے کیونکہ انہیں جدید ترین مہلک ہتھیاروں سے نمٹنے کی تربیت حاصل ہے۔
نجی ملٹری فرموں کو دہشت گرد تنظیموں سے کیسے الگ کیا جا سکتا ہے؟
جب عرب ممالک کے کچھ مسلم تنظیموں سے تعلق رکھنے والے رضاکار طالبان کے ساتھ لڑنے کے لیے افغانستان گئے تو انہیں امریکی اور یورپی لیڈر اور ان کے قومی میڈیا نے انہیں دہشت گرد کہا جس کے نتیجے میں وہ جن تنظیموں سے وابستہ تھے انہیں دہشت گرد تنظیمیں قرار دے کر ممنوع قرار دے دیا گیا۔
امریکا اور دیگر عالمی طاقتوں نے بھی مسلمان رضاکاروں کو ان کے مذہب سے جوڑ دیا اور یوں اسلام کو برا بھلا کہا گیا۔
لیکن وہی لیڈر اور امریکی ویورپی میڈیا اب زیادہ تر عیسائی دنیا کے نجی جنگجوؤں کو ’رضاکار‘ کہہ رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا لفظ ہے جس سے احترام کا جذبہ چھلکتا ہے۔ وہ انہیں دہشت گرد نہیں کہتے حالانکہ جنگجوؤں کے ان دو گروپوں کی سرگرمیوں میں شاید ہی کوئی فرق ہو۔
جہاں عرب ممالک کے مسلمان رضاکار طالبان کی حمایت میں لڑ رہے ہیں، وہیں عیسائی ممالک کے عیسائی رضاکار اس وقت یوکرین کی طرف سے لڑ رہے ہیں۔
یوکرین میں مسیحی رضاکاروں کا بنیادی کام ان کے سپرد کی گئی ذمہ داریوں کو نبھانے کے ساتھ ساتھ روسی فوجیوں سے براہ راست یا بالواسطہ طور پر لڑنا ہے۔
کیا مسلم رضاکاروں اور عیسائی رضاکاروں کے تئیں مغربی دنیا کے مجموعی رویے میں تبدیلی آیا دو گروہوں کے مذہب اور نسل کی بنیاد پر ہے؟ مثال کے طور پر، جو طالبان کی حمایت کے لیے افغانستان گئے وہ مسلمان تھے اور دوسرے، جو روس کے خلاف لڑنے کے لیے یوکرین پہنچے، وہ عیسائی ہیں اور سفید فام نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔
یوکرین-روس جنگ کے کووریج میں مغربی صحافیوں اور بعض یورپی سیاست دانوں کے تبصروں سے بھی نسل پرستی اور مذہبی تعصبات کا اندازہ ہوتا ہے۔
سی بی ایس کے نامہ نگار چارلی ڈی اگاتا نے کیف سے رپورٹنگ کرتے ہوئے کہا کہ وہ یقین نہیں کر سکتے کہ روسی حملہ کسی یورپی شہر میں ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یوکرین، افغانستان اور عراق نہیں ہے۔ ’’یہ نسبتاً مہذب اور یورپی بھی ہے‘‘۔ انہوں نے اپنی رپورٹ میں جو کہا اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف یورپی ہی مہذب ہیں، مسلمان، عرب اور افریقی نہیں۔ اور اس کا مطلب یہ بھی تھا کہ یورپ پر کوئی حملہ نہیں کر سکتا۔ غیر یورپی ممالک پر حملہ کرنا صرف یورپیوں کا حق ہے۔
یوکرین سے آنے والے پناہ گزینوں کے بارے میں رپورٹ کرتے ہوئے، این بی سی کی نامہ نگار کیلی کوبیلا نے کہا کہ یوکرین شام نہیں ہے۔ وہ شام کے پناہ گزین نہیں ہیں۔ یہ یوکرین کے پناہ گزین ہیں۔۔ وہ عیسائی ہیں، وہ سفید فام ہیں، وہ بہت زیادہ ملتے جلتے ہیں،‘‘
جب امریکا اور اس کے اتحادیوں نے عراق، افغانستان، لیبیا اور شام جیسے مسلم ممالک پر حملہ کیا تو پوپ فرانسس خاموش رہے۔ لیکن اب پوپ نے ویٹیکن میں واقع روسی سفارت خانے کا دورہ کیا اور یوکرین پر حملے پر اپنی تشویش کا اظہار کیا۔
ایک خاص پیغام کے ساتھ پوپ کی سفیر سے ملاقات ایک بے نظیر واقعہ تھا۔ آخر یہ دوغلا پن کیوں؟ وہ مسلمان جن پر مغربی طاقتیں حملہ آور ہوئیں کیا انسان نہیں تھے یا یوکرینیوں سے کم تر انسان تھے؟
ایک مذہبی رہنما کی حیثیت سے پوپ کو اپنے ہم مذہبوں کے ہاتھوں مسلم ممالک میں ہونے والی ہلاکتوں پر اسی طرح کی تشویش ظاہر کرنی چاہیے تھی اور مسلمانوں کی سرزمین کی تباہی کو روکنے کے لیے ان پر اپنا روحانی اثر ورسوخ استعمال کرنا چاہیے تھا۔ بدقسمتی سے پوپ نے مسلمانوں کو مایوس کیا۔
مسلم ممالک پر مغربی حملے کے حق میں دلائل یہ ہیں کہ عراق کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار تھے اور افغانستان دہشت گردوں کو پناہ دیتا تھا اور دنیا کے لیے خطرہ بن چکا تھا۔ چنانچہ روس کا دعویٰ بھی یہی ہے کہ اسے یوکرین سے خطرہ محسوس ہوا، جو نیٹو کے ساتھ مل کر ایسے ہتھیاروں کو جمع کر رہا تھا جو روس کے خلاف استعمال ہو سکتے تھے۔
لیکن کوئی بھی دلیل نہ یوکرین پر روسی حملے اور یوکرینی عوام کے بڑے پیمانے پر قتل کو منصفانہ ٹھہراسکتی ہے اور نہ ہی مغربی طاقتوں کی طرف سے دہشت گردوں کو پناہ دینے کے بہانے مسلم ممالک پر فوجی حملے کو کوئی جواز فراہم کر سکتی ہے۔
(مضمون نگار انڈیا ٹومارو کے ایڈیٹر ہیں )
***

 

***

 مسلم ممالک پر مغربی حملے کے حق میں دلائل یہ ہیں کہ عراق کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار تھے اور افغانستان دہشت گردوں کو پناہ دیتا تھا اور دنیا کے لیے خطرہ بن چکا تھا۔ چنانچہ روس کا دعویٰ بھی یہی ہے کہ اسے یوکرین سے خطرہ محسوس ہوا، جو نیٹو کے ساتھ مل کر ایسے ہتھیاروں کو جمع کر رہا تھا جو روس کے خلاف استعمال ہوسکتے تھے۔تاہم، کوئی بھی دلیل یوکرین پر روسی حملے اور یوکرینی عوام کے بڑے پیمانے پر قتل کو منصفانہ ٹہراسکتی ہے اور نہ ہی مغربی طاقتوں کی طرف سے دہشت گردوں کو پناہ دینے کے بہانے مسلم ممالک پر فوجی حملے کو کوئی جواز فراہم کر سکتی ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  20 تا 26 مارچ  2022