ڈاکٹر سید محی الدین علوی ،حیدرآباد
ڈاکٹر سید محی الدین علوی ،حیدرآباد
اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں برادران وطن میں بہت سی غلط فہمیاں ماہ صیام کے بارے میں ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ رمضان کھانے پینے کا مہینہ ہے اور کھانا پینا بھی کم نہیں بلکہ خوب کھانے پینے کا مہینہ ہے۔ جگہ جگہ حلیم وہریس کی بھٹیاں انہیں نظر آتی ہیں جہاں گوشت سے بنی یہ خصوصی ڈش خوب کھائی جاتی ہے، دہی بڑے بھی نوش فرماتے ہوئے ہمارے مسلمان بھائی نظر آتے ہیں۔ پھر میوہ جات کی بھر مار ہوتی ہے اور کھجور کی دکانیں نظر آتی ہیں جس میں ڈھیروں عربی، ایرانی اور عجوہ کھجوریں نظر آتے ہیں۔ ہماری خواتین سہ پہر سے ہی پکوان میں مصروف ہو جاتی ہیں۔ انہیں نہ نمازوں کی فکر رہتی ہے اور نہ ذکر و اذکار کے لیے وقت رہتا ہے (الّا ما شاء اللہ) وہ اپنے دستر خوان کو مرغن غذاوں سے سجاتی ہیں اور ہمارے بھائی کھانا اتنا کھالیتے ہیں جتنا وہ شاید عام دنوں میں بھی نہ کھاتے ہوں گے۔ رات آتی ہے تو ہماری خواتین شاپنگ کے لیے نکل جاتی ہیں اور اس وقت انہیں نہ گھر کا خیال رہتا ہے نہ بچوں کی فکر ہوتی ہے۔ یہ سب دیکھ کر ہمارے برادران وطن یہی سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کے لیے خوب کھانے پینے کا مہینہ آ گیا ہے۔ حالانکہ ہمیں تعلیم یہ دی گئی ہے کہ کھانا کم کھائیں اور عبادت زیادہ کریں، کم کھانا، کم سونا اور کم بولنا پسندیدہ عمل اور دانش مندی ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ جس طرح ہمارے برادران وطن کو مساجد کا معائنہ کرواکر ان کی غلط فہمیاں دور کی جا رہی ہیں، وضو اور نماز کے بارے میں انہیں بتایا جا رہا ہے اسی طرح افطار کے موقع پر انہیں شریک کر کے روزہ اور قرآن کے بارے میں بتایا جائے کہ روزہ کا مقصد تزکیہ نفس ہے اور روزے میں بھوک پیاس سے ہمیں معلوم ہو جاتا ہے کہ ہمارے اطراف انسانوں کا اک انبوہ کثیر ہے جنہیں دو وقت کی روٹی نصیب نہیں ہوتی اور وہ اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو رات میں بھوکا پیاسا سلانے پر مجبور ہیں۔
ایک مسلمان جب روزہ رکھتا ہے تو اسے جس طرح خود کی بھوک پیاس کی شدت کا احساس ہوتا ہے اسی طرح ان بھوکے پیاسے انسانوں کی تکلیف کا بھی احساس ہوتا ہے جو اس کے اطراف میں رہتے بستے ہیں۔
دوسری اہم بات برادران وطن کو یہ بتانی ہے کہ ماہ رمضان المبارک کی سب سے اہم خصوصیت نزول قرآن ہے۔ قرآن مجید صرف مسلمانوں کے لیے نہیں ہے بلکہ ساری دنیائے انسانیت کے لیے ہدایت و موعظت اور رحمت ہے۔ اہل ایمان آج بھی اگر قرآن کو لے کر اٹھیں تو ساری دنیا پر چھا جائیں اور مسلمان پہلے کی طرح آج بھی سوپر پاور بن جائیں۔ مسلمانوں کی قرآن سے دوری آج سے کئی سال پہلے جارج برنارڈ شا کو کھٹکتی رہی اور اسے یہ کہنے پر مجبور ہونا پڑا کہ اسلام ایک بہترین مذہب ہے اور مسلمان ایک بدترین قوم ہے۔ لیکن یہی جارج برنارڈ شا یہ کہنے پر مجبور ہوا تھا کہ آئندہ سو برسوں میں ساری دنیا کا مذہب اسلام ہوگا (لیکن اس وقت ہو گا جب مسلمان قرآن سے وابستہ ہو جائیں گے) آج اسلامو فوبیا کا ہوَّا اسی لیے کھڑا کیا گیا کہ مغرب کو یہ ڈر لگا ہوا ہے کہ اسلام اپنی طاقت کے بل بوتے پر پھیلتا چلا جائے گا اور ساری دنیا پر غالب ہو جائے گا۔ اسلام کو روکنے کے لیے 9/11 کا ڈرامہ کھیلا گیا اور آج تک اسلام کو بدنام کرنے کے لیے نت نئی سازشیں کی جا رہی ہیں۔ ہندوستان ہو یا کوئی دوسرا ملک، کہیں لَو جہاد کی بات کی جاتی ہے تو کہیں برقعہ پر پابندی کی بات ہوتی ہے لیکن ہماری مسلم خواتین اس معاملے میں ڈٹ گئیں جس کی ایک مثال ابھی سامنے آئی کہ ایک مسلم طالبہ کو Conovocation Adress (خطبہ تقسیم اسناد) کے موقع پر ڈگری حاصل کرنے کے لیے اسے برقعہ اتارنے کے لیے کہا گیا تو اس نے صاف انکار کر دیا اور ڈگری سے محروم ہونا گوارا کیا۔
کوئی دیکھے نہ دیکھے لیکن مغرب یہ دیکھ رہا ہے کہ امریکہ کے علاوہ یوروپی ممالک میں لوگ جوق در جوق اسلام قبول کر رہے ہیں اس میں بڑی تعداد خواتین کی ہے۔ اسلام کے عائلی قوانین میں انہیں کشش اور زندگی نظر آرہی ہے۔ مغرب ڈرتا ہے کہ اگر اسلام آ گیا تو شراب کے کاروبار بند ہو جائیں گے جس سے 10 ٹریلین ڈالر کا نقصان ہو جائے گا۔ سودی کاروبار کرنے والے بینک بند ہو جائیں گے جس سے 20 ٹریلین ڈالر کا نقصان ہو جائے گا۔ لیکن انہیں نہیں معلوم کہ اسلام ایک آب حیات ہے جس میں زندگی ہے، جس میں فائدہ ہی فائدہ ہے نقصان کچھ نہیں۔
ہمارے برادران وطن کو اللہ کے دین سے روشناس کرانا اور بندگی رب کی دعوت دینا ہماری ذمہ داری ہے۔ ماہ رمضان المبارک کی مناسبت سے روزہ اور قرآن کے بارے میں چند باتیں ان کے گوش گزار کرنی ہوں گی جو مختصراً یہاں بیان کی جاتی ہیں۔
اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے:
اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے جس طرح تم سے پہلے انبیا کے پیرووں پر فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی (البقرہ : ۱۸۲)
نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:
اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ (۱) اس بات کی شہادت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے اور حضرت محمد ﷺ اس کے رسول ہیں۔
(۲) نماز قائم کرنا (۳) زکوٰۃ ادا کرنا (۴) بیت اللہ کا حج کرنا (۵) ماہ رمضان کے روزے رکھنا
سورہ بقرہ ہی میں آگے چل کر روزوں کا ایک مقصد یہ بیان ہوا ہے۔
’’اور جس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سرفراز فرمایا ہے اس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار و اعتراف کرو اور شکر گزار بنو‘‘۔
’’روزہ برائیوں کے مقابلے میں ڈھال ہے۔ پس جب کوئی شخص تم میں سے روزے سے ہو تو اسے چاہیے کہ بدکلامی نہ کرے اور نہ دنگا فساد‘‘۔
رمضان جہنم سے آزادی حاصل کرنے کا مہینہ ہے۔ رمضان میں شیاطین کو جکڑا جاتا ہے۔
رمضان کی پکار یہ ہے کہ ائے بھلائی کے طالب آگے بڑھ اور ائے برائی کے طالب رک جا۔
فرمایا گیا: رمضان کے زمانے میں اللہ کے بہت سے بندے ایسے ہیں جو آگ سے آزادی حاصل کرتے ہیں۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولﷺ نے فرمایا تم پر روزہ کا مبارک مہینہ آیا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے تم پر روزے فرض کیے ہیں اس میں آسمان (یعنی جنت) کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور سرکش شیاطین باندھ دیے جاتے ہیں۔ اس میں اللہ کی طرف سے ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے جو اس رات کی بھلائی سے محروم رہا بس وہ محروم ہی رہ گیا۔(احمد، نسائی)
’’ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا ہے اور تم کیا جانو کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے۔ (القدر : ۱ تا ۳)
حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسولﷺ کا طریقہ یہ تھا کہ جب رمضان آتا تھا تو آپ ہر اسیر کو رہا کر دیتے تھے اور ہر سائل کو کچھ نہ کچھ دیتے تھے۔ (بہیقی)
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 25 تا یکم مئی 2021