رمضان کالائحہ عمل

ماہ مقدس سے قبل اپنے آپ کو تیار کریں

ڈاکٹر محی الدین غازی

شعبان کے مہینہ میں سلف صالحین کا طریقہ رہا ہے کہ وہ امت کو یاد دلاتے تھے کہ وہ اس مہینے میں اپنے آپ کو رمضان کے لیے تیار کریں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول اللہ ﷺ شعبان کے مہینے میں جتنے روزے رکھتے تھے اتنے روزے وہ کسی اور مہینے میں نہیں رکھتے تھے۔علامہ ابن رجب حنبلیؒ نے اس کی تو جیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ہم سب کا تجربہ ہے کہ جب ہم رمضان میں روزے شروع کرتے ہیں اس سے پہلے ہماری کوئی روزہ رکھنے کی عادت نہیں ہوتی تو شروع میں مختلف قسم کی مشقتوں سے دوچار ہوتے ہیں کیونکہ ہماراجسم اس کا عادی نہیں ہوتا ہے۔ اس طرح طبیعت بھاری رہتی ہے اور جو روزے کی عبادت میں لطف آنا چا ہیے وہ تھوڑا متاثر ہوجاتا ہے لہذا اگر شعبان میں کچھ روزے رکھ لیے جائیں تو اس کے نتیجے میں یہ ہوتا ہے کہ جسم روزے رکھنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے اور روزے سے مانوس ہوجاتا ہے۔ اس طرح رمضان کے روزے شروع ہی سے بڑی نشاط و راحت کے ساتھ اس کا لطف اٹھاتے ہوئے ہم رکھ سکتے ہیں۔ یہ تو ایک رخ ہوا تیاری کا جس کی طرف علامہ ابن رجبؒ نے اشارہ کیا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ رمضان کا مہینہ شخصیت کی تعمیر و تربیت اور ایک بہتر مسلم سماج کی تشکیل کے لیےبہت ہی غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے ۔ شرط یہ ہے کہ اسی تصور کے ساتھ رمضان کو گزارا جائے۔ رمضان کی تیاری کا ایک پہلو یہ ہے کہ رمضان شروع ہونے سے کافی عرصہ پہلے سے یہ سوچنا اور اپنا تصور بنانا شروع کردیں کہ اس دفعہ رمضان کے مہینے سے ہمیں کیا کچھ حاصل کرنا ہے اوراس مہینے میں ہماری خاص خاص سرگرمیاں کیا ہوں گی۔اگر ہم پہلے سے ذہنی طور پر تیار نہ ہوں اور اچانک رمضان میں داخل ہو جائیں تو پھر ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ ہمیں کیا کیا کرنا ہے تو بہت سا وقت یوں ہی گزر جاتا ہے۔ یہاں تک کہ جب اعتکاف کا وقت آتا ہے تو تبھی ہم اعتکاف کی فضیلت پر تقریر سنتے ہیں اور ہمارے دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے کہ ہم بھی اعتکاف کریں لیکن پھر خیال آتا ہے کہ ہم اس کے لیے تیار نہیں ہیں اور اس کے لیے وقت نکالنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں لہذا اس مرتبہ تو نہیں البتہ اگلے سال اعتکاف کریں گے اور بات آئی گئی ہو جاتی ہے ۔ لہذا ہم رمضان کے ایک مہینہ پہلے سے اپنے ذہن میں یہ بات واضح کرلیں کہ اس مرتبہ تو ہمیں اعتکاف کرنا ہے تو پھر اس کے لیے اپنی دیگر مصروفیت کا ایڈ جسٹمنٹ ہم کرسکتے ہیں۔ یہ تو اعتکاف کی ایک مثال تھی جس کا ہم نے ذکر کیا ہے۔ اگر ہم ذہنی طور پرفی الواقع تیاررہیں تو رمضان کی بہت ساری چیزوں سے فائدہ اٹھانے کی تیاری کر سکتے ہیں ۔
مثال کے طور پر اگر کسی شخص نے ابھی تک قرآن مجید ترجمے کے ساتھ پورا نہیں پڑھا ہے تو وہ یہ فیصلہ ابھی کرسکتا ہے کہ اس مرتبہ قرآن مجید کو ترجمے کے ساتھ مکمل کروں گا ۔اسی طرح کسی شخص نے ابھی قرآن کو مکمل ہی نہیں کیا ہے تو وہ یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ میں اس مرتبہ قرآن کو مکمل کروں گا۔ کسی شخص کوقرآن ناظرہ پڑھنا نہیں آتا تو وہ اس دفعہ یہ فیصلہ کرے کہ وہ قرآن کی زیادہ سے زیادہ تلاوت کرے گا۔اگر کسی کی تجوید اچھی نہیں ہے اور اگر وہ تجوید کے ساتھ قرآن مجیدنہیں پڑھ سکتا ہے تو اس کے لیے بھی بہترین موقع ہے کہ وہ اس عرصے میں قرآن مجید کی اچھی تلاوت کرنا سیکھ لے۔ سارے انتظامات تو ہماری مسجدوں میں ہیں اور سارے انتظامات ہمارے موبائل میں ہیں کہ جس سے ہم اچھی طرح تجوید سیکھ سکتے ہیں ۔اسی طرح آپ نے طے کیا ہے کہ تہجد پڑھیں گے۔ رمضان میں قیام اللیل اور تہجد کی فضیلت تو سبھی کو معلوم ہے لیکن اس کے لیے ہمیں قرآن مجید کی کچھ زیادہ سورتیں یاد ہوں تو احسن رہے گا اور اچھی طرح قیام اللیل کرسکیں گے۔ اسی لیے ہم اپنے لیے کچھ نئی سورتیں یاد کرنے کا نشانہ طے کرلیں ۔ رمضان میں ہم قیام اللیل کے سجدوں میں دعائیں کرنا چاہتے ہیں۔ لہذا قرآنی دعائیں اور مسنون دعائیں اگر ہمیں یاد نہ ہوں تو ابھی تھوڑے دن باقی ہیں کچھ قرآنی دعائیں اور مسنون دعائیں یاد کرلیں ۔خاص طور پر وہ دعائیں یاد کر لیں جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نمازوں اورقیام اللیل کے سجدوں میں کیاکرتے تھے ۔
کیا آپ نے طے کر لیا ہے کہ اس مرتبہ رمضان میں زیادہ سے زیادہ وقت قرآن مجید کی تلاوت اس کے ترجمے میں دینی کتابوں کے مطالعے میں اور دعاؤں میں اذکار میں نمازوں میں اپنے آپ کو لگانا ہے راتوں کو زیادہ سے زیادہ جاگنا ہے۔ عبادت کرنا ہے تو اس کے لیے ہمیں وقت درکار ہوگا اور اس وقت کاانتظام بھی آپ ابھی سے کر سکتے ہیں ۔ مثال کے طور پر آپ ابھی یہ سوچیں وہ کیا کیا گھر کے کام ہیں جو رمضان میں مجھے کرنے پڑتے ہیں لیکن وہ میں اگر ابھی کرلوں تو رمضان میں نہیں کرنے پڑیں گے۔ تو ان کاموں کی فہرست بنائیے اور ان کو ابھی کر لیجئے۔ اسی طرح آفس کے وہ کون کون سے کام ہیں جن کو آپ ابھی سے کرلیں تو رمضان میں آپ کوسہولت ہوسکتی ہے اور آفس کے کام کا بوجھ شوق عبادت میں حائل نہیں ہو گا ۔
ایک طالب علم یہ سوچ سکتا ہے کہ ابھی میں بہت ساری چیزوں کی پڑھائی کرلوں تو میرے لیے اپنے مطالعے کے وقت میں سے کچھ وقت نکال کرذکرواذکار میں مشغول ہونا ممکن ہوگا ۔ہم میں سے بہت سے لوگ اپنے کاموں کو لوگ ٹالتے رہتے ہیں کہ حالاں کہ یہ کام ابھی کیے جاسکتے ہیں ان کاموں کو آپ پیشگی نمٹالیں تو رمضان عبادات کے لیے زیادہ وقت ملے گا ۔ رمضان کے کام کرنے کا ایک خاتون نے اپنا تجربہ لکھا ۔اس کے اندر حکمت کے بہت سے پہلو ہیں ۔اس نے یہ کہا کہ رمضان میں جو ہم کو مصالحے پیسنا ہوتے ہیں اور مختلف قسم کے پیسٹ تیار کرنے ہوتے ہیں تو ہم وہ سب رمضان سے پہلے ہی زیادہ مقدار میں بنا کر فریج میں رکھ لیتے ہیں اس طرح رمضان میں ہمارا بہت سا وقت بچ جاتا ہے۔ عید کی شاپنگ کو بھی اکثر آخری وقت تک ٹالا جاسکتا ہے اور بالاخر رمضان کی قیمیتی گھڑیاں خریدی کرنے میں ضائع ہوتی ہیں۔ لہذا عقلمندی اسی میں ہے کہ اگر پیسے کا بندوبست ہو تو شعبان میں ہی عید کی شاپنگ کرلی جائے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان کی بھر پور تیاری کرنے اور اسے اپنی شخصیت کے ارتقا اور نجات کا ذریعہ بنانے کی توفیق عطا کرے ۔آمین۔
أستغفر الله العظيم لي ولكم ولسائر المسلمين فاستغفروه إنه هو الغفور

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 مارچ تا 18 مارچ 2023