رمضان: حياتِ نو کا پيغام

مولانا انعام اللہ فلاحي

رمضان المبارک کا مہینہ انسانوں کی زندگی میں ایک انقلاب برپا کرنے کے لیے آتا ہے۔ یہ مہینہ شب و روز کے معمولات کو بدل دیتا ہے۔ کم زور ایمان والوں کی زندگی میں ایمان کی بہار آجاتی ہے۔ گناہوں کے بوجھ سے دبے اور مایوس لوگوں میں حیاتِ نو کا پیغام دے کر انھیں مایوسی اور نا امیدی سے نکال کر زندگی کی نئی شاہ راہ پر ڈال دیتا ہے۔

 رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ(متفق علیہ، عن ابی ہریرۃ) ’’جس نے رمضان کے روزے ایمان کے شعور اور اخلاص کے ساتھ رکھے اس کے پچھلے سارے گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔‘‘

اس حدیث میں نئی زندگی شروع کرنے کا کتنا بڑا محرک موجود ہے۔ گرتے ہوئے لوگوں کے لیے سنبھلنے کا زبردست پیغام ہے۔ گناہوں میں لت پت زندگیوں کے لیے اس سے نکلنے کے لیے مژدہ ہے۔ اندھیروں میں بھٹکنے والوں کے لیے روشنی اور اجالے کی ایک کرن ہے۔ غفر لہ ما تقدم من ذنبہ۔’’ اس کے سابقہ سارے گناہ دھل دیے جائیں گے۔‘‘ کس قدر حوصلہ دینے والا جملہ ہے۔ اس جملہ کی تکرار کئی مرتبہ ہوئی ہے۔ قیام اللیل کے بارے میں فرمایا گیا: من قام رمضان ایماناً و احتساباً غفر لہ ماتقدم من ذنبہ۔(متفق علیہ) ’’جس نے کامل ایمان اور پورے اخلاص کے ساتھ رمضان کے مہینے میں قیام اللیل کیے، اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیے گئے‘‘۔ لیلۃ القدر کے بارے میں ارشاد فرمایا: من قاما لیلۃ القدر ایماً و احتسباً غفر لہ ماتقدم من ذنبہ۔ ’’جس نے کامل ایمان اور پورے اخلاص کے ساتھ لیلۃ القدر میں عبادت کا اہتمام کیا، اس کے سابقہ گناہ بخش دیے گئے۔ ‘‘یہ حیات بخش پیغام زندگیوں میں انقلاب برپا کردینے والا ہے۔ جب رمضان المبارک کا مہینہ آتا ہے تو مومنوں کے دل میں یہ جذبہ ابھرتا ہے کہ آئندہ زندگی کا نقشہ بنائیں گے، اپنی زندگی کی تاریکیوں اور گندگیوں سے نجات حاصل کریں گے، اپنے رب کے حضور گڑ گڑا کر معافی طلب کرکے زندگی کو پاکیزہ بنالیں گے۔ عبادت سے، فرائض کی ادائیگی سے، نوافل کے اہتمام سے، قیام اللیل سے، تلاوتِ قرآن سے، صدقہ وانفاق سے اپنے ایمان کو تازہ کریں گے اور ویران زندگی کو آباد کریں گے۔ رمضان کے روزے کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: آدمی کا ہر عمل اس کے لیے ہے اور ہر نیکی کا ثواب دس گناہ سے لے کر سات سو گنا تک ہے۔ سوائے روزے کے کہ وہ میرے لیے ہے اور میں اس کا بدلہ دوں گا۔ یقیناً روزہ دار کھانا اور خواہشات نفس کو میری وجہ سے ترک کرتا ہے۔ پس روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا عطا کروں گا۔‘‘ (سنن الدارمی) 

اتنی زبردست خوش خبری، زندگی کی تبدیلی کے لیے بہت بڑا سرمایہ ہے۔ لیکن اس خوش خبری کو حاصل کرنے کے لیے، مغفرت اور معافی کے لیے دو شرطیں بھی رکھی گئیں ہیں، جس کو حدیث میں بار بار دہرایا گیا ہے وہ ہے ایمان اور احتساب۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مغفرت کا وعدہ دو شرطوں کے ساتھ ہے۔

پہلی شرط ایمان کی ہے۔ روزہ ہو، قیام اللیل ہو یا لیلۃ القدر کا اہتمام، ان سارے اعمال کا محرک ایمان باللہ ہے، ان اعمال کو انجام دینا اللہ پر ایمان واعتقاد، اس کی محبت اور شکر گزاری کے جذبے سے ہو۔ اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جو لوگ ایمان سے تہی دامن ہیں اگر وہ بھوکے رہیں تو ان کو یہ ثواب نہیں ملے گا۔ بعض غیر مسلم روزہ طبی نقطۂ نظر سے رکھتے ہیں ایسے تمام لوگوں کو مغفرت کا فائدہ نہیں ملے گا۔

دوسری شرط اللہ کی رضا کی خاطر پورے اخلاص کے ساتھ روزہ رکھنا ہے۔ روزے کی ایک خصوصیت یہ بتائی گئی ہے کہ دوسری عبادت سے یہ مختلف ہے۔ دوسری عبادات میں ظاہری چیزوں میں ریا کا امکان رہتا ہے لیکن اس عبادت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ’’روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ بندہ میری رضا کے لیے اپنی خواہشات نفس اور کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے۔‘‘ صرف اللہ کی رضا طلب کرنے اور اس سے اجر وثواب کی طلب میں روزہ رکھا گیا ہو۔

ان دونوں شرطوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ روزہ ایک شعوری عبادت ہے۔ اگر اس کو سماجی رسم ورواج یا خاندانی ومعاشرتی دباؤ میں یا دکھاوے اور ریاکاری کے طور پر رکھا جاتا ہے تو اس کا فائدہ نہیں ہوگا۔ رسول اللہ ﷺ صحابہ کرام کے دلوں میں اس حقیقت کو راسخ کرانے کے لیے باربار تاکید فرماتے تھے کہ دکھاوے یا رسم ورواج سمجھ کر یا غیر شعوری طور پر اگر کوئی روزہ رکھتا ہے یا تراویح کی نماز پڑھتا ہے اور راتوں کو بیدار ہو کر عبادت کرتا ہے تو اس کا اسے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔

آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کھانے پینے اور خواہشات نفس سے رکنے کا نام روزہ ہے۔ لیکن اس کی تکمیل اس وقت ہوگی اور اس کے ثمرات اس وقت حاصل ہوں گے جب عبادت شعوری ہوگی۔ آپﷺ کا ارشاد ہے: ’’جب تم میں سے کوئی روزے سے ہو تو نہ فحش کلامی کرے اور نہ جھگڑے اور اگر کوئی شخص گالم گلوج کرے تو کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں‘‘ (بخاری) 

ایک دوسری حدیث میں اور وضاحت سےآپﷺ نے فرمایا: ’’جس کسی شخص نے روزے کی حالت میں جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑا ہو، وہ جان لے کہ اللہ کو اس بات کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ وہ شخص اپنا کھانا اور پینا چھوڑ دے۔ (بخاری) 

رمضان کے روزوں سے انسان کے اندر اللہ کی رضا طلبی اور بندگانِ خدا کے ساتھ بہتر زندگی گزارنے کا جذبہ بھی پیدا ہوتا ہے۔ سماجی اور معاشرتی اخلاق بھی اس کے اندر پیدا ہوتا ہے۔ فرمایا گیا ہے کہ روزہ ڈھال ہے، دوزخ سے بچاؤ کا قلعہ ہے۔ یہ اس وقت ہوگا جب روزے کا عمل شعوری طور پر اور اس کے تمام ظاہری اور باطنی آداب کے ساتھ انجام پائے گا۔ روزے میں مکمل اللہ کی اطاعت کا احساس اور کسی لمحہ میں معصیت اور نافرمانی کا کوئی رجحان نہ دکھائی دے تو یہ روزہ برائیوں اور معصیت سے بچنے کا ڈھال بن جائے گا۔

رمضان کے مہینے کو صبر کا مہینہ بتایا گیا ہے جس میں کھانے پینے اور خواہشاتِ نفس پر صبر کی تعلیم ہے۔ اللہ کی اطاعت وفرماں برداری اور نافرمانی سے بچنے میں جو اذیت اور پریشانی آئے اس پر بھی صبر لازم ہے۔ بندگانِ خدا سے معاملات کرنے میں حق اور سچائی کی راہ پر چلنے میں جو رکاوٹیں اور الجھنیں آئیں اس پر بھی صبر وتحمل اور ثابت قدمی کی ضرورت ہے۔ رمضان غمخواری، مواسات اور ہمدردی کا مہینہ ہے۔ بھوکا اور پیاسا رکھ کر کم زوروں، محتاجوں اور فقراء ومساکین کی بھوک پیاس کا احساس دلایا گیا ہے ان کے تئیں ہمدردی وخیر خواہی کا جذبہ ابھارا گیا ہے۔ اس طرح یہ مہینہ مواسات وہمدردی کا مہینہ ہو جاتا ہے۔

درج بالا احادیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ روزہ انسانی زندگی میں ایک انقلاب تبدیلی کا پیغام رکھتا ہے۔ وہ تبدیلی فسق وفجور اور نا فرمانی کی زندگی سے تائب ہو کر اطاعت وفرماں برداری کی زندگی شروع کرنے سے عبارت ہے، جس کو قرآن کی اصطلاح میں تقویٰ سے تعبیر کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ رمضان کا مقصود اللہ کے بندوں کے اندر تقویٰ کی صفت پیدا کرنا ہے۔ (البقرۃ)

روزہ انسانی کردار میں تبدیلی کا ذریعہ ہے۔ چنانچہ احادیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ صرف کھانے پینے اور خواہشاتِ نفس سے رکنے کا نام نہیں بلکہ سارے اعضا وجوارح کا روزہ ہوتا ہے۔ زبان سب و شتم اور فحش کلامی سے پاک ہو، کسی سے گالم گلوچ نہ کرے، نفرت وحقارت کا اظہار نہ کرے، کسی کو زبان سے اذیت اور تکلیف نہ پہنچائے، کسی کے احساسات وجذبات کو مجروح نہ کرے۔ آنکھ سے بری چیزں کو نہ دیکھے، کان سے بری باتوں کو نہ سنے، ہاتھ سے کسی پر ظلم نہ کرے، پیر غلط راہوں پر نہ چلیں، حلق سے حرام مال پیٹ میں نہ اتارے۔ اگر انسان کا نفس ہر طرح کے شر وفساد میں مبتلا ہو، اس کی ذات سے سماج اور معاشرے میں انسان تنگ ہوں، تو گویا روزہ اپنے ثمرات نہیں دکھا رہا ہے۔ روزہ جو تبدیلی لانا چاہتا ہے وہ نہیں آرہی ہے۔ 

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’کتنے ہی روزے دار ہیں جنہیں روزے سے بھوک کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا ہے، کتنے ہی رات کو جاگ کر تہجد پڑھنے والے ہیں جنہیں شب بیداری کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ رمضان لوگوں کی زندگی میں انقلاب برپا کرنے کے لیے آتا ہے۔ انہیں حیاتِ نو عطا کرنے کے لیے آتا ہے، لیکن حقیقت میں یہ تبدیلی انہیں لوگوں کی زندگی میں آتی ہے جو شعوری طور پر پورے ایمان اور اخلاص کے ساتھ اس فرض کو انجام دیتے ہیں۔

نعمت رنگا رنگ حق سے بہرہ بخت سیہ کو نہیں

سانپ رہا گو گنج کے اوپر کھانے کو تو کھائی خاک

(مضمون نگار مرکزی تعلیمی بورڈ، جماعت اسلامی ہند سے وابستہ ہیں)

***