رمضان المبارک کے مشاغل، قرآن وسنت کی روشنی میں
قیمتی ساعتوں کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے اوقات کو منظم کیجیے
محمد کمال اختر
ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی، علی گڑھ
پوری انسانیت خالق کائنات کی ان گنت نعمتوں کے سائے میں اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ انسانیت پر ان نعمتوں میں سے ایک عظیم الشان نعمت رمضان المبارک کا مقدس مہینہ ہے جس کی تمام ساعتیں انوار الہٰی اور خدائی برکات سے معمور ہیں، یہ مہینہ سال میں ایک بار آتا ہے ہم سب بہت ہی خوش قسمت ہیں کہ یہ مقدس ساعت پھر ہمارے سامنے سایہ فگن ہے۔ یہی وہ با برکت مہینہ ہے جس میں انسانیت کے لیے سراپا ہدایت اور حق وباطل کے درمیان امتیاز کرنے والی واضح تعلیمات پر مشتمل دستور یعنی قرآن مجید نازل ہوا۔
شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیَ أُنزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِّنَ الْہُدَی وَالْفُرْقَانِ۔(البقرۃ:۱۸۵)
رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا، جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق وباطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔
اللہ کی طرف سے رمضان کا خصوصی اکرام
اس مہینے میں آسمان اورجنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں تاکہ اہل زمیں کے لیے آسمان سے فیضان ربانی کا نزول عام ہو اور رمضان کے قدر دانوں کو جنت کی تڑپ کا احساس ہو۔ اس مقدس مہینہ میں جہنم کے دروازوں کو مقفل کر دیا جاتا ہے اور شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ۔حدیث پاک میں ارشاد ہے:
’’جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین کو زنجیروں سے جکڑ دیا جاتا ہے۔‘‘ مزید فرمایا: جب ماہ رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے شیطانوں اور سرکش جنوں کو بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور ان میں سے کوئی دروازہ کھولا نہیں جاتا اور جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں پس ان میں سے کوئی دروازہ بند نہیں کیا جاتا۔ ایک ندا دینے والا پکارتا ہے: اے طالب خیر! آگے آ، اے شر کے متلاشی! رک جا، اور اللہ تعالیٰ کئی لوگوں کو جہنم سے آزاد کر دیتا ہے۔ ماہ رمضان کی ہر رات یونہی ہوتا رہتا ہے۔‘‘(ترمذی)
رمضان المبارک کی ہر رات رحمت خداوندی اور برکات الٰہی سے اپنے دامن کو بھرنے والوں کے لیے عام مغفرت کی منادی کرائی جاتی ہے، اسی مہینے میں ایک ایسی رات مقرر کی گئی ہے جس کو شب قدر کہا جاتا ہے جو ہزار راتوں سے افضل ہے جس میں فرشتے امن و سلامتی کا مزدہ لے کر دنیا میں وقوع پذیر ہوتے ہیں، جس رات میں انسانوں کے لیے جہنم سے خلاصی اور جنت کے استحقاق کا فیصلہ کیا جاتا ہے انسان اور کائنات کے متعلق تمام امور کی تدبیر وتقدیر کی جاتی ہے۔ یہ مبارک مہینہ اس بات کا خاص طور پر تقاضہ کرتا ہے کہ اس میں ہمارے اعمال و افعال میں نمایاں تبدیلی آئے، ہر لمحہ چوکنا رہیں کہ ایک پل بھی ضائع نہ ہو اور اس مہینے کا خاص اہتمام کرتے ہوئے مندرجہ ذیل اعمال کے لیے اپنے قیمتی اوقات کو منظم کیا جائے۔
تراویح
چاند نظر آتے ہی خود کو ان مقدس ساعتوں کی پرکیف وادیوں میں محسوس کرنا چاہیے جہاں ہر طرف فیضان الٰہی کی موجیں اپنے جلو میں سما لینے کیلئے رواں دواں ہیں، نماز عشاء اور تراویح کا خاص اہتمام کرنا چاہیے۔ رکعات کی گنتیوں کے جھمیلوں میں الجھنے کے بجائے جو کچھ بھی میسر ہو مکمل اخلاص اور اپنی زندگی میں واضح تبدیلی لانے کے پختہ عزم کے ساتھ تراویح کی پابندی کی جائے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: جو شخص رمضان (کی راتوں) میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے (عبادت کے لیے) کھڑا ہو، اس کے پچھلے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ (بخاری ومسلم)
ایمانی شعور کے ساتھ روزہ رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی جن حقیقتوں پر ایمان لایا ہے وہ اس کے ذہن میں تازہ ہوں خدا کی عظمت کا احساس، اس کے حضور جواب دہی کا تصور اس کے وعدوں پر یقین، اس کے غضب سے بچنے کی فکر، اس کے عذاب کا خوف، حضرت محمد ﷺ سے قلبی تعلق، ان کی سنت پر چلنے کا عزم یہ ساری باتیں ہمارے ذہن میں ہونی چاہئیں۔ ثواب کی امید رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ شہرت اور دکھاوے کے لیے نہیں بلکہ خالص اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے عبادت کی جائے۔
سحری
روزہ کی نیت سے وقت سحر کچھ کھانے کو ’’سحری‘‘ کہا جاتا ہے، یہ عمل مہتمم بالشان اور فضائل وبرکت کا حامل ہے، سحری کھانا سنت ہے اور حدیث میں اس کی خصوصی تاکید کی گئی ہے، آپ ﷺ نے سحری کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا: ’’سحری کرو، کیوں کہ یہ سحری کا عمل نہایت با برکت عمل ہے‘‘۔ (نسائی)
سحری کے آخری وقت سے کم از کم ایک گھنٹہ قبل بیدار ہوکر تہجد و اذکار میں مشغول رہنا اور آخری وقت میں سحری کرنا چاہیے، فجر کی نماز باجماعت ادا کرنے کے بعد کچھ اوقات استراحت کے لیے خاص کیا جائے۔ سحری مسلمانوں اور غیر مسلموں کے روزے کے درمیان حد فاصل ہے۔ یہود ونصاریٰ سحری کے بغیر روزہ رکھتے ہیں جب کہ مسلمان سحری کے ذریعے روزہ کی ابتداء کرتا ہے۔غیرمسلموں اور مسلمانوں کے روزے کے درمیان فرق کو واضح کرتے ہوئے اللہ کے رسول ﷺ نے ایک موقع سے فرمایا: ’’ہمارے اور اہل کتاب کے روزں کے بیچ سحری کا فرق ہے۔ یعنی ہم سحری کرتے ہیں اور وہ نہیں کرتے۔ (مسلم)
روزہ
خلوص و للّٰہیت کے ساتھ روزہ کا اہتمام کیا جائے۔ عاقل و بالغ مرد اور عورت پر رمضان کا روزہ رکھنا فرض ہے، روزہ اسلام کا ایک عظیم ترین رکن ہے جس سے انسانوں کے قلوب میں تقویٰ اورتقرب الٰہی کی روح بیدار ہوتی ہے۔ فرشتوں کو دعاوں میں مشغول کر دیا جاتا ہے۔ رمضان کے قدر دانوں کے لیے جنتوں کو مزین کیا جاتا ہے اور طرح طرح سے ان کے استقبال کی تیاری کی جاتی ہے۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میری امت کو رمضان شریف میں پانچ چیزیں خاص طور پر دی گئیں ہیں جو پہلی امتوں کو نہیں دی گئیں: ان کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ ان کیلئے فرشتے دعا کرتے رہتے ہیں حتیٰ کہ افطار کے وقت تک دعا کرتے ہیں۔ جنت ہر روز ان کیلئے سجا دی جاتی ہے۔ پھر اللہ رب العزت فرماتے ہیں کہ عنقریب میرے نیک بندے مشقتیں اپنے اوپر سے ہٹا کر تیری طرف آئیں گے۔ اس مہینہ میں سرکش شیاطین قید کر دیے جاتے ہیں اور لوگ رمضان میں ان برائیوں کی طرف نہیں پہنچ سکتے جن کی طرف غیر رمضان میں جا سکتے ہیں۔ رمضان کی آخری رات میں روزہ داروں کی مغفرت کی جاتی ہے۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: کیا یہ شب قدر ہے؟ ارشاد فرمایا: نہیں، بلکہ دستور یہ ہے کہ مزدور کو مزدوری کام ختم ہونے کے وقت دی جاتی ہے۔(مسند احمد)
لہذا رمضان المبارک کے روزے کا خصوصی اہتمام کرنا ضروری ہے، اس میں ذرا سی بھی کوتاہی اور غفلت سراسر محرومی اور بد نصیبی ہے، کیونکہ اگر انسان پوری زندگی بھی روزہ رکھ لے تو بھی اس مہینے کے ایک روزے کی تلافی نہیں ہو سکتی۔اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے: ’’جس آدمی نے عذر اور بیماری کے بغیر رمضان کا ایک روزہ بھی چھوڑ دیا تو عمر بھر روزہ رکھنے سے بھی اس ایک روزے کی تلافی نہیں ہوگی، اگر چہ قضا کے طور پر عمر بھر روزے بھی رکھ لے۔‘‘(الترمذی)
روزہ کی حالت میں روزمرہ کا معمول متاثر نہ ہو، روزہ داروں کو غیبی قوت و طاقت حاصل ہوتی ہے اس لیے کمزوری کا احساس نہ ہونے دیا جائے۔ استراحت کے بعد اپنی معاشی اور دفتری ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں کوتاہی نہ کی جائے بلکہ اپنے کاموں میں مصروف رہیں۔
البتہ اپنے ماتحتوں اور پر مشقت کام کرنے والے ملازمین پر ضرور نرمی کی جائے اور ان سے کم سے کم کام لیا جائے۔ خادم، آقا، ملازم، مالک، یہ سب اللہ کے بندے ہیں۔ اگرچہ معاش اور منصب کے اعتبار سے بعض کو بعض پر فوقیت حاصل ہے۔ یہ اللہ کی تقسیم ہے جس میں دنیا کے نظم وانصرام کی بے شمار حکمتیں موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے :
ترجمہ: ’’ہم نے ہی ان میں دنیاوی زندگی کی روزی تقسیم کی ہے اور ایک کو، دوسرے پر رفعت دے رکھی ہے تاکہ ایک، دوسرے سے کام لیتا رہے اور تمہارے پروردگار کی رحمت اس سے بہت بہتر ہے جو یہ لوگ اکٹھا کر رہے ہیں-‘‘(الزخرف:۳۲)۔
مذکورہ آیتِ مبارکہ میں اللہ رب العزت فرماتا ہے کہ مال و دولت، جاہ و منصب اور عقل و فہم میں ہم نے یہ فرق و تفاوت اس لیے رکھا تاکہ زیادہ مال والا کم مال والے سے اونچے منصب والا چھوٹے منصب داروں سے اور عقل و فہم میں حَظ وافر رکھنے والا اپنے سے کم تر عقل و شعور رکھنے والے سے کام لے سکے اور کائنات کا نظام چل سکے ورنہ اگر سب مال منصب علم و فہم عقل و شعور اور دیگر اسبابِ دنیا برابر ہوتے تو کوئی کسی کا کام کرنے کے لیے تیار نہ ہوتا پھر دنیا کا سارا انتظام جمود وتعطل کا شکار ہو جاتا۔ اللہ کے رسول ﷺ اپنے خدّام کے ساتھ مثالی حسن سلوک فرماتے تھے۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ مَیں سفر اور حضر میں اللہ کے رسول کی خدمت کرتا رہا، لیکن حضور ﷺ نے مجھ سے کبھی یہ نہیں کہا کہ تم نے فلاں کام ایسے کیوں کیا اور ایسے کیوں نہ کیا۔ (بخاری)
اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں! جو اس مہینے میں اپنے غلاموں و خادموں کے کام میں تخفیف کرے گا اللہ عز وجل اس کی مغفرت فرمادے گا اور اسے جہنم سے آزاد فرما دے گا۔
افطار
غروب آفتاب سے قبل ہی افطار کا اہتمام کیا جائے اس کے لیے خصوصی تیاری کی جائے، روزہ دار کو افطار کرانا عظیم اجر ہے اس میں ہرگز کوتاہی نہ کی جائے۔ عام طور پر اس کا اہتمام نہیں کیا جاتا افطار کے وقت دعاء کا اہتمام کرنا چاہیے اس وقت دعائیں قبول کی جاتی ہیں، مغرب اور عشاء کے درمیان فکری اور اصلاحی کتابوں کا اجتماعی مطالعہ کرنا چاہیے جس سے فکر میں وسعت و تازگی اور اصلاح عمل کی توفیق حاصل ہو سکے۔
اعتکاف:
رمضان کے آخری عشرے میں عبادات میں اور زیادہ انہماک پیدا کرنا چاہیے۔ اس عشرے کی اہمیت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے اسی عشرے میں شب قدر ہے اس لیے مسجدوں میں اعتکاف کرتے ہوئے طاق راتوں میں بیدار رہ کر شب قدر کو تلاش کرنا چاہیے۔ نبی ﷺ اعتکاف فرماتے اور خاص کر طاق راتوں میں بیدار رہ کر شب قدر کی تلاش میں لگے رہتے اور اپنے اہل خانہ اور اصحاب و احباب کو بھی اس کی تلقین فرماتے۔
عبادات کا اہتمام:
اپنی ذمہ داریوں اور روز مرہ کی مصروفیتوں سے فارغ ہوکر عبادات و اذکار خصوصاً نمازوں کا اہتمام کیا جائے۔ اس مقدس مہینے میں روزہ، نماز اور دیگر اعمال کے درجات اور زیادہ بڑھ جاتے ہیں نیز ان سے غفلت اور کوتاہی کی شناعت بھی اسی قدر زیادہ ہو جاتی ہے اس لیے فرائض و واجبات کے علاوہ نوافل سے بھی غافل نہیں رہنا چاہیے۔ اللہ کے رسول ﷺ اس ماہ میں عبادات کا خصوصی اہتمام فرماتے تھے۔حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: ’’جب رمضان کا مہینہ آتا تو رسول اللہ ﷺ کمر ِہمت کس لیتے اور اپنے بستر پر تشریف نہ لاتے یہاں تک کہ رمضان گزر جاتا۔‘‘
رمضان کی آخری دس راتوں میں اور زیادہ اہتمام ضروری ہے ،حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: رسول اللہ ﷺ آخری دس دنوں میں جو کوشش فرماتے وہ باقی دنوں میں نہ فرماتے تھے۔
رمضان المبارک میں چونکہ اجر و ثواب کئی گنا بڑھ جاتا ہے اس لیے عبادات کے اہتمام میں آخری درجہ کی کوشش کرنی چاہیے۔ عبادات میں استقلال و اعتدال اور مداومت کی بھرپور رعایت کرنی چاہیے۔ غیر رمضان میں جن عبادات کی پابندی کی جاتی تھی ان کے اہتمام کے ساتھ نوافل میں اضافہ کیا جائے۔ رمضان میں افطار کے بعد نقاہت اور تھکن کی وجہ سے اوابین کا اہتمام نہیں کیا جاتا مغرب کی سنتوں سے فراغت کے بعد چھ رکعات اوابین کی بھی پڑھ لی جائیں، سحری کے لیے چند منٹ پہلے بیدار ہو کر آٹھ رکعات تہجد کی ادا کرلی جائیں۔ اسی طرح اشراق و چاشت کی چند رکعتیں پڑھ لینی چاہئیں۔ نوافل کی پابندی اور ان میں اضافہ کی وجہ سے فرائض کی پابندی اور فرائض میں خشوع وخضوع میں ہونے والی کمیوں کی تلافی بھی ہوجائے گی اور نماز چوں کہ تقرب الٰہی کاسب اہم ذریعہ ہے اس لیے اللہ کی قربت اور خالق سے ربط وتعلق میں گہرائی بھی حاصل ہوگی۔ اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں: ’’بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب سجدے کی حالت میں ہوتا ہے‘‘
قرآن مجید کی تلاوت اور تدبر
اس مقدس مہینہ میں تلاوت کا خصوصی اہتمام کیا جائے کیونکہ اسی مہینے کی شب قدر میں پورا قرآن بیت العزۃ سے آسمان دنیا پر یکبارگی نازل کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْر (القدر:۱) بے شک ہم نے قرآن کریم کو شب قدر میں اتارا ہے۔
رمضان کا نزول قرآن سے خصوصی رشتہ ہے نیز قرآن مجید کی تلاوت سے تقرب الٰہی اور رشد و ہدایت کی حصولیابی کی طرف قلب کا خصوصی میلان ہوتا ہے اس لیے ماہ مقدس کی ساعتیں قرانی فضاوں میں اور قرآنی ماحول میں ڈوبی ہوئی ہونی چاہیے اور پوری متانت وسنجیدگی اور اللہ کی طرف لو لگا کر تلاوت میں مصروف رہنا چاہئیے، اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: قرآن کو اہتمام سے پڑھو اس لیے کہ قرآن قیامت کے دن پڑھنے والوں کے لیے سفارشی بن کر آئے گا۔ (مسلم)
تلاوت قرآن کے ساتھ اس کو سمجھنا بھی ضروری ہے کیوں کہ قرآن مجید انسانوں کی ہدایت اور زندگی کے تمام شعبوں میں ان کی رہنمائی کے لیے نازل کیا گیا ہے جس کی تفہیم کے بغیر اس سے استفادہ ناممکن ہے، اسی لیے قرآن مجید میں جا بجا تدبر و تفکر کرنے اور اسے سمجھنے کی تاکید کی گئی ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے: کِتَابٌ أَنزَلْنَاہُ إِلَیْکَ مُبَارَکٌ لِّیَدَّبَّرُوا آیَاتِہِ وَلِیَتَذَکَّرَ أُوْلُوا الْأَلْبَاب۔(ص:۲۹) یہ بابرکت کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف اس لیے نازل فرمایا ہے کہ لوگ اس کی آیتوں پر غور و فکر کریں اور عقلمند اس سے نصیحت حاصل کریں۔
قرآن مجید کے تعلق سے مسلمان بے پناہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔ اکثریت فہم قرآن سے کوسوں دور ہیں۔ اللہ کا ارشاد ہے: وَ قَالَ الرَّسُولُ یٰرَبِّ اِنَّ قَومِی اتَّخَذُوا ہذَا القُراٰنَ مَہجُورًا۔ (الفرقان :۳۰) اور رسول کہیں گے کہ اے میرے پروردگار! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا۔
قرآن میں غور و تدبر نہ کرنا اور اس کو سمجھ کر نہ پڑھنا بھی گویا قرآن کو ترک کرنا اور اسے بالائے طاق رکھنا ہے۔ ابن قیمؒ ترک قرآن کی متعدد قسموں کا تذکرہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: چوتھی قسم یہ ہے کہ بندہ قرآن میں غور و فکر کرنا اور اسے سمجھ کر پڑھنا چھوڑ دے اور قرآن کے ذریعے اللہ تعالی کے مطالبہ کو جاننے کی کوشش نہ کرے۔
اللہ کے رسول کا قرآن مجید میں تدبرو تفکرو کا حال یہ تھا کہ بسا اوقات ایک ایک آیت میں پوری رات غور وفکر فرماتے۔ حضرت ابوذر غفاریؓ فرماتے ہیں: ’’نبی اکرم ﷺ تہجد کی نماز میں کھڑے ہوئے، اور ایک آیت کو صبح تک دہراتے رہے اور وہ آیت یہ تھی: «إن تعذبہم فإنہم عبادک وإن تغفر لہم فإنک أنت العزیز الحکیم» اگر تو ان کو عذاب دے تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو ان کو بخش دے، تو تو عزیز (غالب)، اور حکیم (حکمت والا) ہے ۔‘‘(ابن ماجہ)
انفاق
ٓٓامت کے مصالح اور کسی تحریک کے تحفظ اور اس کو کامیابی وکامرانی سے ہم کنار کرنے کے لیے انفاق بے حد اہمیت کا حامل عمل ہے۔ اس لیے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے پردنیا و آخرت میں کامیابی کی بشارت سنائی گئی ہے۔ قرآن مجید کی صراحت کے مطاق جن لوگوں کے لیے مغفرت وجنت لکھ دی گئی ہے ان میں سرفہرست وہ لوگ ہیں جو اللہ کی راہ میں انفاق کرتے ہیں۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
’’دوڑ کر چلو اُس راہ پر جو تمہارے رب کی بخشش اور اُس جنت کی طرف جاتی ہے جس کی وسعت زمین اور آسمانوں جیسی ہے اور وہ اُن خدا ترس لوگوں کے لیے مہیا کی گئی جو ہر حال میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں خواہ بد حال ہوں یا خوش حال، جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کر دیتے ہیں ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں۔‘‘۔(آل عمران:۱۳۳۔۱۳۴)
اللہ کی راہ میں انفاق نہ کرنا اور امت کی ضرورت کے موقع پر بخل کر کے مال کو روکے رکھنا پوری امت کو ہلاکت وبربادی میں ڈال دینے کے مترادف ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے: وَأَنفِقُوا فِی سَبِیلِ اللَّہِ وَلَا تُلْقُوا بِأَیْدِیکُمْ إِلَی التَّہْلُکَۃِ ? وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِینَ۔(البقرۃ:۱۹۵)
’’اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو احسان کا طریقہ اختیار کرو کہ اللہ محسنوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘
مولانا مودودی آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں:
’’اگر تم خدا کے دین کو سر بلند کرنے کے لیے اپنا مال خرچ نہیں کرو گے اور اس کے مقابلہ میں اپنے ذاتی مفاد کو عزیز رکھو گے تو یہ تمارے لیے دنیا میں بھی موجب ہلاکت ہوگا اور آخرت میں بھی۔دنیا میں تم کفار سے مغلوب اور ذلیل ہو کر رہو گے اور آخرت میں تم سے سخت باز پرس ہوگی۔‘‘
اللہ کی راہ میں استطاعت کے باوجود خرچ نہ کرنا سنگین عذاب کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’وَالَّذِینَ یَکْنِزُونَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلَا یُنفِقُونَہَا فِی سَبِیلِ اللَّہِ فَبَشِّرْہُم بِعَذَابٍ أَلِیمٍ ۔ یَوْمَ یُحْمَیٰ عَلَیْہَا فِی نَارِ جَہَنَّمَ فَتُکْوَیٰ بِہَا جِبَاہُہُمْ وَجُنُوبُہُمْ وَظُہُورُہُمْ ہَٰذَا مَا کَنَزْتُمْ لِأَنفُسِکُمْ فَذُوقُوا مَا کُنتُمْ تَکْنِزُونَ ۔‘‘(التوبہ:۳۴۔۳۵)
’’درد ناک سزا کی خوش خبری دو ان کو جو سونے اور چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں اور انہیں خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ایک دن آئے گا کہ اسی سونے چاندی پر جہنم کی آگ دہکائی جائے گی اور پھر اسی سے ان لوگوں کی پیشانیوں اور پہلوؤں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لیے جمع کیا تھا، لو اب اپنی سمیٹی ہوئی دولت کا مزہ چکھو۔‘‘
دوسری آیت میں ارشاد ہے:وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِینَ یَبْخَلُونَ بِمَا آتَاہُمُ اللَّہُ مِنْ فَضْلِہِ ہُوَ خَیْرًا لَہُمْ بَلْ ہُوَ شَرٌّ لَہُمْ سَیُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا بِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ (سورۃآل عمران:۱۸۰)
’’بخیل اللہ کے دیے ہوئے مال اپنے بخل کرنے کے بعد خیر نہ سمجھیں یہ ان کے لیے شر ہے قیامت کے دن انہیں طوق پہنایا جائیگا۔‘‘
حضرت ابوہریرہؓ سے راویت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے ابن آدم! تو (مخلوق خدا پر) خرچ کر (تو) میں تیرے اوپر خرچ کروں گا۔‘‘
مطلب یہ ہے کہ یہ اموال فنا ہونے والے ہیں انہیں اللہ کی راہ میں خرچ کرو تاکہ آخرت میں بلند مقام و مرتبہ سے سرفراز کیے جاو اور اللہ کی عطا کردہ رزق میں سے دوسروں پر بھی خرچ کرو تا کہ دنیا وآخرت دونوں جگہ تمہیں فراوانی رزق عطا کی جائے۔
ماہ رمضان جہاں روزہ نماز تلاوت و اذکار کا مہینہ ہے وہیں صبر و تحمل خیر خواہی اور غم خواری کا مہینہ بھی ہے۔ اس مقدس مہینے میں کیے ہوئے ادنیٰ سے اعمال بھی عظیم ترین مقام و مرتبہ حاصل کر لیتے ہیں، اس لیے اس میں غریبوں حاجت مندوں اور محتاجوں کے لیے دل کھول کر انفاق کرنے کا اہتمام کرنا چاہیے، غریبوں کی داد رسی اور ان کے لیے انفاق ہر مہینے میں قابل قدر ہے لیکن اس مہینہ میں دست سخاوت کو اور زیادہ کشادہ اور دراز کرنا چاہیے۔ روایتوں میں آتا ہے کہ نبی ﷺ رمضان المبارک کے مہینہ میں تیز و تندہواؤں سے بھی زیادہ سخی ہو جایا کرتے تھے اور دل کھول کرغریبوں اور حاجت مندوں کی مدد فرماتے تھے۔
دعا:
رمضان المبارک کا مہینہ اللہ تعالی کی عطا و بخشش کا مہینہ ہے۔ اللہ کی طرف سے بندوں کے مختلف بہانوں نوازشات کی بارش ہوتی ہے۔ خزانہ غیب کے دہانے کھول دیے جاتے ہیں۔ رزق کی وسعتوں اور مغفرت کے بہانے تلاش کیے جاتے ہیں، جہنم سے حفاظت اور جنت میں داخلہ کی صدائے عام لگائی جاتی ہے۔ خلاصہ یہ کہ رمضان المبارک کا مہینہ اپنے رب اور مالک حقیقی سے بہت کچھ حاصل کرنے کا مہینہ ہے، اس لیے اس مقدس مہینے میں دعاؤں کا بھی خاص اہتمام کرنا چاہیے، دعا تمام عبادتوں کا مغز ہے نیز، دعا کا روزہ اور نزول قرآن سے خاص تعلق بھی ہے کیونکہ دعا ہی روزہ اور دیگر عبادات اور تلاوت قرآن سب کا ماحصل ہے اسی لیے روزہ اور نزولِ کتاب کے تذکرے کے بعد قرآن مجید میں دعا کے اہتمام کا حکم دیا گیا۔ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:
وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّی فَانِّیْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا وَلْیُوْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْن۔(البقرۃ:۱۸۶) اور (اے پیغمبر) جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں پوچھیں تو (آپ ان سے کہہ دیجیے کہ) میں اتنا قریب ہوں کہ جب کوئی مجھے پکارتا ہے تو میں پکار نے والے کی پکار سنتا ہوں لہٰذا وہ بھی میری بات دل سے قبول کریں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ راہِِ راست پر آجائیں۔
اللہ تعالیٰ ہی انسان کو مسائل ومشکلات سے نجات دیتا ہے جب بندہ اللہ کو پکارتا ہے تو اللہ ک طرف سے اس کی حاجت روائی کی جاتی ہے۔ قرآن مجید میں ایک جگہ ارشاد ہے: اَمَّنْ یُجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہٗ وَیَکْشِفُ السُّوْئَ وَیَجْعَلُکُمْ خُلَفَائَ الْاَرْضِ (النمل:۲۶) بھلا وہ کون ہے کہ جب کوئی بے قرار اسے پکارتا ہے تو وہ اس کی دعا قبول کرتا ہے اور تکلیف دور کردیتا ہے اور جو تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے؟
رمضان دعاوں کی قبولیت کا خاص مہینہ ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے: روزے دار کی دعا رَد نہیں کی جاتی۔ دوسری حدیث میں فرمایا: اللہ کے لیے (رمضان) کے ہر دن اور رات میں (بے شمار لوگ جہنم سے) آزاد کیے جاتے ہیں اور ہر بندے کی دعا قبول کی جاتی ہے (مسند احمد) ایک اور حدیث میں ارشاد ہے: تین طرح کے لوگوں کی دعا رد نہیں ہوتی ایک روزہ دار کی افطار کے وقت دوسرے عادل بادشاہ کی تیسرے مظلوم کی۔ (ترمذی)
بلا سمجھے بوجھے، محض رٹے رٹائے اور انہماک و لگاو کے بغیر دو چار جملوں کے بجائے سمجھ بوجھ کر دنیوی و اخروی مہتمم بالشان مقاصد کی حصولیابی کیلئے مکمل استحضار کے ساتھ دعا کی جائے۔ رمضان المبارک میں قبولیت دعا جیسی مضبوط طاقت ہمیں عطا کی گئی ہے۔ ہمیں خشوع وخضوع کے ساتھ دعا کرنی چاہیے۔ اپنی عافیت ومغفرت اور دنیا وآخرت میں بلندی درجات کے لیے دعا کریں۔ پوری دنیا اور خاص کر وطن عزیز کے مسلمانوں کی عافی، دشمنوں سے حفاظت اور کھوئی ہوئی عظمت رفتہ کی واپسی کیلئے جدوجہد کی توفیق کی دعائیں کی جائیں۔ پوری انسانیت کے لیے امن اور ہدایت کو دعاوں کا خاص موضوع بنایا جائے۔ کتنے مسلمان ہیں جو مظلوم ہیں، بلا وجہ دشمنوں کے عتاب اور زیادتیوں کے شکار ہیں، ان کی حفاظت اور مصائب و مشکلات سے ان کی خلاصی کو دعاوں کا حصہ بنائیں۔
[email protected]
رمضان المبارک میں چونکہ اجر و ثواب کئی گنا بڑھ جاتا ہے اس لیے عبادات کے اہتمام میں آخری درجہ کی کوشش کرنی چاہیے۔ عبادات میں استقلال و اعتدال اور مداومت کی بھرپور رعایت کرنی چاہیے۔ غیر رمضان میں جن عبادات کی پابندی کی جاتی تھی ان کے اہتمام کے ساتھ نوافل میں اضافہ کیا جائے۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 18 تا 24 اپریل 2021