رمضان المبارک اور قرآنِ کريم

محب اللہ قاسمي

رمضان المبارک بے شمار فضائل وبرکات کا حامل مہينہ ہے۔ اس مہينے کو يہ فضيلت اس وجہ سے حاصل ہے کيوں کہ اللہ تعالٰي نے اس ماہ مبارک ميں انسانوں کي فلاح وکامراني اور ان کي ہدايت ونجات کے ليے ايک عظيم الشان کتاب کا نزول فرمايا۔ اللہ تعاليٰ کا فرمان ہے:’’رمضان وہ مہينہ ہے جس ميں قرآن نازل کيا گيا جو انسانوں کے ليے سراسر ہدايت ہے اور ايسي واضح تعليمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والي اور حق وباطل کا فرق کھول کر رکھ دينے والي ہيں۔‘‘(سورہ البقرہ۱۸۵)

اس عظيم الشان نعمت کے ليے شکرانے کے طور پر مومنوں کو يہ حکم ديا گيا ہے کہ جو کوئي اس مقدس مہينے کو پائے اس پر لازم ہے کہ وہ اس پورے مہينے کے روزے رکھے۔ اس آيت کريمہ سے يہ بات پوري طرح واضح ہو جاتي ہے کہ رمضان اور قرآن کو ايک خاص تعلق حاصل ہے اور وہ ہے اس ماہ مبارک ميں اس کتابِ ہدايت کا نازل ہونا۔

رمضان اور قرآن کے درميان چند مشترک خصوصيات پرغور کريں تو ہميں معلوم ہوگا کہ تين چيزيں ان ميں قدرِ مشترک ہيں: ۱۔ تقوي، ۲۔شفاعت، ۳۔ تقرب

تقويٰ:اللہ تبارک وتعاليٰ نے روزے کي فرضيت کا حکم ديتے ہوئے فرمايا : يَا اَيُّھَا الَّذِينَ آمَنُوا کُتِبَ عَلَيْکُمُ الصِّيَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْناے ايمان والو! تم پر روزے فرض کيے گئے ہيں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کيے گئے تھے تاکہ تم متقي بن جاؤ۔ (البقرۃ ۱۸۳) گويا روزے کا مقصد انساني زندگي ميں تقويٰ کي روِش پيدا کرنا ہے اور اس تقويٰ کو پروان چڑھانے ميں روزے کا اہم کردار ہے۔ قرآن کے آغاز ميں بتايا گيا:ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ · فِيْهِ  جھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ-يہ کتاب ايسي ہے کہ اس ميں کوئي شک نہيں، يہ ہدايت ہے متقيوں يعني اللہ تعاليٰ سے ڈرنے والوں کے ليے۔ گويا رمضان اور روزے ميں تقويٰ بنيادي مقصد ہے۔

شفاعت: دوسري چيز شفاعت ہے جو رمضان اور قرآن ميں مشترک ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمايا: روزہ اور قرآن کريم دونوں بندے کے ليے سفارش کريں گے۔ روزہ عرض کرے گا کہ يا اللہ! ميں نے اس کو دن ميں کھانے پينے سے روکے رکھا ميري شفاعت اس کے حق ميں قبول فرما، اور قرآن کہے گا کہ يا اللہ! ميں نے رات ميں اسے نيند سے روکا اس کے حق ميں ميري شفاعت قبول فرما، پھر دونوں کي شفاعت قبول کرلي جائے گي۔ (رواہ احمد)

تقرب الٰہي:        تيسري چيز جو رمضان اور قرآن ميں مشترک ہے وہ تقرب الٰہي ہے۔

جب بندہ کلام اللہ کي تلاوت کرتا ہے تو اسے اللہ تعالي کا خاص قرب حاصل ہوتا ہے۔ اسي طرح روزہ دار کو بھي اللہ تعاليٰ کا خاص قرب حاصل ہوتا ہے۔ حديث قدسي ميں اللہ تعالي فرماتا ہے کہ ميں خود روزے کا بدلہ دوں گا۔اس موقع پر مولانا امين احسن اصلاحي صاحب کي ايک بات ياد آتي ہے جو انہوں نے رمضان اور قرآن سے متعلق کہي تھي۔ ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ · فِيْهِ ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ

اس کي تشريح کرتے ہوئے انہوں نے لکھا ہے کہ قرآن بہار ہے اور رمضان کا مہينہ موسمِ بہار ہے اور اس سے جس فصل کو نشو ونما اور ترقي ملتي ہے وہ تقويٰ ہے۔

تراويح:رمضان المبارک کا قرآن کريم کے ساتھ خاص تعلق کا ايک نظارہ ہميں نمازِ تراويح کي صورت ميں ديکھنے کو ملتا ہے۔ تراويح ميں پابندي کے ساتھ مکمل قرآن کي تلاوت کا اہتمام کيا جاتا ہے۔ احاديث ميں ہے کہ ہر سال ماہِ رمضان ميں رسول اللہ ﷺ حضرت جبرئيل عليہ السلام کے ساتھ قرآن کے نازل شدہ حصوں کا دور کرتے تھے۔ جس سال آپ ﷺ کا انتقال ہوا اس سال آپ ﷺ نے دوبار قرآن کريم کا دور فرمايا۔ (بخاري ومسلم)

قرآن کريم کے تعلق سے ہميں تين باتوں کا خاص خيال رکھنا چاہيے۔ ۱۔تلاوت قرآن ۲۔فہمِ قرآن ۳۔ دعوتِ قرآن

تلاوتِ قرآن:تلاوتِ کلام پاک بھي ايک عبادت ہے اور اس کے ہر ہر حرف پر اللہ تعالي نے دس نيکياں رکھي ہيں۔ لہٰذا اس کے آداب ملحوظ رکھے جائيں۔ مثلاً ريا ونمود سے پاک صرف اور صرف اللہ تعالي کي رضا کو مد نظرر کھا جائے۔ نيز وضو وطہارت کي حالت ميں ادب واحترام کے ساتھ اللہ کے کلام کي تلاوت کريں۔ اطمينان کے ساتھ ٹھير ٹھير کر اور اچھي آواز ميں تجويد کے مطابق تلاوت کريں۔ايسا نہ ہو کہ زيادہ سے زيادہ تلاوت کي کوشش ميں ہم ان باتوں کا خيال رکھنا چھوڑ ديں۔

فہمِ قرآن:فہمِ قرآن پر ايک مفصل مضمون ميں مَيں نے اس بات کي وضاحت کي ہے اس ليے يہاں اختصار کے ساتھ يہ عرض کروں گا کہ اللہ تعاليٰ نے قرآن کريم ميں متعدد مقامات پر فہم حاصل کرنے پر زور ديا ہے کيوں کہ يہ قرآن تمام انسانوں کے ليے کتابِ ہدايت کے طور پر نازل کيا گيا ہے لہذا اس ميں غور وفکر کرنا اور اس کے احکام پر عمل کرنا بے حد ضروري ہے۔ ہم جس قدر اس کي تلاوت کا اہتمام کرتے ہيں اسي قدر ہميں چاہيے کہ اس کے معني ومفہوم پر غور وتدبر سے کام ليں اور قرآن کريم جو کتابِ ہدايت ہے اس کے سمجھنے پر زور ديں۔

دعوتِ قرآن

اسلام سب کے ليے ہے اور اللہ تعالي کا پيغام بھي سب کے ليے ہے لہٰذا ہم پر يہ ذمہ داري عائد ہوتي ہے کہ اگر چہ ايک ہي آيت کيوں نہ ہو جسے ہم جانتے ہوں اسے بندگانِ خدا تک پہنچانے کي کوشش کريں۔ قرآن چونکہ تمام انسانوں کے ليے کتابِ ہدايت ہے اس ليے اللہ تعاليٰ کے احکام اور اس کے پيغام کو عام کرنا بھي ہماري اوّلين ذمہ داري ہے۔ امر بالمعروف اور نہي عن المنکر جس کے سبب يہ اس امت کو خيرِ امت کہا گيا ہے اس بنا پر ہميں دعوتِ قرآن کا فريضہ انجام دينا چاہيے۔

رمضان المبارک کا ايک ايک لمحہ قيمتي ہے اس ليے تلاوتِ قرآن کے ساتھ ساتھ فہمِ قرآن اور دعوتِ قرآن ميں مشغول رہيں اور زيادہ سے زيادہ قرآن سے استفادہ کرنے پر غور کريں۔ يہ ماہِ تربيت بھي ہے اگر ہم نے اس ماہِ مبارک ميں قرآن سے اپنا تعلق مضبوط کيا تو آنے والے دنوں ميں ہمارا تعلق اس سے اور مضبوط ہوگا اور ہماري کاميابي اور سربلندي کا ذريعہ ثابت ہوگا۔ اللہ تعاليٰ ہم سب کو تقويٰ والي زندگي گزارنے والا بنائے اور ہميں قرآن کو اپني زندگي ميں نافذ کرنے کي توفيق دے اور دونوں جہاں ميں کاميابي وکامراني عطا فرمائے۔ آمين۔