رمضان المبارک اورتراویح

ماہ مقدس میں روزوں کےبعد قیام اللیل کو بنیادی اہمیت حاصل

محمدطفیل ندوی، ممبئی

رمضان المبارک وہ مقدس مہینہ ہے جو اپنے اندر بے شمار رحمتوں، برکتوں اورفضیلتوں کو سمیٹے ہوئے ہیں جسے’’ربیع القلوب ‘‘یعنی دلوں کی فصل بہارکہاجاتاہے ،وہ یہی رمضان المبارک ہے اس ماہ میں زمین کےچپہ چپہ پر باران رحمت کافیضان ہوتاہے عرصہ دراز سے لاپروا قلوب بھی نورانیت وسکینت سےمعمور ہونے لگتے ہیں۔ مدت سے خشک پڑی آنکھوں میں تراوٹ سی آجاتی ہے۔جس کے بھی دل میں ایمان ویقین کی ہلکی سی رمق موجود ہو اس برکت والےماہ میں نمازوں کی پابندی ،تلاوتوں میں یکسوئی اوردعاومناجات میں دل جمعی محسوس کرنےلگتا ہے۔کتنےخوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہیں رمضان المبارک کی آمد کا شدت سے انتظار رہتا ہے وہ رمضان المبارک کے نورونکہت میں ڈوبے ہوئے شب وروز سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار اوراس کے شایان شان خیر مقدم کے لیے ہرلمحہ بے تاب رہتےہیں ایسےخوش نصیب اشخاص کی تعداداگرچہ بہت کم ہے مگردنیاان کے وجود سے خالی بھی نہیں ہے۔حقیقتاً یہی لوگ رمضان المبارک سےصحیح طورپراستفادہ کرتےہیں اوران ہی جیسے خوش نصیبوں کے لیے جنت کے دروازےکھول دیے جاتے ہیں اس ماہ کے بےشمارفضائل ہیں ہرنیکی پر کئی گنا اجر دیا جاتا ہےاسی کے ساتھ ماہ رمضان کی مخصوص عبادتوں میں روزےکےبعد جس عبادت کوبنیادی اہمیت حاصل ہے وہ ہے نماز تراویح۔ نبی کریمؐ نےارشاد فرمایا جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے اوراس کی راتوں میں قیام یعنی نمازتراویح اداکی اس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔احادیث نبویؐ میں نمازتراویح کی اہمیت وفضیلت بیان ہوئی ہے خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین نے نمازتراویح کی مداومت فرمائی ہے چنانچہ حضورﷺ کاارشادہے میری سنت اورمیرےصحابہ کرام ؓ جوستاروں کےمانندہیں ان کی سنت کو لازم پکڑلو تم ہدایت پاجاوگے۔
یقیناً نمازتراویح پورے رمضان المبارک میں پڑھنا سنت موکدہ ہے اگرچہ تراویح میں قرآن کریم مہینے سے پہلےہی ختم کردیاجائے مثلا تین دن، چھ دن، دس دن، پندرہ دن، یاستائیس دن میں مگر باقی دنوں میں تراویح پڑھنا سنت موکدہ ہے پوراقرآن تراویح میں سنناالگ سنت ہے اورپورےماہ پابندی سے تراویح کی نماز پڑھنا یہ ایک الگ سنت ہے بلاعذران کوچھوڑنےوالا گنہگارہے ،خلفائے راشدین ،صحابہ کرام اورسلف صالحین سے اس کی پابندی ثابت ہےنبی کریم ﷺ نے فرمایا مجھے خیال ہواکہ کہیں تراویح فرض نہ ہوجائے اس وجہ سے آپ نے پابندی نہیں فرمائی حقیقت میں نبی کریم ﷺ کایہ فرمانا خودہی اس کے اہتمام کی کھلی دلیل ہے ۔
حکیم الاسلام قاری محمدطیب صاحب ؒ ماہ رمضان میں مشروعیت تراویح کی حکمت بیان کرتےہوئےفرماتےہیں کہ’’رمضان المبارک میں افعال بِراورتقوی کو باہم اس طرح گوندھ دیاگیا کہ وہ ایک دوسرے سےجدانہیں ہوسکتے چنانچہ رمضان کاچاند نظرآتےہی اول شب ہی سے اس ماہ کاافتتاح ان دوچیزوں سے کیاگیا جواعمال بِرکی جان ہیں یعنی تلاوت قرآن اور نماز تراویح یہی دوچیزیں ہیں جس سے انسانی نفس کو قرب خداوندی اورلذت وصال کی دولت میسر آتی ہے ،نمازتراویح سے توانتہائی قرب حاصل ہوتاہے کیوں کہ بہ نص قرآن اوربہ تصریح حدیث سجدہ ہی کمال قرب کادرجہ ہے جوافعال صلٰوۃ کا اصلی مقصود ہے جیساکہ ارشادخداوندی ہےسجدہ کرو اورقریب ہوجاو ‘‘اسی طرح نبی کریمؐ کاارشادہے بے شک بندہ اپنےرب سے قریب تر اس وقت ہوتاہے جب کہ وہ سجدےمیں ہو حدیث نبوی ﷺ میں تصریح ہےکہ بہ حالت سجدہ انسان کاسر اللہ کے قدموں پرگرتاہے پس اقربیت یعنی کمال قرب وبقاتونماز سےملی اورپھر اس کمال قرب کی بھی تکمیل روزانہ کے چالیس سجدوں سے ہوجائےگی کیوں کہ بیس رکعت میں چالیس سجدےہوتےہیں اورچالیس کے عدد کوتکمیل شئی میں خاص دخل ہے پھر اس کمال قرب کو بے ثمر نہیں چھوڑدیا گیا بلکہ اس کے ساتھ کمال وصال کی سبیل تلاوت قرآن سے کی گئی ارشادہے قرآن سے برکت حاصل کرو کیوں کہ وہ اللہ کاکلام ہے جواس کے اندرسے نکل کرآیاہے۔
لیکن موجودہ حالات یقیناً بہت افسوسناک ہیں اورہم سب کے لیے بدقسمتی ہے یاہمارے اعمال بدکانتیجہ ہےکہ آج ہم وبائی مرض کی وجہ سے اپنے گھروں میں قید ہیں اور اسی درمیان اپنی شان وشوکت سےماہ رمضان المبارک کاآغازہورہاہے اورہم اس ماہ مبارک کی ایک مقدس اوراہم عبادت نمازتراویح مساجدمیں باجماعت پڑھنےسے محروم ہورہےہیں لیکن ہمیں ان تمام حالات میں بھی ممکنہ خیرکی شکل پرعمل کی حتی الامکان کوشش کرنی چاہیےاس سلسلےمیں ہمارے دینی وعلمی رہنماورہبر حضرات اکابرین ومفتیان کرام نے قرآن وحدیث کی روشنی میں پیش آمدہ مسائل کو واضح طورپر بیان فرمایاہےکہ ہم اس صورت حال میں کیاکریں ہماری نمازتراویح کیسی ہو ،کیاشکل اختیارکی جائے،مساجدمیں نہ جانےکی اجازت کی وجہ سے نمازتراویح ترک کردی جائے۔حافظ قرآن نہ ملنے کی صورت میں قرآن کریم دیکھ کر تراویح پڑھ لی جائے یا’’آن لائن‘‘کے ذریعے کسی حافظ قرآن امام کی اقتداکی جائے ،یاپھرامام حرم کی ٹیلی ویژن پر نشرہونیوالی تراویح کی اقتدامیں نماز اداکرلی جائے ۔ان تمام صورتوں میں اکابرین ومفتیان کرام کاجواب قرآن وحدیث کی روشنی میں حسب ذیل ہیں ۔
تراویح کی نمازسنت موکدہ ہے اگرمسجدمیں جماعت سے تراویح پڑھناممکن نہ ہوتو گھروں پر ہی تراویح پڑھناہوگا تراویح کی جماعت عام نمازوں کی طرح دوافراد سے بھی ہوسکتی ہے۔
تراویح میں مکمل قرآن کریم کاپڑھنا یاسننایہ ایک الگ سنت ہے اس لیےمکمل کوشش ہونی چاہیےکہ اس سنت کوبھی اداکریں لیکن کوئی حافظ اگرنہ ملےتو’سورۃ الفیل‘‘ سے’’ سورۃ الناس ‘‘تک پڑھ کر تراویح پڑھ لیں یاقرآن کریم میں کہیں سے بھی یادہووہ تراویح میں پڑھیں چندافرادہوں توجماعت بنالی جائے تاکہ جماعت کے ثواب سے محروم نہ ہوں لیکن ایسانہ ہوکہ حافظ نہ ملنےکی صورت میں تراویح ترک کردی جائے بلکہ ہمیشہ کی طرح تراویح کااہتمام ضرورکریں ۔
امام کی اقتداصحیح ہونےکے لیے امام کی آوازکاپہنچنا کافی نہیں بلکہ صفوں کاملاہواہونابھی ضروری ہے لہذامسجد اورگھر کےدرمیان اگردوصفوں کافاصلہ ہو یاکوئی عام راستہ ہو یااتنافاصلہ ہوکہ ایک چارپہیہ گاڑی گزرجائے تو ایسی صورت میں امام کی اقتدادرست نہیں ہوگی ۔
انٹریٹ،ٹیلی کاسٹ،اسکائپ اوردیگر’’آن لائن‘‘ نشر کی صورت میں کسی امام کی اقتدامیں نمازاداکرنا جائزنہیں ہےاس سے نمازصحیح نہیں ہوگی۔
ان تمام باتوں پر عمل کرتےہوئے یہ رمضان المبارک کامقدس مہینہ جوہمیں سال میں ایک مرتبہ ملتاہے اس کوغنیمت سمجھ کر فرض اورواجبی احکام کےعلاوہ کثرت کے ساتھ نفلی عبادتوں کابھی ہم اہتمام کریں خصوصاً نمازوں اورتراویح کے بعددعا، توبہ واستغفار کی کثرت کریں اورصدق دل کے ساتھ اللہ رب العزت کے سامنے گڑگڑائیں کہ اللہ جلد ازجلداس وبائی مرض کاخاتمہ فرماکر حالات درست فرمادے ،مساجد کواپنے سجدوں سے آباد کرنےکی توفیق عطا فرمائے بیماروں کو شفاءعطاءفرمائےاوراس بیماری میں وفات پانے والوں کی مغفرت فرمائےاوران کے احباب ومتعلقین کو صبر جمیل عطاءفرمائے۔اورہم خوداعمال صالحہ کےذریعے رمضان المبارک کی روحانی فضاء میں اپنے ظاہروباطن کی اصلاح کرکے ایک نئی زندگی کاآغازکریں۔

رمضان المبارک میں افعال بِراورتقوی کو باہم اس طرح گوندھ دیاگیا کہ وہ ایک دوسرے سےجدانہیں ہوسکتے چنانچہ رمضان کاچاند نظرآتےہی اول شب ہی سے اس ماہ کاافتتاح ان دوچیزوں سے کیاگیا جواعمال بِرکی جان ہیں یعنی تلاوت قرآن اورنمازتراویح یہی دوچیزیں ہیں جس سے انسانی نفس کو قرب خداوندی اورلذت وصال کی دولت میسر آتی ہے ،نمازتراویح سے توانتہائی قرب حاصل ہوتاہے ،کیوں کہ بہ نص قرآن اوربہ تصریح حدیث سجدہ ہی کمال قرب کادرجہ ہے جوافعال صلٰوۃ کا اصلی مقصود ہے جیساکہ ارشادخداوندی ہےسجدہ کرو اورقریب ہوجاو ‘