رشوت ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ

حکومت اور سوسائٹی کے متحدہ رول سے بد عنوانی کا خاتمہ ممکن

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

 

2011کا سال ہمارے ذہنوں میں ابھی تازہ ہے۔ اس احتجاج کو ہم بھول نہیں سکتے جب انّا ہزارے کی رشوت مخالف تحریک شروع ہوئی تھی اور اسی مہم نے ایک نئی سیاسی پارٹی کو جنم دیا تھا۔ اسی مہم کا نتیجہ تھا کہ 2014 کے پارلیمانی انتخابات میں یو پی اے حکومت کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا تھا۔ بڑے شد ومد کے ساتھ یو پی اے حکومت پر رشوت خور ہونے کے الزامات بھی لگے تھے۔ مودی نے منموہن سرکار پر رشوت خور ہونے الزام لگاتے ہوئے عوام سے یہ عدہ کیا تھا کہ اگر وہ اقتدار میں آتے ہیں تو ملک کو رشوت سے پاک کر دیں گے اور رشوت خوروں کو جیلوں میں ٹھونس دیں گے۔ انہوں نے اسی کو اپنی انتخابی مہم کا موضوع بھی بنایا تھا۔ لیکن سات سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ہمارا ملک رشوت سے پاک تو دور اس میں سدھار تک نہیں کر پایا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مودی سرکار کے رشوت ختم کرنے کے بلند وبانگ دعوے صرف ڈھکوسلا اور جھوٹ ہی ثابت ہوئے ہیں۔
ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ نے مودی سرکار کے دعوؤں کی قلعی کھولتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ ابھی بھی بھارت ایک انتہائی رشوت خور ملک ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ہر سطح پر رشوت پائی جاتی ہے۔ دیگر ممالک میں تو صرف اوپری سطح پر یہ بیماری پائی جاتی ہے لیکن ہمارے ملک میں یہ مرض ہر سطح پر پایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ کسی غریب کو بھی راشن لینے کے لیے رشوت دینی پڑتی ہے، ڈرائیونگ لائسنس کے لیے رشوت دینا پڑتا ہے غرض یہاں ہر سطح پر رشوت کا چلن ہے گویا یہ زندگی کا جزو لاینفک بن گیا ہو۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل ایک ایسا عالمی ادارہ ہے جو بد عنوانی یا رشوت کے خاتمے کے لیے 100 سے زیادہ ممالک میں کام کر رہا ہے۔ اس کی رپورٹ کے مطابق رشوت خوری میں تمام ایشیائی ممالک میں بھارت اول نمبر پر ہے۔
رشوت آخر ہے کیا؟ اگر کوئی فرد اپنے تفویض کردہ فرائض کو انجام دینے میں کوتاہی کرتا ہے اور اس کی تکمیل کے لیے رقم کا مطالبہ کرتا ہے تو وہ رشوت ہے اور رشوت لینا نا جائز ہی نہیں ہے بلکہ قانوناً جرم بھی ہے۔ درحقیقت بد عنوانی آپسی اعتماد کو ختم کرتی ہے، جمہوریت کو کمزور کرتی ہے، معاشی ترقی کو متاثر کرتی ہے، عدم مساوات اور غربت کو بڑھاوا دیتی ہے اور معاشرے کو تقسیم کرتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں بدعنوانی قدیم زمانے سے ہی کسی نہ کسی حیثیت میں چلی آ رہی ہے۔ جو لوگ صحیح اصولوں پر کام کرتے ہیں انہیں ہمارے معاشرے میں بے حیثیت سمجھا جاتا ہے اور بے وقوف بھی۔ ہمارے ملک میں بد عنوانی بیوروکریٹس، سیاست دانوں اور مجرموں کے درمیان تال میل کا نتیجہ ہے۔ پہلے رشوت غلط کام کرنے پر دی جاتی تھی لیکن اب صحیح وقت پر صحیح کام کرنے کے لیے بھی رشوت دی جانے لگی ہے۔ طرفہ تماشہ یہ کہ بد عنوانی و رشوت کو ملک میں قابل احترام شئے سمجھا جانے لگا ہے کیوں کہ شرفاء جو اس میں شامل ہو گئے ہیں۔ اور ساتھ ہی ساتھ یہ ماحولیاتی بحران کو مزید گہرا کرتی چلی جاتی ہے۔ رشوت وبد عنوانی کی بہت سی شکلیں پائی جاتی ہیں جیسے: سرکاری ملازمین کا اپنی خدمات کے بدلے میں پیسہ یا کچھ دوسری چیزوں کا مطالبہ کرنا۔ سیاست دانوں کا عوامی پیسوں کا غلط استعمال کرنا یا سرکاری ملازمتوں میں دھاندلیاں کرنا یا اپنے ہی اعزا واقربا کو دینا، کارپوریٹس کا سرکاری اہلکاروں کو منافع بخش معاملے طے کرانے کے لیے رشوت دینا وغیرہ۔ اس کے علاوہ سماجی سطح پر بھی بد عنوانی ہمارے معاشرے میں عام ہے مثلاً مصنوعات کے وزن میں کمی کرنا، اشیائے خوردنی میں ملاوٹ کرنا وغیرہ،، اس طرح کے غیر قانونی لین دین ہمارے معاشرے میں عام ہو چکے ہیں اور ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح کھا رہے ہیں۔
رشوت یا بدعنوانی کہیں بھی ہو سکتی ہے۔ کاروبار میں، حکومتی سطح پر، عدالتوں میں، پرنٹ و الکٹرانک میڈیا میں، صحت اور تعلیم کے شعبوں سے لے کر کھیل کے میدانوں تک نیز، زندگی کے تمام شعبوں میں۔ اکثر پیشہ ور افراد جیسے بینکرز، وکلا، اکاؤنٹنٹ اور رئیل اسٹیٹ کے دلال۔ فرضی کمپنیوں کی ناجائز دولت جو رشوت اور بد عنوانی کے ذریعے لوٹی ہوئی ہوتی ہیں اسے چھپانے میں ہمارا مالیاتی نظام مدد کرتا ہے۔
رشوت یا بد عنوانی کو پھیلانے میں سب سے اہم عنصر انسان کی لالچی اور حریصانہ فطرت ہے۔ اس کے علاوہ آسائشوں کی چاہت، راحتوں کی آرزو اور عیش و عشرت کی تمنا اسے اس کام کے لیے آمادہ کرتی ہے جس کے نتیجے میں وہ حرام سرگرمیوں میں ملوث ہو کر دین و اخلاق کو خراب کر بیٹھتا ہے۔ اس بگاڑ کی ایک اہم وجہ مادہ پرستانہ تعلیمی نظام بھی ہے جو اخلاقی و روحانی اقدار کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔ در حقیقت اخلاقی تعلیم کی عدم موجودگی ہی معاشرے کے بگاڑ کا اہم سبب ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مؤثر قوانین کا نہ ہونا بھی ہے اور اگر ہیں بھی تو اس کا سختی سے نفاذ نہ ہونا ہے۔ کیوں کہ اس کو نافذ کرنے والے خود بعض مرتبہ اس میں ملوث پائے گئے ہیں جب کہ سیاسی رہنماؤں نے معاشرے کو مکمل خراب کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے۔ ان کی ساری توجہ اپنی زندگی کو زیادہ سے زیادہ پُر تعیش بنانے پر ہوتی ہے غریبوں کی انہیں کوئی پروا نہیں ہوتی۔
اگر ہمیں اس بد عنوانی کو جڑ پیڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہو اور بدعنوانوں کو کیفر کردار تک پہنچانا ہو تو پہلے ہمیں بد عنوانی کے نظام اور اس کے طریقہ کار کو جاننا ہوگا۔ اس کے سیاسی، سماجی اور ماحولیاتی اثرات کو سمجھنا ہو گا۔ اس کے بعد اس سے لڑنے کے لیے ہمیں شفافیت یعنی ٹرانسپرنسی کو اختیار کرنا ہوگا۔ ہر شہری کو یہ جاننے کا پورا حق حاصل ہو کہ اس کے لیے بنائے جانے والے منصوبے کیا ہیں کیوں بنائے گئے ہیں اور اس سے اس کو کیا فائدہ پہنچنے والا ہے وغیرہ۔ کسی کام کے بارے میں معلومات حاصل کرنا ہر شہری کا بنیادی حق ہے اور معلومات فراہم کرنا ارباب اقتدار کا فرض۔ میری نظر میں یہ چیز بد عنوانی کو روکنے میں بڑی مددگار ثابت ہوگی نیز، یہ بد عنوانی کے خلاف محافظ کی حیثیت سے بھی کام کرے گی۔ اس طریقہ کار سے فیصلہ سازوں اور سرکاری اداروں پر عوام کا اعتماد بڑھے گا۔
ملک میں ایک قانون آر ٹی آئی کے نام سے موجود ہے جو 2005 میں بنا تھا۔ جس کے تحت کوئی بھی شہری کسی بھی طرح کی معلومات حاصل کر سکتا ہے۔ بڑی لمبی بحث اور بہت غور و فکر کے بعد اس قانون کو لوک سبھا میں پاس کیا گیا تھا۔ لیکن موجودہ حکومت جس نے اپنے انتخابی منشورات میں بد عنوانی اور رشوت کو ملک بدر کرنے کی بات کہی تھی وہ اب آر ٹی آئی جیسے اہم ہتھیار کو عوام سے چھین کر اسے ختم کر دینا چاہتی ہے۔ گزشتہ سال 2019 میں حکومت نے اس قانون میں ترمیم کی جس کے تحت چیف انفارمیشن کمشنر و انفارمیشن کمشنر اور ریاستی چیف انفارمیشن کمشنر وانفارمیشن کمشنر کی تنخواہیں، الاؤنسس اور سروس کی دیگر شرائط مرکزی حکومت کے ذمہ ہوں گی۔ اس پر مشہور سماجی کارکن انّا ہزارے نے آر ٹی آئی کے قانون میں ترمیم کے فیصلے پر کہا کہ ”مودی سرکار نے عوام کو دھوکا دیا ہے“۔ انّا ہزارے کی احتجاجی تحریک کی وجہ سے ہی اس وقت کی مہاراشٹرا حکومت نے رائٹ ٹو انفارمیشن کا قانون بنایا تھا جس کو آر ٹی آئی 2005 کی بنیاد مانا جاتا ہے۔ ایک مشہور سماجی کارکن ارونا رائے نے کہا کہ ”مودی سرکار آر ٹی آئی قانون میں ترمیم کر کے اسے کمزور کرنا چاہتی ہے“۔ ان ساری مخالفتوں کے باوجود مودی سرکار نے اس قانون میں ترمیم کر دی۔ اس طرح مودی حکومت نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ بدعنوانی کو ختم کرنے میں غیر سنجیدہ ہے۔ خصوصی عدالتوں کا قیام ہونا چاہیے تاکہ انصاف کو یقینی بنایا جا سکے جس کی وجہ سے سماج پر مثبت اثر پڑ سکے۔ کیس کی رجسٹریشن اور فیصلے کی فراہمی کے درمیان زیادہ وقت نہیں گزرنا چاہیے۔ سخت سے سخت قوانین بنائے جائیں اور اس کا سختی سے نفاذ بھی ہو تاکہ کسی بھی مجرم کو فرار ہونے کے لیے کوئی راہ باقی نہ رہے۔ بد عنوانی صرف اسی صورت میں روکی جا سکتی ہے جب حکومت اور سوسائٹی مشترکہ طور پر اس بیماری کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے مل کر کام کریں گے۔
***

کسی کام کے بارے میں معلومات حاصل کرنا ہر شہری کا بنیادی حق ہے اور معلومات فراہم کرنا ارباب اقتدار کا فرض۔۔ یہ چیز بد عنوانی کو روکنے میں بڑی مددگار ثابت ہوگی نیز، یہ بد عنوانی کے خلاف محافظ کی حیثیت سے بھی کام کرے گی۔ اس طریقہ کار سے فیصلہ سازوں اور سرکاری اداروں پر عوام کا اعتماد بڑھے گا۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 27 دسمبر تا 2 جنوری 2020-21