روشن صدیقی، گورکھپور ( یو پی )
سماج کو خرافات سے بچانے کے لیے ارباب نظر کو آگے آنا چاہیے
ہوش سنبھالنے کے بعد طالب علمی کے زمانے سے یہ شعرسنتا آرہا ہوں اور اب ایسا محسوس ہوتا ہےکہ یہ شعر ہمارے معاشرے پر صادق آ رہا ہے ۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال، آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
یہ حقیقت ہے کہ عصر حاضر میں مسلم معاشرے میں جو بگاڑ پیدا ہو گیا ہے وہ سب دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی عملی زندگی کی عکاسی کا نتیجہ ہے۔ انسانی زندگی میں ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب نسل انسانی کو قائم رکھنے کی خاطر مرد وزن کو رشتہ ازدواج میں منسلک ہونا پڑتا ہے۔ لیکن آج کے اس مادہ پرستی کے دور میں مسلم معاشرے کے بیشتر افراد ایسے مواقع پر ہر وہ طریقہ اختیار کرتے ہیں جو اغیار کا طریقہ ہوتا ہے جس کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
اس وقت میں ایک ایسی شادی کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں جس میں نہ منگنی تھی نہ مانجھا، نہ جہیز نہ بارات۔ جہیز کا لفظ عربی جیسی وسیع زبان میں بھی نہیں ہے۔ نکاح مسجد میں کرنا افضل ہی نہیں بلکہ سنت رسول بھی ہے۔ اگر نکاح بعد نماز ہو تو بہت ممکن ہے کہ اس نماز میں شریک لوگوں میں بعض متقی حضرات بھی محفل نکاح و دعا میں شامل رہیں اور یہ نکاح با برکت بن جائے۔
ہاں لڑکے والوں کے لیے ولیمہ کا کھانا کھلانا (نکاح کے تین دن کے اندر) مسنون ہے جبکہ لڑکی والوں پر کوئی خرچ نہیں۔ اگر لڑکی والے کھانا کھلا دیں تو یہ ایک دنیوی رسم کہی جائے گی۔ نکاح کے لیے مہر کا طے ہونا لازم ہے جو کہ لڑکی کا حق بنتا ہے لیکن یہ مہر لڑکے کی حیثیت کے مطابق ہونا چاہیے۔ مہر معجل یعنی جلد ادا کیا جانے والا مہر احسن عمل ہے۔ رشتہ کے تعلق سے لڑکے والوں کو چاہیے کہ وہ لڑکی والوں کے گھر عقد مسنون کا پیغام بھیجیں جو ایک قابل قدر عمل ہے۔ نکاح کے وقت ایجاب وقبول کرانے کا کام لڑکی کے ولی اور گواہوں میں دو محرم رشتہ دار ہوں۔ نکاح کسی صالح نکاح خواں سے پڑھوانا اور دعا کرانا چاہیے۔ یہی شریعت اسلامی کا منشا بھی ہے جبکہ اس کے برعکس سارا عمل ہوتا چلا آرہا ہے۔ ملت کے بعض حلقوں کی طرف سے سنت کے مطابق نکاح کی تحریک شروع کیے جانے کے بعد بھی لوگ خرافات سے باز نہیں آ رہے ہیں۔ ایسے واقعات ملک کے مختلف حصوں میں بارہا دیکھے جار ہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اب لوگ مسجدوں میں نکاح تو پڑھواتے ہیں لیکن مسجد کے احترام کا لحاظ کم ہی کرتے ہیں۔ دراصل معاشرے میں بگاڑ اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ کوئی فرد واحد بھی اس کو روکنے میں پہل کرنا تو درکنار اعتراض میں زبان تک کھولنا نہیں چاہتا۔ اس کی وجہ جو مجھے سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ معاشرے میں جو لوگ مذہبی ومتقی کہلاتے ہیں ان میں بھی بیشتر حضرات اپنے خانگی پروگراموں میں شرعی حدود وقیود کا لحاظ نہیں کرتے۔ حالانکہ اس کا حل یہ ہے کہ ہر محلہ میں پائے جانے والے نیک، باشعور اور صالح فکر رکھنے والے افراد پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جائے جو ان امور پر نظر رکھے۔ جس کا میر کارواں مقامی مسجد کا امام ہو۔ دراصل ہر امام مسجد نہ صرف عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں بلکہ ان کی زبان سے نکلی ہوئی باتوں کو لوگ سنتے بھی ہیں اور اس پر عمل بھی کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں محلہ کمیٹی کی ذمہ داری ہو گی کہ وہ اس طرح کی خرافات کا سد باب کرے۔ نہ ماننے والوں کا سماجی بائیکاٹ کرے۔ اس ضمن میں معاشرے کے افراد کی ذہن سازی کی مہم بھی چلائی جائے تاکہ آگے کا کام آسان ہو۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ صاحب ثروت حضرات عملی اقدام اٹھانے میں پہل کریں اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش بھی کر یں۔ یہی وقت کا تقاضا بھی ہے۔ یقیناً اس سے دور رس نتائج برآمد ہوں گے۔ اول بے جا اسراف کے گناہ سے محفوظ رہیں گے اور بچی ہوئی رقم خیر کے کاموں پر صرف ہوگی۔ بچی ہوئی رقومات سے اگر ان غریب گھر کی کنواری لڑکیوں کی شادیاں انجام پا جائیں تو کتنے ہی خاندانوں کا بھلا ہو گا۔ اللہ تعالی اپنے ان بندوں کو پسند کرتا ہے جو غریبوں ومحتاجوں کا خیال رکھتے ہیں۔ اس ضمن میں ایک اور بات عرض کرتا چلوں جو حقیقت سے قریب بھی ہے۔ اپنے ملک میں دو بڑی جماعتیں ایسی ہیں جن کے اراکین کی ایک لمبی فہرست ہے۔ اگر ان جماعتوں کے افراد آگے آئیں تو بات بن سکتی ہے۔ دراصل خوشی اور غم انسانی زندگی کے دو ایسے مواقع ہیں جہاں لوگ عموماً غلطیاں کر جاتے ہیں۔ یہ دیکھا جاتا ہے کہ صاحب ثروت حضرات حدود کا لحاظ نہیں کرتے جس سے معاشرہ بے لگام ہو جاتا ہے اور ان کی غلطیاں بعد میں نظیر بن کر دوسروں کے لیے مشکلیں پیدا کرتی ہیں۔ ایک مسلمان کی زندگی پیارے نبی کی سنتوں کے مطابق ہونی چاہیے مگر صد حیف کہ معاشرے میں ایسا شاذ ونادر ہی دیکھنے یا سننے کو ملتا ہے۔
گزشتہ دنوں یو پی کے ایک شہر گورکھپور میں شادی کی ایک تقریب میں ’شادی خانہ آبادی‘ والا ماحول دیکھنے کو ملا۔ یقیناً یہ اپنے آپ میں عصر حاضر کی ایک مثال ہے جو ہر خاص وعام کے لیے احتساب کا آئینہ ہے۔ یہاں محلہ علی نگر کے رہائشی سید روح اللہ معروفی صاحب کی طرف سے اپنے صاحبزادے سید عطاءاللہ معروفی سلمہ کے لیے رشتہ ازدواج کا پیغام شمس الاسلام صاحب کی بیٹی کے لیے آیا۔ نکاح کی تاریخ، دن، وقت اور مقام نکاح سے ہوا۔ مقررہ پروگرام کے تحت بارات نہیں گئی بلکہ دلہن کے والد نے خود اپنے بھائی اور بیٹے کو گواہ بنا کر ان کی موجودگی میں دلہن سے ایجاب وقبول کرایا۔ مفتی محمد تمزہ صاحب نے مسجد علی نگر میں بعد نماز ظہر نکاح مسنون کا عمل ادا کیا اور نکاح سے قبل ’’نکاح کیوں اور کیسے‘‘ کے عنوان پر ایک جامع و پر مغز تقریر بھی کی۔ مفتی صاحب ملت اسلامیہ کی فکر اور فلاحی کاموں کے حوالے سے علاقے میں اپنی ایک پہچان رکھتے ہیں ۔افراد کی ذہن سازی وسیرت سازی کے پیش نظر مسجد اسلامیہ کالج گورکھپور میں گزشتہ کئی برس سے ہفتہ وار درس قرآن کا نظم قائم کیے ہوئے ہیں۔ جس میں خواتین بھی شامل ہوتی ہیں۔ روز مرہ کی زندگی میں پیش آنے والے مسائل کے شرعی حل کے لیے شہر میں ایک دارالافتاء بھی قائم کیا ہوا ہے۔ مجموعی طور پر عصر حاضر میں مسلم معاشرے میں جو بگاڑ پیدا ہو گیا ہے وہ سب بے دینی کا مظہر ہے۔ اس سلسلہ میں اصلاح و فلاحی کاموں کو زیادہ سے زیادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے معاشرے کے نیک اور مخلص افراد کو باگ ڈور سنبھالنے کی ضرورت ہے جس میں سر پرستی کسی عالم کی ہونی چاہیے۔
***
***
ملت کے بعض حلقوں کی طرف سے سنت کے مطابق نکاح کی تحریک شروع کیے جانے کے بعد بھی لوگ خرافات سے باز نہیں آ رہے ہیں۔ ایسے واقعات ملک کے مختلف حصوں میں بارہا دیکھے جار ہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اب لوگ مسجدوں میں نکاح تو پڑھواتے ہیں لیکن مسجد کے احترام کا لحاظ کم ہی کرتے ہیں۔ دراصل معاشرے میں بگاڑ اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ کوئی فرد واحد بھی اس کو روکنے میں پہل کرنا تو درکنار اعتراض میں زبان تک کھولنا نہیں چاہتا۔ اس کی وجہ جو مجھے سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ معاشرے میں جو لوگ مذہبی ومتقی کہلاتے ہیں ان میں بھی بیشتر حضرات اپنے خانگی پروگراموں میں شرعی حدود وقیود کا لحاظ نہیں کرتے
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 12 تا 18 دسمبر 2021