رسمِ قربانی ہے باقی اُٹھ گیا عشقِ خلیل
اسلام بے جا رسوم کا مجموعہ نہیں، زندہ ومتحرک دستور حیات ہے
مولانا سیدومیض احمد ندوی
رسمیت کی آفت سے دین کی روح مجروح۔ کامل سپردگئی رب، سیرت ابراہیمی کا پیغام
موجودہ دور کے ہم مسلمانوں میں بے شمار کمزوریاں پائی جاتی ہیں اور زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جو تنزل و انحطاط سے دوچار نہ ہو، دین کے حوالہ سے سب سے بڑی آفت جس نے مسلمانوں کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیا ہے وہ دینی اعمال میں روایت و رسمیت کی آفت ہے، دین کا ہر عمل ایک رسم کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے اور حقیقت روایات میں کھوتی جا رہی ہے۔ شاعر مشرق علامہ اقبال کو امت کی اس صورتحال پر شدید صدمہ تھا وہ جگہ جگہ اپنی شاعری میں اس پر ماتم کناں نظر آتے ہیں۔ وہ امت کی مجموعی صورتحال کی عکاسی کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
حقیقت روایات میں کھوگئی
یہ امت خرافات میں کھوگئی
انہیں شکوہ ہے کہ اذان جیسا بار بار دہرایا جانے والا عمل روح سے خالی ہو چکا ہے۔
رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی
رسمیت کی اس آفت نے شاعر مشرق کو اس قدر بے چین کیوں کیا تھا؟ وہ اس سے اس درجہ خائف کیوں تھے؟ اس لیے کہ وہ جانتے تھے کہ اس قوم نے بھی اپنے مذہبی اعمال کو رسوم کی شکل دے دی، وہ ان اعمال کے اثرات اور ان کی روح سے محروم ہو گئی ہے۔ رسم کی شکل میں انجام دیے جانے والے اعمال بے روح ڈھانچہ ہوتے ہیں جس کے اندر سے افراد کی زندگیوں پر اثر ہونے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔ اسلام اور شریعت اسلامی بے جا رسوم کا مجموعہ نہیں بلکہ وہ ایک زندہ ومتحرک دستور حیات ہے جو فرد ومعاشرہ کے رخ کو یکسر پلٹ کر رکھ دیتا ہے۔ اسلامی اعمال اپنے اندر نہ صرف بھر پور قوت رکھتے ہیں بلکہ وہ حرکت ونشاط اور انقلاب وتاثیر سے لبریز ہیں۔ قرآن وحدیث میں ان کے اس پہلو کو خوب اجاگر کیا گیا ہے۔ نماز آدمی کی زندگی کو بندگی سے آشنا کرتی ہے۔ بے حیائی اور فواحش ومنکرات کے سیلاب کے آگے سد سکندری کا کام انجام دیتی ہے۔ فحاشی ونفس پرستی کا عادی انسان نمازی بننے کے بعد عفت وپاکدامنی کا خوگر بن جاتا ہے۔ ہر قسم کی برائیوں سے کنارہ کش ہو جاتا ہے۔ زکوٰۃ کی ادائیگی دل کے زنگ کو دور کرکے حبِ مال سے پیدا ہونے والی تمام روحانی بیماریوں سے آدمی کو پاک کر دیتی ہے، روزہ انسان کو تقویٰ شعار اور خوفِ خداوندی سے سرشار کر دیتا ہے۔ حج کے انقلابی اثرات حاجی کو عشق الٰہی سے سرشار کر کے رکھ دیتے ہیں۔ دور حاضر میں یہ عبادات تو پائی جاتی ہیں لیکن انسانی زندگیوں میں ان کے اثرات ناپید ہیں۔ نمازیوں کی تعداد لاکھوں میں ہے لیکن منکرات وفواحش سے پاک مسلمان انگلیوں پر شمار کیے جا سکتے ہیں۔ ہر سال حج سے مشرف ہونے والے مسلمان ان گنت ہیں لیکن عشقِ الٰہی سے سرشار ہو کر لوٹنے والے حاجی آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ آمد رمضان کے ساتھ روزہ داروں کی کثرت سے مساجد تنگ دامنی کا شکوہ کرنے لگتی ہیں لیکن تقویٰ کا اثر لینے والے روزہ دار ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے۔ آخر ایسا کیوں؟ کیا نعوذ باللہ یہ عبادات اپنے اثرات کھو چکی ہیں؟ نہیں! اس صورتحال کی اصل وجہ ان عبادات کا رسم کی شکل اختیار کر لینا ہے۔ اب رمضان وبقر عید سالانہ میلوں کی شکل اختیار کر چکے ہیں، رمضان کی آمد کے ساتھ ہی لوگ دوسروں کی دیکھا دیکھی سروں پر ٹوپیاں سجا کر مسجدوں کا رخ کرنے لگتے ہیں اور روزوں کا اہتمام کرنے لگتے ہیں، محض اس لیے کہ سارے لوگ روزہ رکھ رہے ہیں، رہا روزوں کے مقاصد اور ان کی روح کا شعور تو اس سے انہیں کوئی سروکار نہیں۔
دیگر فرائض کی طرح فریضہ قربانی بھی رسم کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ لوگ قربانی اس لیے دیتے ہیں کہ سال میں ایک مرتبہ مذہب سے وابستگی کا احساس دلایا جائے۔ رہی یہ بات کہ قربانی کی روح کیا ہے اور قربانی کے عمل کے ذریعہ ان کا پروردگار ان سے کیا مطالبہ کر رہا ہے اور قربانی کے نتیجہ میں ہماری عملی زندگی میں کیا تبدیلی آنی چاہئیں؟ ان سب باتوں سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ جبکہ قربانی ایک ایسی عظیم الشان عبادت ہے جو اپنے اندر عبرت ونصیحت اور تاثیر وانقلاب کے بے پناہ سامان رکھتی ہے۔ قربانی محض جانور ذبح کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ قربانی اپنے اندر حقائق واسرار کا ایک پورا جہاں رکھتی ہے، قربانی صرف یہ نہیں کہ آدمی گوشت خوری سے اپنے معدے کو بوجھل کر دے، بلکہ قربانی اپنے پیدا کرنے والے پر وردگار سے ایک عہد وپیمان کا نام ہے۔ ایسا عہد وپیمان کہ جس کے بعد زندگی کا رخ بدل جائے، من چاہی زندگی کے بجائے رب چاہی زندگی ہو جائے، مخلوق کی رضا کے بجائے بندہ خالق کی رضا کے لیے کوشاں رہے۔ قربانی محض جانور کے گلے پر چھری چلانے کا نام نہیں بلکہ خواہشات پر چھری چلانے کا پیغام ہے۔ قربانی دینے والا جب جانور کے گلے پر چھری چلاتا ہے تو وہ محض جانور کو ذبح نہیں کر رہا ہوتا ہے بلکہ وہ اپنی خواہشات کو ذبح کر رہا ہوتا ہے، اپنی امیدوں اور آرزوؤں کا خون کر رہا ہوتاہے۔ جانور ذبح کرکے گوشت کھانا ہی قربانی ہوتا تو اس کے لیے سال بھر انتظار کی کیا ضرورت تھی، یہ تو ہر روز مسلمان کرتے ہی ہیں، ہر دن جانوروں کی ایک بڑی تعداد ذبح کی جاتی ہے اور اس میں مسلمانوں ہی کی کیا خصوصیت ہے، جانوروں کو ذبح کر کے کھانے میں دیگر اقوام ہم سے پیش پیش ہیں۔ جانور ذبح کرنا تو ایک علامتی عمل ہے، اس کے ذریعہ جانوروں کا پیدا کرنے والا رب ہم سے بہت کچھ مطالبہ کر رہا ہے وہ قربانی جسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے انجام دی تھی اور جس کی یادگار کے طور پر قیامت تک کے لیے قربانی کو بندوں کے لیے ضروری قرار دیا گیا، وہ کیا تھی؟ بقول علامہ سید سلیمان ندویؒ ’’یہ محض خون اور گوشت کی قربانی نہ تھی بلکہ روح اور دل کی قربانی تھی۔ یہ ماسویٰ اللہ اور غیر اللہ کی محبت کی قربانی خدا کی راہ میں تھی، یہ اپنی عزیز ترین متاع کو خدا کے سامنے پیش کر دینے کی نذر تھی، یہ خدا کی اطاعت عبودیت اور کامل بندگی کا بے مثال منظر تھا، یہ تسلیم ورضا اور صبر وشکر کا وہ امتحان تھا جس کو پورا کیے بغیر دنیا کی پیشوائی اور آخرت کی نیکی نہیں مل سکتی تھی، یہ باپ کا اپنے اکلوتے بیٹے کے خون سے زمین کو رنگین کر دینا نہ تھا بلکہ خدا کے سامنے اپنے تمام جذبوں، خواہشوں، تمناؤں اور آرزوؤں کی قربانی تھی، خدا کے حکم کے سامنے اپنے ہر قسم کے ارادوں ومرضی کو معدوم کر دینا تھا اور جانور کی ظاہری قربانی اس کے اندرونی نقش کا ظاہری عکس اور اس خورشید حقیقت کا ظل مجاز تھا‘‘۔ قربانی دینے والے مسلمان کو چاہیے کہ پہلے وہ قربانی کا شعور اپنے اندر پیدا کرے، حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہم السلام کے قربانی کے واقعہ کو بار بار پڑھے اور گہرائی کے ساتھ پڑھے اور ان سارے نکات پر غور کرے جو قربانی کے اس عظیم الشان واقعہ میں مترشح ہوتے ہیں۔ قربانی کے واقعہ سے درجِ ذیل اسباق حاصل ہوتے ہیں جن پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
(۱) قربانی کا واقعہ بتاتا ہے کہ ایک مسلمان کو سراپا اطاعت بن جانا چاہیے اور حکمِ الٰہی کے آگے سر تسلیم خم کر دینا چاہیے، اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے آگے چوں وچرا کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مسلمان حکم کا بندہ ہے اسے جو حکم ملے اسے فوراً عملی جامہ پہنا دے، اس ٹوہ میں نہ رہے کہ اس حکم کے پیچھے کیا مصلحت ہو سکتی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ نے خواب دکھایا کہ وہ اپنے بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ چاہتا تو خواب کے بجائے وحی کے ذریعہ صراحتاً بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم فرماتا لیکن ایسا کرنے کے بجائے خواب دکھایا گیا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنے خلیل کا جذبہ اطاعت جانچنا چاہتا تھا کہ کہیں خلیل خواب کا معاملہ کہہ کر بیٹے کی قربانی سے پہلو تہی تو نہیں کر جاتا؟ پھر یہ کہ جب بیٹے کو ذبح کرنے کا خدائی حکم ملا تو ابراہیم علیہ السلام نے خدا سے یہ دریافت نہیں کیا کہ خدایا! آپ کے اس حکم کی مصلحت کیا ہے؟ میں ضرور عمل کروں گا لیکن مجھے اس کا راز نہیں سمجھ میں آیا؟ موقع ایسا تھا کہ اس طرح کا سوال ذہن میں پیدا ہو، چونکہ باپ تو بیٹے کا محافظ ہوتا ہے، باپ کو بیٹے کے ذبح کرنے کا حکم دینا بظاہر نامعقول معلوم ہوتا ہے۔ لیکن اللہ کے خلیل نے ایسا کوئی سوال نہیں کیا بلکہ فوراً ذبح کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔ خلیل اللہ کے اس اسوہ میں ان لوگوں کے لیے تازیانہ ہے جو شریعت کے ہر معاملہ میں دنیوی فائدہ تلاش کرنے کے درپے رہتے ہیں۔ حتیٰ کہ بہت سے کم عقل خود کو متبع قرآن قرار دینے والے قربانی کو لغو عمل اور پیسوں کا ضیاع خیال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس طرح لاکھوں روپے جانوروں میں برباد کرنے کے بجائے اتنے سرمایہ سے کوئی ملی رفاہی کام انجام دیا جانا چاہیے۔ یہ لوگ دین کے مزاج سے نابلد ہیں۔ دین سراپا تسلیم و رضا کا نام ہے۔حج کے سارے اعمال سے یہی پیغام ملتا ہے۔ صفا ومروہ کے درمیان سعی، منیٰ میں قیام، جمرات کی رمی، عرفات کا وقوف یہ سب اس لیے انجام دیے جاتے ہیں کہ اللہ کا حکم ہے، اب قربانی کرنے والا جب قربانی کرے تو ذرا رک کر یہ سوچے کہ کیا میرے اندر یہ جذبہ قربانی پایا جاتا ہے؟ جب خدا کی اطاعت وفرمانبرداری سے سر تابی کرنے والا ایک مسلمان قربانی کے جانور کے گلے پر چھری پھیرتا ہے تو خدا کے لیے قربان ہونے والا جانور بزبان حال یوں گویا ہوتا ہے کہ آپ میرے جذبہ اطاعت وانقیاد کو دیکھیے کہ میں نے اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کردی اور اف تک نہ کہا اور شاید آپ کو یاد ہوگا کہ اس وقت بھی میری برادری کے ایک فرد کی گردن پر چھری چلی تھی جب ایک باپ نے اپنے جگر گوشے کی گردن پر چھری رکھ کر عشق وفدائیت کا آخری منظر پیش کیا تھا، وہ دن اور آج کا دن جب سے اب تک ہماری برادری کی بے شمار جانیں اس کے حکم کی تعمیل میں قربان ہو چکی ہیں اور کبھی سرِمو اس کی خلاف ورزی ہوئی ہے اور نہ ہو گی، مگر جس بلند مقصد کی خاطر میرا خون آپ کی طرف سے بہایا جاتا ہے اور ایثار وقربانی کی جو روح آپ میں پیدا کرنا مقصود ہے، اس میں برابر زوال ہی زوال دیکھ رہا ہوں۔ کیا اس قربانی کا مطلب صرف اتنا ہے کہ جانوروں کی گردن کاٹی جائے، اور دل کی دنیا سے اس کا کوئی تعلق نہ ہو؟ میرے خون کے یہ قطرے ناکافی ہیں اگر اس میں آپ کا سوز جگر بلکہ خون جگر شامل نہ ہو۔ قربانی دینے والے ہر مسلمان کو اپنے جذبہ اطاعت کا جائزہ لینا اور غور کرنا ہو گا کہ میں اپنے پروردگار کے کتنے حکموں کا پابند ہوں، میری زندگی کے کتنے شعبے اللہ کے حکم کے مطابق ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ حکم عدولی میرا شیوہ بن گئی ہو، قدم قدم پر احکام الٰہی کی پامالی ہو رہی ہو، اگر ایسا ہے تو پھر میرا یہ جانور ذبح کرنا ایک رسمی عمل کے سوا کچھ نہ گا۔
(۲) قربانی کا دوسرا سبق یہ ہے کہ محبوب چیزوں کو خدا کے لیے قربان کرنے میں ذرہ برابر پس وپیش نہ کیا جائے۔ نوے سالہ بوڑھے باپ کے لیے جوان بیٹا سب سے بڑا پیارا اور سب سے زیادہ محبوب ہوتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اللہ نے اس محبوب بیٹے کو قربان کرنے کا مطالبہ کیا جسے خلیل اللہ نے بلا چوں وچرا پورا کیا۔ بیٹا ہی نہیں بلکہ خلیل اللہ نے ہر محبوب چیز کو قربان کیا۔ آدمی کو والد اور وطن سے محبت ہوتی ہے بیوی سے محبت ہوتی ہے خود اپنے آپ سے محبت ہوتی ہے، اسوہ خلیل میں ان سب چیزوں کی قربانی ملتی ہے، خدا کے لیے والدین کو چھوڑا، جلا وطنی کو ترجیح دے کر وطن کو قربان کر دیا۔ مکہ کی وادی میں بیوی اور شیرخوار بچے کو چھوڑ کر ملک شام آگئے۔ نارِ نمرود کا سامنا کر کے جانی قربانی پیش کی۔ خدا کے لیے محبوب چیزوں کو قربان کرنا اس وقت ممکن ہے جب آدمی کو ساری چیزوں کے مقابلے میں اللہ کی ذات محبوب بن جائے، خدا سے سچی محبت کے بغیر خدا کے لیے محبوب چیزوں کی قربانی ممکن نہیں۔ اسی لیے قرآن وسنت میں بار بار اس کی وضاحت کی گئی ہے کہ اللہ سے محبت اولاد، مال ودولت رشتہ دار، زمین ومکانات اور سامانِ تجارت سے زیادہ ہونی چاہیے اور اس درجہ کی محبت نہ ہونے پر خدا کی طرف سے وبال کی دھمکی دی گئی ہے۔ سورہ توبہ میں ان ساری چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے جن سے آدمی محبت کرتا ہے پھر فرمایا گیا کہ اگر اللہ کے مقابلہ میں ان چیزوں کی محبت غالب آجائے تو پھر تم اللہ کے فیصلے کے منتظر رہو۔ علاوہ ازیں ایمان والوں کے تعلق سے یہ بھی کہا گیا کہ وہ اللہ تعالیٰ سے سب سے زیادہ محبت رکھتے ہیں، ارشاد ربانی ہے۔
’’ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤااَشَدُّ حُبًّالله ‘‘ جب ساری چیزوں پر خدا ورسول کی محبت غالب آجاتی ہے تو پھر خدا کی خاطر ہر چیز کا قربان کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ دین کا کمال اور خدائے تعالیٰ کا تقرب قربانی کے بغیر ممکن نہیں، دین کا ہر عمل آدمی سے قربانی کا تقاضا کرتا ہے۔ قربانی کے بغیر ایک مسلمان دین کے راستے میں ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔ جس وقت اللہ تعالیٰ اور اس کے دین کے لیے جس چیز کی قربانی کی ضرورت پڑے اس میں پس وپیش نہیں کرنی چاہیے۔ مثلاً وقت کی قربانی، مال کی قربانی، اولاد کی قربانی، پھر ان چیزوں سے ہٹ کر جذبات، خواہشات اور مفادات کی قربانی کے بغیر چارہ کار نہیں۔ دین سراسر قربانی کا نام ہے۔ جتنے اللہ والوں نے دین پر چلنے کا نمونہ پیش کیا ہے اس میں قربانی ہی کا بڑا دخل ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ہر چیز کی قربانی دے کر قیامت تک آنے والے انسانوں کو یہ بتا دیا کہ خدا کا قرب قربانی کے بغیر ممکن نہیں۔ قربانی کے وقت ہم لوگ جانوروں کی گردن پر چھری پھیرنے میں تو بڑی مستعدی کا مظاہرہ کرتے ہیں مگر اپنی نفسانیت، خود غرضی اور مفاد پرستی پر چھری پھیرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے، محض اپنی ذاتی انا کی خاطر دین کے عظیم مفاد کو قربان کر دیتے ہیں جس کا نتیجہ دینی تحریکات میں خلفشار اور دینی کاز کے نقصان کی شکل میں ظاہر ہو رہا ہے۔ چند افراد کی انانیت دین کو شدید نقصان پہنچاتی ہے اگر وہ اپنی انا اور جذبہ اقتدار کو قربان کر دیں تو دینی نقصان سے بچا جا سکتا ہے۔ کتنے ہی لوگ ہیں جو حقیر ذاتی مفادات کی خاطر ملی مفادات کو قربان کر دیتے ہیں۔ ذاتی مفادات دین کے لیے انتہائی نقصان دہ ہوتے ہیں جو انسان کو کسی بڑی قربانی پر آمادہ ہونے نہیں دیتے۔ مفاد پرستی اور مزاجِ قربانی دونوں ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے۔ ایک مسلمان کو یہ حقیقت اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ خواہشات نفس کا راستہ الگ ہے اور دین پر عمل آوری الگ چیز ہے۔ قربانی دینے والے مسلمان کو جانور پر چھری چلانے سے پہلے خواہشات پر چھری چلانے کا عہد کرنا ضروری ہے۔ نفس انسان کو حکم الٰہی سے سرتابی پر ابھارتا رہتا ہے، اس کی مخالفت کے لیے قربانی ضروری ہے۔ پھر ایک مسلمان کو دین کے لیے اپنے جذبات اور تمناؤں کا بھی خون کرنا پڑتا ہے، کتنے ہی لوگ ہیں جو محض ارمانوں کی خاطر سماج میں فضول خرچی اور مال ودولت کا اسراف کرتے ہیں، خلاف شرع فضولیات کا اہتمام اس بہانے کیا جاتا ہے کہ والدین کی تمنا ہے، نکاح زندگی میں ایک مرتبہ ہوتا ہے اس لیے ارمانیں پوری ہونی چاہئیں۔ کبھی کبھی ملی مسائل میں جوشیلے مسلمان جذبات کی رو میں بہہ جاتے ہیں اور
ایسی حرکتیں کر بیٹھتے ہیں کہ دشمنوں کو موقع مل جاتا ہے، ملی زندگی کی مشکلات ومسائل کو حل کرنے کے لیے فہم وبصیرت سے کام لیتے ہوئے ہمیں مشتعل جذبات کی قربانی دینی پڑے گی۔
(۳) قربانی کرنے والے مسلمانوں کو ایک اور پہلو پر توجہ دینا بھی ضروری ہے وہ یہ کہ جس طرح آپ قربانی کے لیے بے عیب جانور تلاش کرتے ہیں اور یہ آپ کے رب کا حکم ہے جس رب نے آپ سے بے عیب قربانی کے جانور کا مطالبہ کیا ہے اسی رب کا مطالبہ ہے کہ قربانی دینے والا بھی اخلاقی عیوب سے پاک اور نفسانی امراض سے محفوظ ہو، اگر قربانی کا جانور بے عیب ہو مگر قربانی کرنے والا عیب دار ہو تو یہ بات قرین انصاف نہ ہوگی۔ جانور تو بے عیب ہو کر اپنے مالک یعنی انسان کے لیے اپنی گردن کٹا دے مگر انسان اپنے مالک حقیقی کے حکم پر گردن نہ جھکا سکے تو ایسی قربانی کیوں کر قبول ہوسکتی ہے۔
(۴) جانور ذبح کرنے سے پہلے قربانی دینے والا یہ دعا پڑھتا ہے ’’ان صلاتی ونسکی و محیاي ومماتی للہ رب العالمین‘‘ میری نماز میری قربانی میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔ جب یہ دعا پڑھی جائے تو ہمیں اپنے آئینہ دل میں جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ زبان سے ہم جس چیز کا اقرار کر رہے ہیں کیا فی الواقع وہ ہماری زندگی میں ہے۔ کیا ہمارا جینا اور مرنا اللہ کے لیے ہے یا پھر شخصی مفاد اور نام ونمود اور اقتدار کے لیے ہے؟
(۵) قربانی کے دن حاجی رمی جمار کرتے ہیں۔ رمی جمار کا مطلب شیطان کو سنگسار کرنا۔ شیطان نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بیٹے کی قربانی سے روکا تھا، بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو باپ کے خلاف اکسایا تھا، مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے شیطان پر کنکر پھینک کر اس کی سازشوں کو نا کام کر دیا، قربانی کرنے والا ایک طرف اللہ کے حضور جان ومال کی قربانی دیتا ہے تو دوسری طرف اللہ کی بندگی کا راستہ روکنے والے شیطان کا مقابلہ بھی کرتا ہے۔
[email protected]
(مضمون نگار دارالعلوم حیدرآباد میں استاذ حدیث کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں)
***
دیگر فرائض کی طرح فریضہ قربانی بھی رسم کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ لوگ قربانی اس لیے دیتے ہیں کہ سال میں ایک مرتبہ مذہب سے وابستگی کا احساس دلایا جائے۔ رہی یہ بات کہ قربانی کی روح کیا ہے اور قربانی کے عمل کے ذریعہ ان کا پروردگار ان سے کیا مطالبہ کر رہا ہے اور قربانی کے نتیجہ میں ہماری عملی زندگی میں کیا تبدیلی آنی چاہئیں؟ ان سب باتوں سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ جبکہ قربانی ایک ایسی عظیم الشان عبادت ہے جو اپنے اندر عبرت ونصیحت اور تاثیر وانقلاب کے بے پناہ سامان رکھتی ہے۔ قربانی محض جانور ذبح کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ قربانی اپنے اندر حقائق واسرار کا ایک پورا جہاں رکھتی ہے، قربانی صرف یہ نہیں کہ آدمی گوشت خوری سے اپنے معدے کو بوجھل کر دے، بلکہ قربانی اپنے پیدا کرنے والے پر وردگار سے ایک عہد وپیمان کا نام ہے۔ ایسا عہد وپیمان کہ جس کے بعد زندگی کا رخ بدل جائے، من چاہی زندگی کے بجائے رب چاہی زندگی ہو جائے، مخلوق کی رضا کے بجائے بندہ خالق کی رضا کے لیے کوشاں رہے۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 25 تا 31 جولائی 2021