محمد ہاشم قادري مصباحي، جمشيدپور
تاريخ اسلام کا عظيم ترين واقعہ فتح مکہ 20 رمضان المبارک 8 ہجري کو رونما ہوا۔ رسول اکرمﷺ 8 سال قبل اسي شہر مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدينہ منورہ تشريف لے گئے تھے اور صرف 8 سال بعد اللہ رب العزت نے نبي کريم صلوسلم عل کو ايسي طاقت اور غلبہ عطا فرمايا کہ وہي مکہ مکرمہ جہاں سے آپ بے سروساماني کے عالم ميں چھپ چھپا کر رخصت ہوئے تھے۔ آج اس شان کے ساتھ شہر مقدس ميں داخل ہوئے کہ دشمنانِ اسلام کي نگاہيں شرم سے جھکي ہوئي تھيں۔ اس دن رسول اللہ ﷺ کا عفو و درگزر کتنا اعليٰ تھا۔ تمام تاريخوں ميں اس واقعہ کو آپ پائيں گے۔ صحابہ نے کہا: آج بدلہ لينے کا دن ہے۔ رحمت عالم ﷺ نے فرمايا: نہيں! آج معاف کرنے کا دن ہے اور آپ نے عام معافي کا اعلان فرما ديا۔ آپ کي اس معافي کا اثر يہ ہوا کہ کثير تعداد ميں لوگ جوق در جوق اسلام ميں داخل ہونے لگے۔ يہ تھے آپ کے اخلاقِ کريمانہ۔
بيعت رضوان: فتح مکہ کي بنياد تو بيعت رضوان يعني صلح حديبيہ کے دن ہي پڑ گئي تھي جب کہ اللہ تعاليٰ نے فتح کي بشارت سنائي۔ لَّقَدۡ رَضِيَ ٱللَّهُ عَنِ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ إِذۡ يُبَايِعُونَكَ تَحۡتَ ٱلشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمۡ فَأَنزَلَ ٱلسَّكِينَةَ عَلَيۡهِمۡ وَأَثَٰبَهُمۡ فَتۡحٗا قَرِيبٗا
اللہ مومنوں سے خوش ہو گيا جب وہ درخت کے نيچے تم سے بيعت کر رہے تھے ان کے دلوں کا حال اُس کو معلوم تھا، اس ليے اس نے ان پر سکينت نازل فرمائي، ان کو انعام ميں قريبي فتح بخشي۔ (فتح-18) صلح حديبيہ دس سال کے ليے ہوئي تھي۔ مگر ۶۳۰ ء کے بالکل شروع ميں مشرکين مکہ کے اتحادي قبيلہ بنو بکر نے مسلمانوں کے اتحادي بنو خزاعہ پر حملہ کيا اور کئي آدمي قتل کر ديے۔ اسي دوران مشرکين مکہ نے چہروں پر نقاب ڈال کر بنو بکر کي مدد کي مگر يہ بات راز نہ رہ سکي۔ يہ صلح حديبيہ کا اختتام تھا۔ مسلمان اس وقت تک بہت طاقتور ہو چکے تھے۔ ابو سفيان نے بھانپ ليا تھاکہ اب مسلمان اس بات کا بدلہ ليں گے ۔ اس ليے اس نے صلح کو جاري رکھنے کي کوشش کي۔ مدينہ طيبہ کادور ہ کيا۔ ابو سفيان اپني بيٹي ام حبيبہ کے گھر پہنچا، جو اسلام لے آئي تھيں اور حضور ﷺ کي زوجہ تھيں۔ جب وہ بستر پر بيٹھنا چاہا تو حضرت ام حبيبہ نے بستر اور چادر کو لپيٹ ديا اور ابو سفيان کو بيٹھنے نہ ديا۔ اس نے حيران ہو کر پوچھا کہ بستر کيوں لپيٹا گيا تو حضرت ام حبيبہ رضي اللہ عنہا نے جواب ديا کہ تم مشرک ہو اور ناپاک ہو اس ليے ميں نے مناسب نہ سمجھا کہ تم رسول اللہ ﷺ کي جگہ بيٹھو۔ ابو سفيان نے حضور ﷺ سے صلح کي تجديد کے ليے رجوع کيا۔ رسول اللہ ﷺ نے کوئي جواب نہيں ديا۔ اسي دوران قبيلہ بنو خزاعہ کے لوگوں نے حضور ﷺ سے مدد کي فرياد کي۔ بنو خزاعہ نے حضور ﷺ کے پاس اپنے ايک شاعر عمرو ابن خزاعہ کو بھيجا جس نے درد ناک اشعار پڑھے اور بتايا کہ وہ ’’وتيرہ‘‘ کے مقام پر رکوع وسجود ميں مشغول تھے تو مشرکين مکہ نے ان پر حملہ کر ديا اور ہمارا قتل عام کيا۔ حضور ﷺ نے کہا ہم تمہاري مدد کريں گے۔
جنگ کي تياري: حضور ﷺ نے روانگي کا مقصد بتائے بغير اسلامي فوج کو تيار کيا اور مدينہ وقريبي قبائل کے لوگوں کو بھي ساتھ ملا ليا۔ لوگوں کے خيال ميں صلح حديبيہ ابھي قائم تھي۔ اس ليے کسي کے گمان ميں نہ تھا کہ يہ تياري مکہ جانے کے ليے ہے۔ حضور ﷺ نے مدينہ سے باہر جانے والے تمام راستوں ميں نگران بٹھا ديے تاکہ يہ خبر قريش مکہ کے جاسوس باہر نہ لے جا سکيں ۔ حضور ﷺ نے دعا فرمائي کہ خدايا! آنکھوں اور خبروں کو قريش سے پوشيدہ کر دے تاکہ ہم اچانک ان کے سروں پر ٹوٹ پڑيں۔ ۱۰؍رمضان ۸ ھ کو روانگي ہوئي۔ کسي کو معلوم نہ تھا کہاں جانا ہے۔ تيز رفتاري سے ايک ہفتہ کے اندر مدينہ سے مکہ کا فاصلہ طے ہوگيا۔ مکہ سے کچھ فاصلے پر ’’مرالظہران‘‘ کے مقام پر لشکرِ اسلام خيمہ زن ہوگيا۔ لوگوں کو معلوم ہوچکا تھا کہ مکہ کا ارادہ ہے۔
جنگ:
جنگ تو ہوئي نہيں۔ مختصر احوال يوں ہيں کہ مراالظہران کے مقام پر حضور ﷺ نے تاکيد فرمائي کہ لشکر کو بکھير (پھيلا) ديا جائے اور آگ جلائي جائے تاکہ قريش مکہ يہ سمجھيں کہ لشکر بہت بڑا ہے اور بري طرح ڈر جائيں اور اس طرح شايد بغير خون ريزي کے مکہ فتح ہو جائے۔ يہ تدبير کارگر رہي۔ مشرکين کے سردار ابو سفيان نے دور سے لشکر اسلام کو ديکھا اس سے ايک شخص نے کہا کہ شايد يہ بنو خزاعہ کے لوگ ہيں جو بدلہ لينے آئے ہيں۔ ابو سفيان نے کہا نہيں ان کے پاس اتنے لوگ کہاں؟ ابو سفيان حضور ﷺ سے پناہ لينے کے ليے آپ کے چچا حضرت عباس کي پناہ ميں چل پڑا۔ کچھ لوگوں نے اسے مارنا چاہا مگر چونکہ عباس بن مطلب نے پناہ دے رکھي تھي اس ليے باز آئے۔ آقا ﷺ نے کہا کيا ابھي وہ وقت نہيں آيا کہ ايک خدا کو تسليم کرو اور تم يہ جانو کہ ميں خدا کا پيغمبر ہوں۔ اس پر ابو سفيان نے کہا مجھے اس ميں تردد ہے کہ آپ رسول ہيں۔اس کو پناہ دينے والے عباس بن عبد المطلب سخت ناراض ہوئے۔ فرمايا اگر تو اسلام نہ لايا تو تيري جان کي ضمانت نہيں۔ حضور ﷺ نے پورے لشکر کو اس کے سامنے سے گزارا۔ اس پر ہيبت بيٹھ گئي، مرعوب ہوگيا۔ آپ ﷺ نے فرمايا کہ ابوسفيان لوگوں کو اطمينان دلا سکتا ہے کہ جو کوئي اس کي پناہ ميں آجائے امان پائے گا۔ جو شخص اپنے ہتھيار رکھ کر اس کے گھر چلاجائے، دروازہ بند کر لے يا مسجد الحرام ميں پناہ لے وہ سپاہِ اسلام سے محفوظ رہے گا۔ اس کے بعد ابو سفيان کو رہا کر ديا گيا، جس کا فائدہ يہ ہوا کہ اس نے مکہ جاکر اسلامي لشکر کي عظمت بتا کر مکہ والوں کو خوب ڈرايا۔ حضور نے لشکر کو چار دستوں ميں تقسيم کيا اور مختلف سمتوں سے شہر ميں داخل ہونے کا حکم ديا اور تاکيد کي کہ جو تم سے لڑے اس کے علاوہ کسي سے جنگ نہ کرنا۔ چاروں طرف سے شہر گھر گيا اور مشرکين کے پاس ہتھيار ڈالنے کے علاوہ کوئي راستہ نہيں بچا۔ صرف ايک چھوٹے سے گروہ نے لڑائي کي جس ميں صفوان بن اميہ بن ابي خلف اور عکر مہ بن ابي جہل شامل تھے۔ ان کا ٹکراؤ خالد بن وليد رضي اللہ عنہ کي قيادت والے دستہ سے ہوا۔ مشرکين کے ۲۸؍ آدمي انتہائي ذلت سے مارے گئے۔ لشکر اسلام انتہائي فاتحانہ طريقہ سے شہر مکہ ميں داخل ہوا جہاں سے آٹھ سال پہلے حضور ﷺ کو ہجرت کرنا پڑي تھي۔ کچھ آرام کے بعد حضور ﷺ مجاہدين کے ہمراہ کعبہ کي طرف روانہ ہوئے۔ کعبہ پر نظر پڑتے ہي گھوڑے پر سواري کي ہي حالت ميں حجر اسود کو بوسہ ديا۔ آپ ﷺ تکبير بلند کرتے تھے اور لشکر اسلام آپ ﷺ کے جواب ميں تکبير بلند کرتا۔ کعبہ ميں داخل ہونے کے بعد آپ ﷺ نے تمام تصاوير کو نکال ديا جس ميں حضرت ابراہيم عليہ السلام کي تصوير بھي شامل تھي اور تمام بتوں کو توڑ ديا۔ آپ ﷺ نے حضرت علي ابن ابي طالب کو اپنے مبارک کاندھوں پر سوار کيا اور بتوں کو توڑنے کا حکم ديا اور اپنے ہاتھوں سے بھي توڑتے رہے۔ يہاں تک کہ کعبہ کو شرک کي تمام غلاظتوں سے پاک کر ديا۔ فتح مکہ بھي ماہ رمضان جيسے مبارک مہينے ميں ہوا۔ ۲۰؍رمضان المبارک ۸؍ ہجري بمطابق جنوري ۶۳۰ عيسوي کو ہوا۔ اللہ سبحانہ تعاليٰ نے فتح مکہ کے بارے ميں ارشاد فرمايا: اے نبي ﷺ ،ہم نے تم کو کھلي فتح عطا کر دي۔ اس موقع پر آپ ﷺ اپني مبارک زبان سے يہ کہتے جاتے تھے: وَقُلۡ جَآءَ ٱلۡحَقُّ وَزَهَقَ ٱلۡبَٰطِلُۚ إِنَّ ٱلۡبَٰطِلَ كَانَ زَهُوقٗا
اور اعلان کر دو کہ "حق آ گيا اور باطل مٹ گيا، باطل تو مٹنے ہي والا ہے” (بني اسرائيل-81)
ايک صحابي رسول عبد اللہ بن رواحہ نعتيہ اشعار پڑھ رہے تھے۔ آج مکہ پر ستارہ صبح طلوع ہوا ہے۔ آج ہمارے درميان ہمارے نبي ﷺ ہيں جو خدا کي کتاب کي آيات تلاوت کرتے ہيں۔ آج ہم ان سے بدلہ ليں گے جنہوں نے ہمارے نبي ﷺ کو جلا وطني پر مجبور کيا تھا۔ رسول رحمت ﷺ نے فرمايا: نہيں آج اہلِ مکہ کو امن وآزادي کي بشارت ملنے والي ہے۔ آپ نے عام معافي کا اعلان فرمايا ۔ عام معافي کے اعلان نے دشمنوں پر ايسے اثرات ڈالے کہ وہي خون کے پياسے اور دين کے بدترين دشمن سب آپ پر ايمان لے آئے۔ آپ پر جان چھڑکنے لگے۔ ايسے پاکباز اور خدا ترس بن گئے کہ تاريخ ميں اس کي مثال نہيں ملتي۔ يہ آقا ﷺ کا اخلاقِ کريمانہ تھا۔ لہٰذا ہم تمام امتيوں کو آقا ﷺ کي اتباع کرتے ہوئے حسن اخلاق اور عفوو درگزر کو اختيار کرنا چاہيے۔
اللہ ہم تمام کو توفيقِ رفيق عطا فرمائے۔ آمين ثم آمين!