رب کی پہچان

زندگی کو بامقصد و جاوداں بنانے کا ایک ابراہیمی نسخہ

نوشابہ بنت ہارون

 

ابراہیم علیہ السلام، مسلم اور حنیف۔۔ جنہوں نے اللہ کو پہچانا، کہا کہ میرا رب وہ ہے جس نے مجھے پیدا کیا اور ہدایت بخشی ہے۔ وہی ہے جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے اور جب میں بیمار پڑتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے، وہی مجھے موت دے گا اور موت کے بعد دوبارہ زندہ بھی وہی کرے گا اور مجھے امید ہے کہ میرا رب قیامت کے روز میرے گناہوں کو معاف کرے گا۔
حقیقت یہی ہے کہ انسان جب تک اپنے خالق اور اپنے مالک کو نہیں پہچانتا وہ اس کی عبادت کا تھوڑا سا حق بھی ادا نہیں کرسکتا۔ جب انسان اپنے رب کو پہچانتا ہے اس کی عظمت کو سمجھتا ہے تب ہی وہ اس کے آگے جھکتا ہے۔ اپنے جذبات اپنے رب سے وابستہ کرلیتا ہے اور اپنی ساری سعی وجہد اپنے رب کی خوشنودی ورضا کے حصول میں صرف کرتا ہے۔ خود کو ملنے والی نعمتوں پر شکر ادا کرنے والا بنتا ہے، وہ دنیا کی حقیقت کو بھی جاننے لگتا ہے کہ اس دنیا کا فائدہ یا نقصان اصل نہیں ہے بلکہ حقیقی فائدہ اور نقصان تو آخرت کے اعتبار سے ہے۔ حقیقی منزل تو آخرت ہے۔ اسلام اور ایمان میں فرق یہی ہے کہ اسلام اللہ تعالٰی کو مان لینے کا نام ہے اور ایمان اللہ تعالٰی کی مان لینے کا نام ہے۔
آج جب بھی میں پیچھے مڑ کر اپنی زندگی کو دیکھتی ہوں اور اپنے ماضی کے رویوں پر نظر ڈالتی ہوں تو شرمندگی اور ندامت سے اللہ تعالٰی کے حضور بار بار توبہ واستغفار کرتی ہوں کہ میں دین کی حدود سے کتنی لا علم تھی۔ میں علی گڑھ میں مڈل کلاس جوائنٹ فیملی سے تعلق رکھنے والی تین چھوٹے بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی۔ میری جوائنٹ فیملی میں میری ایک پھوپھی او چھ چچا تھے جو مجھ سے عمر میں چند سال بڑے تھے اور ایک شفیق، بے حد محبت اور لاڈ پیار کرنے والی ہستی، میری دادی تھیں جنہیں ہم سبھی ’بوا‘ کہتے تھے۔ سب میرے بچپن اور جوانی تک ساتھ رہے۔ بوا کے ساتھ چار پائی پر میں گرمیوں کی راتوں میں چھت پر لیٹے ہوئے کئی سوال کرتی۔ یہ دنیا اتنی بڑی ہے تو وہ اللہ کتنا بڑا ہو گا جس نے اس کو بنایا؟ آسمان سے بارش کا پانی کیسے آتا ہے؟ کیا اللہ کے پاس بہت بڑا نل ہے؟ اور پھر آسمان کے تارے گنتے گنتے میں نہ جانے کب سو جاتی۔ میرے سوالوں کا بوا کے پاس ایک ہی جواب ہوتا۔ اللہ بہت بڑا ہے وہ سب کچھ کر سکتا ہے۔ کبھی کوئی جھوٹ بولتے یا کچھ غلط کرتے تو بوا اور امی اللہ کا نام لے کر ڈراتی تھیں کہ اللہ سزا دے گا ایسا آئندہ نہیں کرنا۔ کچھ کلمے اور کچھ دعائیں یاد تھیں اور اتنا معلوم تھا کہ ہم مسلمان ہیں۔ بس اللہ کی اتنی ہی پہچان تھی۔
دس بارہ سال کی عمر میں جب پہلی بار میں دور پہاڑوں کی اونچائیوں میں گھومنے شملہ گئی تو کائنات کی اس خوبصورتی کو دیکھ کر اس کے بنانے والے کا احساس ہوا۔ اونچے اونچے پہاڑ، لمبے لمبے درخت، چشمے، خوبصورت وادیاں جنہیں ہم تصاویر اور پینٹنگس میں دیکھا کرتے تھے یا جن کی ہم صرف ڈرائینگ ہی کرتے تھے، اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا موقع ملا۔ سائنس پڑھتے ہوئے اکثر یہ خیال تو آتا تھا کہ سمندر کا پانی کیسے بھاپ بن کر بادل بنتا ہے۔ یہ سمندر کا پانی، بادل اور ہوا سب مل کر کیسے اپنے اپنے کام کرتے ہیں اور اللہ ان کو کیسے حکم دیتا ہوگا؟ سمندر تین حصے ہے اور ایک حصہ خشکی تو سمندر خشکی پر غالب کیوں نہیں آتا؟ اور نظر آنے والا آسمان کیسے اوپر ہی ٹکا رہتا ہے اور یہ کہاں ختم ہوتا ہے؟ ہم انسانوں کو آکسیجن چاہیے تو کس خوبصورتی سے یہ درخت کاربن ڈائی جذب کرلیتے ہیں اور کیسے آکسیجن کا اخراج کرتے ہیں؟ ایک نتیجہ پر پہنچتی تھی کہ اللہ نے ہمیں ہماری منفعت اور ضرورت کے حساب سے سب کچھ دنیا میں دے دیا ہے۔ سوچتی ہوں کہ یوں تعارف تو اللہ کا بچپن سے تھا۔ لا شعور میں مسلمان تو میں تھی پر شعوری طور پر مسلمان نہ تھی۔ میرا اللہ سے تعلق رسمی سا ہی تھا کہ دن میں ایک دو نمازیں پڑھ لیتی اور جمعہ کے دن کبھی قرآن پڑھ لیتی۔ ہاں البتہ اپنے والد صاحب کو میں نے بچپن سے آج تک فجر کے بعد ہمیشہ قرآن ترجمے کے ساتھ پڑھتے دیکھا اور جب وہ ریٹائر ہوئے تو تہجد کے ساتھ قرآن کی تفسیر بھی پڑھنی شروع کر دی تھی۔
میں نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو فلموں اور ڈراموں کے شوق نے کئی بار والد صاحب سے ڈانٹ کھلائی۔ اب سجنا سنورنا اپنے اوپر دھیان دینا سب سے اچھا لگتا تھا۔ اور اسی نا سمجھی اور الہڑ سی کم عمری میں اچانک ایک رشتہ آیا اور ہمارے بابا کے فیصلے پر سب نے خاموش رہ کر ہمیں بیاہ دینے کا فیصلہ کر لیا۔ ہم سکتے میں تھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ ابھی تو مجھے بہت پڑھنا ہے اور پھر یہ کیا میں اپنی آزادی اتنی جلدی کھو دوں؟ بابا نے تو دین کی رو سے دلائل دے کر یہ بات سمجھا دی کہ ان کا فیصلہ اٹل ہے، اب صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی واحد ذات تھی جس سے امید تھی کہ وہ یہ سب روک سکتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے سامنے ماتھا ٹیک ٹیک کر بہت گڑگڑائی، بہت روئی اور بہت سی دعائیں مانگیں لیکن سب بے سود۔ تمام دعائیں بے اثر اور بے فیض ثابت ہوئیں کیونکہ اسے تو کچھ اور ہی منظور تھا۔ مجھے لاشعور سے شعور کی طرف لانا جو تھا۔ غرض بیاہ کے بعد سعودی عرب آ گئی۔ شوہر کو نمازوں کا پابند پایا۔ انہیں دین کی کافی معلومات بھی تھیں۔ دو ماہ بعد ہی حج بیت اللہ کی سعادت حاصل ہوئی۔ لیکن گھر والوں کے ساتھ ساتھ اللہ سے ناراضی تھی اور اللہ کے اس فیصلے کو دل مانتا ہی نہ تھا۔اور یوں سال گزر گیا۔ ہاسپٹل میں نرس نے میرے ہی جسم کے حصے، ایک ننھی سی جان کو میرے ہاتھوں میں دیا تو اللہ کے اس انمول انعام کو پاکر بے اختیار رو پڑی۔ جب جب بے بس لاچار ہوئی میں نے اللہ کا سہارا ڈھونڈ لیا تھا لیکن اب اولاد آنے کے بعد تو خود کو اس کے آگے بہت بے بس محسوس کیا۔ میں جان گئی کہ اولاد انسان کی سب سے بڑی کمزوری ہوتی ہے۔ اس کے دکھ تکلیف میں اس سے کہیں زیادہ ماں باپ کو تکلیف اور دکھ ہوتا ہے۔ میرا رویہ بھی اب کچھ ایسا ہی ہو چلا تھا جیسا کہ مشرکین مکہ کی طرح مصیبت اور پریشانی میں اللہ کو پکارنا، اللہ کو یاد کرنا، عبادتیں کرنے لگ جانا اور مصیبت اور پریشانی دور ہو جانے پر اللہ کو بھول جانا اور اس سے غافل ہو جانا۔
ایسے ہی سال گزرتے گئے اور سعودی عرب سے شوہر کی نوکری کویت لے آئی۔ یہاں کا ماحول شروع میں کافی آزادانہ لگا۔ آزاد خیال دوست بنے تو حجاب بھی اب برائے نام رہ گیا۔ ماحول کا اثر انسان پر بہت بڑا ہوتا ہے۔ نفس امّارہ مسلسل برائی پر تو اکساتا ہی ہے، تو ایک مومن اپنے ایمان کی کمزوری کی وجہ سے شیطان کے بہکاوے میں جلد ہی آجاتا ہے۔
غرض بچے بڑے ہو رہے تھے ان کی خوشی میں خوش ہونا اور ان کی اداسی میں ناکامیوں میں خود کو بے چین پانا۔ اللہ تعالٰی ماں باپ کے دل میں اولاد کی محبت ہی ایسی ڈال دیتا ہے اور پھر یہاں تو انسان اپنوں سے دور ہوتا ہے تو سارا دھیان اولاد پر ہی ہوتا ہے۔ اتار چڑھاؤ کئی بار زندگی میں اس دوران ایسے آئے کہ ہمارے اندر خوف خدا کا جذبہ بیدار ہونے لگا۔ وہ کہتے ہیں نا کہ اللہ تعالٰی آزمائشوں میں ڈالتا ہے تاکہ ہم اس کے قریب ہو جائیں اور اپنے وقت کو اس کی یاد میں لگا‌ئیں۔ تب یہ جاننے اور سیکھنے کا شوق پیدا ہوا کہ اس نے ہمارے لیے اس کی کتاب میں کیا لکھا ہے پھر زندگی میں تبدیلی آنے لگی۔ نمازوں کی پابندی خود میں آئی تو بچوں کو بھی پانچوں نمازوں کی تاکید کرتی اور انہیں پڑھواتی۔ اللہ تعالٰی نے ہدایت سب کے دلوں میں ڈال رکھی ہے۔اس کو ہم قبول کریں یا نہ کربں، اس فیصلے کا اختیار اس نے ہمیں دے دیا ہے۔ سورہ العنکبوت آیت ۶۹ میں اللہ فرماتا ہے کہ ’’جو ہمارے راستے پر چلتے ہیں ہم ان کو اپنے راستے دکھاتے ہیں‘‘۔ مجھے اپنے گھر کے پاس والی مسجد میں قرآن کی تفسیر کی کلاس کا پتہ چلا۔ روز بروز علم سیکھنے، علم حاصل کرنے کا شوق بڑھتا گیا۔ پہلی بار میں تفسیر سے گزری تو معلوم ہوا کہ میں تو کچھ بھی نہیں جانتی۔ پتہ چلا کہ مجھے تو اپنے دین کا ذرہ برابر بھی علم نہیں۔ نہ نمازوں کے چھوٹ جانے کا ملال تھا اور نہ کبھی اس کتاب میں کیا ہے جاننے کی کوشش کی تھی۔ آہستہ آہستہ میں نے جانا کہ میرے لیے تو اللہ کے دروازے ہمیشہ کھلے ہیں۔ ایک قدم اس کی طرف بڑھاؤ تو وہ ہمارے لیے کئی راستے کھول دیتا ہے اور پھر ان راستوں پر چلنا بھی آسان کر دیتا ہے۔ ایسا محسوس ہوا کہ در بہ در بھٹکتی زندگی کو اور میری خانہ بدوشی کو گھر کو مل گیا۔ جو چیزیں پہلے کرنے میں بہت بھاری لگتی تھیں اب ان کو کرنے میں نہ سستی یا کاہلی آڑے آتی نہ نیند آڑے آتی۔
بندے کا اپنے خدا کو پانا دراصل ’’کچھ نہیں‘‘ کا ’’سب کچھ‘‘ کو پا لینا ہے اور بندہ اپنے پورے وجود کے ساتھ ایک اور ہی انسان بن جاتا ہے۔ جب اللہ کی یاد میں میری زندگی گزرنے لگی تو انسانوں کے ساتھ میرا سلوک بدلنے لگا ۔دنیا کی رونقیں پھیکی لگنے لگیں اور آخرت کی چھپی ہوئی دنیا میں گم ہوتی گئی۔ اپنے رب کی ناراضگی کا ڈر مجھے ہر بری بات، برے کام سے روکتا۔ اللہ سے محبت کا مطلب میں نے یہی جانا کہ اس کی کتاب پر غور و فکر کر کے عمل کرنا، اپنی زندگی کو اس کتاب کے مطابق ڈھال لینا اور اس کے رسول ﷺ سے محبت اور اتباع کرنا۔ اللہ کے کلام اور اس کے رسول کے اقوال سے مجھے اللہ کا تعارف ہوا۔ اس نے اپنی پہچان اپنی نعمتوں کے ذریعے، نشانیوں کے ذریعے، مجھ پر کیے گئے احسانات کے ذریعے، اپنی کتاب سے کرائی۔ میں جو کائنات میں پھیلی اس کی نشانیوں سے لاتعلق تھی اب وہ تمام نشانیاں مجھے اللہ کی یاد دلانے لگی ہیں۔ اس کی تخلیق کے غیر معمولی اور غیر مرئی پہلو مجھ پر ظاہر ہونے لگے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سورہ یونس آیت ۳۱تا ۳۲ میں فرماتا ہے ’’کون ہے جو تمہیں آسمان سے رزق دیتا ہے؟ کون ہے جو کانوں اور آنکھوں کا مالک ہے؟ کون جو زندہ کو مردے سے نکالتا ہے اور مردے کو زندہ سے نکالتا ہے، جو ہر کام کی تدبیر کرتا ہے؟‘‘۔ احساس ہوتا ہے کہ وہ تو بغیر مانگے مجھے دن رات میں ڈھیروں نعمتیں عطا کر رہا ہے۔
سورہ النحل آیت ۵۳ میں خود اللہ تعالٰی نے اپنا تعارف دیا ’’جو بھی نعمتیں تمہیں حاصل ہیں وہ سب اللہ کی جانب سے ہی ہیں۔ سورہ رحمان کی ہر آیت کے بعد بار بار یہ حقیقت دہرائی گئی ’’فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ‘‘ ’’پس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤگے‘‘۔ اس کی نعمتوں میں عظیم نعمتیں ’’میٹھا صاف شفاف اچھے ذائقہ والا پانی‘‘، ہوا اور اس میں موجود اکسیر حیات آکسیجن ہیں جن کا کوئی نعم البدل نہیں۔ آج کل کورونا وائرس کے باعث آکسیجن کی کمی سے لوگوں کو مرتے دیکھا تو احساس ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کتنا علیم و حکیم اور دانا ہے کہ انسان ہی نہیں بلکہ تمام حیوانات اور نباتات کی زندگی کے لیے درکار یہ قیمتی اور ضروری آکسیجن کتنی وافر مقدار میں مہیا فرمایا۔ یہی نہیں بلکہ اس کو ہوا کا جزو بنا کر فضا میں شامل فرمایا تاکہ ہر ذی حیات سانس لیتی رہے۔ ان سبزیوں اور میووں کو دیکھیں مٹی کے اندر دانہ ڈالتے ہیں تو کہیں زیر زمین اگنے والے گاجر، آلو یا مولی تو کہیں زمین پر کھڑے کھجور، ناریل اور صنوبر کے طویل القامت درخت اگتے ہیں۔ کہیں کیکٹس مٹی سے نکلتا ہے تو کہيں گلاب کا پودا۔ کہیں کدّو کی کمزور وناتواں بیل اگتی ہیں تو کہیں زمین پر چھا جانے والے میٹھے آم، کڑوے نیم اور کھٹّی املی کے درخت جو زمانے کی طاقتور ہواؤں کا مقابلہ کرتے ہوئے ٹھیرے رہتے ہیں۔ ہر ایک کا رنگ الگ، ہر ایک کا مزہ الگ اور ہر ایک کی خوشبو الگ۔ یہ سب کس کے لیے ہے؟ اللہ تعالیٰ نے یہ سب انسانوں کے لیے پیدا فرمایا ہے۔ انسانوں کو اپنی زندگی میں جو کچھ درکار ہے اللہ تعالیٰ نے بہت بڑے پیمانے پر اسے جمع کر دیا پھر فرمایا متاعا لکم ولانعامکم ۔ ماں کے پیٹ کی چھوٹی سی فیکٹری میں کس طرح آدمی تیار ہوتا ہے وہ پورا عمل اور پھر بے جان مادّہ میں زندگی اور شعور کا پیدا ہو جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک برتر ہستی ہے جس نے یہ عجیب وغریب معجزہ انجام دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کو ماننا ایسے ہی ہے جیسے اپنے آپ کو ماننا۔ سورہ قیامہ میں اللہ تعالٰی نے فرمایا ’’آدمی اپنے واسطے آپ دلیل ہے چاہے کتنی معذرت کرے‘‘۔ اسی نے ہمیں زندگی دی اور روح ہمارے اندر ڈالی۔ ’روح‘ جو نہ کہیں ملتی ہے اور نہ کہیں بنتی ہے۔اور نہ اسے کوئی دے سکتا ہے وہی ہمیں دیتا ہے اور وہی ہے جو جب چاہے گا ہم سے لے لے گا ۔ باری باری ہم سب کو اس دنیا سے چلے جانا ہے ’’ كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍۚ ‘‘ہر چیز فنا ہو جانے والی ہے، باقی رہ جانے والی صرف اور صرف اللہ ہی
کی ذات ہے۔
اللہ زندہ اور موجود ہستی ہے، مجھے اس سے اپنے غم، فکریں، پریشانیاں، خوشیاں، اپنے تمام حال بیان کیے بنا سکون نہیں ملتا۔ یہ یقین ہے کہ وہ سن رہا ہے جو تمام طاقتوں اور قوتوں کا مالک ہے۔اگر ہم یہ سمجھ جائیں کہ ہم نے زندگی کیسے گزارنی ہے اور اس زندگی کی حقیقت کیا ہے تو ہماری دنیا اور آخرت دونوں سنور جائیں گے۔ اللہ کے نبی ﷺ کا فرمان کہ’’ جس کا آج کل سے بہتر نہیں وہ ہلاک ہوا‘‘۔
***

اللہ سے محبت کا مطلب میں نے یہی جانا کہ اس کی کتاب پر غور و فکر کر کے عمل کرنا، اپنی زندگی کو اس کتاب کے مطابق ڈھال لینا اور اس کے رسول ﷺ سے محبت اور اتباع کرنا۔ اللہ کے کلام اور اس کے رسول کے اقوال سے مجھے اللہ کا تعارف ہوا۔ اس نے اپنی پہچان اپنی نعمتوں کے ذریعے، نشانیوں کے ذریعے، مجھ پر کیے گئے احسانات کے ذریعے، اپنی کتاب سے کرائی۔ میں جو کائنات میں پھیلی اس کی نشانیوں سے لاتعلق تھی اب وہ تمام نشانیاں مجھے اللہ کی یاد دلانے لگی ہیں۔ اس کی تخلیق کے غیر معمولی اور غیر مرئی پہلو مجھ پر ظاہر ہونے لگے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سورہ یونس آیت ۳۱تا ۳۲ میں فرماتا ہے ’’کون ہے جو تمہیں آسمان سے رزق دیتا ہے؟ کون ہے جو کانوں اور آنکھوں کا مالک ہے؟ کون جو زندہ کو مردے سے نکالتا ہے اور مردے کو زندہ سے نکالتا ہے، جو ہر کام کی تدبیر کرتا ہے؟‘‘۔ احساس ہوتا ہے کہ وہ تو بغیر مانگے مجھے دن رات میں ڈھیروں نعمتیں عطا کر رہا ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 25 تا 31 جولائی 2021