’’راہِ حق کے مہلک خطرے‘‘ ایک مطالعہ

شخصیت پرستی، گروہ بندی اور تصور دین کی بے اعتدالی تحریکات کے لیے سمّ قاتل

محفوظ الرحمن ندوی
ادارہ تحقیق وتصنیف اسلامی، علی گڑھ

’’ راہِ حق کے مہلک خطرے‘‘ مولانا صدر الدین اصلاحیؒ کی معروف کتاب ہے جو ۱۹۷۷ء میں کتابی صورت میں شائع ہوئی تھی۔ اس سے ۲۰ سال قبل یہ مضمون کی شکل میں ماہنامہ زندگی نو میں تین قسطوں میں شائع ہو چکا تھا۔ یہ کتاب تحریک اسلامی کے کیڈر کو مخاطب کرتے ہوئے تربیتی نقطہ نظر سے لکھی گئی ہے جو چالیس صفحات پر مشتمل ہے۔
سب سے پہلے مولانا نے’ ایک اصولی حقیقت ایک دائمی تنبیہ‘ سے بات شروع کی ہے کہ دنیا میں جو تحریک بھی آگے بڑھی ہے تو اس کے پیچھے کچھ عوامل و اسباب کار فرما رہے ہیں جس کا سہارا لے کر وہ کامیاب ہوئی ہے۔ اسلامی تحریک کے لیے ضروری ہے کہ اس اصولی حقیقت کو یاد رکھنے کے ساتھ ساتھ پچھلی امتوں کی تاریخِ عروج وزوال کو سامنے رکھ کر اللہ کی تنبیہ کو بھی دانتوں سے پکڑے رہے تب ہی وہ آگے بڑھے گی اور کامیابی کے ساتھ اپنے منزل مقصود کی طرف رواں دواں رہے گی اور رکاوٹیں اسے اپنے مقصد سے پیچھے نہیں کر سکیں گی۔ قرآن نے امت مسلمہ کو تنبیہ بھی کی ہے۔ ولا تکونوا کالذین نسوا اللہ فانساہم انفسہم ان لوگوں جیسے نہ بن جانا جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اس نے انہیں (خود) اپنے آپ سے غافل کر دیا۔
اس کے بعد اس کتاب میں خود احتسابی کی ضرورت پر زور دے کر خود احتسابی کی دو بنیادی تدابیر کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ (۱) نفس کی عیاریوں پر پوری نظر رکھی جائے۔ (۲) فکر وعمل کی کوتاہیوں کو دور کیا جائے۔ ان دونوں ضروری شرطوں کو پورا کرنے کے بعد ہی توقع کی جا سکتی ہے کہ لوگ اپنا صحیح احتساب کر سکیں گے اور اپنے افکار و اعمال کا صحیح عکس دیکھ پائیں گے۔ اس کے بعد مصنف نے راہِ حق کے مہلک خطروں کو چھ عناوین کے تحت بیان کیا ہے جن کا خلاصہ درج ذیل ہے۔
۱- اخلاص و للّٰہیت کی کمی: کسی اسلامی تحریک کے لیے یہ موذی مرض ہے۔ جتنا ہی یہ شدید اور عام ہوتا ہے اتنا ہی زیادہ زندگی سے دور اور موت سے قریب کر دیتا ہے۔ یہ بیماری جب شدت کے ساتھ حملہ آور ہوتی ہے تو کوئی تدبیر اس کے مہلک اثرات کو ختم نہیں کر سکتی ہے۔ اخلاص کا مطلب ہے کہ تحریک کے مقصد پر دل مطمئن ہو، ذہن یکسو ہو، اپنی تمام دوڑ دھوپ اس کے لیے خاص کر دی جائے، فکر پر وہی چھایا ہوا ہو، عمل و حرکت اسی کے ہاتھوں میں ہو۔ للّٰہیت کا مطلب صرف اللہ کے لیے اور اسی کی رضا کے لیے ہو۔ اپنی ذات اور اپنا خاندان، اپنی قوم اور اپنی ملت، اپنی پارٹی اور اپنی جماعت، اپنا ملک اور اپنا وطن، پوری انسانیت اور ساری دنیا ان میں سے کوئی چیز بھی تحریک سے وابستہ ہونے کا اصل سبب نہ بنے بلکہ اول و آخر صرف اللہ کی رضا اور آخرت کی کامیابی کا حصول ہو۔ یہی للّٰہیت کسی تحریک کو اسلامی تحریک بناتی ہے اور اُسے دوسری تحریکوں سے ممتاز کرتی ہے۔
۲- دینی علم و بصیرت کی خامی: اسلامی تحریک کی ناکامی یا زوال کا دوسرا سبب دین کے اصل سر چشموں سے براہِ راست رہنمائی حاصل کر پانے کی صلاحیت کا فقدان ہے۔ دینی سرچشموں سے رہنمائی اسی وقت ممکن ہے کہ جب ان سر چشموں کا علم ہو اور ان سے رہنمائی حاصل کرنے کی صلاحیت بھی ہو اور صلاحیت سے کام لینا بھی جانتے ہوں۔ تحریک کے عام افراد بھی دین سے واقف ہوں اور اسلام و جاہلیت کے بنیادی فرق سے باخبر ہوں۔ دین کے افکار و تصورات کا علم رکھتے ہوں اور اپنی حدود کو بھی ٹھیک ٹھیک پہچانتے ہوں۔
۳- شخصیت پرستی: اسلامی تحریک کی ناکامی کا تیسرا سبب شخصیت پرستی ہے۔ شخصی عقیدتوں کے غلو کو عرفِ عام میں شخصیت پرستی کہا جاتا ہے۔ شخصیت پرستی کا مطلب یہ ہے کہ تحریک کے ساتھ لوگوں کا تعلق کسی بڑی شخصیت کی عقیدت کے واسطے سے ہو اور یہ عقیدت اس تعلق پر غالب ہو۔ ایسے لوگوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ جو کچھ دیکھتے ہیں اسی شخصیت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور جس بات کو بھی صحیح مانتے ہیں اس کی سند کے بعد ہی صحیح مانتے ہیں وہ اسے سخت بے ادبی سمجھتے ہیں کہ ایسے مقدس شخص کی کسی رائے، کسی فتوے، کسی نظریے کو عقلی اور نقلی دلائل کے ترازو میں تولا جائے اور تول لینے کے بعد ہی اُسے قبول کیا جائے۔ عقیدت مندی کا یہ غلو، ایک طرف تو لوگوں سے قوت فیصلہ اور کھرے کھوٹے کی تمیز سلب کرلیتا ہے، دوسری طرف اس شخص کے اپنے درمیان سے اٹھ جانے کے بعد وہ نہیں جان پاتے کہ اب کدھر جائیں اور کیا کریں؟ اُس وقت انہیں تحریک کے مستقبل کی فکر سے زیادہ شخصیت سے محرومی کا غم لا حق ہوتا ہے۔
۴- تصورِ دین کی بے اعتدالی: چوتھا اہم سبب تصور دین کی بے اعتدالی ہے۔ کبھی تو یہ علم و بصیرت کی کمی کی وجہ سے پیدا ہو جاتی ہے، کبھی خارجی وجوہ سے۔ دین کی بے اعتدالی کے دو بنیادی اسباب نظر آتے ہیں۔ (۱) احساسِ فرض کی مُردنی (۲) تصورِ دین کی خرابی۔ دین بیزاری کے ماحول میں جب دین کی کوئی تحریک شروع ہوتی ہے تو اس کا استقبال نہیں کیا جاتا، لاکھ کوششوںکے باوجود دلوں کے دروازے دعوت کے لیے نہیں کھلتے ہیں، اُلٹے پیشانیوں پر بل پڑنے لگتے ہیں۔ یہ صورتِ حال احساسِ فرض کے مردہ ہوجانے کی وجہ سے ہوتی ہے، اس کے ازالہ کے لیے جو کچھ افہام و تفہیم کیا جاتا ہے کم از کم سن ضرور لیا جاتا ہے اپنے قصور کا اعتراف ہو جاتا ہے مگر دینی تصورات کی کسی خامی اور بے اعتدالی کا خاتمہ کرنے کے لیے تنقید ہی وہ واحد راستہ نظر آتا ہے جس سے اُسے ختم کیا جا سکتا ہے۔
۵- گروہی تعصب: انسان کی یہ عام کمزوری ہے کہ وہ جس پیمانہ سے اپنے آپ کو ناپتا ہے اسی سے دوسروں کو بھی ناپنے کے لیے تیار نہیں ہوتا، وہ اپنے ساتھ حسنِ ظن سے کام لیتا ہے مگر دوسروں کے معاملہ میں حد درجہ تنگ نظر بن جاتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ تاویلیں اور رعایتیں تو سب میرے لیے ہوں اور سخت گیریاں سب کہ سب دوسروں کے لیے۔ اس مذموم ذہنیت کا مظاہرہ وہ اپنی ذاتی معاملہ کی حد تک نہیں کرتا بلکہ خاندانی اور قومی، نسلی اور وطنی، گروہی اور جماعتی معاملات کے وسیع دائروں میں بھی کرتا ہے۔ قوم وملت کے نام پر پارٹی اور جماعت کی خاطر کرتا ہے تو اس کے خلاف ایک انگلی بھی نہیں اٹھتی بلکہ اُسے داد و تحسین کے پھولوں سے لاد دیا جاتا ہے۔ زندہ باد کے نعرے اس کے کانوں میں رس گھولتے ہیں اور اُسے سر آنکھوں پر بٹھا لیا جاتا ہے۔ ایسی خطرناک بیماری کا شکار جو گروہ ہو جائے وہ در اصل اپنے گروہ کا کلمہ بلند کرنا چاہتا ہے۔ جھوٹ کہتا ہے کہ اس کا مقصد اللہ کا کلمہ بلند کرنا ہے۔ کوئی شخص خدا اور اپنے گروہ دونوں کا ایک ساتھ اطاعت گزار نہیں ہو سکتا۔
۶- آزادی رائے کا غلط استعمال: آزادیِ رائے کا غلط استعمال اس وقت ہوتا ہے جب ہر شخص خواہ وہ رائے قائم کرنے کی صلاحیت رکھنے والا ہو یا نہ، رائے ظاہر کر کے اُس پر مُصِر ہو جائے۔ جب کہ اس بات کا امکان ہے کہ اس کی رائے غلط بھی ہو سکتی ہے اور دوسروں کی صحیح۔ زیر بحث مسئلہ کے کچھ گوشوں پر رائے دہندہ کی نگاہ نہ پہنچ پا رہی ہو یا رائے کے حق میں دوسروں کی طرف سے دی گئی دلیلوں کا ٹھیک ٹھیک وزن وہ محسوس نہ کر پا رہا ہو، ان امکانات کی وجہ سے دوسروں کی رایوں کے مقابلہ میں اپنی رائے ترک کر دینے سے آزادی رائے کا استعمال صحیح، محتاط اور ذمہ دارانہ ہوتا ہے جو تحریک اسلامی کے لیے مفید ہوتی ہے۔ اس کی مثال رسول ﷺ کی زندگی میں ملتی ہے کہ آپ نے کئی بار دوسروں کی رایوں کے مقابلہ میں اپنی رائے ترک کردی، تمام صحابہ کی متفقہ رایوں کے خلاف بھی رائے دیتے تو بھی کوئی انکار نہ کرتا۔ آزادیِ فکر ورائے کے صحیح استعمال سے ہی اسلامی تحریک کی پوری توانائی باطل کے خلاف صرف ہوتی رہے گی اور مضبوطی کے ساتھ اُس کے قدم آگے بڑھتے رہیں گے۔
حاصلِ بحث یہ ہے کہ یہ کتاب علمی وفکری تربیت کے لیے نہایت مفید ہے۔ تحریک کی افرادی واجتماعی قوتوں اور ان کی صلاحیتوں کو صحیح رخ پر لگانے کا کام کرے گی۔ اس کتاب میں راہِ حق کے مہلک خطرات سے داعیانِ حق کو آگاہ کیا گیا ہے۔ کتاب مختصر ہونے کے باوجود نہایت جامع ہے۔ تعصب، گروہ بندی اور فرقہ بندی پر کاری ضرب ہے۔ تحریک اسلامی سے وابستہ افراد کے لیے اس کا مطالعہ از بس ضروری ہے۔
***

یہ کتاب علمی وفکری تربیت کے لیے نہایت مفید ہے۔ تحریک کی افرادی واجتماعی قوتوں اور ان کی صلاحیتوں کو صحیح رخ پر لگانے کا کام کرے گی۔ اس کتاب میں راہِ حق کے مہلک خطرات سے داعیانِ حق کو آگاہ کیا گیا ہے۔ کتاب مختصر ہونے کے باوجود نہایت جامع ہے۔ تعصب، گروہ بندی اور فرقہ بندی پر کاری ضرب ہے۔ تحریک اسلامی سے وابستہ افراد کے لیے اس کا مطالعہ از بس ضروری ہے۔.

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 28 مارچ تا  3 اپریل 2021