رائے دہندوں نے بے روزگاری اور مہنگائی جیسے مسائل نظر انداز کر دیے
کئی ریاستوں میں فرقہواریت پھر کام کر گئی!
خلیق احمد، نئی دہلی
ناقص حکمرانی کے باوجود بھگوا بریگیڈ کی کامیابی سے اپوزیشن جماعتوں کی حکمت عملی کا کھوٹ عیاں
پانچ اسمبلی انتخابات کے نتائج کانگریس کے لیے نوشتہ دیوار۔پنجاب میں عاپ کی کامیابی سے راہل۔پرینکا کی قیادت کو دھکا
پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کے نتائج نے جہاں اپوزیشن پارٹیوں کے جذبات کو مجروح کیا ہے وہیں اترپردیش کے نتائج نے ظاہر کر دیا ہے کہ اگر مذہب کی بنیاد پر سیاسی اور انتخابی صف بندی کی اپیل کی جائے تو عوام تو بے روزگاری، مہنگائی، کوڈ-۱۹، وبا کے دوران طبی سہولتوں کی فراہمی میں حکومت کی ناکامی اور حتی کہ خود پر ہونے والے مظالم کو بھی نظر انداز کر دیں گے۔ یہ منظر نامہ اس ریاست کا ہے جہاں عوام کی اکثریت غربت زدہ ہے۔
اتر پردیش کے انتخابی نتائج کا باریکی سے تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انتخابی مہم کے دوران اکثریتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے رائے دہندے بی جے پی قائدین کے فرقہ وارانہ بیانیے کی وجہ سے بی جے پی کے حق میں متحد ہو گئے اور سابق چیف منسٹر اور سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو کی باتوں پر بہرے بنے رہے جنہوں نے ریاست کی ترقی اور قانون اور نظم وضبط کی ناقص صورتحال جیسے مسائل اٹھائے تھے۔
موجودہ چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ نے اعلان کیا تھا کہ انتخابات میں مقابلہ 80 فیصد بنام 20 فیصد کے درمیان ہے یعنی یہ ایک ریاست کی 80 فیصد ہندو آبادی اور 20 فیصد مسلم آبادی کے درمیان ایک سیاسی جنگ ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس سیاست نے ہندو نواز بی جے پی کے حق میں ہندو اکثریت کو متحد کرنے کا کام کیا ہے۔ فرقہ وارانہ تقسیم پیدا کرنے والے ان کے دیگر نعرے جیسے ’’ابا جان‘‘ ’’شمشان گھاٹ بنام قبرستان‘‘ اور ان کی جانب سے لفظ ’’بلڈوزر‘‘ کے بار بار استعمال نے پولارائزیشن کو مزید مضبوط کیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یوگی کی جانب سے بار بار دیے گئے بیان نے جس میں انہوں نے کہا کہ انتخابات کے بعد بلڈوزر دوبارہ چل پڑے گا، بی جے پی کی حامی اکثریت کی ذہنیت کو متاثر کیا ہے۔ خیال رہے کہ یوگی نے مشرقی اتر پردیش میں لکھنو، پریاگ راج (سابق نام الہ آباد) اور مئو میں کئی مسلم قائدین کے مکانات پر مبینہ غیر قانونی تعمیرات کی بنیاد پر بلڈوزر چلایا تھا۔
فرقہ وارانہ نعروں کا استعمال کرنے کے دوران بی جے پی قائدین نے یہ باور کروانے کی کوشش کی کہ مسلمان اکھلیش یادو کی زیر قیادت سماج وادی پارٹی کی سابقہ حکومت کے دوران غنڈہ گردی میں ملوث ہوئے تھے۔ لہذا اگر ایس پی دوبارہ حکومت تشکل دے گی اور اکھلیش یادو پھر سے چیف منسٹر بنیں گے تو مسلمانوں کا دوبارہ بول بالا ہو گا۔ اس بیانیے کا مقصد سیکولر-لبرل ہندووں کو یادووں اور دیگر پسماندہ طبقات کے ساتھ ساتھ دلتوں کو سماج وادی پارٹی سے دور رکھنا تھا۔
فرقہ وارانہ صف بندی کی حکمت عملی نے کام کیا
فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کرنے کے ہتھکنڈے اپنی پیدائش سے ہی بی جے پی کی اصل خصلت رہی ہے جس نے اسے بہت زیادہ فائدہ پہنچایا ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یادو رائے دہندوں کا بھی ایک قابل لحاظ فیصد بھگوا قائدین کی فرقہ وارانہ اپیل بالخصوص 80 بمقابلہ 20 فیصد کے نعرے کی وجہ سے بی جے پی کے حق میں چلا گیا۔ مزید برآں دلتوں کی بھی ایک خاصی آبادی کی جانب سے فرقہ وارانہ اپیل کے زیر اثر بی جے پی کو ووٹ دینے کی اطلاع ہے۔ حالانکہ اترپردیش میں بی جے پی حکومت کے پچھلے پانچ برسوں میں دلت سب سے زیادہ ستائے جانے والے گروپ میں شامل تھے۔ 80:20 کی اپیل نے ہندو اکثریت کو بی جے پی کی طرف دھکیلنے کا کام کیا ہے۔ فرقہ وارانہ پولارائزیشن نے سنگھ پریوار کے دو مقاصد کو حاصل کیا ہے۔ پہلا اس نے انتخابات جیتنے کے ایک اہم عنصر ذات پات کو منہدم کیا ہے جو منڈل اور امبیڈکر کی تحریک کے تناظر میں جس نے بی جے پی کو طویل عرصہ تک اقتدار سے دور رکھا تھا، بے انتہا طاقتور تھا۔ دوسرا اس نے مسلمانوں کو ایک سیاسی عفریت اور ہندوستانی سیاست میں ایک غیر متعلق چیز بنا دیا ہے۔ بی جے پی نے ان قائدین اور سیاسی پارٹیوں کی شبیہ کو ہندو مخالف اور موافق مسلمان کے طور پر ابھارا ہے۔ جنہوں نے خود کو مسلمانوں سے وابستہ کیا اور اپنی پارٹیوں اور امیدواروں کے حق میں مسلم رائے دہندوں کی حمایت اکٹھا کرنے کی کوشش کی۔ بی جے پی جو اعلیٰ ذات کے ہندووں کے مفاد کے لیے کام کرتی ہے۔ فرقہ وارانہ اور مذہبی صف بندی کے ذریعہ ہندو طبقہ کے سب سے پسماندہ اور سب سے نچلے طبقہ تک مقبولیت حاصل کی ہے۔
بی جے پی طویل عرصہ سے کانگریس کو ایک مسلم نواز پارٹی کے طور پر پیش کرتی آئی ہے۔ اس مرتبہ اسی حکمت عملی کو اس نے ایس پی کو ہزیمت سے دوچار کرنے کے لیے استعمال کیا۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہی وجہ تھی کہ اکھلیش یادو نے انتخابی ریالیوں اور دیگر پروگراموں میں ایس پی قائدین کے ساتھ اسٹیج پر مسلمانوں کی موجودگی سے احتراز کیا۔
مسلم سیاست میں بڑی تبدیلی ،مسلمانوں نے فرقہ وارانہ خطوط پر ووٹ نہیں دیا
یو پی انتخابات کے نتائج نے واضح طور پر ثابت کر دیا کہ مسلمانوں نے فرقہ وارانہ خطوط پر ووٹ نہیں دیا۔ انہوں نے آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسدالدین اویسی کی اپیل کو بھی مسترد کر دیا ہے۔ ایس پی اور اس کے حلیف 125 نشستوں پر کامیاب نہیں ہو سکتے تھے اگر مسلمان رائے دہندوں نے بیرسٹر اویسی کی جانب سے ان کی پارٹی کو ووٹ دینے کی اپیل کا جواب دیا ہوتا۔ اویسی بری طرح ناکام ہو گئے کیونکہ مسلمانوں نے ان کی اپیل کو مسترد کر دیا۔ اگرچہ اویسی اپنی پارٹی کے لیے ووٹ حاصل کرنے کے دستوری حقوق کے دائرہ ہی میں رہے تھے۔ بہار کے برعکس جہاں اویسی کی پارٹی نے 5 اسمبلی نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی، یو پی میں ایک نشست بھی نہیں جیت سکی جبکہ پارٹی نے مسلم اکثریت والے 100 اسمبلی حلقوں سے امیدواروں کو میدان میں اتارا تھا۔ اویسی کی پارٹی کے 99 امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہو گئیں، صرف ایک امیدوار شاہ عالم عرف گڈو جمالی اپنی ضمانت بچانے میں کامیاب رہے جنہوں نے مبارک پور حلقہ سے مقابلہ کیا تھا۔ مسلمانوں نے ایس پی اور دیگر پارٹیوں کے مسلم اور غیر مسلم دونوں امیدواروں کو مسلسل ووٹ دیا ہے۔ اس کے برعکس کئی حلقوں میں یادووں اور دلتوں کی جانب سے ایس پی اور بی ایس پی کے مسلم امیدواروں کو ووٹ نہ دینے کی اطلاع ہے جس سے اکثریتی طبقہ کے رائے دہندوں پر فرقہ واریت کے اثر ورسوخ کا نشان دہی ہوتی ہے۔ اس کے برخلاف مسلمانوں نے ہمیشہ ان پارٹیوں سے وفاداری کی ہے جن سے وہ تعلق رکھتے ہیں۔ لہٰذا مرکز اور ریاستی حکومتوں کو بھی چاہیے کہ وہ مسلمانوں کے بشمول تمام طبقات کے مفاد اور ترقی کے تحفظ کے لیے شمولیتی پالیسیوں کو وضع کریں۔ انہیں ایسی پالیسی وضع نہیں کرنی چاہیے جو مسلم طبقہ کی ترقی میں مانع ہوتی ہو۔
پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات مسلم سیاست میں ایک اہم تبدیلی کی نشان دہی کرتے ہیں۔ مسلم علما یا کسی دوسرے مسلم رہنما کی طرف سے کوئی اشتعال انگیز بیان جاری نہیں کیا گیا۔ کسی بھی مسلم رہنما نے انتخابات کے دوران فرقہ وارانہ بیان بازی نہیں کی اور نہ ہی فرقہ وارانہ تقریریں کیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمان بحیثیت ایک برادری سیاسی طور پر بالغ ہو چکے ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق، اس کی ایک وجہ مسلمانوں میں ایک بڑے تعلیم یافتہ متوسط طبقے کا ابھرنا اور یونیورسٹی وکالجوں کے فارغ التحصیل مسلم نوجوانوں کا سیاست میں آنا ہے، جو ان درباری علما کی جگہ لے رہے ہیں جن کی کانگریس نے اپنے مفادات کی خاطر سرپرستی کی تھی۔ سیاست میں نام نہاد مسلم قائدین کی سرپرستی کرنے کی کانگریس کی پالیسی نے مسلم مفاد کو بے حد نقصان پہنچایا ہے حالانکہ بی جے پی کانگریس پر مسلمانوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے الزامات لگاتی رہی ہے۔
اپوزیشن جماعتوں کو فرقہ وارانہ سیاست کا مقابلہ کرنے کے لیے حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت
حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کو بی جے پی کے مذہبی اور فرقہ وارانہ پولرائزیشن کے ہتھکنڈوں کا مقابلہ کرنے کے بارے میں گہرے غور وفکر کی ضرورت ہے۔ اپوزیشن جماعتیں اسی ہتھیار سے بی جے پی کو شکست نہیں دے سکتیں جس ہتھیار کو طویل عرصے سے وہ کافی مہارت سے چلا رہی ہے۔ مثال کے طور پر کانگریس نرم ہندوتوا کا استعمال کر کے بی جے پی کی فرقہ پرستی کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہی۔ اس عمل کے دوران اس نے اپنے مسلم حلقوں کی حمایت بھی کھو دی اور یوں اتر پردیش سے کانگریس کا مکمل صفایا ہو گیا اور مقامی وچھوٹی پارٹیوں کے لیے اس نے راہ ہموار کر دی۔ لہٰذا اپوزیشن کو دیگر حکمت عملیوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ فرقہ وارانہ پولرائزیشن کا مقابلہ کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ بی جے پی کے فرقہ وارانہ نظریے پر حملہ کیا جائے اور لوگوں کو سیکولر جمہوری اصولوں اور ’سماج واد‘ پر متحرک کیا جائے۔ درحقیقت، ’سماج واد‘ یا سوشلزم کے نظریات جن کی حمایت غیر کانگریسی اپوزیشن پارٹیوں بشمول بی جے پی کی سابقہ اوتار جن سنگھ نے کی تھی، ایمرجنسی کے دوران اندرا گاندھی کی آمرانہ پالیسیوں کے خلاف انہیں اقتدار تک پہنچایا۔ مودی اگرچہ اندرا گاندھی کی طرح مطلق العنان اور آمر نہیں ہیں لیکن حزب اختلاف کی جماعتوں کو کانگریس سے سبق لے کر ’سماج واد‘ کے سیاسی فلسفے کو استعمال کرتے ہوئے اور ’نرم ہندوتوا‘ کارڈ لینے سے گریز کرتے ہوئے ہندو نواز بی جے پی اور مودی کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہو گی۔ لہٰذا بی جے پی مخالف جماعتوں کو اگلے انتخابات میں بی جے پی کے فرقہ وارانہ بیانیہ کو چیلنج کرنے کے لیے ایک نیا بیانیہ ترتیب دینا ہو گا۔
کانگریس کو ہندو شناخت اور سیکولر اعتبار کے ساتھ قیادت تبدیل کرنے کی ضرورت
ان اسمبلی انتخابات میں کانگریس کو بڑا زبردست جھٹکا لگا۔ اسے یو پی سے مکمل طور پر ختم کر دیا گیا جو سیاسی طور پر ملک کی سب سے اہم ریاست ہے جو سب سے بڑی تعداد میں ارکان پارلیمنٹ کو لوک سبھا (ایوان زیریں) میں بھیجتی ہے۔ کانگریس نے پنجاب کو بھی کھو دیا جو عام آدمی پارٹی کے حق میں چلا گیا۔ دوسری طرف بی جے پی نے گوا اور اتراکھنڈ میں اقتدار برقرار رکھنے میں کامیاب رہی اور منی پور میں اقتدار پر قبضہ کر لیا۔
اگر کانگریس خود کو زندہ کرنا چاہتی ہے تو اسے فوری طور پر اپنی قیادت کو تبدیل کرنا ہو گا۔ راہول گاندھی، پرینکا گاندھی اور سونیا گاندھی کو پارٹی کی قیادت کے منصب سے ہٹانے کی ضرورت ہے۔
راہل کی پوزیشن ایسی ہے کہ وہ خود مسلم اکثریتی سیٹ کے علاوہ اب کسی بھی سیٹ سے جیت نہیں سکتے۔ 2019ء کے پارلیمانی انتخابات میں راہل کو جب اپنی خاندانی نشست امیٹھی سے شکست کا اندازہ ہوا تو انہوں نے کیرالا میں مسلم اکثریتی حلقہ وایناڈ سے انتخاب لڑا تھا۔ وہ ہندو اکثریتی امیٹھی سے بھی امیدوار تھے لیکن یہاں وہ جیت نہیں پائے لیکن مسلم اکثریتی وایناڈ سے جیت گئے۔ اگر راہول خود ہندو اکثریت والے حلقے سے نہیں جیت سکتے تو وہ پورے ملک میں ہندو ووٹروں کو پارٹی کے حق میں کیسے کر سکتے ہیں؟
2014ء اور 2019ء کے پارلیمانی انتخابات کے علاوہ، یو پی کے انتخابات نے ظاہر کردیا ہے کہ ملک میں انتخابی سیاست اب بہت زیادہ فرقہ وارانہ ہو چکی ہے۔ ووٹر عام طور پر سیاسی جماعتوں کے امیدواروں اور قائدین کے عقیدے کے ساتھ ہوتے ہیں۔
ایسے میں سونیا اور پرینکا کا تعلق عیسائی مذہب سے ہے اور راہل جن کا عقیدہ غیر واضح ہے، ہندو اکثریت کے لیے قابل قبول نہیں ہوں گے چاہے ہم ہندوستان کے ایک سیکولر ملک ہونے کا کتنا ہی شور مچائیں۔ مزید یہ کہ راہل، وزیر اعظم نریندر مودی اور عام آدمی پارٹی کے اروند کیجریوال جیسے حریفوں کے مقابلے میں ایک کمزور لیڈر ہیں۔
کانگریس کا اس وقت تک کوئی مستقبل نہیں ہے جب تک کہ وہ اپنی قیادت کو کسی ایسے شخص کے ساتھ تبدیل نہ کرے جس کی جڑیں ہندو مذہب میں، لیکن سیکولر اعتبار کے ساتھ ہوں۔ کانگریس پارٹی میں ایسے لیڈروں کی کمی نہیں ہے۔ پہلے ہی بہت دیر ہو چکی ہے۔ پارٹی رہنما اس تعلق سے جتنی جلدی فیصلہ کریں گے پارٹی کے لیے اتنا ہی بہتر ہے۔ اگر کانگریس اپنی حکمت عملی اور قیادت کو تبدیل کرنے میں ناکام رہتی ہے تو عام آدمی پارٹی جس کی جڑیں بھی آر ایس ایس میں ہیں، ایک سیکولر پارٹی کے روپ میں قومی سطح پر آہستہ آہستہ کانگریس کی جگہ سنبھال لے گی۔ اس نے پہلے ہی پنجاب اور دہلی میں کانگریس کی جگہ لے لی ہے۔ کانگریس نے اگر جراحتی کارروائی کرنے سے گریز کیا تو وہ اپنی حیثیت کھو دے گی اور اسے تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا جائے گا۔
ممتا بنرجی کے ہندو اعتبار، بالخصوص برہمن وسیکولر اعتبار نے ہی مودی اور بی جے پی کے ہندوتوا حملے کے خلاف مغربی بنگال کا الیکشن جیتنے میں ترنمول کانگریس کی مدد کی تھی۔
(مضمون نگار انڈیا ٹومارو کے ایڈیٹر ہیں)
***
مسلمانوں نے ایس پی اور دیگر پارٹیوں کے مسلم اور غیر مسلم دونوں امیدواروں کو مسلسل ووٹ دیا ہے۔ اس کے برعکس کئی حلقوں میں یادووں اور دلتوں کی جانب سے ایس پی اور بی ایس پی کے مسلم امیدواروں کو ووٹ نہ دینے کی اطلاع ہے جس سے اکثریتی طبقہ کے رائے دہندوں پر فرقہ واریت کے اثر ورسوخ کا نشان دہی ہوتی ہے۔ اس کے برخلاف مسلمانوں نے ہمیشہ ان پارٹیوں سے وفاداری کی ہے جن سے وہ تعلق رکھتے ہیں۔ لہٰذا مرکز اور ریاستی حکومتوں کو بھی چاہیے کہ وہ مسلمانوں کے بشمول تمام طبقات کے مفاد اور ترقی کے تحفظ کے لیے شمولیتی پالیسیوں کو وضع کریں۔ انہیں ایسی پالیسی وضع نہیں کرنی چاہیے جو مسلم طبقہ کی ترقی میں مانع ہوتی ہو۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 20 تا 26 مارچ 2022