’’ذکر اس پری وش کا (نثر و شعر) اور پھر بیاں اپنا‘‘

حشو و زوائد سے پاک تحریر قلمکاروں کے لیے بڑا امتحان

نعیم جاوید،سعودی عرب

فکری و لسانی استعداد،موضوع کاتجربہ ، تحریر کو رعنائی بخشتا ہے
اچھے شعرکی زبان کیسی ہو اور اچھی نثر کسے کہتے ہیں یہ سوال ہر لکھنے والے کے ذہن میں اس کے اپنے کل مبلغ علم ودانش کے تناسب سےبار بار ابھرتا ہے۔اس سلسلے میں جو بنیادی باتیں ہمیں تخلیقی عمل میں یاد رکھنے کی ہیں وہ نثر و شعر کے مشترک اصول ہیں جس میں علم بیان کی جتنی صنعتیں ہوتی ہیں وہ دراصل معنی کی محکوم ہوتیں ہیں اورخیال کی قلم رو میں پورے لفظی سرمائے سے معنیٰ کی چاکری کرتی ہیں۔
استعارہ ‘ تشبیہ اور علامت صرف شعری کائنات کی کہکشائیں نہیں ہیں بلکہ نثر کی کل کائنات کو اپنی کشش سے باندھ رکھتا ہے۔پوری نثری دنیا اس کی اساس پرکھڑی رہتی ہے۔ اچھی نثرکی شناخت کے لیے ہمیں کسی کلیہ طرازی کے مفروضہ معیارپر یا نامور ادیبوں کی ضدی طبیعتوں سے الجھے بغیر چند ایک روشن روشوں کو منتخب کرنا ہوگا۔
غالبؔ نے شعر کی تعریف میں جو کچھ کہا ہے وہ ’’سخن ِعشق‘ عشق ِسخن ‘کلامِ حسن اور حسن کلام کہا ہے‘‘۔ ہر تخلیق کار اسی اَساسی آرزو کے ساتھ نثرو شعر کی تخلیق کرتے ہوئے منتخب موضوعاتی تحریم کا پابندبھی ہوتا ہے۔ مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب لوگ اپنے محدودعلمی خیموں کی کھنچتی طنابوں پر ہنگامہ کھڑا کریتے ہیں۔ کوئی نئے لفظ پر احتجاج بلند کرتا ہے۔ کہتا ہے کہ وہ مغلق‘حابس‘اور متروک ہے۔کسی کا اختصارکسی کوبے ربط نظر آتا ہے۔ اس کے ایجاز کی تحسین کے بجائے کوئی اس کے ابہام پر ماتم کناں رہتاہے۔ ویسے بھی ان دِنوں اُردو کی بے شخصیت آبادیاں جو زبان کے اعتبار سے اکثر مخلوط النسل ہے جس کی نہ انگریزی پر گرفت ہے اورنہ اُردو اس کے بس میں۔ایسے میں یہ موضوع بحث انگیز ہوکر بھی بے نتیجہ رہ سکتا ہے۔
اظہار کافن فکری و لسانی استعداد مانگتا ہے۔قلم کار کا منتخب موضوع اورتجربہ جتنا گہرا ہوگا اس کے تجربہ کی تجسیم بھی اسی رعنائی کے ساتھ جلوہ گرہوگی۔ کیونکہ زبان ،خیال کا لباس ہے۔ اسلوب اس کی تراش اور لباس کا فیشن ہے۔موضوع اگر جذبات کی دنیا کی تسخیر مانگتا ہے تو جذبات کے تب وتاب سے دہکی ہوئی زبان ہوگی۔ اگرفلسفہ ہے تو نثر کی رہ گزر قدرے پیچیدہ ہوگی۔اگرسائنس ہے تو شکوک کے قافلے مفروضوں سے ہوتے ہوئے جستجوکے سہاروں پر یقین کی منزلوں کی سمت چلتے ہوئے نظر آئیں گے۔ایسے میں کبھی اختصار ہوگا اور کبھی اطناب ۔ ویسے بے جا وضاحتیں ادب پارے کے اجمال کاخون کردیتی ہیںDevil is in details۔ ایسا قلم کار اپنے قاری کو غبی سمجھتاہے۔ جبکہ اجمال ارتکاز میں اضافہ کرتا ہے۔یہ بھی ایک اچھی نثر کا وصف ہوتا ہے۔اختصار کا ماتم کرنے والے توضیحات کے انبار لگادیتے ہیں اور وضاحتوں کے چکر میں تاثر کا خون کردیتے ہیں ۔فاضل وضاحتیں شاید بے چین روحوں اور پراگندہ ‘مضطرب ذہنوں کو متن سے بھلے ہی جوڑے رکھتی ہوں لیکن یہی جزئیاتی کڑیاں کسی بھی باخبر قاری کے پرشوق ذہن کے صاعقہ بردوش دانش کو باندھنے کی حماقت نہیں کرتیں۔ بجلیوں کے کوندے اپنی ایک رفتار رکھتے ہیں۔جو لوگ گتھی ہوئی تحریر کی لسانی شکل میں پردہ نشین معنی کے حسن پر توجہ نہیں دیتے ان کا عمل جیسے گودا پھینک کر چھلکے کو سجانے پر اصرار کرناہے۔
کسی جملے یا مصرعے کی توانائی فعل سے ہے۔لیکن دھنک رنگ اسمایا صفات سے جملہ یا مصرعہ بوجھل نہیں ہوتابلکہ کمال فن و مشاقی سے حاصل کردہ چابکدستی سے اس جملے پرتراکیب کا بار بھی ڈالا جاسکتا ہے۔ ایسی ہی رکاوٹوں سے روانی کا کام لیا جاسکتا ہے۔جیسے نہروں کوبلندیوں پر چڑھانے کے لیے اس کی رہ گزرمیں منصوبہ بند گڑھے کھودے جاتے ہیں تاکہ رکاوٹ جست میں معاون ہو۔اچھی نثر کا ہنر جاگتے لمحوں کی کمائی مانگتا ہے نہ کہ اونگتے لمحوں کی زکات۔اپنے خیال کی آرائش میں معنی کی چمن بندی اور اس کے حسن کو قائم کرنے کے لیے لفظوں کی روشیں سجانی پڑتیں ہیں۔ در اصل یہ مقصود بالذات نہیں ہوتا ورنہ ادبی مطالعہ میں اس کی حیثیت آرائشی ہوکر رہ جاتی ہے۔
قلم کاراپنے تخلیقی مزاج کے ترنگ کو تھامنے میں کبھی معنی کو نیم روشن چھوڑدیتا ہے کبھی خیال کے کگار پر چھوٹا سا لفظ جھلمل دیے کی طرح فروزاں رکھتا ہے۔ یہ اس کی فنی ضرورت ہوتی ہے۔ جبکہ روایات پرست ‘نکتہ چین ‘کاہلوں کو ان جدتوں کے آزار سے پھر ایک بار ان کا تقدس مآب فرار انہیں طرز کہن کا اعزاز دے کر بچالیتاہے۔نثر کوہرگزبے جا توضیحی نہیں ہونا چاہیے اور اس میں لفظوں کی فاضل پیوند کاری بھی نہیں ہونی چاہیے۔ ادیب کو بڑی محنت سے یہ دیکھنا چاہیے کہ خیال کے قامتِ زیبا پر کونسا ملفوظی پیراہن چست ہوتا ہے۔یہی کمی ہمارے اکثر نثر نگاروں اور شعرا کے کلام میں نظر آتی ہے۔ان کی غزلوں کے بدن ٹٹولیے تو پتہ چلتا ہے کہ کبھی انہوں نے اپنے اشعار کے پیٹ بھرنے کے لیے بڑے شاعروں کے درباروں کے لنگر لوٹ کر باسی غذا کھلائی ہے ۔ کبھی نئی غزل کے بدن پر پرانے چیتھڑوںسے نیا لباس بنانے کی حماقت کی ہے۔ان کی تخلیق نہ کسی قیمتی تجربہ سے آباد ہے نہ انہوں نے ہمارے دل کی بات کی ہے نہ ہی ہمارے منہ سے مصرعہ چھینا ہے اور نہ ہمارے تحیر میں حقیقی توسیع کی ہے۔اکثر تواپنے وسوسوں کو تخلیقی خیال ہی کہتے رہے۔اور اپنی دیوانگی سے دیوان کیے۔اس دوران ورقی یا برقی رسائل کا ڈھیرتحسینی تبصروں کے انبار سے لد چکاجوغیر استدلالی مواد سے اٹارہنے کے باوجودان کے لکھاریوں کو لمحاتی حظ تو دے جاتا ہے لیکن ذرا سا بھی اختلاف ان کی تنگ جبینوں پربل ڈال دیتا ہے اور وہ Bull fight پر اتر آتے ہیں۔نثروشعر میں تنقیدی تبصروں کو تاثراتی تعمیم زدگی بھی لے ڈوبی۔ جو دراصل ایک بڑی کمی کی سمت اشارہ کرتی ہے ۔وہ کمی جو ناقدانہ فہم اور نکتہ چینی میں فرق کرتی ہو۔بعض لکھنے والوں کی رہنما نظر Guiding insight یہ ہے کہ وہ بہ زعم خود توپ چیز ہیں۔ ان کے ماموں فلاں ہیں۔ ان کارشتہ سیدھی سڑک سے فلاں بزرگ سے جسمانی طور پر ملتاہے۔ انفرادی حماقتوں کونسلی تفاخر کے سہارے برتنے کا فکری خناس اب ختم ہورہا ہے لیکن اب بھی چند پرانی بلائیں اُردو پر سایہ فگن ہیں جواپنی مشکوک خونی لکیرکوجوخودان کی ہی گھڑی ہوئی روایتوں کے طروں پر خود کو مقدس ومتبرک جتلاتے ہوئے اپنی زبان دانی پر اصرار کرتیں ہیں۔ جبکہ ایک اچھی نثر یا اچھا شعر خودایک نفیس تعارف ہوتا ہے۔سچ توہے کہ انسان ایک چراغ ہے اور تحریریں اس کا نور۔اگر چراغ کو دماغ کا تیل نہیں ملا تواپنی بزرگوں کی قبروں کی بجھے ہوئے دِیوں میں ان کی عزت و ناموس کا خون جلا کر اپنی وجود کی تھرتھراتی لو کو بچانے کی افسوس ناک کوشش کرنا سراسربری بات ہے۔ ایسے لکھاریوں کی کوئی تحریر اٹھا کر دیکھ لیجیے تحریر کا موضوع بھلے ہی کچھ ہواس میں ان کے ماموں‘ پھوپا ‘ خالو سے ہوتے ہوئے ان کا رشتہ سیدھا صحابہؓ تک پہنچ جاتا ہے اورکوئی اس پر احتجاج بھی نہیں کرتا۔جب کہ اچھی تحریر ایسی عظمتوں کی محتاج نہیں ہوتی ۔ گتھے ہوئے اسلوب میں غیر ضروری تفصیلات کی جگہ ہی نہیں ہوتی۔ بلکہ غیر نفسی طرز اظہار کو مرکزی جگہ دی جاتی ہے۔ علمی خطوط اور خانگی خطوط میں فرق ہوتا ہے۔ اتنی بات بھی پرانے کھلاڑیوں کی سمجھ میں نہیں آتی۔
لوگ کہتے ہیں کے بے تکلف زبان برتی جائے ۔اس بے تکلف زبان کی علمی سطح اور الفاظ و معنی کی سرحدیں کیا ہیں اس کی وضاحت کیے بغیر دھاڑیں مار مارکر کہتے ہیں کہ ہماری بیوی اور بچوں کو سمجھ میں آنے والی زبان میں لکھنا چاہیے۔
یہ اظہار خودایک طرفہ تماشہ ہے۔جبکہ تکلف اور غیر سادگی اعلی شاعری اور نثرکا معیاری اسلوب رہا ہے۔زبان کی تزئینی قدر (Ornamental value) ۔۔۔۔diction سے ہے۔قصباتی زبان و محارے کی ایک خوبصورت لیکن محدود دنیا ہے۔ تمدنی شعور ، مسائل اور اس کا حل جو لسانی سرمایہ مانگتا ہے اس میں زمین وآسمان کا فرق ہوتا ہے۔اور وہی فرق نثر و شعر میں رہے گا۔ بنیادی طور پر الفاظ ،حسن و معنی کا وطن و گھرہوتے ہیں۔اگرہم اپنی تخلیقات کو مقدور بھرمتوالی صنعتوں سے سجا کر ایوان ادب میں لے آئیں تو دیر تک ردو قبول کے ساتھ زندہ رہیں گے ورنہ جب تک تعلقات عامہ کا حصار رہے گا تب تک شخصی واقفیت کے حاشیہ میں تخلیق زندہ رہے گی ۔پھر ادھر آنکھ ا وجھل پہاڑ اوجھل ہوجائے گا۔ حیرت ہوتی ہے لوگ ایجازکے حسن کے قائل نہیں اس لیے وہ جتنی عقل ایک سطر میں صرف ہونی چاہیے تھی وہ پورے ایک مضمون میں کھپادیتے ہیں اوریہ بھول جاتے ہیں کہ اچھی تحریر کا فوری تاثر مبہم ہوتا ہے۔بار بار پڑھنے سے اس کی گرہیں کھلتی ہیں۔ اس کے گوشہ نشین معنوں سے ذہن جلوہ یاب ہوتا ہے۔
مختصراً عرض ہے کہ اچھا مطالعہ ‘گہرامشاہدہ اور علمی مباحثہ ہمارے ادبی سفر میں شامل نہیں ہوگا تو ہمارا قاری ہماری یاوہ گوئی پڑھ‘ سن کر جھرجھر آنسووں سے روتا ہوا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اُردو کے ایوانوں سے بھاگ کھڑا ہوگا۔ پھر ہم اپنے گمشدہ قاری کو کوستے ہوئے اپنی رنگ برنگی شاعری اورمضامین کے مجلد اَن چھوے انبار سے چھاتی کوٹتے رہیں۔
***

 

***

 بنیادی طور پر الفاظ،حسن و معنی کا وطن و گھرہوتے ہیں۔اگرہم اپنی تخلیقات کو مقدور بھرمتوالی صنعتوں سے سجا کر ایوان ادب میں لے آئیں تو دیر تک ردو قبول کے ساتھ زندہ رہیں گے ورنہ جب تک تعلقات عامہ کا حصار رہے گا تب تک شخصی واقفیت کے حاشیہ میں تخلیق زندہ رہے گی ۔پھر ادھر آنکھ ا وجھل پہاڑ اوجھل ہوجائے گا۔ حیرت ہوتی ہے لوگ ایجازکے حسن کے قائل نہیں اس لیے وہ جتنی عقل ایک سطر میں صرف ہونی چاہیے تھی وہ پورے ایک مضمون میں کھپادیتے ہیں اوریہ بھول جاتے ہیں کہ اچھی تحریر کا فوری تاثر مبہم ہوتا ہے۔بار بار پڑھنے سے اس کی گرہیں کھلتی ہیں۔ اس کے گوشہ نشین معنوں سے ذہن جلوہ یاب ہوتا ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  12 تا 18 دسمبر 2021