دہلی فسادت: ہائی کورٹ نے پولیس کو ’’ہندو برادری میں ناراضگی ہے، احتیاط کریں‘‘ کے بارے میں حکم نامے کی کاپی جمع کرنے کو کہا
نئی دہلی، جولائی 28: دہلی ہائی کورٹ نے پیر کو پولیس کو شمال مشرقی دہلی تشدد کی تحقیقات کرنے والی ٹیموں کے سربراہان کے لیے خصوصی کمشنر آف پولیس پرویر رنجن کے اس حکم کی ایک کاپی داخل کرنے کی ہدایت کی، جس میں انھوں نے انھیں ہندوؤں کی گرفتاری کے دوران محتاط رہنے کے لیے کہا تھا۔
اپنے حکم میں رنجن نے تفتیشی ٹیموں سے کہا تھا کہ متاثرہ علاقوں سے ’’کچھ ہندو نوجوانوں‘‘ کی گرفتاری کے نتیجے میں ’’ہندو برادری میں سخت ناراضگی پھیل گئی ہے۔ احتیاط برتیں۔‘‘
جسٹس سریش کمار کیت نے فروری میں ہونے والے تشدد میں ہلاک ہونے والے دو افراد کے اہل خانہ کی درخواست پر یہ ہدایت نامہ جاری کیا۔ ایک درخواست گزار ساحل پرویز ہیں، جن کے والد کو ان کی رہائش گاہ کے قریب گولی مار کر ہلاک کیا گیا تھا اور دوسرے محمد سعید سلمانی ہیں، جن کی والدہ کو ان کے ہی گھر کے اندر قتل کیا گیا تھا۔
درخواست گزاروں نے 16 جولائی کو دی انڈین ایکسپریس میں کمشنر کے حکم ’’ہندوؤں میں گرفتاریوں پر ناراضگی ہے، احتیاط کریں۔‘‘ کی رپورٹ کا حوالہ دیا۔
خصوصی پولیس کمشنر نے 8 جولائی کو یہ حکم جاری کیا تھا۔ پرویز اور سلیمانی نے اپنے وکیل کے ذریعے اس حکم کو ختم کرنے کی درخواست کی ہے۔
تاہم دہلی ہائی کورٹ نے مشاہدہ کیا کہ کسی خبر کی بنیاد پر کوئی کارروائی نہیں کی جا سکتی، جب تک کہ یہ دعوے مستند نہ ہوں۔ اس میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار درخواست دائر کرنے کے بجائے 8 جولائی کی دستاویزات کے حصول کے لیے آر ٹی آئی کا استعمال کرسکتے ہیں۔
اس مشاہدے کے بعد درخواست گزاروں کے وکیل محمود پراچہ نے دہلی پولیس کو یہ حکم جاری کرنے کی درخواست کی وہ اس حکم اور اس طرح کے کسی اور بھی ایسے ہی حکم کی کاپی عدالت میں جمع کریں۔
پراچہ نے دعوی کیا کہ 8 جولائی کا حکم پولیس افسران کے تفتیشی فرائض کی کارکردگی میں غیر قانونی مداخلت کی مترادف ہے۔
جواب میں جسٹس کیت نے دہلی پولیس کو حکم دیا کہ وہ 8 جولائی کا حکم دو دن کے اندر ریکارڈ پر رکھیں، اور دوسرے فریق کو بھی اس کی کاپی فراہم کی جائے۔