دہلی فسادات: ویڈیو ثبوت پیش کرنے میں ناکامی پر عدالت نے پولیس کو لگائی پھٹکار
نئی دہلی، جولائی 25: جمعہ کو دہلی کی ایک عدالت نے کہا کہ پولیس فروری میں دارالحکومت میں ہونے والے بڑے پیمانے پر تشدد میں سازش کے الزامات کے تحت گرفتار افراد کے خلاف ویڈیو ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہی ہے۔
عدالت نے کہا کہ دہلی پولیس نے پہلے دعوی کیا تھا کہ وہ شمال مشرقی دہلی کے جعفرآباد، موج پور کے میٹرو اسٹیشنوں سے سی سی ٹی وی فوٹیج اکٹھا کررہی ہے اور شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کے مقامات کی فوٹوگرافروں کے ذریعہ لی گئی تصاویر اور ویڈیوز بھی۔
عدالت نے کہا ’’افسوس کی بات ہے کہ اسسٹنٹ کمشنر آف پولیس ہریدے بھوشن اور انسپکٹر انل کمار فوٹو گرافر کے ذریعہ بنائی گئی ویڈیوز اور میٹرو اسٹیشنوں پر نصب ویڈیو کیمروں سے متعلقہ ویڈیو فوٹیج کی فراہمی میں ناکام رہے ہیں۔‘‘
عدالت نے مزید کہا ’’وہ یہ بتانے میں بھی ناکام رہے ہیں کہ میٹرو کے متعلقہ عہدیدار کو متعلقہ ویڈیو فوٹیج کے تحفظ کے لیے کوئی نوٹس/درخواست پیش کی گئی ہے؟ تاکہ ثبوت کے ایک اہم ٹکڑے کو بچایا جاسکے۔‘‘
عدالت نے کہا ’’یہ عدالت کا کام نہیں ہے کہ وہ پولیس کو بتائے کہ کس طرح اور کن شواہد کو جمع کرنا ضروری ہے، تاہم یہ عدالت منصفانہ تحقیقات کو یقینی بنانے کی پابند ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پولیس متعلقہ ویڈیو فوٹیج اکٹھا کرنے میں ناقابل اعتماد گستاخی کی حالت میں ہے۔ یہ حالت تشویش کا باعث ہے۔‘‘
واضح رہے کہ گذشتہ ماہ دائر متعدد چارج شیٹوں میں پولیس نے دعوی کیا تھا کہ دہلی میں تشدد نریندر مودی کی زیر قیادت حکومت کو بدنام کرنے کی سازش کا نتیجہ تھے۔ انھوں نے الزام لگایا کہ جن لوگوں نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرے کیے تھے وہی اس کی سازش کرنے والے طلبا رہنما اور کارکن تھے۔ لیکن پولیس نے ان کے خلاف ابھی تک کوئی خاطرخواہ ویڈیو ثبوت پیش نہیں کیا ہے۔
شمال مشرقی دہلی میں 23 اور 26 فروری کے درمیان فسادات میں 53 افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔ پولیس پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ وہ بھی تشدد کے بعض واقعات میں یا تو خود بھی شامل تھی یا عدم فعال تھی۔