دہلی فسادات: عدالت نے ایک مقدمے میں طالبہ کارکن گلفشاں فاطمہ کی ضمانت منظور کی

نئی دہلی، 22 نومبر: ہفتہ کو دہلی کی ایک عدالت نے ایک مقدمے میں طالب علم کارکن گلفشاں فاطمہ کی ضمانت منظور کر لی، جنھیں فروری میں شمال مشرقی دہلی میں ہونے والے تشدد کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

تاہم ضمانت ملنے کے باوجود فاطمہ جیل میں ہی رہیں گی کیوں کہ وہ ایک دوسری ایف آئی آر (59/2020) میں سخت غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت زیر حراست ہیں۔ وہ فی الحال دہلی کی تہاڑ جیل میں قید ہیں۔

ایڈیشنل سیشن جج امیتابھ راوت نے جعفرآباد میں ہنگامہ آرائی سے متعلق کیس میں فاطمہ کو اسی رقم کی ایک ضمانت کے ساتھ 30،000 روپے کا ذاتی مچلکہ فراہم کرنے کی شرط پر ضمانت دی۔ اس مقدمے سے متعلق معاملے میں فائرنگ سے ایک شخص ہلاک ہوگیا تھا۔

عدالت نے کہا ’’شریک ملزم دیونگنا کلیتا اور نتاشا نروال کو اس معاملے میں ضمانت ملی ہے اور ان کا کردار موجودہ درخواست گزار/ملزم (فاطمہ) جیسا ہی بتایا گیا ہے۔ ان سب کے گواہ تقریبا ایک جیسے ہیں۔‘‘

عدالت نے مزید کہا کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ فاطمہ کی رہائی کے سبب گواہان کو خطرہ ہے۔

واضح رہے کہ کلیتا کو یکم ستمبر کو اس کیس میں ضمانت دی گئی تھی اور نرووال کو 17 ستمبر کو۔

دی انڈین ایکسپریس کے مطابق مقامی عدالت نے یہ بھی نوٹ کیا کہ دو عوامی گواہ محفوظ ہیں اور ان کی شناخت چھپی ہوئی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ باقی پولیس افسر ہیں۔ شریک ملزم تفصیل کو مبینہ طور پر مجرم قرار دیا گیا تھا، لیکن فاطمہ کو اس کے عمل اور طرز عمل کی بنیاد پر ضمانت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

عدالت نے مزید کہا کہ ’’موجودہ مرحلہ ضمانت کا ہے نہ کہ بری کرنے یا سزا دینے کا۔ درخواست دہندہ سے گواہوں کو خطرہ ثابت کرنے کے لیے کوئی بھی ثبوت نہیں ہے۔‘‘

سماعت کے دوران فاطمہ کے وکیل محمود پراچہ نے کہا کہ انھیں اس مقدمہ میں بغیر کسی ثبوت کے جھوٹ اور بدنیتی سے پھنسایا گیاہے۔ انھوں نے یہ بھی دعوی کیا کہ مبہم اور غیر تصدیق شدہ دعووں کے علاوہ ان کی طرف سے کسی بھی قسم کی شمولیت کا الزام نہیں ہے اور ان کا مبینہ جرم سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔

پولیس کی نمائندگی کرنے والے خصوصی سرکاری وکیل راجیو کرشن شرما نے ضمانت کی درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ فاطمہ نے اس معاملے میں مبینہ طور پر سازش کی تھی اور دسمبر 2019 سے مقامی باشندوں کو مسلسل مشتعل کیا تھا۔

معلوم ہو کہ ستمبر میں فاطمہ نے کہا تھا کہ انھیں جیل میں فرقہ وارانہ تعصب اور ذہنی اذیت کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ 9 اپریل کو فاطمہ کو جعفرآباد احتجاج میں حصہ لینے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور ان پر پہلی ایف آئی آر میں تعزیرات ہند کی متعدد دفعات کے تحت الزام لگایا گیا تھا۔ اس خصوصی ایف آئی آر کے تحت انھیں 13 مئی کو ضمانت مل گئی تھی۔