دہلی تشدد منصوبہ بند تھا، سازش کے تحت بیرونی افراد کو یہاں لایا گیا تھا: اقلیتی کمیشن
نئی دہلی، 5 مارچ: دہلی اقلیتی کمیشن نے الزام لگایا ہے کہ گذشتہ ہفتے شمالی مشرقی دہلی میں فرقہ وارانہ تشدد منصوبہ بند اور یکطرفہ تھا۔ کمیشن نے یہ تبصرہ متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے کے بعد ایک تشخیصی رپورٹ میں کیا۔ ضلع میں تشدد 23 فروری کو شروع ہوا تھا اور پانچ دن تک جاری رہا، جس میں 47 افراد کی موت کا دعوی کیا گیا ہے۔ یہ سنہ 1984 کے بعد سے دہلی میں فرقہ وارانہ جھڑپوں میں بدترین ہلاکت ہے۔
کمیشن کے چیئرپرسن ظفر الاسلام خان نے میڈیا کو بتایا ’’ہم نے کہا ہے کہ تشدد یکطرفہ تھا کیونکہ لوگوں نے جو ہمیں بتایا، ہمیں اس سے یہ محسوس ہوا۔ انھوں نے کہا کہ باہر کے لوگوں کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ مسلمانوں کی ملکیت میں موجود دکانوں اور مکانات کا نشاندہی کریں۔ اس کے لیے اندرونی افراد کی ضرورت ہوگی جو بیرونی لوگوں کی مدد کر رہے تھے۔‘‘
خان نے دی وائر کو بتایا کہ منصوبہ بند سازش کے تحت حملے شروع کرنے سے پہلے تقریبا 1500 سے 2000 بیرونی افراد کو شمال مشرقی دہلی لایا گیا تھا اور ان میں سے بیش تر کو تقریبا 24 گھنٹے اسکولوں میں رکھا گیا تھا۔ انھوں نے دعوی کیا کہ اب یہ ثابت ہوچکا ہے کہ 24 فروری اور 25 فروری کو پولیس کی موجودگی کم سے کم تھی جب زیادہ تر تشدد ہوا تھا۔
خان نے مزید کہا کہ ’’ہمارا انکشاف یہ ہے کہ یہ منصوبہ بند تشدد تھا۔ اس کے لیے لوگوں کو باہر سے لایا گیا تھا۔ پولیس اور انٹلیجنس کو یہ معلوم کرنا ہے کہ وہ کہاں سے آئے تھے۔‘‘
خان نے الزام لگایا کہ پولیس نے "کچھ بھی نہیں بچایا” اور اس کے بجائے "املاک اور لوگوں کو جلانے کی اجازت دی، فسادیوں کو مکانات کو نقصان پہنچانے اور یہاں تک کہ انھیں دھماکے سے اڑانے کی بھی اجازت دی۔ اس کے صرف دو دن بعد ہی پولیس متحرک ہوگئی اور26 فروری کو تشدد کم ہوا اور اگلے دن ختم ہوگیا۔ پولیس کو اپنی کارروائیوں کا جواب دینا پڑے گا، اس کے بارے میں کوئی دو راستے نہیں ہیں۔‘‘
وفد کے دورے کے مشاہدات
کمیشن نے کہا کہ جہاں بھی اس کا وفد گیا اسے مسلم مکانات اور دکانوں کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا ہوا ملا۔ بھجن پورہ کے علاقے میں وفد نے پایا کہ مسلم ملکیت کی دکانوں کو لوٹ لیا گیا اور نذر آتش کیا گیا لیکن ہندوؤں کی دکانیں اچھوت رہ گئیں۔ کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یمنا وہار میں دونوں برادریوں کی دکانیں اور مکانات متاثر ہوئے ہیں۔
کھجوری خاص میں گلی نمبر 5 کے رہائشیوں نے وفد کو بتایا کہ 23 جنوری کو بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما کپل مشرا کے ذیریعے پولیس کو دھمکی دینے کے فورا بعد ہی تشدد کا آغاز ہوا۔ وفد نے کہا ’’یہ گلی اندھی گلی ہے جہاں 100 افراد رہتے تھے اور وہ خود ہی مرکزی سڑک سے بھاگ نہیں سکتے تھے۔ انھوں نے 25 فروری کی صبح پولیس کے تحفظ میں اس جگہ کو چھوڑ دیا۔ اسی گلی میں ہمیں بی ایس ایف [بارڈر سیکیورٹی فورس] کے جوان محمد انیس کا مکان ملا جس کو بری طرح نقصان پہنچا تھا۔‘‘
کمیشن نے یہ بھی کہا کہ دہلی حکومت نے جس معاوضے کا اعلان کیا ہے وہ ناکافی ہے اور اس کو دگنا کرنا چاہیے۔
اس کے علاوہ خان نے کہا کہ ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بھی تشکیل دی جائے گی، جس میں صحافی، انسانی حقوق کے کارکنان اور سول سوسائٹی کے ممبر شامل ہوں گے۔