دہلی تشدد: مرنے والوں کی تعداد 18 تک پہنچ گئی، پولیس تباہی کو روکنے میں ناکام
تشدد سے متاثرہ شمال مشرقی دہلی کو فوج کے حوالے کیوں نہیں کیا جاتا؟
نئی دہلی، 26 فروری—شمال مشرقی دہلی کے علاقوں جعفرآباد، موج پو، گوکلپوری، چاند باغ کاروال نگر، کھجوری خاص، برہماپوری اور گھونڈہ علاقوں میں تین دن سے تشدد جاری ہے اور مسلح غنڈے پولیس کے سامنے تشدد کر رہے ہیں۔ ہلاکتوں کی مجموعی تعداد 18 تک پہنچ گئی ہے اور ڈیڑھ سو سے زیادہ افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔ ان میں سے متعدد کی حالت تشویش ناک بتائی جارہی ہے اور مختلف اسپتالوں میں ان کا علاج جاری ہے۔
مرکزی وزارت داخلہ، جو قومی راجدھانی میں امن و امان برقرار رکھنے کی ذمہ دار ہے، تشدد پر فوری طور پر روک لگانے کے لیے کئی حلقوں کے مطالبات کے باوجود فوج کو تعینات کرنے میں ناکام رہی ہے۔
وزارت داخلہ کو سبق لینا چاہیے کہ کس طرح فوج کی تعیناتی میں تاخیر کی وجہ سے 2002 میں مسلم مخالف فسادات کے دوران اور دہلی میں 1984 میں سکھ مخالف تشدد کے دوران تباہی ہوئی تھی۔ گجرات میں فوج تین دن تک جاری رہنے والے تشدد کے بعد تعینات کی گئی تھی، جس میں 1200 سے زیادہ افراد، جن میں 1000 کے قریب مسلمان تھے، ہلاک اور چار لاکھ سے زیادہ بے گھر ہوئے تھے۔ دہلی میں 1984 میں سکھ مخالف تشدد میں 2000 سے زیادہ افراد کی موت ہوئی تھی، جن میں بیشتر سکھ تھے۔
فوج کی تعیناتی سب سے زیادہ اہم تھی کیونکہ زمینی اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ جب بھیڑ لوہے کی سلاخوں، پتھروں اور لاٹھیوں سے اشتعال انگیز نعرے بلند کرتے ہوئے مسلمانوں پر حملہ کررہی تھی اور ان کی دکانوں، مکانات اور مذہبی املاک کو تباہ کررہی تھی تو پولیس خاموش تماشائی بن کر کھڑی تھی یا اس نے دوسری طرف منہ پھیر لیا تھا۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ اتوار کے روز سی اے اے مخالف مظاہرین کے خلاف ہجوم کی رہنمائی کرنے والے بی جے پی رہنما کپل مشرا کے خلاف بھی پولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی جس کے بعد یہ تشدد شروع ہوا۔
امیر جماعت اسلامی ہند جناب سعادت اللہ حسینی اور نائب امیر جناب محمد سلیم انجینئر سمیت بہت سے سیاسی و سماجی رہنما دہلی پولیس کمشنر امول پٹنایک کے پاس جا کر ذاتی طور پر دہلی سے متاثرہ علاقوں کو فوج کے حوالے کرنے کا مشورہ دیتے رہے، لیکن پولیس پر کچھ اثر نہیں ہوا۔
بی جے پی رہنما سبرامنیم سوامی نے بھی مشورہ دیا کہ تشدد کو روکنے کے لیے فوج کو تعینات کیا جائے۔ انھوں نے وزیر دفاع راجناتھ سنگھ سے کہا کہ وہ امت شاہ کو صلاح دیں کہ وہ سی اے اے مخالف تشدد سے نمٹنے کے لیے فوج کو طلب کریں۔ انھوں نے کہا کہ ہماری جمہوریت کی بقا کے لیے تشدد کا خاتمہ ضروری ہے۔
دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے بھی منگل کے روز امت شاہ سے شمال مشرقی دہلی کی صورت حال کے سلسلے میں ملاقات کی۔ لیکن یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ ان دونوں کے مابین کیا بات ہوئی۔ تشدد پر قابو پانے میں اپنا اثرورسوخ استعمال کرنے کے سلسلے میں کیجریوال کے متعصبانہ رویہ نے بہت سارے لوگوں کو ناراض کردیا ہے، جنھوں نے منگل کی رات دیر تک ان کی رہائش گاہ کے باہر مظاہرہ کیا۔
پولیس کے سامنے غنڈوں نے زخمی لوگوں کو اٹھانے اور اسپتالوں میں لے جانے کے لیے ایمبولینسوں کو بھی روک دیا۔ ڈاکٹروں نے پولیس عہدیداروں کو خط لکھا کہ وہ ایمبولینس کے عملے کو بھی تحفظ فراہم کریں۔
یہ قومی رجدھانی میں پہلا موقع تھا جب صحافی غنڈوں کی ذریعے تشدد کا نشانہ بنائے گئے اور ان سے ان کے مذہب کے بارے میں پوچھا گیا۔