دھرم پال کی کتاب’’ ترک اسلام‘‘ کا جواب

مولانا ابوالوفا ثناء اللہ امرتسری کے قلم سے اعتراضات کے مدلل جوابات

ڈاکٹر ظفردارک قاسمی،علیگڑھ

 

مولانا ابوالوفا ثناء اللہ امرتسری نے، ہندوؤں خصوصاً آریہ سماجیوں نے قرآن کریم، سیرت طیبہ اور تاریخ اسلام پر جو اعتراضات کیے تھے ان کا مدلل اور تشفی بخش جواب دیا ہے۔ گزشتہ اقساط میں مولانا ابوالوفا ثناء اللہ امرتسری کے متعلق یہ بات تفصیل سے آ چکی ہے کہ انہوں نے آریہ سماجیوں کے رد میں متعدد کتب لکھ کر اپنا دینی فریضہ انجام دیا۔ اسی قبیل کی ایک اور کتاب مولانا ابوالوفا ثناء اللہ امرتسری نے تحریر کی ہے۔یہ کتاب دھرم پال کی کتاب ’’ترک اسلام‘‘ کے جواب میں لکھی گئی۔ اور اس کو ’’ترک اسلام‘‘ (اسلام کا موقف) سے موسوم کیا ہے۔ اس کا املا اس طرح ہے ’ت‘ پر ضمہ ہے اور ’ر‘ ساکن ہے۔ یہ کتاب 104 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کی پہلی اشاعت 1903میں ہوئی اور طبع ششم 1927میں۔ راقم کے سامنے جو نسخہ ہے وہ الکتاب انٹرنیشنل جامعہ نگر نئی دہلی کا مطبوعہ ہے۔ البتہ اس نسخے میں یہ درج نہیں ہے کہ اس کی پہلی طباعت کہاں سے ہوئی تھی۔ اس کتاب کے اندر سوامی دیانند مصنف، ستیارتھ پرکاش اور دھرم پال کے ان 116اعتراضات کا جواب ہے جو انہوں نے قرآن حکیم پر کیے تھے۔ یہ بات آ چکی ہے کہ دھرم پال مرتد ہوکر آ ریہ سماجی طبقہ میں شامل ہوگیا تھا اور اس نے کئی کتابیں لکھ کر اسلام پر انگشت نمائی کی تھی۔ یاد رہے دھرم پال 14/جون 1914 میں اسلام میں دوبارہ داخل ہوگئے تھے۔
سبب تالیف
مولانا ابوالوفا ثناء اللہ امرتسری نے ابتدا کتاب میں درج کیا ہے۔ 14/ جون 1903کا ذکر ہے ایک نوجوان مسلمان زادہ عبد الغفور نامی اکیس سالہ نے گجرانوالہ کے آریہ سماج میں داخل ہو کر دھرم پال بن کر اپنا رسالہ موسومہ ’’ ترک اسلام‘‘ شائع کیا جس سے مسلمانوں میں اس سرے سے اس سرے تک بجلی کی طرح آ گ لگ گئی۔ ہر فرقے نے اس کے جواب دیے۔ سب سے پہلے خاکسار راقم کی طرف سے جواب نکلا جس کا نام تھا ’’ ترک اسلام‘‘ مولانا کی اس کاوش کا اثراس بابت مولانا امرتسری نے ترک اسلام کے مصنف دھرم پال کے حوالے سے نہایت اہم باتیں درج کی ہیں۔
’’جب مولوی نورالدین ( قادیانی) نے رسالہ نورالدین اور مولوی ثناء اللہ صاحب نے ’’ترک اسلام‘‘ وغیرہ کے ذریعہ اسلام اور مُلاازم کے درمیان خط ممیز کھینچ دیا تو میری تصانیف کی قیمت ایک دیا سلائی کے برابر رہ گئی۔ میرے اعتراضات کا جواب دینے میں ’’نورالدین‘‘ ( مولوی حکیم نورالدین نے بھی ترک اسلام کے جواب میں ایک رسالہ لکھا تھا جس کا نام تھا نورالدین) کے مصنف کا نشانہ علمی معلومات کی بدولت بے خطا ہوتا تھا ۔ مگر ’’ترک اسلام‘‘ کا وار زیادہ ستم ڈھاتا تھا۔ جبکہ وہ میرے قلعہ کو جو میں سخت جد وجہد کے بعد تفسیروں کی بنا پر تعمیر کرتا تھا صرف اتنا سا فقرہ لکھ کر مسمار کر ڈالتا تھا کہ ’’تفسیر کا جواب تفسیر لکھنے والوں سے لو۔ قرآن مجید اس کا ذمہ دار نہیں ہے‘‘ اس ایک فقرہ نے ’’ترک اسلام’’ اور ’’تہذیب الاسلام‘‘ (اس نام سے بھی دھرم پال نے ایک کتاب لکھی تھی اس کا جواب مولانا امرتسری نے تغلیب الاسلام کے نام سے دیا تھا) کو چھلنی کرڈالا۔ میں نے نتیجہ نکال لیا کہ ’’نورالدین‘‘ کے مصنف کے ساتھ تو بحث چل سکتی ہے مگر ’’ترک اسلام‘‘ کے مصنف کے ساتھ جو ’ملاّازم‘ کا سرے سے ہی منکر ہے، بحث کا چلنا مشکل ہے۔ مگر لطف یہ ہوا کہ ’’نورالدین‘‘ کے مصنف نے میرے مقابلے پر دوبارہ قلم نہ اٹھایا حالانکہ میں آرزو مند تھا کہ اس کے ساتھ بحث کا سلسلہ جاری رہے۔ لیکن ’’ترک اسلام‘‘ کے مصنف نے ’’تہذیب الاسلام‘‘ کے جواب پر قلم اٹھایا مگر میں اس کے ساتھ بحث کرنے کو تیار نہیں تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ’’نورالدین‘‘ کے مصنف نے میرے مقابلے پر دوبارہ قلم نہ اٹھایا ۔ اور میں نے ’’ترک اسلام‘‘ کے مصنف کے مقابلے پر قلم اٹھانے سے انکار کر دیا۔ اس طرح ہماری پہلی جنگ کا خاتمہ ہو گیا۔ مگر کچھ عرصہ بعد دوبارہ ملّاازم کو رگڑنے کا میرے دل میں ارادہ پیدا ہوا۔ اس دفعہ میں نے تاریخ سے مدد لی اور ’’نخل اسلام‘‘ کے نام سے جلی سڑی ہوئی کتاب شائع کی۔ آریہ سماج کے اخبارات نے اس کتاب کا نہایت زور دار الفاظ میں ریویو کیا۔ مسلم اخبارات نے اس کے بر خلاف شور مچایا۔ میں چاہتا تھا کہ پرانے ٹائپ کے ملّا لوگ میرے مقابلے میں آئیں تاکہ مجھے اس بات کو جاننے کا موقع ملے کہ وہ ان باتوں کا کیا جواب رکھتے ہیں۔ لیکن بد قسمتی سے اس دفعہ بھی ’’ترک شیرازی‘‘ میدان میں آ کودا اور یہ کہہ کر کہ قرآن مجید یا اسلام تواریخ یا تفاسیر کا جواب دہ نہیں ’’نخل اسلام‘‘ پر ’’تبر اسلام‘‘ مار کر چلتا بنا۔ اس طرح پرانے ٹائپ کے جن ملّاؤں کو رگڑنے کے لیے میں نے یہ دوسری کوشش کی تھی وہ پھر بچ گئے آخر کار جب میں نے دیکھا کہ ’’ملا ازم‘‘ کے ماننے والے تو میدان میں آتے نہیں اور جو میدان میں آتے ہیں وہ ’’ملاازم‘‘ کے ماننے والے نہیں ہوتے تو میں نے اس تمام بحث کا خاتمہ کر ڈالا اور ترک اسلام سے لے کر آخری تصنیف تک جس قدر تھیں ان سب کو میں نے 14/ جون 1911 کو جلا کر خاک سیاہ کر دیا‘‘۔ درج بالا اقتباس کے تناظر میں یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اسلام کی تعبیر و تشریح میں روشن خیالی اور مثبت فکر و نظر کا عمل دخل لازمی ہے۔ جس طرح دھرم پال نے ملّاازم کو ہدف تنقید بنایا ہے اس سے یہ بات ثابت ہوتی کہ جب سے اسلام میں فرقوں اور خود ساختہ مسلکوں کا رواج عام ہوا ہے تب سے اسلام کی تشریح و وضاحت اپنے اپنے مسلک کی احیاء وتجدید کی بنیاد پر کی جا رہی ہے۔ یقیناً یہ صورت حال بہت خطر ناک ہے۔ اس نظریہ سے اسلام کی اصل روح دھندلی ہو رہی ہے۔ ہمیں اپنے مسلکی خول سے باہر آنا ہوگا اور اسلام کی درست تفسیر و تشریح کرنی ہوگی۔ ملاازم کا نقصان جہاں داخلی ہے وہیں بیرونی بھی ہو رہا ہے۔ عالمی تناظر اور موجودہ اسلام پر اٹھنے والے اعتراضات کا جائزہ لیا جائے تو اس کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ بہت سارے شکوک و شبہات ہماری اپنی وضع کردہ تعبیر کا نتیجہ ہیں۔ جو لوگ مسلکی تصلب پسندی یا اپنے فرقوں کی ترویج واشاعت کو مد نظر رکھتے ہیں یقیناً وہ صحیح اسلام کو پیش نہیں کر رہے پیں۔ ہمیں معترضین کے اعتراضات کو رفع کرنے کے لیے اسلام کو اس نہج پر پیش کرنا ہوگا جو رسول کریمﷺ اور صحابہ کرام نے پیش کیا تھا۔ اگر ہم تفسیروں کو دیکھیں یا حدیثوں کی شروحات پر نظر ڈالیں تو ان میں مسلکی چھاپ اور فکری سطحیت صاف نظر آ تی ہے۔ اس لیے ہمیں بہر صورت اسلام کی درست تعبیر کرنی ہوگی۔ یہی ہر دور اور زمانے کا مطلوب رہا ہے۔ دھرم پال کے جملہ اعتراضات کا چربہ اصل قرآن وحدیث کی تعلیمات نہیں تھیں بلکہ اس نے ان نظریات کو بنیاد بنا کر اسلام پر حملہ کیا جن کو مسلکی متشددین نے اسلامی احکامات و ارشادات بنا کر پیش کیا۔ اور ان کو بد قسمتی سے اصل دین تسلیم کر لیا گیا۔ اس لیے اسلام کے متعلق ہمیں بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
جواب دینے کا اسلوب
مولانا ابوالوفا ثناء اللہ امرتسری نے کتاب کے مقدمے میں چودہ اصولی مگر مختصر نکات بیان کیے ہیں جن سے مولانا کا طرز استدلال سامنے آ تا ہے ۔ نیز انہوں نے بتایا ہے کہ اگر اسلام کے ان اصولوں کو مد نظر رکھا جائے تو یقیناً کوئی بھی بے جا اسلام پر اعتراضات نہ کرپائے گا۔
مثلاً ایک اقتباس قلم بند کیا جا تا ہے۔
’’ہر ایک زبان میں الفاظ کا اصلی اور لغوی ترجمہ معتبر ہوتا ہے لیکن جہاں کوئی قرینہ ایسا ہو جو اصل معنی سے روکتا ہو تو اس کے مناسب دوسرے معنی لیے جاتے ہیں مثلاً شیر کا لفظ اگر بغیر کسی قرینے کے ہوگا تو وہی جنگلی درندہ مراد ہوگا اور اگر کسی قرینہ کے ساتھ ہوگا تو بہادر کے معنی بھی ہو سکیں گے۔ اس اصول کو دیانندی جی نے بھی اپنی کتاب بھومکا میں تسلیم کیا ہے۔ ‘‘ایک اور اقتباس ملاحظہ کیجیے۔
’’ہر ایک کلام کے صحیح معنی وہی ہوں گے جو متکلم خود بیان کرے یا اس کی منشا اور حیثیت کے مطابق ہوں۔ متنازعہ کلام کے متصل ہی متکلم کا بیان ہو یا آگے پیچھے، بیان حالی ہو یا مقالی۔ یعنی وہ اپنے کلام کا مطلب لفظوں میں بتلادے یا اس کی وضع برتاؤ سے ظاہر ہو‘‘۔ پتہ یہ چلا کہ بہت سارے اختلافات کی بنیاد متکلم کی منشا کو نہ سمجھ پانا یا الفاظ کے معنی سے کچھ اور مراد لینا بھی ہے۔ مفہوم کچھ اور ہوتا اور سمجھ کچھ اور لیا جاتا ہے۔ آ ج بہت سارے اختلافات اور اعتراضات کا سبب یہی ہے۔ جب متکلم کی اصل مراد کو نہیں سمجھا جائے گا اس وقت تک کوئی بھی فیصلہ کن بات نہیں کہی جا سکتی ہے۔ کتاب کو سوال و جواب کی نہج پر ترتیب دیا گیا اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے دھرم پال کی کتاب ’’ترک اسلام‘‘ کی پوری عبارت نقل کرتے ہیں اس پر آریہ کا لفظ لکھتے ہیں یعنی آریہ نمبر (1) پھر اس کا جواب دیتے ہیں اور اس پر مسلمان کا لفظ لکھتے ہیں ۔ مسلمان (1)
بعض اعتراضات کا جائزہ
یہ بات ذکر کی جا چکی ہے کہ اس کتاب میں قرآن پر کیے گئے 116 اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے لہذا تمام اعتراضات کو نقل کرنا طوالت کے باعث مناسب نہیں ہے۔ مثلاً دھرم پال نے یہ اعتراض کیا کہ قرآن کی تعلیم یہ ہے کہ خدا منصف ہے۔ مگر توبہ قبول کر لیتا ہے اور گناہ معاف کردیتا بھلا انصاف اور معافی کا میل کہاں؟ جہاں معافی آئے انصاف اُڑ گیا۔ (سورہ بقرہ 61)
اس سوال کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔ جواب نہایت تفصیلی اور تحقیقی ہے۔ ’’انصاف اور عدل کے معنی یہ ہیں کہ ہر ایک شے کو اس کے اصل مقام پر رکھنا۔ پس تو یہ جو انسان کرتا ہے خدا کے آگے گڑ گڑاتا ہے عاجزی کرتا ہے روتا ہے۔ حالانکہ نہ خدا کو اور نہ اس کے عذاب کو اس نے دیکھا ہے۔ صرف اس کی قدرت اور خدائی کے آثار سے اتنا جانتا ہے کہ کوئی ہے۔ تو کیا اس عاجزی اور انکساری کی بھی کوئی جگہ ہے جس پر اس کو رکھا جائے؟ اور انصاف اور عدل کا معنیٰ اور اقتضاء پورا ہو؟ اگر یہ عاجزی اور توبہ قبول ہوئی تو فبھا ورنہ کہنا پڑے گا کہ اس بے چارے سے انصاف نہیں ہوا۔ خدا نے اس کے لیے عدل نہیں کیا۔ سچ پوچھو توتوبہ ہی عدل کا مقتضاء ہے۔ اس کے بعد مصنف نے توبہ کا فلسفہ بیان کیا ہے اور قرآن کی سورہ نساء کی ایک آیت سے استدلال کیا ہے۔ إنما التوبة علی الله الذين يعملون الخ،، آیت کا ترجمہ ملاحظہ کیجئے۔ ’’یعنی توبہ انہی لوگوں کی قبول ہوتی ہے جو برے کام غفلت سے کر گزرتے ہیں پھر فوراً توبہ کرتے ہیں نہ ان لوگوں کی جو مرتے دم تک جب ان کو موت اور آخری سفر کے آثار معلوم ہوتے تو برے برے کاموں میں مشغول رہیں اور اس وقت توبہ کرنے بیٹھیں‘‘ اس کے بعد اس اعتراض کا ایک الزامی جواب دیا ہے۔ چنانچہ یجر وید ادیہائے 1 شلوک 5 میں مذکور ہے ’’اے پرمیشور مجھے سچے نیک چلن اور دھرم پر عمل کرنے کی طاقت ہو آپ مجھ کو ہمت دیجیے میرا یہ سچے دھرم کا عہد آپ کی عنایت سے پورا ہو۔ میں آج سے سچے دھرم کی پابندی اور جھوٹ، کھوٹے چلن سے اور ادھرم سے دوری اختیار کرتا ہوں‘‘ آگے مصنف نے لکھا کہ اسی مضبوط عہد کی پابندی کو توبہ کہتے ہیں۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ توبہ سے وہ گناہ معاف نہیں ہوتے جو بندوں کے حقوق سے متعلق ہیں بلکہ اس کے لیے اسلامی فلسفہ یہ ہے کہ صاحب معاملہ جب تک معاف نہیں کرے گا معاف نہیں ہوگا۔
ایک اعتراض یہ کیا کہ قرآن شریف کی تعلیم یہ ہے کہ ’’خدا نے اکثر لوگوں کے دلوں پر مہر لگادی اور کانوں میں پردے ڈال دیے تاکہ وہ اس کی بات کو نہ سمجھ سکیں۔ پھر ان کو سمجھانے کے لیے نبی بھیجنا سراسر حماقت ہے اور جب اس نے خود ہی کانوں پر مہر لگا دی تو عذاب ان کو کیوں چاہیے کہ خدا خود دوزخ میں پڑجائے یا جو اس قسم کی فلاسفی بناتا ہو وہ۔ افسوس صد افسوس راہ ہدایت کہا‘‘۔
یہ سب جانتے ہیں کہ یہ آیت کس پیرائے میں نازل ہوئی ہے۔ مولانا نے اس کا بڑا تفصیلی جواب لکھا ہے لیکن یہاں ستیارتھ پرکاش کا ایک اقتباس نقل کرنا مناسب ہوگا ۔
’’جو مذہب دوسرے مذہبوں کو جن کے ہزاروں کروڑوں آدمی معتقد ہوں جھوٹا بتلا دے اور اپنے کو سچا ظاہر کرے اس سے بڑھ کر جھوٹا اور مذہب کون ہوسکتا ہے‘‘ ان اعتراضات کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ دھرم پال نے قرآن کا مطالعہ تو کیا مگر بلا سوچے سمجھے عناد و تعصب میں قرآن پر اعتراض داغ دیے۔ جتنے بھی انہوں نے قرآن مجید پر الزام عائد کیے ہیں ان میں لاعلمی اور جہالت کا عنصر غالب نظر آتا ہے۔ قرآن کے احکام کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ آیت کے شان نزول اور اس کے سیاق و سباق سے گہری واقفیت و جانکاری لازم ہے۔
کتاب کی اہمیت
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب دھرم پال دوبارہ دولت اسلام سے سرفراز ہو گئے اور اپنی تمام کتب کو نذر آتش کر دیا تو ان اعتراضات کو دوبارہ اجاگر کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ اسلام پر الزام و اتہام کا سلسلہ ابھی جاری ہے۔ اگر کوئی بھی اس طرح کے اعتراضات قرآن و حدیث یا سیرت نبوی پر کرے تو ہمیں اس کے جواب کے لیے ہر وقت تیار رہنا ہوگا۔ دوسری بات یہ ہے کہ علمی طور پر اس طرح کی چیزوں کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔ اسی طرح ہندوستان جیسے تکثیری سماج میں اگر قرآن کا تعارف پیش کرانے کے لیے ان تمام اعتراضات کا مطالعہ اور اس کے پس منظر کو بتانا اہل علم کی اولین ذمہ داری ہے۔ آج کے دور میں ایک ضروت اور ہے جس پر کام کرنے کی نہایت سخت ضرورت ہے وہ یہ کہ ہندوؤں کی جانب سے اسلام پر جو اعتراضات کیے گئے ہیں ان کو از سر نو مطالعہ کرنا اور جدید تناظر میں پیش کرنے کی افادیت سے سردست انحراف نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ان تمام احوال کو مد نظر رکھتے ہوئے اس طرح کے علمی کام کی اہمیت دو بالا ہو جاتی ہے۔ اسی طرح دعوتی نقطہ نظر سے بھی اس طرح کے اعتراضات کی اہمیت مسلم ہے۔ جب بھی اس طرح کا کوئی اعتراض کرے تو ہمیں جو رہنما خطوط اس طرح کی کتابوں میں ملتے ہیں ان پر عمل کر کے معترضین کو مسکت جوابات دیے جاسکتے ہیں۔
***

دھرم پال کے جملہ اعتراضات کا چربہ اصل قرآن وحدیث کی تعلیمات نہیں تھیں بلکہ اس نے ان نظریات کو بنیاد بنا کر اسلام پر حملہ کیا جن کو مسلکی متشددین نے اسلامی احکامات و ارشادات بنا کر پیش کیا اور ان کو بد قسمتی سے اصل دین تسلیم کر لیا گیا۔ اس لیے اسلام کے متعلق ہمیں بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 13 تا 19 دسمبر، 2020