دو بالغوں کو آپسی رضامندی سے ایک ساتھ رہنے کا حق حاصل ہے، خاندان کے افراد اس میں مداخلت نہیں کر سکتے: الہ آباد ہائی کورٹ
اترپردیش، دسمبر 3: بار اینڈ بنچ کے مطابق الہ آباد ہائی کورٹ نے بدھ کے روز فیصلہ سنایا کہ دو بالغ افراد کو آپسی رضامندی سے اپنے کنبے کی مداخلت کے بغیر ساتھ رہنے کا حق ہے۔ عدالت نے نوٹ کیا کہ اگرچہ ہندوستانی معاشرے میں ایسے رشتوں کو قبول نہیں کیا جاتا ہے، لیکن وہ قانون کے تحت کسی بھی جرم کے مترادف نہیں ہیں۔‘‘
عدالت کا حکم ایک جوڑے کی جانب سے خاتون کے اہل خانہ کی طرف سے ہراساں ہونے سے تحفظ کے لیے دائر درخواست کی بنیاد پر تھا۔ درخواست گزاروں کی عمر 24 اور 28 سال ہے۔ انھوں نے عدالت کو بتایا کہ وہ چھ ماہ سے ساتھ رہ رہے ہیں۔
درخواست گزاروں میں سے خاتون نے عدالت کو بتایا کیا کہ اس کے اہل خانہ اسے زبردستی کسی اور شخص سے شادی کرنے پر مجبور کررہے ہیں لہذا وہ اپنے دوست کے ساتھ رہنے چلی گئی۔ جوڑے نے مارچ میں پولیس تحفظ کی درخواست کی تھی لیکن ان کی درخواست پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
عدالت نے فیصلہ سنایا ’’یہ طے شدہ قانون ہے کہ جب ایک لڑکا اور ایک لڑکی بالغ ہیں اور وہ اپنی مرضی کے ساتھ آزاد زندگی گزار رہے ہیں، تو والدین سمیت کسی کو بھی اس میں مداخلت کرنے کا اختیار نہیں ہے۔‘‘
عدالت نے نوٹ کیا کہ عدالت عظمیٰ نے بھی کئی فیصلوں میں بالغوں کے اپنی مرضی سے ساتھ رہنے کی آزادی کے حق کو برقرار رکھا ہے اور فیصلہ دیا ہے کہ خاندان کو اس میں مداخلت کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔
بینچ نے درخواست گزاروں کو بھی ہدایت کی کہ اگر وہ کسی پریشانی کا سامنا کرتے ہیں اور انھیں تحفظ کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ پولیس سے رجوع کریں۔ عدالت نے اپنے حکم میں کہا ’’اگر درخواست گزاروں کی پرامن زندگی میں کوئی خلل پڑتا ہے تو درخواست گزار سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس فرخ آباد سے رجوع کریں گے جو درخواست گزاروں کو فوری تحفظ فراہم کریں گے۔‘‘
واضح رہے کہ ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ ایسے وقت میں آیا ہے جب کہ اتر پردیش میں ’’لوجہاد‘‘ قانون نافذ ہو چکا ہے جس کے تعلق سے بین المذاہب شادی کرنے والے جوڑوں کے کئی خدشات ہیں اور اسے ذاتی آزادی کے حق کے خلاف قرار دیا جا رہا ہے۔