دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بحران کا شکار
معاشی انحطاط سے باہر نکلنے کے لیے حالیہ اعلان کردہ راحتی پیکیج کافی نہیں
پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
اپریل تا جون 2020میں چین سے شروع ہونے والی کورونا وبا نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ان مہینوں میں ساری دنیا کی اقتصادی سرگرمیاں بالکل تھم کر رہ گئی تھیں۔ دنیا کی سب سے بڑی معیشت امریکہ کا حال بھی بدحال ہوگیا۔ مگر جاریہ سال جولائی تا ستمبر کی امریکی معیشت میں بہتری کے آثار نظر آنے لگے اور اس سہ ماہی میں امریکی معیشت کی شرح بھی 7.4فیصد درج کی گئی کیونکہ امریکی حکومت نے اپنے لوگوں کو بڑی فراخدلی سے راحتی پیکیج دیا جس سے صارفین کی قوت خرید بڑھی اور لوگوں نے ان پیسوں کو اپنی ضروریات پر خرچ کرنا شروع کیا۔ اس سے قبل اپریل تا جون سہ ماہی میں 9فیصد کی گراوٹ درج کی گئی تھی۔ اس ترقی سے معیشت میں منفی اثرات کو زائل کرتے ہوئے امریکی معیشت تیزی سے بحال ہوگئی اور تباہ حال معیشت کی ریکوری امریکی تاریخ کی سب سے بڑی ریکوری بن گئی یہ بھی حقیقت ہے ابھی بھی امریکی شہری فوڈ بینک کے ذریعے اپنا پیٹ پال رہے ہیں۔ تاریخ میں اب تک کی سب سے بڑی گراوٹ ہونے کے باوجود امریکی جی ڈی پی نے تیسری سہ ماہی میں سب سے بڑی تیزی درج کی ہے۔ امریکہ کے کامرس ڈپارٹمنٹ نے کہا کہ جولائی تا ستمبر 2020میں امریکہ کا اینولائزڈ گروتھ ریٹ(Annual growth rate) 33.1فیصد رہا جبکہ گزشتہ سہ ماہی میں امریکی گروتھ میں 31.4فیصد گراوٹ درج کی گئی تھی۔ اس سے قبل پہلی سہ ماہی جنوری تا مارچ میں امریکی جی ڈی پی میں 5فیصد کی گراوٹ تھی۔ اینولائزڈ گروتھ ریٹ کا مطلب ہے کہ ایک سہ ماہی میں اعداد و شمار کی بنیاد پر آئندہ پورے سال کے شرح نمو کا اندازہ۔ یعنی ایک سہ ماہی کی طرح پورے سال اس طرح کی نمو ہوتی رہے گی تو جی ڈی پی میں جتنی ترقی ہوگی اسے ہی اینولائزڈ گروتھ ریٹ کہا جاتا ہے۔
دوسری طرف سال کی تیسری سہ ماہی میں یورو زون کی معیشت میں امید سے زیادہ تیزی آئی ہے اس سے قبل کورونا قہر کے دوران ان علاقوں کی جی ڈی پی میں بہت زیادہ کمی دیکھنے کو ملی تھی۔ یوروپی یونین کے اسٹیٹسکس ڈپارٹمنٹ کے مطابق یورو زون کی جی ڈی پی گروتھ تیسری سہ ماہی میں 12.7فیصد درج کی گئی ہے۔ اس سے قبل اپریل تا جون سہ ماہی میں 11.8فیصد جی ڈی پی گراوٹ درج کی گئی تھی۔ یہ واضح رہے کہ یورو زون میں 19ممالک ہیں جو کرنسی کی شکل میں یورو استعمال کرتے ہیں۔ ورلڈ بینک کے مطابق یورو زون کی جی ڈی پی گزشتہ سال 13,335.84 ملین امریکی ڈالر تھی جو دنیا کی معیشت میں 11.06 فیصد کی حصہ داری رکھتی ہے۔
ادھر چین بھی کورونا وبا پھوٹنے کے بعد منصوبہ بندی کرتے ہوئے 2035کا ویژن دنیا کے سامنے پیش کررہا ہے صرف چین ہی ہے جو بڑی عالمی معیشت کے طور پر زبردست ترقی کرتے ہوئے آگے بڑھ رہا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ چینی معیشت کورونا قہر کو قابو میں کرتے ہوئے ماقبل کورونا کے مقام پر فائز ہوگیا ہے۔ چین 2020کے پہلے 9ماہ میں الگ سے 90 لاکھ شہری روزگار پیدا کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ اس کی گھریلو آمدنی میں 0.6فیصد کا اضافہ ہوا۔ آٹو سیکٹر میں زبردست خریداری ہوئی۔ کورونا وبا کی وجہ سے شعبہ خدمت بند پڑا ہوا تھا۔ اس میں بھی یکلخت بڑی تیزی دیکھنے کو ملی۔ چین کی معاشی ترقی اس تیزی سے ہورہی ہے کہ اسے محض پروپگنڈہ نہیں کہا جاسکتا۔ دنیا کی دوسری سب سےبڑی معیشت نے جاریہ سال جولائی تا ستمبر میں گزشتہ سال اسی مدت میں 4.9فیصد کا اضافہ درج کیا۔ نیشنل بیورو آف اسٹیٹسکس (این بی ایس) کے اعداد و شمار میں یہ رپورٹ کی گئی ہے ۔ یہ معاشی ترقی ماہرین اقتصادیات کے 5.2فیصد اندازہ سے کم ہے۔ ساتھ ہی چین کا اس سہ ماہی میں سال دو سال کی بنیاد پر 9.9فیصد برآمدات اور 3.2فیصد درآمدات بڑھی ہے۔ این بی ایس کے مطابق صنعتی پیداوار میں ستمبر میں 6.9فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ دنیا کے دیگر ملکوں کے مقابلے میں چین کو سب سے بڑی کامیابی ملی کہ اس نے ابتدا میں کورونا وبا کو قابو میں کرلیا جبکہ دنیا بھر میں اس وبا کو کنٹرول نہیں کیا جاسکا۔ دنیا کے دوسرے ملکوں کی طرح کورونا وائرس واپس بھی نہیں آیا۔ گاہے بگاہے کسی کسی جگہ پر اس وبا نے جیسے ہی سر اٹھایا اسے تیزی سے دبادیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک کی طرح ایک لاکھ 22ہزار اموات نہیں ہوئیں۔ تعطیلات میں سفر معمول کی طرح رہا۔ گولڈن ویک کے موقع پر 64کروڑ چینیوں نے اپنے گھروں کو چھوڑا وہاں مختلف تیوہاروں کے موقع پر لوگ اکٹھے ہوئے۔ اب تو درجہ حرارت کی کمی سے بھی وبا دوبارہ نہیں لوٹی۔ اس سال کے شروع میں ووہان سے اس وائرس کی شروعات ہوئی تو بھی لوگ وہاں سے یکطرفہ ٹکٹ لے کر اپنے سامان کے ساتھ گھر سے نکل گئے۔ یہی وجہ ہے کہ اب چین دوسرے ملکوں پر 15سالہ منصوبہ بناکر غلبہ کا خواب دیکھ رہے تو وہ اس کا اہل ہے۔
وہیں بھارتی معیشت میں ترقی کے اعداد و شمار چین کے بالکل الٹ ہیں۔ بھارتی معیشت میں اپریل تا جون کے درمیان تقریباً 24فیصد کی منفی گروتھ ہوئی۔ یعنی ان مہینوں میں گزشتہ سال کے مقابلے معیشت ایک چوتھائی چھوٹی ہوگی۔ امسال آئی ایم ایف کے مطابق جی ڈی پی میں 10.3فیصد کی گراوٹ کا اندیشہ ہے۔ یہ بھی اندازہ لگایا جارہا ہے کہ آنے والے سالوں میں 8-7کی رفتار سے معیشت میں بہتری ہوسکتی ہے۔ اگر 11.6فیصد کی رفتار سے ہماری معیشت ترقی کرتی ہے تو 5 ٹریلین ڈالر کا ہدف ہمیں 2027تک ہی حاصل ہوسکے گا جو تقریباً ایسے ملکی حالات میں ناممکن ہے۔ ہماری معیشت سپلائی اور ڈیمانڈ پر منحصر ہے۔ سرکاری راحتی پیکیج کا طلب بڑھانے کے لیےضروری اعلان ہو جس کے تحت مزدوروں اور خط افلاس سے نیچے رہنے والوں کی جیب میں اگلے 6 تک ماہانہ 2000روپے نقد دیےجائیں۔ مگر حکومت اس پر خاموش ہے۔ اس لیے یہاں کے لوگ بھوکے رہنے پر مجبور ہیں۔ ہمارے یہاں اناج کے ذخائر موجود ہیں جو ہماری ضرورت سے بہت زیادہ ہے۔ اتنا اناج ہونے کے باوجود 107ممالک کے بھوک انڈیکس میں ہمارا ملک 94ویں مقام پر ہے جنوبی اشیا کے جتنے ممالک ہیں وہ ہم سے بہتر مظاہرہ کررہے ہیں۔ کہیں نہ کہیں نظام خوراک میں خرابی ہے جس کی وجہ سے دنیا کے سب سے زیادہ بھوکے لوگ یہیں رہتے ہیں۔ یونیسف کے ذریعہ جاری کردہ نئی رپورٹ ’’دی اسٹیٹ آف ورلڈ چلڈرن 2019کے مطابق دنیا میں 5 سال کی کم عمر کا ہر تیسرا بچہ تغذیہ کے فقدان کا شکار ہے وہیں بھارت کے تقریباً 5فیصد بچے تغذیہ کی کمی کا شکار ہوکر ان کا بچپن ہی نہیں بلکہ ان کا مستقبل بھی برباد ہوجاتا ہے۔ ماہرین اقتصادیات سے بات چیت کی بنیاد پر تیار کردہ رائٹرس کی ایک رپورٹ کے مطابق 90فیصد ماہرین کا کہنا ہے کہ معیشت میں تیزی لانے کے لیے حکومت کی طرف سے حال میں اعلان کردہ راحتی پیکیج کافی نہیں ہوگا۔ حکومت نے طلب میں تیزی لانے کے لیے گزشتہ ہفتہ ہی 10بلین ڈالر یعنی تقریباً 73ہزار کروڑ روپے کے راحتی پیکیج کا اعلان کیا ہے۔ ایچ ڈی ایف سی بینک کی سینئر اکانومسٹ ساکشی گپتاکا کہنا ہے کہ صارفین کے اخراجات اور کیپیٹل ایکسپنڈیچر (Capital Expenditure)کے لیے اپنائے گئے وسائل کافی اختراعی ہیںلیکن گروتھ کے لحاظ سے اس کا بہت کم اثر ہوگا۔ سابق گورنر آر بی آئی پروفیسر رگھو رام راجن نے کہا کہ ملک میں پروڈکشن بڑھانے ماحول تیار کیا جائے اور کہا کہ حکومت کے ذریعہ اہداف کے مطابق صحیح جگہ پر خرچ کرنے سے بہترین نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے۔ پروفیسر راجن نے حکومت کو نوٹ بندی کی وجہ سے آنے والی تباہی سے پہلے ہی متنبہ کردیا تھا۔ سابق وزیر مالیات یشونت سنہا نے حکومت کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ملک کی بہتری کے لیے قرض لینا پڑے تو ضرور لیا جائے ۔ نوٹ کی چھپائی بھی ضروری ہوتو ضرور کے جائے۔ قرض لینے سے کوئی مشکل پیدا نہیں ہوگی۔ یہ تو واجب الادا رہے گی۔ کیا حکومت اس پر داو لگائے گی کہ پوری قوم ہر لحاظ سےتباہی کے دہانے پر پہنچ جائے۔ کیا حکومت جملہ بازی، مندر، مسجد، لو جہاد اور دیگر غیر ضروری عنوانات پر اکثریت کو مذہبی جنونیت کا شراب پلاکر مدہوش رکھے گی اور الیکشن جیتے گی۔ منتخب حکومتوں کو گرائے گی۔ اس کے لیے تمام جمہوری اداروں کو اپنا طوطا بناکر حزب اختلاف کو ختم کرنے کے لیے استعمال کرے گی تا کہ ملک کی ہر ریاست میں اس کا بول بالا رہے لیکن ملک کا کیا ہوگا؟ آج ملک، چوکیدار کے مور نچانے اور کہانی سنانے کی وجہ سے معاشی بحران ہی نہیں بلکہ طبی، تعلیمی، سماجی، فکری اور انتظامی بحران سے بھی دوچار ہے۔
***
بھارتی معیشت میں اپریل تا جون کے درمیان تقریباً 24فیصد کی منفی گروتھ ہوئی۔ یعنی ان مہینوں میں گزشتہ سال کے مقابلے معیشت ایک چوتھائی چھوٹی ہوگی۔ امسال آئی ایم ایف کے مطابق جی ڈی پی میں 10.3فیصد کی گراوٹ کا اندیشہ ہے۔ یہ بھی اندازہ لگایا جارہا ہے کہ آنے والے سالوں میں 8-7کی رفتار سے معیشت میں بہتری ہوسکتی ہے۔ اگر 11.6فیصد کی رفتار سے ہماری معیشت ترقی کرتی ہے تو 5 ٹریلین ڈالر کا ہدف ہمیں 2027تک ہی حاصل ہوسکے گا جوملک کے ایسے حالات میں تقریباً ناممکن ہے۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020